مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء علامہ فضل حق شہید (1797ء تا 20 اگست 1861ء) بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔
پیدائش
علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔[1]
سوانح
فضل حق خیر آبادی لکھنؤ میں ایک قاضی القضاۃ تھے۔ انگریزوں کے جاسوس گوری شنکر نے 28 اگست 1857ء کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ: "مولوی فضلِ حق جب سے دہلی آیا ہے،شہریوں اور فوج کو انگریزوں کے خلاف اُکسانے میں مصروف ہے۔ وہ کہتا پھرتا ہے کہ اس نے آگرہ گزٹ میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک اعلان پڑھا ہے جس میں انگریزی فوج کو دہلی کے تمام باشندوں کو قتل کردینے اور پورے شہر کو مسمارکردینے کے لیے کہا گیا ہے۔ آنے والی نسلوں کو یہ بتانے کے لیے کہ یہاں دہلی کا شہر آباد تھا،شاہی مسجد کا صرف ایک مینار باقی چھوڑا جائے گا"۔[2]
فتویٰ جہاد
علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے عزائم بھانپ لیے تھے۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد علما کے سامنے تقریر کی اور اِستِفتاء پیش کیا۔ جس میں انگریز کے خلاف جہاد کے لیے کہا گیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مفتی صدرالدین خان، مولوی عبد القادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کیے۔ اس فتوے کے جاری ہوتے ہی ہندوستان بھر میں قتال و جدال شروع ہو گیا۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کُچل دیا۔ آزادی کی تحریک کوکُچل تودیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کُچل دیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہونے کے بعد کسی طرح یہاں سے نکل کرعلامہ فضلِ حق اودھ پہنچے۔ جنوری 1859ء میں آپ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور کالاپانی کی سزا ہوئی۔ آپ نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور عدالت میں کہا کہ: "جہاد کا فتویٰ میرا لکھا ہوا ہے اور میں آج بھی اپنے اس فتویٰ پر قائم ہوں"۔ 1857ء کی جنگ آزادی ناکام ہونے کے بعد ان کو انگریز نے قید کر دیا۔ جب ان کا بیٹا عبد الحق خیر آبادی انہیں آزاد کروانے کے لیےپورٹ بلیئر پر 13 فروری 1861ء کو پہنچا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی - فضل حق خیر آبادی کو پہلے ہی 12 فروری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔[3]
ادبی خدمات
فضل حق خیرآبادی اور ان کے والدِ مولانا فضل امام خیرآبادی (وفات 1244ھ/1829ء) دونوں اپنے عہد کے جید عالم اور مشاہیر میں شمار کیے جاتے تھے اور مرجع العلماء والادباء تھے۔ دونوں کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی ان حضرات کو معقولات میں جو تبحّر حاصل تھا۔ سر سید احمد خان فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے، بلکہ بعض معاملات مں شدید مخالفت بھی کی، لیکن ملاحظہ فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے، سر سید لکھتے ہیں : ’’جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگا رہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے با رہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا، دعوائے کمال کو فراموش کر کے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا، بہ ایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اور امرا القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی، الفاظ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہرِ خوش آب اور معانی رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پا بہ گِل اور گُل ان کی عبارتِ رنگں ا کے سامنے خجل، نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی۔ مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی۔ اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی، صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘(سر سید: آثارالصنادید، ص 281)[4]
اسلامیات اور الہیات کے سکالر ہونے کے علاوہ، وہ خاص طور پر اردو، عربی اور فارسی ادب کی بھی ایک ادبی شخصیت تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے مرزا غالب کی درخواست پر اس کے میں دیوان پر نظر ثانی کی تھی۔
آئیے! علامہ فضل حق خیرآبادی کے فتوائے جہاد کی صدائے باز گشت سناتا ہوں :
’’علما نے جس جس طرح بغاوت کو منظم کیا، اس کو مفصل بیان کرنے کے لیے تو ایک علاحدہ کتاب کی ضرورت ہے مگر ان کا کچھ تذکرہ ان صفحات پر کیا جا رہا ہے۔ اس حقیقت سے بڑے بڑے مورخ بھی انکار کی جرات نہیں کرسکے ہیں کہ یہ علما عوام میں بے حد مقبول تھے۔ ان کی تحریر و تقریر کا بڑا اثر ہوتا تھا۔ چناں چہ دہلی میں جنرل بخت خاں کی تحریک پر مولانا فضل حق خیرآبادی اور دوسرے علما ے دہلی نے جو جہاد کا فتویٰ دیا، اس کے بارے میں مولوی ذکاء اللہ نے بھی اپنی تاریخ میں اقرار کیا ہے کہ اس سے مذہبی جوش و خروش بہت بڑھ گیا۔‘‘
(خورشید مصطفی رضوی، مورخ و ادیب: جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء مکتبۂ برہان دہلی، ۱۹۵۹ء، ص ۴۵۵)
’’مولانا (فضل حق)کے دہلی پہنچنے سے پیش تر بھی لوگوں نے جہاد کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ مولانا پہنچے تو مسلمانوں کو جنگِ آزادی پر آمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتویٰ مرتب ہوا جس پر علما ے دہلی کے دستخط لیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ فتویٰ مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے تیار ہوا تھا اور انھوں نے علما کے نام تجویز کیے، جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘
(غلام رسول مہر: ۱۸۵۷ء کے مجاہد، کتاب منزل، لاہور ۱۹۶۰ء، ص ۲۰۶)
پاکستان کے نام ور شاعر ناصر کاظمی اور مشہور کالم نویس انتظار حسین کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ’’خیال‘‘ کے سن ستاون نمبر میں شکور احسن صاحب، مفتی صدر الدین آزردہؔ پر مضمون لکھتے ہوئے علامہ کے فتوائے جہاد کا ذکر کرتے ہیں :
’’جب برطانوی استعمار کے خلاف ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ شروع ہوا تو بعض شاعروں، ادیبوں اور عالموں نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور انگریزی حکومت کا اقتدار بحال ہو جانے کے بعد ان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ مولانا فضل حق کو جہاد کا فتویٰ صادر کرنے کے جرم میں انڈمان بھیجا گیا۔ صہبائیؔ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا۔ شیفتہؔ کو قید و بند کی مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں۔‘‘
(مجلہ ’’خیال‘‘ لاہور، سن ستاون نمبر ص ۲۶۸)
مفتی صدرالدین آزردہؔ ہی کے بیان میں مفتی انتظام اللہ شہابیؔ فتوائے جہاد کی تیاری کی ساری ذمہ داری علامہ فضل حق پر ڈالتے ہیں :
’’ہنگامہ ۱۸۵۷ء میں رو نما ہوا۔ مولانا فضل حق الور سے دہلی آئے۔ جنرل بخت خاں نے نقشۂ اقتدار جما رکھا تھا۔ استفتا مولانا نے لکھا۔ مفتی صاحب و دیگر علما نے فتویٰ دیا ۔۔۔مولانا فضل حق کو اقرارِ جرم پر انڈمان جانا پڑا۔‘‘
(انتظام اللہ شہابیؔ، مفتی: غدر کے چند علما، دینی بک ڈپو، دہلی، ص ۴۸)
رئیس احمد جعفری معروف مورخ و ادیب اور دانش ور گذرے ہیں، جنہوں نے تمام عمر جنگِ آزادی کی مختلف تحریکات کی جزئیات کھنگالنے میں گذار دی۔ موصوف اپنی ضخیم کتاب ’’بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ مولانا فضل حق خیرآبادی علمی قابلیت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ان کو فتوائے جہاد کی پاداش اور جرمِ بغاوت میں انڈمان بھیج دیا گیا۔‘‘
(رئیس احمد جعفری، مورخ: بہادر شاہ ظفر اور ن کا عہد، کتاب منزل، لاہور، ۱۹۵۶ء، ص ۳۱۵)
محمد اسماعیل پانی پتی اپنے مضمون ’’۱۸۵۷ء میں علمائے کرام کا حصہ‘‘ میں علامہ فضل حق خیرآبادی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’جب ۱۸۵۷ء کا ہنگامۂ عظیم دہلی میں رونما ہوا تو(علامہ فضل حق خیرآبادی) فوراً دہلی پہنچے اور جہاد کا فتویٰ دیا۔ جنرل بخت خاں کمانڈر اِن چیف افواجِ ظفر سے ملے اور اس کی بڑی اعانت اور امداد کی ۔۔۔لکھنؤ میں ان پر مقدمہ قائم ہوا۔ نہایت بے باکی اور صفائی کے ساتھ بغیر ذرّہ بھر ہچکچاہٹ اور تذبذب کے اقرار کیا کہ ہاں ! میں نے فتویٰ لکھا اور اس پر دستخط کیے اور جو کچھ میں نے کیا اپنے خیال میں ٹھیک کیا۔‘‘
(ماہ نامہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور، جنگِ آزادی نمبر ۱۸۵۷ء، بابت مئی ۱۹۵۷ء ص ۱۲/۲۸)
مجاہد جنگ آزادی امام فضل حق خیرآبادی (تذکرہ / سوانح)
مجاہد جنگ آزادی امام فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:علامہ فضلِ حق خیرآبادی۔القاب:مجاہدِ جنگِ آزادی،بطلِ حریت،امام المناطقہ،رئیس المتکلمین وغیرہ۔والد کااسمِ گرامی:بانیِ سلسلہ خیرآبادیت امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا فضلِ امام خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:علامہ فضلِ حق خیرآبادی بن مولانا فضلِ امام خیرآبادی بن محمد ارشد بن محمد صالح بن عبد الواحد بن عبد الماجد بن قاضی صدر الدین خیر آبادی ۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)،آپ کاشجرۂ نسب تینتیس واسطوں سے امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔(حدائق الحنفیہ۔روشن دریچے:61)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1212ھ،مطابق 1797ء کو خیرالبلاد"خیرآباد"(ضلع سیتاپور،اترپردیش، انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے معقولات اپنے والدِ گرامی علامہ فضلِ امام خیرآبادی علیہ الرحمہ سے اور منقولات خاتم المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور تصوف واخلاق حضرت شیخ الاسلام محمد علی خیرآبادی علیھم الرحمہ سے حاصل کیے۔ آپ کی ذہانت وفطانت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے صرف چارماہ کی قلیل مدت میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔تیرہ سال کی عمر میں درسیات سےفارغ ہوکرکامل استاد بن گئے۔
بیعت وخلافت: آپ رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ دھومن دہلوی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص: مجاہدِ تحریک آزادی ، شیرِ خدا، بطل ِحریت، علوم و معارف کا بحر ِبیکراں،کشور ِعلم کا تاجدار،منقولات و معقولات کا امام علامہ فضل حق خیرآبادی ،عمری،حنفی،ماتریدی،چشتی رحمۃ اللہ علیہ ۔آپ علیہ الرحمہ علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے۔فنونِ حکمیہ اور علومِ عقلیہ کے مسلم الثبوت امام تھے،بلکہ مجتہد وامام تھے۔بڑے ادیب ،بڑے منطقی،نہایت ذہن ،نہایت زکی،خلیق وذلیق،انتہائی صاحبِ تدقیق وتحقیق تھے۔ علامہ موصوف نے اپنے مشہور"قصیدے ہمزیہ"میں بطورتحدیثِ نعمت اپنے علم وفضل کا اس اندا زسے ذکر کرتے ہیں:؏:اللہ اقنانی علوما یقتنی۔۔۔منھا علوماجمۃ علماء۔ یعنی"اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علوم عطاء کیے ہیں کہ ان میں سے بہت کچھ علماء نے حاصل کیے"۔آپ معقولات کے تو امام تھے ہی لیکن حیرت کی بات ہے کہ عربی فارسی وغیرہ کے بہترین ناظم وناثربھی تھے۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ صحیح العقیدہ سنی حنفی تھے۔آپ نے مولوی اسماعیل دہلوی کے ردمیں "تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ"لکھی۔اس کی بعض گستاخانہ عبارات پرتکفیرفرمائی اور یہ فتویٰ دیا:"اس بے ہودہ کلام کا قائل ازروئے شریعت کافروبے دین ہےاور شرعاً اس کاحکم قتل اور تکفیر ہے"۔کچھ ہی عرصہ بعداتفاقاً وہ بالاکوٹ کے غیور مسلمانوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوگیا۔
مولانا عبدالقادر صدرالصدور فرماتے ہیں:"عربی ادب میں ابوالحسن اخفش جیسے ہیں ،ان کی نثر مقاماتِ حریری سے اور نظم دیوانِ متنبی سے ممتاز ہے"۔
اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمینِ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیرآبادی کو ہی حاصل ہے۔ علامہ کی تصنیف"الثورۃ الہندیہ"اور" قصائدِ فتنۃ الہند" جنگِ آزادی1857ء کے نہایت قابلِ قدر ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی"کتاب التوحید"کے اردو چربہ"تقویۃ الایمان"مولفہ مولوی اسماعیل دہلوی کے ساتھ ساتھ دیگر عقائدِ وہابیہ کی تردید میں کلیدی کردار ادا کیا۔باایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں ۔چناں چہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ راہنماؤں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نےانگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا۔اس تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی۔لیکن حق چھپانے سے نہیں چھپ سکتا،اور ظاہر ہوکر رہتا ہے۔دروغ کو فروغ نہیں ہوتا ہے۔ مخالفین کے گھر سے گواہی ۔مسلکِ مخالف کے شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کہتے ہیں:"مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایا تھا اس نے انکار کر دیا کہ مجھے معلوم نہیں، فتویٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں ؟۔۔۔۔۔۔مولانا نے فرمایا:"مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہو کریہ جھوٹ بول رہا ہے"۔قربان جائیے! علامہ کی شانِ استقلال پرخدا کا شیرگرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ وہ جان کی پروا کیے بغیرسر بہ کف ہو کر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کر کے جان نہیں بچاتے بل کہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔"(حسین احمد مدنی:تحریک ریشمی رومال، مطبوعہ لاہور۔1960ء،ص۔65)
ان نام نہاد "محققین "کی تقلیدی اور متعصبانہ تحقیق پر ان کے اپنے مسلک کے منصف مزاج شخصیات نے تنقید کی ہے:پاکستان میں دیوبندی مکتبِ فکر کے آرگن ہفت روزہ" خدام الدین"لاہور کے ایک مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں۔ یہ اقتباسات علامہ فضل حق خیرآبادی کے فتوائے جہاد کےمنکرین کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں اور ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو علامہ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو محض ایک مخصوص مسلک کے لوگوں تک محدود کرنے کی سعیِ نا مشکور کر رہے ہیں۔فرماتے ہیں:
"بُرا ہو تاریخ کا۔ اس نے اپنے حافظہ سے ایسی ایسی جاں باز، حق گو، بہادر اور جامع کمالات شخصیتوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔جنھوں نے اپنے دور میں وقت کے تیز وتند طوفانوں سے بے خوف ٹکر لی اور پیٹھ نہیں دکھائی۔ مولانا فضل حق رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کے ان جواں مرد اور نڈر مجاہدین میں سے تھے جن کی جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو شایانِ شان کیا، کوئی معمولی جگہ بھی نہیں مل سکی۔مولانا فضل حق خیرآبادی نے افضل الجہاد کلمۃ الحق عند سلطانِ جابر کا فریضہ ادا کیا اور اپنی عمرِ عزیز انڈومان میں حبسِ دوام کی نذر کر دی۔علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ دےکرمسلمانوں کو عدم تعاون پر آمادہ کیا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی(اسی جرم میں)"باغی"قرار دیے گئے"۔ (مضمون:"مولانا فضل حق خیرآبادی"۔ از: مستقیم احسنؔ حامدی۔ فاضل دارالعلوم دیوبند۔ ہفت روزہ خدام الدین، لاہور 23/ نومبر 1962ء، ص،9/10)
الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی ومددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتدوبے دین سمجھتے تھے۔وہ علم وفضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق اداکردیا۔سنتِ حسین پرعمل پیراہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
وصال:جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر1278ھ،مطابق 20/اگست 1861ءکو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔آج بھی آپ کی قبر "آزادی"کی آذانیں سنارہی ہے۔
ماخذومراجع:حدائق الحنفیہ۔خیرآبادیات۔تذکرہ علمائے ہند۔دو قومی نظریہ اور علمائے اہلسنت۔ جنگِ آزدی میں علامہ فضلِ حق خیرآبادی کا کردار۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را