🕯 محدث اعظم ہند حضرت مولانا شاہ سید محمد کچھوچھوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسمِ گرامی: محدثِ اعظم کا اسمِ گرامی سید محمد اور آپ کے والد ماجد کا نام حکیم نذر اشرف تھا۔
(رحمۃ اللّٰه علیہما)
تاریخ و مقامِ ولادت: محدثِ اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ کی ولادت 15 ذو القعدہ 1311ھ کو جائس، ضلع رائے بریلی میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: محدثِ اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی، والدِ ماجد کے بعد جب مختلف اساتذہ سے علوم و فنون حاصل کرتے کرتے اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی بارگاہ میں پہنچے تو امامِ اہلسنت نے محدثِ اعظم کو آسمانِ علم کا ایسا درخشاں ستارہ بنایا کہ جس کی چمک سے کثیر لوگوں نے استفادہ کیا۔
بیعت و خلافت: محدثِ اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ نے اپنے نانا شیخ الاصفیاء، محبوبِ ربانی، قطبِ عالم شاہ علی حسین اشرفی رحمۃ اللّٰه علیہ کے ایماء مبارکہ سے اپنے ماموں ملک العلماء، عارفِ ربانی مولانا شاہ احمد رحمۃ اللّٰه علیہ سے مرید ہوکر تکمیلِ سلوک کیا۔
اس کے بعد اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰه علیہ نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت بھی عطا کردی۔
سیرت و خصائص: محدثِ اعظم، وحید العصر، شمس الافاضل، قدوۃ العلماء الراسخین، حضرت مولانا شاہ سید محمد کچھوچھوی رحمۃ اللّٰه علیہ، علم و عمل کے پیکر، باکرامت ولی، شیخِ کامل اور زہد و تقویٰ کے حامل شخص اور صفاتِ حمیدہ کے جامع تھے۔ آپ نے اپنے فیض سے ایک عالم کو مستفیض کیا، تقریباً پانچ ہزار غیر مسلم آپ کے دستِ مبارکہ پر مشرف بہ اسلام ہوئے، لاکھوں افراد نے آپ کی بیعت کی، خطابت میں خاص اثر تھا مجمع پر سکوت رہتا، درجنوں کتابیں تالیف کیں، چار بار حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ اعلیٰ درجہ کے ناظم و ناثر بھی تھے، مجموعۂ کلام " فرش پر عرش" طبع ہو چکی ہے۔ آپ نے قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی کیا تھا اس ترجمہ کے ابتدائی حصہ کو ملاحظہ کرنے کے بعد بطورِ تحسین امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان نے آپ سے فرمایا:
"شاہزادے اردو میں قرآن لکھ رہے ہو"
تدبر اور اصابتِ رائے وصفِ خاص تھا۔ چھوٹے سے چھوٹے کی اتنی دلجوئی و تعریف کرتے کہ وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے۔ علمائے اہلسنت کے درمیان اتحاد کے علمبردار تھے۔ آل انڈیا سنی کانفرنس کے اجلاس بنارس کے موقع پر بالاتفاق صدر عمومی مقرر کئے گئے۔ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے تا وقتِ وفات صدرِ اعلیٰ رہے۔ اہلسنت کی نشر اشاعت میں آپ نے اپنے اکابرین کی طرح بہت جد جہد سے کام لیا ،سنیت کا درد ہمیشہ آپ کے مبارک سینے میں موجزن رہتا۔آپ نے ہر طرح باطل کا مقابلہ کیا اور اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ امتِ مسلمہ کے عقائد کو بگاڑ سے بچایا۔
تاریخِ وصال: محدثِ اعظم رحمۃ اللّٰه علیہ کا وصال 17 رجب المرجب 1383ھ/بمطابق دسمبر 1963ء کو بمقام لکھنؤ میں ہوا۔
ماخذ و مراجع: تذکرۂ علماء اہلسنت۔
============================================
محدثِ اعظمِ ہند کچھوچھوی -ایک نظر میں
عرسِ محدثِ اعظمِ ہند مبارک 1437 ھ
نام:
سید محمد اشرفی الجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)
القاب:
محدثِ اعظمِ ہند، مخدوم ملت، سید الشعرا-
لقب کا اعزاز:
محدثِ اعظمِ ہند کا لقب 1328 ھ م 1911 ء میں صرف 17 سال کی عمر میں دیا گیا.
ولادت:
15/ ذیقعدہ / 1311 ھ
م 1894 ء یوم چہارشنبہ
مقام ولادت:
خانقاه اشرفیہ احمدیہ- جائس،قصبہ جائس، ضلع رائے بریلی، یوـ پی.
والد گرامی:
حکیم الاسلام حکیم سید نذر اشرف (فاضل کچھوچھوی)
والدہ محترمہ:
سیدہ محمدی خاتون بنت سید شاہ علی حسین اشرفی (المعروف اعلی حضرت اشرفی میاں)
رسمِ بسم اللہ خوانی:
19 / ربیع الاول / 1315 ھ
ابتدائی تعلیم:
جائس، رائے بریلی
اعلی تعلیم:
لکھنؤ، علی گڑھ، پیلی بھیت، بریلی شریف، بدایوں
اساتذہ:
سید شاہ فضل حسین اشرفی.
سید نذر اشرف کچهوچهوی.
علامہ عبد الباری فرنگی محلی
علامہ لطف اللہ علی گڑھی
علامہ وصی احمد محدثِ صورتی
امام احمد رضا قادری برکاتی فاضلِ بریلوی
علامہ شاہ عبدالمقتدر بدایونی
مدرستہ الحدیث:
1330 ھ م 1913 ء میں حضرت علامہ سید محمد میر صاحب کی زیر سرپرستی میں مدرستہ الحدیث قائم فرمایا
بیعت و خلافت:
اپنے ماموں تاجدارِ ولایت سلطان الواعظين حضرت علامہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی (متوفی 1386 ھ) سے مرید ہوئے اور مدینہ مبارکہ میں خلافت و اجازت پائی اور دوسری خلافت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی سے حاصل ہوئی.
دینی و قومی خدمات:
الجمہوریتہ الاسلامیہ
آل انڈیا سنی کانفرنس
جماعت رضائے مصطفیٰ ﷺ
الجمیعتہ الاشرفیہ
آل انڈیا سنی جمیعت العلماء
کی تا حیات ظاہری صدارت و سرپرستی فرمائی-
روحانی خدمات:
ہزاروں کافروں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا.
لاکھوں بندگانِ خدا کو سلاسلِ مقدسہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ نقشبندیہ سہروردیہ سے منسلک کیا.
شدھی، قادیانی اور وہابی تحریکات کی بیخ کنی کی.
ماہنامہ اشرفی:
1922 ء میں ماہنامہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف سے جاری کیا.
حجِ بیت اللہ:
5 مرتبہ حجِ بیت اللہ سے مالامال ہوئے.
تصنیفات:
100 سے زائد تصنیفات.
قرآنِ پاک کا سلیس ترجمہ "معارف القرآن" سے کیا. (ہند اور پاکستان سے شائع ہو چکا ہے.)
تخلص:
سید کچھوچھوی
دیوان:
فرش پر عرش 1955ء ممبئ
روحانی و تبلیغی سیاحت:
حرمین طیبین
بغداد
کربلا
نجف اشرف
کاظمین بلد
کوفہ
بیت المقدس
دمشق
مصر
یمن
عدن
سیلون
رنگون
ڈھاکہ
پشاور
خیبر
کلکتہ
مدراس
کیرالا
حیدرآباد
کراچی
غزنی
کابل
لاہور
ملتان
برِّ صغیر اور ایشیاء کے بہت سے ممالک کا طویل ترین سفر فرمایا.
سال کے 12 ماہ مسلسل سفر میں گزرتے.
ماہِ رمضان المبارک کے 30 دن اور محرم الحرام کے آخری عشرے "عرسِ مخدومِ سمنانی قدس سرہ" کے موقع پر کچھو چھہ شریف قیام فرماتے.
آخری دورہ:
جنوبی ہند اور گجرات کا تھا (ستمبر و اکتوبر 1961 ء)
کچھوچھہ شریف مراجعت:
25 اکٹوبر 1961ء بحالتِ علالت
لکھنؤ بغرضِ علاج:
10 نومبر 1961 ء تشریف لائے.
قیام لکھنؤ:
1 ماہ 14 دن بغرضِ علاج (10 نومبر تا 24 ڈسمبر 1961ء)
وصال پر ملال:
16 / رجب المرجب 1381 ھ م 25 ڈسمبر 1961ء بروز دوشنبہ، بوقت 12:30 بجے دن.
نمازِ جنازہ:
سرکارِ کلاں،
سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی (رحمہ اللہ) سجادہ نشین، کچھوچھہ شریف نے پڑھائی.
اولاد و امجاد:
اعلیحضرت اشرفی میاں قدس سرہ (نانا جان)
حضرت سرکار سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی
رحمتہ اللہ علیہ (ماموں و مرشِد)
سرکارِ کلاں
سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی (رحمہ اللہ)-(مرشِد زادے)
سید محمد محامد اشرف اشرفی الجیلانی (مجذوب الٰہی) بڑے صاحبزادے
سید حسن مثنیٰ انور اشرف اشرفی الجیلانی (علیگ) رحمتہ اللہ علیہ
جانشین محدث اعظم - شیخ الاسلام، رئیس المتکلمین،
سید محمد مدنی اشرف اشرفی الجیلانی (مدظلہ النورانی)
غازئ ملت سید محمد ہاشمی اشرف اشرفی الجیلانی (مدظلہ)
و دیگر صاحبزادیاں!
عرسِ پاک
15، 16 رجب المرجب کو ہر سال کچھو چھہ شریف میں پورے وقار و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے.
رحمتہ اللہ تعالی علیھم اجمعین
===========
حوالہ:
محدثِ اعظم کچھوچھوی اور پاکستان
تاج العلماء محققِ دوراں علامہ عبد الحکیم خان اختر شاہجہاں پوری مجددی مظہری.
حضرت محدث اعظم کے تفصیلی حالات زندگی کے لئے "حیات محدث اعظم" از علامہ ذاکر حسین اشرفی مصباحی راج محلی کا مطالعہ ضرور کریں.
ترتیب:
سید مسرور حسینی القادری الرضوی الحیدرآبادی (فکر رضا گروپ)موبائل:
نمبر:00971-559060076
إضافات مفیدہ: بشارت صدیقی اشرفی حیدرآبادی.
=======================================================
محدثِ اعظمِ ہند ابوالمحامد اعلی حضرت سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و ادیب، بے باک صحافی اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ولادت محدث اعظم ہند کی ولادت 15؍ ذولقعدہ 1311ھ / 1894ء کو جائس ضلع رائے بریلی (یو۔ پی۔ ) میں ہوئی، آپ کے والد کا نام حکیم سید نذر اشرف تھا۔ تعلیم محدثِ اعظمِ ہند نے ابتدائی تعلیم والدِ ماجد سے حاصل کی۔ بعدہٗ مدرسۂ نظامیہ لکھنؤ جا کر مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے درس میں شریک ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا مطیع الرسول محمد عبد المقتدر بدایونی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے۔ محدثِ سورتی سے آپ نے علمِ حدیث و اصولِ حدیث کا درس لیا۔ علاوہ ازیں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے حلقۂ درس میں بھی آپ نے شرکت کی اور امام احمد رضا سے فقہ اور اس کے جملہ متعلقات، افتا نویسی وغیرہ فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ وطنِ عزیز ہندوستان کے آپ منفرد اور مایۂ ناز عالمِ حدیث مانے جاتے تھے۔ ہزا رہا احادیث اسناد کے ساتھ آپ کو حفظ تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے ’’محدثِ اعظمِ ہند‘‘ جیسے عظیم الشان لقب سے نوازا۔ بیعت و خلافت آپ نے سید شاہ علی حسین اشرفی میاں سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے اپنی خلافت و اجازت سے نوازا، اسی طرح خلیفۂ اعلیحضرت سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی نے بھی اپنی خلافت و اجازت عطا کی، ترجمہ قرآن محدثِ اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی کا محیر العقول اور نادرِ روزگار اردو ترجمہ ء قرآن بنام "معارف القرآن" جو انہوں نے 28 سال کی محنت شاقہ کے بعدقومِ مسلم کو ایک بہترین تحفہ کے طور پر دیا۔ علامہ سید محمد مدنی اشرفی فرماتے ہیں کہ: قرآن کے صحیح مفہوم و مطلب سے دنیا والوں کو خبر دار کرنے کی ضرورت کو سید محمد محدث نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور دینی و تعلیمی مصروفیتوں کے باوجود قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کا قصد فرمایا۔ ترجمہ فرمانے کا کیا نرالا انداز تھا، تبلیغی پروگرام میں کوئی کمی نہیں، ایک عالم اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں، مستند و معتمد علیہ تفاسیر کا اچھا خاصا ذخیرہ جو ان کے ساتھ رہتا ہے، نگاہوں کے سامنے ہے، ترجمہ بولتے جاتے ہیں، وہ لکھتا جا رہا ہے۔ ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ترجمہ لکھا رہے ہیں، گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ترجمہ بول رہے ہیں اور رمضان کے موقع پر مکان آئے ہوئے ہیں اوراس دینی کام میں مصروف ہیں۔ چھ ذوالحجہ 1366 ھ میں پورے قرآن کا ترجمہ ختم فرما کر تفسیر کی طرف متوجہ ہوئے۔[1] شاعری محدثِ اعظمِ ہند درس و تدریس، خطابت و نظامت اور تبلیغ و ارشاد کے ساتھ ساتھ میدانِ فن اور ادب کے بھی شہ سوار تھے۔ آپ کے والد حکیم سید نذر اشرف بھی ایک عمدہ شاعر تھے۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند کو شاعری ورثے میں ملی، بچپن ہی سے شعر و سخن سے لگاؤ اور شغف تھا۔ گھریلو ماحول کی برکتیں اس پر مستزاد… آپ کا قلم نثر و نظم دونوں ہی میں یک ساں چلتا تھا۔ کئی نثری کتابیں آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔ آپ نے بہاریہ شاعری بھی کی اور تقدیسی شاعری بھی … حمد و نعت، مناقب و سلام اور غزلیات و رباعیات پر مشتمل آپ کا خوب صورت اور د ل کش دیوان ’’فرش پر عرش‘‘ کے نام سے رضوی کتاب گھر دہلی سے شائع ہوکر داد و تحسین کی خراج وصول کر چکا ہے۔ وفات 16؍ رجب المرجب 1381ھ / 25؍ دسمبر 1961ء کو لکھنؤ میں وصال فرمایا اور آپ کی تدفین کچھوچھہ، ضلع فیض آباد(یو۔ پی۔ ) میں ہوئی۔[2] حوالہ جات ماہنامہ آستانہ : کراچی، محدثِ اعظم نمبر 1995ء فروغ نعت[مردہ ربط]
Post a Comment