حضرت خواجہ سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ Story of Hazrat Sirri Saqati || Hazrat Sirri Saqti (Ra) or aik Sharabi ka waqia

 حضرت خواجہ سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ



آپ کی ولادت باسعادت ۱۵۵ ہجری میں عراق کے شہر بغداد میں ہوئی۔آپ کا اسم گرامی حضرت سر الدین المعروف سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ اور کنیت ابو الحسن تھی ۔کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ دوکان داری کیا کرتے تھے اس لیے سری سقطی کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا اسم گرامی حضرت مغلس تھا۔
ایک روز حضرت حبیب راعی رحمتہ اللہ علیہ کا گذر آپ کی دوکان سے ہوا۔آپ نے فقراء میں تقسیم کرنے والی روٹی کے ٹکرے پیش کیے۔ انہوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دعا سے نوازا اور کہا کہ خدا تجھے نیکی کی توفیق دے۔ بس اسی دن سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل دنیا کی رغبت سے اچاٹ ہوگیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت شیخ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید باسفا اور خلیفہ تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں سے ظاہری و باطنی علوم حاصل کیے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بغداد میں کباڑیے کی دکان تھی۔ ایک دفعہ بغداد کے بازار میں آگ لگ گئی تو لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دوکان جل گئی ہے۔ یہ سن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا چلو اچھا ہوا میں اس فکر سے آزاد ہوا۔ جب لوگوں نے جاکر دیکھا تو اردگرد کی تمام دوکانیں جل چکی تھیں لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دوکان محفوظ تھی۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایسا دیکھا تو جو کچھ دوکان میں تھا سب درویشوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا اور فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ نقصان میں موافقت کرنا واجبات میں سے ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دوکان میں پردہ ڈال رکھا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نماز نفل ادا کرتے تھے اور دس دینار کے اوپر ایک نصف دینار سے زیادہ منافع نہ لیتے تھے۔ ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ساٹھ دینار کے بادام اکٹھے خریدلئے اور ساتھ ہی بازار میں باداموں کا بھاؤ چڑھ گیا ۔ ایک دلال آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا اور مہنگے داموں آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بادام خریدنے کی درخواست کی اور کہا کہ تمام بادام مجھے بیچ ڈالئے مگر حضرت شیخ سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالٰی سے عہد کیا ہے کہ میں دس دینار پر نصف دینار سے زیادہ نفع نہیں لوں گا اس لئے میں تمہیں یہ مال نہیں بیچ سکتا۔
Fb page//حضرت صوفی مبارک علی اوج صابری رحمتہ اللہ علیہ
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ کامل العبادت کسی کو نہیں پایا۔ ۹۸ سال گزرگئے اس عالم میں کہ زمین پر پہلو تک نہیں رکھا۔ بیماری کی حالت میں بستر پر دراز ہونے کی صورت اس سے مستثنٰی ہے۔
ایک مرتبہ ایک شرابی کو دیکھا جو نشے کی حالت میں مدہوش زمین پر گرا پڑا تھا اور اللہ اللہ پکار رہا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا منہ پانی سے دھویا اور فرمایا اس بے خبر کو کیا خبر کہ ناپاک منہ سے کس ذات پاک کا نام لے رہا ہے۔ جب اس شرابی کو ہوش آیا تو لوگوں نے اسے بتایا کہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے تھے اور تمہارا منہ دھو کر چلے گئے ہیں۔ وہ شرابی باعث شرم و ندامت رونے لگا۔ رات کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ندائے غیبی سنی اے سری سقطی تم نے میری خاطر اس شرابی کا منہ دھویا ہے میں نے تمہاری خاطر اس کا دل دھودیا ہے۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لے گئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا کہ وہ شرابی بھی نماز پڑھ رہا ہے۔
جب آپ رحمتہ اللہ علیہ علیل ہوگئے تو حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک پنکھا پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اٹھا کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو جھلنا شروع کردیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جنید اسے رکھ دو کیونکہ آگ ہوا سے زیادہ روشن اور تیز ہوتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا خلق کی صحبت کی وجہ سے حق تعالیٰ سے کبھی غافل نہ ہونا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ ۱۳رمضان المبارک ۲۵۳ہجری میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس بغداد شریف میں شونیز کے مقام پر واقع ہے۔

اقوال: ۱:- بندہ محبت میں اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر تم اسے تیر یا شمشیر مارو تو اس کو خبر نہ ہو- ۲:- ہمیشہ عبادت میں کوتاہی کا اقرار کرو جس طرح مَیں کرتا ہوں۔ ۳:- جو وِرد میرا ہے اگر ایک حرف بھی اس سے فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہیں- ۴:- حیا اور اُنس دل کے دروازے پر آتے ہیں اگر دل میں زہد اور پاکیزگی پاتے ہیں تو قیام کرتے ہیں ورنہ لوٹ جاتے ہیں- ۵:- اگر دل میںکوئی اور چیز ہوتی ہے تو یہ پانچ چیزیں اس میں نہیں ٹھہرتیں۔(۱:خدا کا خوف ،۲:خدا تعالیٰ سے اُمید رکھنا ،۳:خدا کے ساتھ دوستی، ۴:خدا سے حیا ،۵:خدا تعالیٰ کے ساتھ اُنس-) ۶:- جس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس قدر قربت ہے اسی قدر اس کی فہم ہے- ۷:- لوگو ںمیں سب سے زیادہ سمجھدار اور عاقل وہ ہے جو قرآن کے اَسرار سمجھتا ہے اور اس پر غوروفکر کرتا ہے- ۸:- قوی ترین خلق وہ ہے جو حق پر صبر کر سکے- ۹:- کل قیامت کے دن (عام )اُمتیوں کو ان کے نبی کی طرف سے پکاریں گے اور اولیاءاللہ کو خدا کی طرف سے پکاریں گے- ۰۱:- عارف(فیض عطا�¿ کرنے میں) آفتاب صفت ہوتا ہے جو سب پر چمکتا ہے- ۲۱:- بندہ اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اپنے دین کو خواہش نفسانی پر ترجیح نہیں دیتا-(۵۱) قارئین کرام! اولیائے کرام عرفان و ایقان، سلوک وتصوّف، اخلاق و محبت،تعلیم و تربیت، کردار اور انسان دوستی کے مظہراور تبلیغِ حق وصداقت کا سر چشمہ ہیں-ان معزز و مکرم ہستیوں کے ارفع و اعلیٰ نظامِ اصلاح سازی نے جہاں عوام الناس کی اخلاقی قدروں کو بلندوبالا کیا وہاں ایمان و ایقان کی پُر نور شعاعوں کو ان کے قلوب واَذہان میں سرایت کر کے خدا شناسی کی فضا قائم کی- بندگانِ الٰہی کو ذاتِ حق کی اطاعت گذاری اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا درس دیا اور مخلوق کو اس کے خالق سے ملانے کی سعی و بلیغ کی-جیسے کہا گیا ہے، ََ”تو برائے وصل کردن آمدی“ ان معززومحترم اور برگذیدہ ہستیوں نے ہر دور، ہر زمانے،ہر شہر،ہر خطے، ہر ملک اور ہر نگر میںعرفان و ایقان کی قندیلیں روشن کیںاور خلقِ خدا کو صیحح اور سچے راستے پر گامزن کرنے کی مسلسل جدوجہدکرتے رہے- یہی ان کا مطمع نظر تھا اور ہے اور یہی ان کا مقصد حیات ہے اور یہی ان کے فکر و خیال کا محور و مرکز ہے- آج بھی اس مشن کوقریہ قریہ،بستی بستی،کوچہ کوچہ اور نگر نگر ہر فرد تک پہنچانے کے لیے سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقرحضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم القدسیہ نے اصلاحی جماعت کی صورت میںیہی دعوت عام کی ہے کہ آپ آئیں اور اسم اللہ ذات کی دولت حاصل کر کے اسے اپنے دل پر نقش کریں اور معرفتِ الٰہی،قربِ خداوندی اور دولتِ ایقانی حاصل کریںنہ کہ محض اولیائے کاملین اور صوفیائے کرام کی کرامات و مقامات کو بیان کرنے تک محدود رہیں بلکہ ان کی تعلیمات اور فرامین پر عمل پیرا ہو کر عملی جامہ پہن کر اپنے آپ کو ان کے راستے پر گامزن کر کے ان کے فیوض و برکات کے حصول کے بعدمعراجِ انسانیت کو حاصل کریں- غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!
Previous Post Next Post