حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ
وحیدالدہر،عاشقِ صادق،عظیم جدجہدکےمالک،جذبۂ خودی سےسرشار،عالی ہمت،رفیع القدر،قتیل راہِ عشق،عارف اسرار رموز،کاشف سرِمستور،ابوالمغیث حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج کا ذکر کررہے ہیں۔تاریخ میں آپ کی شخصیت کو ایک متنازع شخصیت کے طور پر دیکھایا گیا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد علما کے ایک گروہ نے آپ کو کافر و زندیق قرار دیا جن میں امام اصفہانی جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ اور بعد کے بھی کافی علماء کرام نے ابن حلاج کے اقوال کو گمراہی قرار دیا ہے ۔ جن میں امام ابن جوزی ' ابن حجر مالکی، علامہ ذہبی ' ابن قیم اور ابن کثیر جیسے علماء کرام شامل ہیں۔ابن تیمیہ کو ہم کسی قطار میں نہیں سمجھتے اس لیے نام لینا مناسب بھی نہیں۔
اور دوسرے علماء و صوفیا کے گروہ نے جن میں رومی‘شیخ شعیب حریفیش‘ شیخ علی ہجویری ‘ نظام الدین اولیا‘ امام احمد رضا‘ شیخ فرید الدین عطاراور علامہ اقبال جیسے عظیم لوگ شامل تھے انہوں نے انھیں ولی اور شہید حق کا درجہ دیا۔ میں اپنے فدانامہ کے دوستوں کو تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے علماء کے دونوں موقف کو پوری دیانت داری سے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ باقی آپ کو اختلاف رائے کا حق ہے۔ میں اس اپنی تحقیق کو قدرے تفصیل سےبیان کررہا ہوں جو شائد آپ نے پہلے کبھی نہ سنی ہوگی۔جو میں نے کافی محنت سے تیار کی ہے۔اگر آپ کمنٹ کریں تو ان شاء اللہ اگلی قسط میں دونوں موقف بیان کروں گا۔
سب سے پہلے اپنےفدانامہ کے دوستوں کو حسین بن منصور حلاج کی زندگی کے حالات کے متعلق بتانا چاہوں گا ۔
نام ونسب:
اسم گرامی:حضرت حسین۔کنیت: ابوالمغیث۔لقب:حلاج۔آپ عوام میں’’منصورحلاج‘‘کےنام سےمعروف ہیں۔حالانکہ آپ کانام حسین اور والد کانام منصورہے۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:ابوالمغیث شیخ حسین بن منصور حلاج بن محمی۔(تذکرہ منصور حلاج:13)ان کےداداآتش پرست اور اپنےوقت کےبہت بڑےفلسفی ،اورفلسفےکےمعلم تھے۔ان کےوالد اپناآبائی مذہب ترک کرکےدینِ اسلام قبول کرلیاتھا۔وہ ایک درویش صفت اوراپنےکام میں مصروف رہنےوالےانسان تھے۔ریشمی کپڑےکی مارکیٹ میں ان کاایک نام تھا۔ریشمی کیڑےپالنا اورپھران سےکپڑےتیارکرناان کامشغلہ تھا۔
حلاج کی وجہ تسمیہ:
حلاج عربی زبان کالفظ ہے۔اردو میں اس کامطلب ہے’’دھنیا‘‘یعنی روئی اور بنولےکوالگ الگ کرنےوالا۔شیخ فریدالدین عطاراور مولانا جامی فرماتےہیں:’’یہ آپ کی ذات نہیں تھی بلکہ آپ اس لقب سےاس لئے مشہور ہوگئے کہ ایک بار آپ روئی کے ایک ڈھیرکےقریب سےگزرے،ایک نگاہ کی توروئی اوربنولےعلیحدہ علیحدہ ہوگئے،اس دن سے آپ کو حلاج کہا جانے لگا۔حضرت ابوسعید ابوالخیر نے آپ کے نام کی ایک اور توجیہ لکھی ہے کہ آپ کی ایک دُھنیے سے دوستی تھی ہر وقت اس کے پاس وقت گزارتے ایک دن اس دُھنیے نے ازراہ محبت آپ کو روئی اور بنولے علیحدہ کرنے پر لگادیا تو آپ نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ تمام بنولے روئی سے جدا ہوکر علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔آپ کے انداز کلام سے حق و باطل بھی علیحدہ علیحدہ ہوگیا تھا۔ اس دن سے آپ کا نام حلاج پڑ گیا۔(تذکرۃ الاولیاء:255/نفحات الانس:156)
تاریخِ ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت 243ھ مطابق 857ء/858ءکو بمقام ’’طور‘‘بیضاء ،ایران میں ہوئی۔(تذکرہ حسین بن منصور حلاج ۔از ڈاکٹر شاہد مختار:17/وکیپیڈیافارسی)
تحصیلِ علم:
حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج کےمتعلق مشہور ہےکہ بچپن میں ہی عام بچوں سےمختلف تھے۔اپنےہم عمر بچوں سےعلیحدہ اور خاموش رہتےتھے۔فضول گوئی،ہنسی مذاق سےاجتناب کرتےاوراپنی ذات میں گم رہتےتھے۔یہاں تک کہ لوگ ’’مستانہ‘‘کہنےلگے۔ان کےوالد نےمدرسہ دارالحفاظ میں داخل کرادیا۔873ء میں قرآن مجیدحفظ کرلیا۔اس دور میں علمِ حدیث،فقہ،تفسیر،ادبیات،تاریخ،تصوف اور علم الکلام کادور دورہ تھا۔توشیخ حلاج نےتمام علوم ِ مروجہ میں دسترس حاصل کی۔ان کازیادہ میلان تصوف کی طرف تھا۔اس لئےتحصیل علوم کےبعد حضرت سہل بن عبداللہ تستری جواپنےوقت کےعظیم صوفی اورمدرس تھے،دوسال تک ان کےمدرسۂ تصوف میں رہے،اور یہی سب سےپہلےآپ کےشیخِ طریقت بھی ہیں۔حضرت سہل تستری سےعلیحدہ ہوکربصرہ چلےگئے،بصرہ بھی آپ کےلئےسازگارثابت نہ ہوا کیونکہ یہاں کی سیاسی فضاء خاندان ِ اہل بیت کےخلاف تھی،اورایساجری انسان حالات سےمصلحت اورسمجھوتےکاقائل نہیں ہوتا۔اس لئےیہاں سےبغدادکی طرف ہجرت کرناپڑی۔مشائخِ بغداداوربالخصوص حضرت جنید بغدادی سےعلمی استفادہ کیا۔وہاں سے حجازمقدس گئےاورحجاز مقدس سےصوفیاء کی ایک جماعت کےساتھ پھربغداد واپس آگئے،حضرت جنیدبغدادی سےملاقات ہوئی ۔حضرت جنیدفرمانےلگے:’’جلد ہی تولکڑی کاسرسرخ کرےگا یعنی سولی چڑھادیاجائےگا۔انہوں نےجواب میں کہا:پھرآپ کولباس تصوف اتارکراہل ِ ظاہرکالباس پہنناپڑےگا‘‘۔واقعی ایساہی ہوا۔(تذکرۃ الاولیاء:254)
بیعت وخلافت:
حضرت شیخ حسین بن منصورحلاج جیدمشائخ کی صحبت میں رہےاوران سےاستفادہ کیا۔حضرت عمروبن عثمان مکی کےسلسلہ طریقت میں منسلک ہوگئے،اور ایک عرصےتک ان کی صحبت میں رہے۔(تذکرۃ الاولیاء:254)
سیرت وخصائص:
وحیدالدہر،عاشقِ صادق،عظیم جدجہدکےمالک،جذبۂ خودی سےسرشار،عالی ہمت،رفیع القدر،قتیل راہِ عشق،عارف اسرار رموز،کاشف سرِمستور،ابوالمغیث حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج۔آپ کی ذات عالم اسلام میں شروع سےآج تک معروف رہی ہے۔صوفیاء وعلماء کےآپ کےبارےمیں بہت اقوال وآراء ہیں۔ایک عام قاری الجھ جاتاہے۔اس کوسمجھ نہیں آتاکہ آپ کی ذات کیاتھی۔کتب میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ان سےبھی تشکیک کواور زیادہ تقویت ملتی ہے۔یہی کچھ میرےساتھ بھی ہوا۔میں نےمختلف اقوال پڑھنےکےبعدآپ سےصرفِ نظر کرنےکاارداہ کیاہی تھا کہ اللہ جل شانہ نےمیری دستگیری فرمائی ۔اچانک میرےذہن میں خیال آیا کہ دیکھوں کہ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتاگنج بخش نے’’کشف المحجوب‘‘میں آپ کےبارےمیں کیافرمایا ہے۔جب میں نےپڑھاتو دل سےتشکیک کےبادل چھٹتےگئےاورحقائقِ ظاہرہوگئے۔کشف المحجوب واقعی کشف المجوب ہے۔
حضرت داتاگنج بخش فرماتےہیں:’’آپ سرمستانِ بادۂ وحدت اورمشتاق جمال احدیت گزرےہیں،اور نہایت قوی الحال مشائخ میں سےتھے‘‘۔(کشف المحجوب:304)۔آپ کےبارےمیں صوفیاء کی مختلف آراء نقل کرنےبعدایک مغالطےکاازالہ کرتےہوئےفرماتےہیں:’’بعض لوگ آپ کےکمالات وخوارق ِ عادات امور کومکراورجادو کےساتھ نسبت کرتےہیں۔ان کاخیال ہے کہ یہ منصور بن حلاج بغدادی ہےجومحمود بن زکریاکااستاد اور ابوسعیدقرامطی کارفیقِ خاص ہے۔حالانکہ وہ حسین بن منصور بن صلاح ہے،اور یہ حسین بن منصور حلاج ہیں،پھر وہ بغداد کا رہنےوالاہے،اوریہ فارس کےرہنےوالے ہیں‘‘۔(ایضا:305)پھر فرماتےہیں:’’دیکھتےنہیں کہ حضرت شبلی حضرت حسین بن منصور کی شان میں کیا فرمارہےہیں آپ کااعلان ہے:انا والحلاج فی شیء واحد فخلصنی جنونی واھلکلہ عقلہ۔یعنی میں اور حلاج ایک ہی طریقے پرہیں۔مگرمجھےمیرےدیوانہ پن نے آزاد کرادیااور حلاج کواس کی عقل مندی نے ہلاک کرادیا۔اگرمعاذاللہ وہ بےدین ہوتےتوشیخ شبلی کبھی نہ فرماتےکہ میں اور حلاج ایک ہی طریق پرہیں۔حضرت محمد بن خفیف فرماتےہیں:ھوعالم ربانی۔ان کےعلاوہ بہت سےمشائخ نےآپ کی تعریف کی اوربزرگ فرمایا‘‘۔(ایضا:306)۔حضرت حسین بن منصورحلاج اپنی مدتِ عمر میں لباس صلاحیت کےساتھ مزین رہے۔نماز کےپابند ذکر ومناجات میں لیل ونہارگزارنےوالے،روزےکےپابنداور آپ کی حمدنہایت مہذب تھی،اور توحید میں لطیف نکتے بیان فرماتے تھے۔اگروہ جادوگرہوتےتوصوم وصلوٰۃ کی پابندی اور ذکرواذکارمیں سرگرمی ان سےمحال تھی۔توصحیح طورپر ثابت ہوا کہ ان سےجو امورِ خارق عادت ظہورمیں آئےوہ کرامت تھے،اور کرامت سوائے ولی کےمتحقق نہیں ہوسکتی۔(ایضا:307)
پھرفرماتےہیں:’’آپکی تصانیف بہت مشہور ہیں اورکلام نہایت مہذب ہےاورجوآپ نےاصول وفروع میں لکھاہے،اور میں (داتاصاحب)نےپچاس رسالےان کےتصنیف شدہ دیکھےہیں۔میں نےحضرت حسین بن منصورحلاج‘کےکلام کی شرح لکھی ہےاور اس کتاب میں دلائل وحجج باہرہ کےساتھ میں نےیہ ثابت کیاہے کہ یہ کلام اتنا بلندہے کہ اس کوارباب حال کےسوا اورکوئی نہیں سمجھ سکتا۔ایک کتاب بنام ’’منہاج الدین‘‘ ہماری تالیف ہےاس میں حضرت حسین بن منصور حلاج‘کےابتداء حال سےانتہاء تک تمام کوائف ذکرکیےہیں۔یہاں (کشف المحجوب میں)ہم نےان کامختصر تذکرہ کردیاہے‘‘۔(ایضا:309)
شیخ فریدالدین عطار‘فرماتےہیں: بعض ظاہر بین علماء نے آپ کی گفتگوکو کفر سے تعبیر کیا، بعض نے آپ کو حلولی قرار دیا، لیکن جسے توحید کے رموز و اسرار سے واقفیت تھی،وہ اسےحلول نہیں کہہ سکتا۔چنانچہ شیخ فریدالدین عطار‘نےآپ کےکلام کوعین توحیدقراردیاہے،اور فرمایا:’’مجھے اس شخص پر سخت تعجب آتا ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں ایک درخت سے انی انا اللہ کی آواز کو توحید پرمنطبق کرے اور جب یہی آوازحسین بن منصورسےآئےتواسےکفرقراردیں۔حضرت عمر بات کریں تو ینطق الحق علی لسا ن العمر (اللہ تعالیٰ عمر کی زبان سے بات کرتا ہے) کوتوحید خیال کریں مگر یہی بات حسین ابن منصور کی زبان سےنکلے،تو اسے حلول اور الحاد سے تعبیر کیا جائے۔(تذکرۃ الاولیاء:253)
خزینۃ الاصفیاء میں ہے: حضرت حسین ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ نے کائنات ارضی کی سیاحت کی، مخلوق خدا کواللہ کی طرف دعوت دیتے رہے، سولہ سال کی عمر میں حضرت عبداللہ تستری ‘ کی صحبت سے استفادہ کیا۔ بغداد آئے مشائخ بغداد سے استفادہ کیا، بصرہ پہنچے،علماء و مشائخ سے گفتگو رہی، ابو عثمان عمرو مکی سے تعلق پیدا ہوگیا،اورایک عرصےتک ان کی صحبت میں رہے،حضرت ابویعقوب الاقطع ‘آپ کی ذہانت و کمالات سےاتنےمتأثر ہوئے کہ اپنی بیٹی آپ کےنکاح میں دےدی۔حضرت ابوعثمان‘ نےعلم الحقائق میں ایک کتاب لکھی تھی۔وہ جن اسرارو رموز ِتصوف پرمشتمل تھی،وہ علماء ظاہر کے لیے ناقابلِ فہم تھے۔آپ نے اس کتاب کوایک عرصہ پوشیدہ رکھا۔شیخ حسین بن منصور‘نےبڑی جرأت کرکےاس کتاب کے مسائل کو منبروں پر کھڑے ہوکر بیان کرنا شروع کیے۔عام علماء کی مجالس میں بیان کیے لوگوں میں واقعی ایک شور برپا ہونےلگا۔لوگوں نےحسین بن منصورتوکیا شیخ ابوعثمان عمرو کےبھی خلاف ہوگئے۔حضرت ابوعثمان ان رموز کے افشاء پر حضرت حسین بن منصورسے سخت ناراض ہوئے،اور اپنی مجالس سےعلیحدہ کردیا۔ ساتھ ہی جلال میں آکر فرمایا:’’ اللہ حسین کی زبان اور دست و پا کو قطع کردے اور کوئی ایسا شخص پیدا کرے جو اسے تختۂ دار پر کھڑا کرے‘‘۔(خزینۃ الاصفیاء:104/نفحات الانس:157)
دعوائےاناالحق کی تحقیق:
عوام میں مشہور ہے کہ حضرت حسین بن منصور حلاج ‘ نے ’’اَنَا الْحَقُ‘‘(یعنی میں حق ہوں) کہا تھا اس کا رد کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان ‘فتاوی رضویہ میں تحریرفرماتےہيں:’’حضرت سیدی حسین بن منصور حلاج ‘،جن کوعوام ’’منصور‘‘کہتے ہیں۔منصور اِن کے والد کانام تھا، اوران کااسم گرامی حسین ہے۔(آپ )اکابر اہلِ حال سے تھے،ان کی ایک بہن ان سے بدَرَجَہا مرتبۂ ولایت ومعرِفت میں زائدتھیں۔وہ آخرشب کوجنگل تشریف لے جاتیں اوریادِالٰہی میں مصروف ہوجاتیں۔ایک دن ان کی آنکھ کھلی،بہن کونہ پایا،گھرمیں ہر جگہ تلاش کیا،پتانہ چلا،اُن کووسوسہ گزرا،دوسری شب میں قصداً سوتے میں جان ڈال کرجاگتے رہے۔وہ اپنے وقت پراُٹھ کرچلیں،یہ آہستہ آہستہ پیچھےہولئے،دیکھتےرہے۔آسمان سےسونےکی زنجیر میں یاقوت کاجام اُترا اوران کے دہن مبارک(یعنی مُنہ شریف)کے برابرآ لگا،انہوں نے پینا شروع کیا،اِن سےصبرنہ ہو سکا کہ یہ جنت کی نعمت نہ ملے ۔بے اختیارکہہ اُٹھے کہ بہن! تمہیں اﷲکی قسم کہ تھوڑا میرے لئے چھوڑدو،انہوں نے ایک جُرعَہ (یعنی ایک گھونٹ) چھوڑ دیا،انہوں نے پیا،اس کےپیتےہی ہرجڑی بُوٹی،ہردرودیوارسے ان کو یہ آواز آنے لگی کہ کون اس کازیادہ مستحق ہےکہ ہماری راہ میں قتل کیاجائے۔انہوں نے کہنا شروع کردیا’’اَنَا لَاََحَقُّ‘‘ بیشک میں سب سے زیادہ اس کا سزاوار(یعنی حق دار)ہوں۔ لوگوں کےسننےمیں آیا’’اَنَاالْحَقُّ‘‘(یعنی میں حق ہوں) وہ (لوگ)دعوۂ خدائی سمجھے،اور یہ(یعنی خدائی کادعوی) کفرہےاورمسلمان ہوکرجوکفرکرےمرتدہے اورمرتد کی سزاقتل ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص400)
874ء میں سولہ برس کی عمر میں تعلیم مکمل کر لی، جس میں صرف و نحو، قرآن اور تفسیر شامل تھےاور تستر چلے گئے جہاں سہل التستری کےحلقہٴ ارادت میں شمولیت اختیار کر لی، جن کی تعلیمات نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 876ء میں اس زمانے کے تصوف کے اہم مرکز بصرے چلے گئے اور وہاں عمرو المکّی کے سلسلہٴ طریقت میں شامل ہوگئے۔ 878ء میں ابو ایوب الاقع کی بیٹی سے شادی کر لی جس کی وجہ سے عمرو المکّی ان کا مخالف ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد بغداد چلے گئے جہاں ان کی مشہور صوفی بزرگ جنید بغدادی سے ملاقات ہوئی۔ اور آپ ان کے حلقہء ارادت میں شامل ہوگئے۔ 897ء میں دوسرا حج کرنے کے بعدبحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔جس کے دوران ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں سے واسطہ پڑا۔ ہندوستان میں انھوں نے ملتان اور منصورہ کا سفر کیا۔ بغداد سے واپسی پرآپ پر جادو، افسوں طرازی اور جنات سے رابطے کے الزامات بھی لگے۔ گلیوں بازاروں میں والہانہ انداز میں اشعار پڑھتے اور خدا سے اپنے عشق کا اظہار کرتے۔ کہتے ہیں اکثر خود کھانا کھانے کی بجائے اپنے سیاہ رنگ کے کتے کو کھلایا کرتے تھے، جس کو وہ اپنا نفس کہا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک دن صوفی بزرگ شبلی کے دروازے پر دستک دی۔ جب شیخ شبلی نے پوچھا کون ہے، تو جواب میں یہ مشہور فقرہ کہا اناالحق (میں حق ہوں)۔یا بعض کے نزدیک انالا حق کہا۔
913ء میں گرفتار کر لیا گیا اور نو برس تک نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران ’کتاب الطواسین‘مکمل کی۔ آخری بار وزیر حامد العباس کی ایما پر مقدمہ چلایا گیا۔ قاضی ابوعمر ابن یوسف نے حکم نامہ جاری کر دیا گیا کہ ’تمہارا خون بہانا جائز ہے۔ 25 مارچ 922ء کی رات کو قید خانے میں ابنِ خفیف آکر ملے۔ پوچھا، عشق کیاہے؟ حلّاج نے جواب دیا، کل خود دیکھ لینا۔ بالاآخر 26 مارچ 922ء پہلے ان کے ہاتھ کاٹے گئے، پھر پیرکاٹے گئے اور آخر میں سر قلم کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی لاش پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔ اس کی وجہ بھی یوں بیان کی جاتی ہے۔ کہ جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے "انا لاالحق" کی آوازیں آنے لگیں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی "انا لا الحق" کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی "انا لا الحق" کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔ آپ نے پہلے ہی اپنے خادم کو نصیحت کر دی تھی کہ جب یہ حالت ہو تو میرا خرقہ دریا کی طرف کر دینا۔ چنانچہ خادم نے آپ کا خرقہ دریا کی جانب کر دیا اور جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔
ابن حلاج نے تصوف اور طریق تصوف اور اپنے عقائد و نظریات کی شرح میں متعدد کتابیں اور رسائل قلمبند کیے جن کی تعداد 47 سے اوپر ہے۔
آپ کاقتل:
ایک قول تو یہ ہےکہ آپ ‘کاقتل ایک سیاسی قتل تھا۔جیساکہ حکمران اپنےمخالفین کوقتل کراتےہیں۔(تذکرہ شیخ حسین بن منصور حلاج:222)۔اسی طرح آپ کےقتل میں روافض کااہم کردارتھا۔(ایضا)اس لئے آپ پررفض کاالزام بہتان ہے۔آپ‘جیل میں بھی کثرت کےساتھ نوافل پڑھتےتھے۔جب جیل سےباہرتھےاس وقت ہرفرض نمازکےلئےغسل کرتے۔آپ کوبڑی بےدردی سےشہید کیاگیا۔پہلےآپ کےاعضاکاٹےگئے،کوڑےبرسائےگئے،آنکھیں نکالیں گئیں،زبان کاٹی گئی،پھربےدردی سےسولی پہ چڑھایاگیا۔جب سپاہی آپ کو تختۂ دار پر لے گئے چشم دید گواہوں نے بیان کیا ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کے لیے ایک لاکھ لوگ موجود تھے۔شیخ حسین بن منصور آنکھ کھولتے اور آواز دیتے حق حق حق انا لاحق ایک درویش اس مجمعے میں سے آگے بڑھا اور آپ کو پوچھنے لگا حضرت عشق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا آج دیکھ لو گے پھر کچھ کل دیکھو گے اور پھر پرسوں دیکھو گے!اس دن آپ کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا دوسرے روز آپ کی نعش کو جلایا گیا، تیسرے دن آپ کی مٹی کو اڑایا گیا۔حاضرین نے سنا کہ آپ کے ایک ایک عضو سے انا لاحق انا لاحق کی آواز آ رہی ہے آپ کا اک ایک عضو علیحدہ کردیا گیا خون کے قطرے قطرے سے صدائے انالاحق انالاحق سنائی دی جانےلگی۔ آپ کے جسم کو جلا دیا گیا مگر خاکستر کے ایک ایک ذرہ سے صدائے انالاحق سنی جاتی رہی، تیسرے دن آپ کی خاکستر کو دریائےدجلہ میں بہا دیا گیا، دریا میں ایک تلاطم برپا ہوگیا اور وادی دجلہ انا لاحق کے شور سے گونج اٹھی۔کہتے ہیں کہ آپ نے تختہ دار پر آنے سے پہلے اپنے ایک محرم راز کو بتایا تھا کہ جب آپ کی خاکستر دریائے دجلہ میں پھینکی جائے گی کہ تو دوسرے دن دریائے دجلہ میں ایک طوفانی سیلاب آئے گا اور اس کی موجیں بغداد شہر کی دیواروں سے ٹکرانا شروع کردیں گی، اس وقت میری یہ یہ قمیص دریا کے سامنےلےجا کرکہنااے دجلہ تجھے حسین بن منصور کی اس قمیص کے پیش نظر شہر سے ہٹ جانا چاہیے، واقعتاً ایسا ہی ہوا، اس دوست نے حضرت کی قمیص سامنے کی اور اس طرح دریائے دجلہ کا رُخ بدل گیا، سیلاب تھم گیا اور شہر بغداد بچ گیا۔اتنے ظلم و ستم کے باوجود حضرت حسین ابن منصور کے باقی ماندہ اعضاء اور خاکستر کو جمع کیا گیا، اور عقیدت مندوں نے آپ کا ایک مزار تعمیر کرایا۔(خزینۃ الاصفیاء:105)
تاریخِ شہادت:
آپ کی شہادت بروز منگل 4/ذوالقعدہ 309ھ مطابق 3/مارچ 922ءکوہوئی۔
داتاگنج بخش‘کی نصیحت: آپ فرماتےہیں:اس قسم کےمغلوب الحال صوفیاء کرام کےکلام کاہرگزاتباع نہیں کرناچاہئےاس لئےوہ اپنےحال میں اس قدر مغلوب ہوتےہیں کہ ان میں استقامت قطعی نہیں ہوتی،اور اُن صوفیاء کی پیروی کرنی چاہئےجوصاحبِ استقامت ہیں۔میں حضرت حسین بن حلاج‘کواپنےدل میں عزیزرکھتاہوں اور ان کی عظمت میرےدل میں ہے۔لیکن آپ مغلوب الحال تھے۔(کشف المحجوب:308)۔وہابی وغیرہ دشمنان اولیاء نےبہت سےمقامات پرآپ کےخلاف ابن تیمیہ وغیرہ کےحوالےبہت زہراگلاہے۔اس پر توجہ دینےکی ضرورت نہیں ہے۔حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی‘،حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی‘،حضرت امام غزالی‘،حضرت داتاگنج بخش‘،حضرت مجددالفِ ثانی‘،اوراعلیٰ حضرت‘وغیرہ اکابرینِ امت نےآپ کی مدح فرمائی ہے۔میں نےیہ اختصارکےساتھ بیان کیاہے۔تفصیل کےلئے۔۔۔کشف المحجوب،داتاگنج بخش‘۔تذکرۃ الاولیاء،شیخ فریدالدین عطار‘۔خزینۃ الاصفیا،مفتی غلام سرور لاہوری‘قابلِ مطالعہ ہیں۔
علماء کا پہلا موقف:۔
ابن حلاج اتحاد ذات الہی یا ہمہ اوست کا قائل تھا اور "اناالحق" ’’میں خدا ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھا۔اس نے ا نڈیا میں جادو سیکھا اوریہ بہت ہی حیلے اوردھوکہ باز تھا ، لوگو ں کو ان کی جہالت کی بنا پربہت سے لوگوں کودھوکہ دیا اورانہیں اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگيا حتی کہ لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا کہ یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا ولی ہے ۔عام مستشرقین کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ اسے قتل کردیاگیا ، اور اس کا سبب اس کا وہ عیسائی کلام اورتقریبا انہی کا عقیدہ ہے جس کا اعتقاد رکھتا تھا ۔
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتے تھے یعنی اللہ تعالٰی اس میں حلول کرگيا ہے تو وہ اوراللہ تعالٰی ایک ہی چیز بن گئے ہیں ،بیشک اللہ تعالٰی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کو مستشرقین و نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تو یہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالٰی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔
اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسائی کہتے ہيں۔جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ اشعار سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالٰی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔
ابن منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے ! ابن منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔جبکہ اسے یہ بھی خوب معلوم تھا کہ اس کا یہ عقیدہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے سراسر خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :
عَقَدَ الخلائقُ في الإلهِ عقائدا
وانا اعتقدت جميع ما اعتقدوة
الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔
كفرت بدين الله والكفر واجب
لديّ وعند المسلمين قبيح
میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
حسین بن منصور نے اپنے متعلق دین سے ارتداد اور کفر کا فتویٰ تو خود ہی لگا دیا۔ سمجھانے کے باوجود بھی جب وہ اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کر دیا۔ اور اس "خدا" کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔
حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔
ان علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ابن حلاج کے اقوال کی مذمت کی ہے ان ا مام ابن جوزی ‘ ابن حجر مالکی‘ علامہ ذہبی ‘ ابن تیمیہ ‘ابن قیم اور ابن کثیر جیسے علماء کرام شامل ہیں۔
----------------------------------------------
علماء کا دوسرا موقف:۔
حضرت سیدی حسین بن منصورحلاج قدس سرہ جن کوعوام منصورکہتے ہیں ،اکابر اہل حال سے تھے، ان کی ایک بہن ان سے بدرجہا مرتبہ ولایت ومعرفت میں زائدتھیں، وہ آخرشب کوجنگل تشریف لے جاتیں اوریادالٰہی میں مصروف ہوتیں۔ ایک دن ان کی آنکھ کھلی بہن کونہ پایا، گھرمیں ہرجگہ تلاش کیا، پتانہ چلا، ان کووسوسہ گزرا، دوسری شب میں قصداً سوتے میں جان ڈال کرجاگتے رہے، وہ اپنے وقت پراُٹھ کرچلیں، یہ آہستہ آہستہ پیچھے ہولئے، دیکھتے رہے آسمان سے سونے کی زنجیر یاقوت کاجام اُترا اوران کے دہن مبارک کے برابرآلگا، انہوں نے پیناشروع کیا، ان سے صبرنہ ہوسکاکہ یہ جنت کی نعمت نہ ملے بے اختیارکہہ اُٹھے کہ بہن تمہیں اﷲ کی قسم کہ تھوڑا میرے لئے چھوڑدو، انہوں نے ایک جرعہ چھوڑدیا، انہوں نے پیا، اس کے پیتے ہی ہرجڑی بوٹی ہردرودیوارسے ان کو یہ آواز آنے لگی کہ کون اس کازیادہ مستحق ہے کہ ہماری راہ میں قتل کیاجائے۔ انہوں نے کہناشروع کیا ‘‘اَنا لَاَحَق‘‘ بیشک میں سب سے زیادہ اس کازیادہ سزاوارہوں۔ لوگوں کے سننے میں آیا ‘‘انا الحق‘‘ (میں حق ہوں)، وہ دعوی خدائی سمجھے، کیونکہ یہ کفرہے۔ اور مسلمان ہوکر جوکفرکرے مرتدہے اورمرتد کی سزاقتل ہے۔ لیکن آپ کا کلام انا لا حق کا تھا۔
ابن حلاج نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ انہوں نے خالق و مخلوق کے باہمی "حلول کی بات کبھی نہیں کی۔ نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہو جانے کا اعلان کیا۔ حلاج عبد ہی رہے۔ یہ بات علامہ اقبال سمجھ گئے تھے اور "جاوید نامہ" میں سمجھا بھی گئے ہیں۔
حلاج پر جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس کے پردے میں الجھی ہوئی سیاسی سازشیں کارفرما تھیں۔916 ء میں اک مخصوص مکتبہ فکر کے بعض راہنماؤں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اب جو عتاب نازل ہوا، اس کی لپیٹ میں حلاج بھی آگئے۔ اس لئے کہ اس کوشش میں ان کے بہت سے مرید بھی شامل تھے۔ حلاج کو گرفتار کر کے بغدادد لایا گیا۔ اس فاقہ زدہ صوفی کو، جس کی پسلیوں پر بس ایک جھلی سی رہ گئی تھی۔ ایک شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور یہ شکنجہ بازار کے عین بیچ میں رکھا گیا۔گلے میں ایک تختی اور اس تختی پر "قرمطی ایجنٹ" لکھا ہوا تھا۔ مقدمے کی کاروائی کے دوران اس کے صوفیانہ اقوال کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ ۔ اسی طرح حلاج کا سفرِ ہند بھی الزام کا بہانہ بنا۔ ابتدائی کاروائی کے بعد حلاج کو نظر بند کر دیا گیا اور آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک محل کی جیل میں قید رہے۔ اس کے بعد مقدمے کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی۔ او ر آپ کو ان کے اقوال کی رو سےسزا سنا دی گئی۔
تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب آپ کو دارکے نزدیک لے گئے تو اول آپ نے دار کو بوسہ دیا۔ پھر سیڑھی پر قدم رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے کچھ کہا۔ اس کے بعد مریدوں نے کہا کہ ہمارے متعلق کیا حکم ہے اور منکروں کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ منکروں کو دو ثواب ہوں گے اور تم کو ایک کیونکہ تم لوگ میرے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہو اور منکر لوگ توحید اور شریعت کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہیں اور شرع میں توحید اصل اور حسنِ ظن فرع ہے۔ اس کے بعد ہر شخص نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیے۔
اس کے بعد آپ کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گیے اور آنکھیں نکال دی گئیں۔ اس کے بعد آپ کی زبان کو کاٹنا چاہا مگر آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو پھر یہ کہا کہ الہٰی یہ محض تیرے لئے مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ تو اپنے فضل و کرم سے ان کو محروم نہ رکھ۔ کیونکہ انہوں نے شریعت کی خاطر مجھے تکلیف دی ہے۔
جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے "انا لا الحق" کی آوازیں آنے لگیں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی "انا لا الحق" کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی "انالا الحق" کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔آپ نے پہلے ہی اپنے خادم کو نصیحت کر دی تھی کہ جب یہ حالت ہو تو میرا خرقہ دریا کی طرف کر دینا۔ چنانچہ خادم نے آپ کا خرقہ دریا کی جانب کر دیا اور جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔
ابن حلاج کے کفر کی نفی میں اقوال آئمہ دین
حضرت شیخ سید علی ہجویری علیہ رحمہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں۔"انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔(کشف المحجوب ، ص:300)
مولانا روم فرماتے ہیں
گفت فرعونے اناالحق گشت پست
گفت منصورے اناالحق گشت مست
لعنة اللہ ایں انارا درقفا
رحمة اللہ ایں انارا درقفا
ترجمہ : فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔(مثنوی مولانا روم)
خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ رحمہ فرماتے ہیں۔(ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔) کسی بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
(بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471)
امام حمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رحمہ
فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب :" ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے (یعنی ابن حلاج نے )خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ‘ انی انا اللہ‘ میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"(بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93)
شیخ شعیب حریفیش علیہ رحمہ فرماتے ہیں:۔جب اللہ عزَّوَجَلَّ نے اپنے ولی حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی پر اپنا پوشیدہ راز ظاہر کیا تو وہ محبت الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دیوانہ وار پھرنے لگے۔ اورحضرتِ سیِّدُنا منصور حلاج علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا خالص جام پیا تو ان کی زباں پر ‘‘اَنَا لَاَحَقُّ‘ ‘ جاری ہو گیا۔(اَلرَّوْضُ الْفَائِق فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق مترجم صفحہ 166)
مزید لکھتے ہیں،۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا منصورحلاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پرمزاج کی تبدیلی کودائرفرمایاتووہ عشقِ حقیقی کے نشے میں مست ہوگئے ۔اورظاہرشریعت سے نکل گئے اور شوقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی آگ میں راتوں کواُلٹ پلٹ ہونے لگے اورجب انہوں نے ساقی شہود کو اپنے وجودمیں تجلِّی فرمادیکھاتوزبانِ وجدسے ایسی بات ظاہرہوئی کہ ظاہری حدودسے باہرہوگئے ۔(اَلرَّوْضُ الْفَائِق فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق مترجم صفحہ 338)
اسی طرح شیخ فرید الدین عطار علیہ رحمہ(وفات 1221ء) نے اپنی مشہور کتاب تذکرۃ الاولیاء میں ان کے مفصل حالات لکھیں ہیں اور ان کی بہت زیادہ تعریف بھی کی ہے۔
ایڈمن عدنان علی
نورالدین بہجۃ الاسرار شریف میں سیدنا ابوالقاسم عمر بزاز قدس سرہ سے روایت فرماتے ہیں: میں نے اپنے شیخ حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بار ہا فرماتے سنا میرے بھائی حسین حلاج کا پاؤں پھسلا ۔توان کے وقت میں کوئی ایسا نہ تھا کہ ان کی دستگیری کرتا اس وقت میں ہوتا تو ان کی ضرور دستگیری فرماتا اور میرے اصحاب اور میرے مریدوں اور مجھ سے محبت رکھنے والوں میں قیامت تک جس سے لغزش ہوگی میں اس کی مدد گار کروں گا۔
( بہجۃ الاسرار فضل اصحابہ وبشراھم مصطفی البابی مصر ص ۱۰۲)
حضرت سیِّدُنا علاَّمہ اسماعیل حقِّی علیہ رحمہ سورۂ طٰہٰ ، آیت نمبر ۱۸کے تحت نقل فرماتے ہيں:
حضرت سیِّدُنا امام راغب اصفہانی قدِّس سرہ، الرَّ بَّانی نے محاضرات میں ذکر فرمایاکہ صاحبِ حزب البحر عارف باللہ حضرت سیِّدُنا امام شاذلی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں :‘‘مَیں مسجد اقصیٰ میں محو ِ آرام تھا کہ خواب میں دیکھا مسجد اقصیٰ کے باہرصحن کے درمیان میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اورلوگوں کا ایک جمعِ عظیم گروہ در گروہ داخل ہو رہا ہے، میں نے پوچھا :‘‘یہ جمِّ غفیر کن لوگوں کا ہے ؟ مجھے بتايا گیا :‘‘یہ انبیاء ورُسُلِ کرام علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام ہیں جوحضرت سیِّدُنا حسین حلاج رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے ظاہر ہونے والی ایک غلط بات پر ان کی سفارش کے لئے حضرت سیِّدُنامحمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہیں۔‘‘ پھر میں نے تخت کی طرف دیکھا توحضور نبئ کریم، ر ء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس پر جلوہ فرماہیں اور دیگر انبیاءکرام جیسے حضرت سیِّدُنا ابراہیم ، حضرت سیِّدُناموسیٰ ،حضرت سیِّدُناعیسیٰ اورحضرت سیِّدُنا نوح علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام زمین پر بیٹھے ہیں ۔ میں ان کی زیارت کرنے لگا اور ان کا کلام سننے لگا۔(تفسیر روح البیان، ج۵، ص۳۷۴۔ ۳۷۵ )
انبیاء کی ایک جماعت کا ابن حلاج کی سفارش کے لئے اکٹھا ہونا بھی اس بات کی علامت ہے کہ ان کا اللہ کے دربار میں کوئی نہ کوئی مرتبہ ضرور ہے۔
نتیجہ:۔ میری اس گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ جن علماء نے ان کے اقوال کی مذمت کی ہے تو وہ بھی ہمارے لئے معتبر ہیں کیونکہ انہوں نے ابن حلاج کے ظاہر اعمال و اقوال کے مطابق فتوی دیا تھا اور فتوی ظاہر پر ہی دیا جاتا ہے۔اور جنہوں نے ابن حلاج کو اولیاء اللہ میں شمار کیا ہے ۔وہ بھی ہمارے لیئے بہت معتبر ہیں۔ ویسے بھی اگر ابن منصور حلاج اہلِ حق میں سے ہیں تو ہمارے مردود کہنے سے اللہ کے ہاں وہ مردود نہ ہو جائیں گے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔کہ
سن لو بے شک! اللہ کے ولیوں کو نہ خوف ہے نہ غم (سورہ یونس آیت نمبر 62)
احتیاط اسی میں ہے کہ حسین ابن منصور حلاج کے بارے میں توقف سے کام لیا جائے۔ اورخاموشی اختیار کی جائے۔کیونکہ بے شک اللہ ہی علیم و خبیر ہے ۔(واللہ اعلم)
حسین بن منصور تاریخ میں منصور حلاج کے نام سے مشہور ہیں۔آپ 858ء میں فارس کے شہر بیضا کے ایک گاؤں طور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مجوسی تھے۔ آپ کے والد نے اسلام قبول کیا اور سادگی سے زندگی بسرکی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے دھنیا تھے۔ اسی نسبت سے حسین بن منصور کو منصور حلّاج بھی کہا جاتا ہے۔ حسین بن منصور نے بصرہ اور کوفہ کے درمیان واقع شہر واسط میں پرورش پائی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر سے پہلے ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی قرآن مجید کی صورتوں کے باطنی مفہوم تلاش کرنے میں مگن رہتے تھے۔ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مگن رہتے اور معرفت و توحید کی باتیں کرتے ابتداء میں رہنمائی کے لیے وہ تستر کے مقام پر شیخ سہیل بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے آپ کو سہل التستری کے مدرسہ تصوف سے وابستہ کر لیا۔ یہاں آپ نے دو سال قیام کیا۔ یہاں سے آپ بغداد چلے گئے۔ آپ نے پہلا سفر اٹھارہ برس کی عمر میں کیا۔ اس کے بعد آپ بصرہ چلے گئے اور عمرو بن عثمان مکی کے سلسلہ طریقت سے وابستہ ہو گئے۔آپ اٹھارہ ماہ عمرو بن عثمان مکی کی صحبت میں رہے بعد میں آپ نے یعقوب اقطع کی بیٹی سے شادی کر لی۔یہاں سے آپ بغداد روانہ ہوئے اور حضرت جنید بغدادیؒ کی صحبت اختیار کر لی۔ لیکن آپ شوقِ آرزؤ حق میں ہر وقت بے چین اور بے قرار رہتے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے حسین بن منصور کی بے چینی اور بے قراری کو محسوس کیا اور انہیں صبر کی تلقین کی ۔کچھ عرصہ تک آپ نے حضرت جنید بغدادیؒ کی صحبت میں صبر اختیار کیے رکھا لیکن بلا آخر وہ مکہ روانہ ہوئے وہاںآپ نے ایک سال تک قیام کیا ایک سال بعد وہ صوفیاء کی ایک جماعت کے ساتھ بغداد واپس آئے اور حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور ان سے تصوف کے ایک مسئلے کے بارے میں دریافت کیا۔لیکن انہوں نے اس کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیارکی۔جب حسین بن منصور کو حصرت جنید بغدادیؒ سے اپنے سوالات کا جواب نہ ملاتو وہ مایوس ہو کر مرشد کی اجازت کے بغیر تستر چلے گئے وہاں آپ نے ایک سال تک قیام کیا۔اس دوران انہیں خاصی شہرت نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے حاسد پیدا ہو گئے۔ عمر و بن عثمان نے آپ کے خلاف بہت سے خطوط لکھے اور آپ کا تعلق فرقہ قراطمہ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ لہذا حسین بن منصور نے تنگ آکر صوفیانہ لباس اتار کر دنیاوی زندگی میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی ۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے دل میں جو سوالات تھے کوئی بھی ان کے جوابات دینے کو تیار نہ تھا۔ لیکن اہل دنیا کی صحبت میں بھی انہیں سکون نہ ملا ۔ لہٰذا اہل دنیا کو چھوڑ کر دوبارہ صوفیانہ زندگی اختیار کر لی اور پانچ برس تک خراسان،ماورا، النہر اور سیستان کے سفر کیے اور کچھ عرصہ بعداہوازچلے گئے۔ان علاقوں میں انہوں نے لوگوں کو اپنے وعظ و خطاب سے متاثر کیا جس بناء پر لوگوں نے انہیں ’’حلاج الاسرار‘‘کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔آپ نے ہندوستان اور چین کا سفر بھی کیا اور لوگوں کو راہ حق کی دعوت دی۔ جب آپ واپس آئے تو مختلف خطوں اور ملکوں کے لوگوں نے اپنے خطوط میں آپ کو مختلف القاب سے پکارا۔ مثلاََ اہل ہند انہیں ’’ابوالمغیث‘‘،’’اہل خراسان‘‘،’’ابومیر‘‘،’’اہل فارس‘‘،’’ابوعبداللہ‘‘،’’اہل خوزستان ‘‘،’’حلاج الاسرار‘‘،’’اہل بصرہ‘‘،’’مخبر‘‘اور اہل بغداد’’مصطلم‘‘کے القابات سے پکارا کرتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد آپ نے دوبارہ مکہ کا سفر کیا اور دو سال تک مجاور حرم کی حیثیت سے وہاں مقیم رہے۔آپ حرم کعبہ کی طرف منہ کر کے مکمل خاموشی میں روزہ کی حالت میں کھڑے ہو کر ریاضت و مجاہدہ کے کٹھن مراحل طے کرتے رہے۔ لوگ ہر روز ایک روٹی اور پانی کابرتن ان کے پاس لا کر رکھ دیتے۔آپ روٹی کے کناروں سے افطار کرتے اور باقی روٹی پانی کے برتن کے اوپر رکھ دیتے۔ جب آپ وہاں سے واپس آئے تو آپ کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اہل طریقت کے صوفیاء کے مطابق اللہ تعالی کے اسرار کو لوگوں کے سامنے منکشف کرنا ممنوع ہے لیکن حسین بن منصور نے اپنی کتب، رسائل اور تعلیمات کے ذریعے اسرارِ الہی لوگوں پر ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ آپ کے مخالفین پیدا ہو گئے۔
آپ کے عقائد اور تعلیمات سے لوگ بڑی تعداد میں آپ سے متاثر ہونے لگے۔ عباسی خلیفہ المقتدر کے زمانہء حکومت میں حسین بن منصور کو گرفتار کر لیا گیا۔اکثر فقہاء اور صوفیاء نے آپ پر قرامطہ سے تعلق اور بے دینی کا الزام لگایا اور کئی سال تک جیل میں قید رکھا۔921ء حکومت وقت نے آپ پر’’انا الحق‘‘کہہ کر خدائی کا دعویٰ کرنے اور اسلامی عبادات کا مفہوم تبدیل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا اور آپ کو ایک ہزار کوڑوں کے ساتھ موت کی سزا دی گئی۔ اس سزا پر تین روز تک عمل درآمد کیا گیا۔ پہلے روز آپ کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے دوسرے روز آپ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور تیسرے روز آپ کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا۔
حسین بن منصور حلاج نے تصوف اور اپنے مخصوص عقائد کے بارے میں کئی کتب اور رسائل تحریر کیے۔ الطواسین کو آپ کی سب سے اہم کتاب سمجھا جاتا ہے۔1913ء میں ایک معروف فرانسیسی عالم میسی گنان نے اس کتاب کو تالیف کیا۔حسین بن منصور کے دینی عقائد کے مطابق خدا اپنے فضل سے مومن کے دل میں بھی جاگزین ہوتا ہے اور انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ عشقِ الٰہی دنیا میں ظاہر ہو ۔حسین بن منصور کی تعلیمات کے مطابق آدم نے خدا سے ظہور نہیں کیا بلکہ وہ عدم سے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق وحدتِ حق عارف کی خودی کو مجبور نہیں کرتی بلکہ اسے مزید کامل کر دیتی ہے۔آپ شوقِ الہی کو “عشق”قرار دیتے ہیں یہ عشق انسان کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔
حسین بن منصور کے سب سے متنازعہ عقائد میں ان کا “انا الحق”کا دعوی تھا۔ ان کے یہ الفاظ ان کی کتاب الطواسین میں موجود ہیں۔
’’میں یہ کہتا ہوںاگر میں اپنے قول اور ان پر تعلیم سے منکر ہوتا توحلقۂ عزت سے خارج ہو چکا ہوتا
اور میں نے کہا
اگر تم حق ناشنا س ہو تب اس کی نشانیاں
پہچانو، میں اس کی نشانی(تجلی) ہوں
اناالحق
اور یہ اس لیے کہ میں نے حق سے منہ نہ موڑا
مجھے ہلاک کر دو
تختہ دار پر لٹکا دو
میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دو
میں اپنے دعویٰ سے نہ منکر ہوں گا‘‘
آپ کے اس دعویٰ کی وجہ سے بہت سے علماء اور صوفیاآپ کے خلاف ہو گئے اور آپ پر خدائی کا دعویٰ کرنے اور حلول کا قائل ہونے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے اور آپ کا دعویٰ بعد میں آپ کی سزائے موت کا سبب بھی بنا۔ لیکن مذہبی طبقے کی شدید مخالفت کے ساتھ ہی آپ کی شخصیت اور نعرہ”انا الحق”کی گہرائی اور سچائی کو سمجھنے والوں کو حلقہ بھی بن گیا۔ اس حلقہ میں ابو العباس ابن عطاءؒ ، امام ابوالسعیدؒ ، امام محمد بن حنیفؒ ، شیخ ابو القاسم گر گانیؒ اور شیخ ابو العباس شقائیؒ وغیرہ جیسے بزرگان طریقت اور علما و فقہاء شامل ہیں۔ان کے عہد کے ایک معروف عالم دین امام ابو بکر شبلیؒ نے تو یہاں تک کہ دیا:
’’میں اور حلاج ایک ہی چیز ہیں ۔ میرے جنوں نے مجھے مخلصی دلادی اور اس کی عقل نے اسے ہلاک کر ڈالا۔‘‘
اسی طرح امام محمد بن حنیفؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ’’وہ عالمِ ربانی ہیں‘‘۔ دراصل مقام کشف اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے والے بزرگان طریقت اور عارفوں کے نزدیک حسین بن منصور کا ’’انا الحق‘‘کہنا اس لیے جائز ہے کہ ان کے نزدیک باطن کو ظاہریت پر فوقیت حاصل ہے تصوف کے راستے میں ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جہاں پہنچ عارف کی اپنی ہستی فنا ہو جاتی ہے اور اس کے دل و دماغ اور قلب و جگر پر صرف محبوب حقیقی نقش ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر عاشق حقیقی کا دل محبوبِ حقیقی کے نور سے روشن ہو جاتا ہے۔ حسین بن منصور بھی جب اس منزل پر پہنچے تو اس وقت ان کی اپنی ہستی فنا ہو چکی تھی۔ اور ان کی ذات عشق حقیقی کے سمندر میں غرق ہو گئی۔ معرفت کی اس منزل پر پہنچ کر سالک خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ اس مقام پر اس کی ہستی خدا کی وحدانیت میں فنا ہوچکی ہوتی ہے اور اس کا اپنے ارادوں اور قول وفعل پر عمل دخل نہیں رہتا اور وہ اپنی ذات کو خدا کی ذات میں فنا کر کے ابدی اور دائمی زندگی پا لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ حسین بن منصور نے اس منزل پر پہنچ کر ’’انا الحق‘‘کا نعرہ لگا دیا۔آپ اپنی کتاب الطواسین میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ نے میرے قلب سے معرفت کا اعلان کرادیامیں اس سے بہت دور تھا مگر اس نے قربت عطاکی اس نے مجھے منتخب کیا اور بندۂ خاص بنا دیا‘‘
حسین بن منصور کے مخالفین آپ کے’’انا الحق‘‘کے نعرے کا فرعون کے ’’انا الرب‘‘کے دعویٰ سے تقابل کر کے آپ پر تنقید کرتے ہیں اورآپ پر شرک کا الزام بھی لگاتے ہیں۔فرعون کو اس کے نعرہ’’انا الرب‘‘کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس نے ذات باری تعالی کے شریک بننے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے برعکس حسین بن منصور نے خودی کی تکمیل اور مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعے اپنے نفس کو مغلوب کیا۔ جب تک کوئی سالک اپنے نفس امارہ پر قابو نہیں پا لیتا اس وقت تک وہ اس مقام تک رسائی نہیں حاصل کر سکتا جس مقام پر پہنچ کر حسین بن منصورنے انا الحق کا نعرہ لگایا۔آپ نے یہ منزل نفس کشی کر کے حاصل کی تھی جب کہ فرعون نے تکبر اور خود بینی سے اپنے آپ کو خدا سمجھ کر شرک کا ارتکاب کیا۔اس لیے اسے کافر قرار دیا گیا اور سزا دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم صوفی شاعر “مولانا روم”نے بھی حسین بن منصور کے نعرہ ’’نا الحق‘‘کو جائز قرار دیا اور اس نعرے کو اس لوہے سے تشبیہ دی ہے جسے آگ میں ڈالا جائے تو لوہے کا رنگ آگ کے رنگ میں محو ہو جائے۔ مولانا روم نے فرعون کو سنگ سیاہ سے تشبیہ دے کر اسے نورِ حقیقی کا دشمن قرار دیا اورحسین بن منصور کو عقیق سے تشبیہ دے کر انھیں خدا کا عاشق قرار دیا۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اپنی تصنیف جاوید نامہ میں حسین بن منصور کا تذکرہ ’’فلک مشتری‘‘کے مقام پر کیا ہے۔یہ وہ مقدس مقام ہے جو ’’لسعد الاکبر‘‘کے نام سے بھی جا نا جاتا ہے۔ اگر چہ جاوید نامہ میں اس فلک پر حسین بن منصور کے علاوہ مرزی غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی ارواح بھی موجود ہیں۔ لیکن زیادہ تر گفتگو حسین بن منصور کی زبان سے ہی ادا ہوتی ہے۔اقبال نے فلک مشتری پر حسین بن منصور کو ایک ایسی روح قرار دیا ہے جو شوق آرزوئے حق میں پرندوں کی طرح ہمیشہ محو پرواز رہتی ہے۔ اقبال حسین بن منصور کے شوقِ آرزو اور جذبہ عشق سے بہت متاثر تھے اور اسے اپنے فلسفہ خودی سے قریب تر سمجھتے تھے۔اقبال کے مطابق اسلامی تصوف میں وصالی تجربہ کے معنی محدود خودی کا اپنے تشخص کو لامحدود خودی میں محو کردینا نہیں بلکہ لامحدود خودی کا محدود خودی میں سما جانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جاوید نامہ میں حسین بن منصور صوفی ’’حرکیت‘‘ کا نمائندے طور پر سامنے آتے ہیں۔
حسین بن منصور کے عقائد کے مطابق شوقِ الٰہی ہی عشق کا دوسرا نام ہے اور یہ عشق انسان کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے مگر عشق میں عاشق کو بے شمار مصیبتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن فنا فی اللہ ہونے والے سالک دنیا کے مصائب اور تکالیف سے نہیں گھبراتے۔ ان کے لیے جسمانی تکلیف کوئی معنی نہیں رکھتیں یہی وجہ ہے کہ جب حسین بن منصور کومقتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو وہ بڑی خوشی اور وجد کے عالم میں مقتل گاہ پہنچے۔ حسین بن منصور کے مطابق عشق اور اذیت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ جب آپ کو مقتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنا فلسفہ عشق پیش کیا۔ اس حوالہ سے تذکرہ اولیاء میں ایک حکایت مذکور ہے۔
’’لوگوں نے حلاج سے پو چھا عشق کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا تم اسے آج ،کل اور پرسوں دیکھ لو گے۔ ایک دن اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے، دوسرے دن اسے مار دیا جائے گا اور تیسرے دن ہوا اس کی خاک اڑاتی پھرے گی۔‘‘
حسین بن منصور کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ جب ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے تو آپ تکلیف سے کراہنے کی بجائے مسکرانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود ہی اپنے کٹے ہوئے بازؤں سے اپنی کلائیاں اور چہرہ خون سے آلودہ کر لیا۔ لوگوں نے آپ سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے جواب دیا کہ نماز عشق ادا کرنے کے لیے خون سے ہی وضو کیا جاتا ہے۔آپ کے اسی جذبۂ عشق اور شوقِ الٰہی کی وجہ سے آپ کی شخصیت اور عقائد کا اثر بڑے بڑے بلندپایہ کے صوفیاء کرام پر پڑا مثلاََ مولانا روم نے مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز میں بار بار اس ’’شہیدِ عشق‘‘کا ذکر کیا ہے۔ مولانا روم نے آپ کو شاخ پر اُگے ہوئے سرخ گلاب سے تشبیہ دی ہے۔ خواجہ فرید الدین عطار بھی آپ کو اپنا روحانی مرشد تصور کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ آپ کا شوق آرزوء حق اور خدا کی محبت میں اپنے آپ کو قربان کر دینے کا جذبۂ بے اختیار تھا۔ آپ کی شخصیت کے ان پہلوؤں نے آپ کو عاشقانِ خدا کے لیے مشعل راہ بنا دیا۔