شمس الرحمٰن فاروقی (وفات:25 دسمبر 2020ء) اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق تھے جنھوں نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ انہوں نے الہ آباد سے شب خون کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔ فاروقی صاحب نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق چرایا تو “شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ تین سال قبل انہوں نے ایک ناول لکھا، جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ غرض یہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
انہوں نے کوئی چالیس سال تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ “شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب 'شعر شور انگیز' جوچار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اوراس کو 1996ء میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے۔
تصانیف
تحقیقی و تنقیدی کتابیں
اثبات و نفی
اردو غزل کے اہم موڑ
اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو
افسانے کی حمایت میں
انداز گفتگو کیاہے
تعبیر کی شرح
تفہیم غالب
شعر شور انگیز چارجلدیں
شعر غیر شعر اور نثر
خورشید کا سامان سفر
صورت و معنی سخن
غالب پر چار تحریریں
گنج سوختہ
لغات روزمرہ
ہمارے لیے منٹو صاحب
لفظ ومعنی
نئے نام
نغمات حریت
عروض آہنگ اور بیان
افسانے
سوار اور دوسرے افسانے
ناول
کئی چاند تھے سر آسماں
شاعری
آسمان محراب
وفات
شمس الرحمٰن فاروقی 85 سال کی عمر میں 25 دسمبر 2020ء کو وفات پاگئے۔[4]