Ala Hazrat Imam Ahmed Raza Khan Barelvi RA Biography |Life History in Urdu | Aala Hazrat Koun



 امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ  کابچپن 

ماں باپ کی نیک تربیت ہو تو بچے اپنے دور کے مجدد اور مصلح اعظم بھی بن سکتے ہیں ایک ایسے بچہ کے واقعات ملاحظہ ہوں۔

روزہ

شہر عشق وسُروربریلی شریف ہے۔رمضان مبارک کامہینہ اپنی رحمتیں برکتیں خوب لٹا رہا ہے بریلی شریف کے محلہ سوداگراں کے علمی خاندان میں ایک بچہ کی روزہ کشائی ہے۔روزہ کشائی کی تیاریاںہورہی ہیں اور آج عزیز واقارب کوافطارکرانے کے لئے مدعو کیا گیا ہے ۔سہ پہر کا وقت ہوا توسامانِ افطار کی تیاری شروع ہوگئی۔ایک الگ کمرے میں پھل فروٹ اوردیگر سامان کے علاوہ فرنی کے پیالے بھی چنے ہوئے ہیں۔یکایک بچہ کے والد اپنے بچہ کو لے کر اس کمرے میں جاتے ہیں اوراند رسے دروازہ بند کرلیتے ہیں پھر ایک فرنی کاپیالہ اٹھا کر اپنے بیٹے کی طرف بڑھاتے ہیں۔ امتحاناًکہتے ہیں ۔ ’’لو! اسے کھالو‘‘بچہ حیران ہو کر عرض کرتا ہے ’’ابا حضور ! میرا تو روزہ ہے کیسے کھائوں؟ اس پر والد صاحب نے کہا ‘‘بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے میں نے دروازہ بند کردیا ہے اب کوئی دیکھنے والا نہیں۔لوجلدی سے کھالو۔‘‘ یہ سن کر بچے نے ادب سے عرض کی۔ابا حضور! جس کے حکم پر روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ بچہ کایہ جواب سن کر والد نے فرطِ مسرت میں اپنے ہونہارفرزند کوگلے لگالیا ۔ سینے سے چمٹا لیا اورپیار کرتے ہوئے باہر لے آئے ۔ اورپھر اوقات کار کے مطابق بچے اور باپ نے روزہ افطار کیا۔

تقویٰ کی انتہا اورلاجواب جواب

آپ کی ۴،۵؍برس کی عمر تھی آپ اپنے گھر سے باہر کسی کام سے نکلے ۔ ایک بڑا کُرتا زیب تن کیا۔ یہ بچہ خراماں خراماں جارہاہے کہ سامنے سے چند زنانِ بازاری (طوائف)کاگذ ر ہوا آپ نے جب ان کو دیکھا توکُرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپالیا ۔آپ کی یہ حرکت دیکھ کر ان 

میں سے ایک نے طنز اً کہا ’’میاں ستر کی توخبر لو‘‘۔

آپ نے جب سنا تو منہ چھپائے ہی برجستہ جواب دیا ’’نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے ‘‘ بچہ کاجواب سن کر زنِ بازاری شرمندہ ولاجواب ہوگئی اوراپنا رستہ لیا ۔سننے والے آپ کی اس ذہانت اورحاضر جوابی سے دنگ رہ گئے۔

حق برزبان

شہر ِعلوم بریلی شریف میں ایک مدرسہ میں دینی تعلیم دی جارہی ہے ۔بچے آتے ہیں اوراپنا سبق سنا کر جوا ستاد نیاسبق پڑھاتے ہیں پڑھتے جاتے ہیں۔ انہی بچوں میں ایک بچہ جب سبق لینے آیا تو استاد کسی آیت کریمہ میں جولفظ پڑھاتے ہیں وہ لفظ بچے کی زبان پر نہیں چڑھتا ۔اتفاقًا اتنے میں اس بچے کے جدامجد اپنے وقت کے عالم جلیل تشریف لائے ۔انہوں نے جب یہ تکرار دیکھی اوردوسرا قرآن پاک منگوا کردیکھا تو معلوم ہوا کہ کاتب نے غلطی سے زیر کی جگہ زبر لکھ دیا ۔ انہوںنے پہلے تو تصحیح کی ۔پھر آپ کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ استاد کی بات احترامًا تسلیم کرلینی چاہئے ؟ آپ نے جواب عرض کیا کہ میں تو حکم کی تعمیل چاہتا تھا ۔مگر ادھر زبان ہی نہ لوٹتی تھی ۔آپ کی یہ بصیرت دیکھ کر انہوںنے اس کے حق میں دعا کی ۔آپ سے اکثر اسی قسم کی پُر مغز باتیں سرزد ہوتی رہتی تھیں ۔ اس لئے ایک مرتبہ آپ کے استاد نے حیرانی کے عالم میں کہا کہ ’’تم جن ہو یا ا نسا ن ۔ ‘ ‘ 

جوابِ سلام 

ایک بار اُستاد موصوف بچوں کو پڑھانے میں مشغول تھے کہ ایک بچہ آیا اورسلام کرکے بیٹھ گیا استاد نے جوابًا کہا ۔’’جیتے رہو‘‘ اتنے میں اسی بچہ نے برجستہ کہا۔’’یہ تو سلام کاجواب نہ ہوا ۔ آپ بھی جوابًا ’’سلامتی بھیجئے ‘‘ مولوی صاحب نے فوراً کہا ’’وعلیکم السلام‘‘ اوربچہ کی بروقت تنبیہہ سے بہت خوش ہوئے اوردعائیں دینے لگے۔

تقریر وقرأت

آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم فرمایا اورچھ سال کی عمر میں ماہ ربیع الاول شریف میں عید میلاد النبی (ﷺ) کے موضوع پر ایک بڑے مجمع میں تقریر فرمائی۔

ہدایۃ النحو

آپ نے صر ف آٹھ سال کی عمر میں ’’فن نحو‘‘ کی مشہور درسی کتاب ’’ہدایۃالنحو‘‘پڑھی ۔ اس کی خداداد ذہانت کایہ عالم تھا کہ اس نے اس ننھی سی عمر میں ہی ’’ہدایۃ النحو‘‘ کی عربی میں شرح بھی لکھ دی ۔حافظہ اورعقل وفہم کایہ حال تھا کہ کتاب کاصرف چوتھائی حصہ استاد سے پڑھتے باقی خود سنا دیتے ۔

تیرہ برس

کی مختصر سی عمر  ۱۲۸۲؁ھ میں اس نوعمر بچہ نے والد ماجد سے درسیات کی تکمیل کی اور۱۳ سال ۱۰ ماہ ۵ دن کی عمر میں صرف ونحو ،ادب ،حدیث ،تفسیر ،کلام ، فقہ ،اصول ،معانی وبیان ،تاریخ ، جغرافیہ،ریاضی،منطق،فلسفہ،ہیئت وغیرہ جمیع علوم دینیہ ،عقلیہ ونقلیہ کی تکمیل کرکے ۱۴ شعبان المعظم ۱۲۸۶؁ھ کوسند فراغت حاصل کی اوردستار فضیلت زیب سر فرمائی اوراسی روز سب سے پہلا فتویٰ لکھا۔

سبحان اللہ

کیا پہچان لیا ہے آپ نے اس بچہ کو جس نے ننھی سی عمر میں اپنے پہلے ہی روزہ پر کمال تقویٰ و استقامت کامظاہرہ کیا ،جس نے بازاری عورت کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ نظر بہکتی ہے تودل بہکتا ہے ۔دل بہکتا ہے توستر بہکتا ہے ،جس کی زبان پر استاد کی غلطی رواں نہ ہوئی ۔جس نے اُستاد صاحب کو سلام کاصحیح جواب دینے کی توجہ دلائی۔جس نے چار سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا، جس نے چھ سال کی عمر میں تقریر فرمائی۔جس نے آٹھ سال کی عمر میں نہ صرف ’’ہدایۃ النحو‘‘ کوپڑھ لیا بلکہ اس کی عربی شرح بھی لکھ ڈالی ۔جس نے تیرہ سال کی نوعمری وحالت ِنابالغی میں تمام درسیات کی تکمیل کی۔اوراسی روز فتویٰ نویسی کا آغاز فرمادیا۔سبحٰن اللّٰہ وبحمدہ سبحٰن اللّٰہ العظیم۔
اگر آپ نے اس نہایت ہونہار اورہر لحاظ سے لائق وفائق بچہ کو پہچان لیا ہے تو فبہاورنہ اس کانام سن کر تودنیا بھر میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ایسا ہوجو اسے پہچانتا نہ ہو۔بہرحال اگر آپ اب تک نہیں پہچان سکے تو سن لیجئے۔اس کانام ہے ۔’’عبدالمصطفیٰ محمد احمد رضا خاں بریلوی‘‘ 
جسے قدرت نے تحفظ ناموس رسالت وتجدید دین اورمسلمانوںکے ایمان کی حفاظت کے لئے سرزمین بریلی میں پیدا فرمایا اورشروع سے ہی بچپن میں اسے بڑی تیزی کے ساتھ جلدی جلدی کامیابی کے تمام مراحل طے کرادیئے اورمنصبِ امامت وقیادت پر فائز کر دیا۔اس بچہ کو قدرت نے عالم اسلام اورخاص کر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بریلی شریف میں پیدا فرمایا ۔یہ وہی تھا جو آگے چل کر دنیا ئے اسلام کی ایک عظیم عبقری شخصیت بن کرابھر اجس کو علمائے عرب وعجم نے ’’مجدددین وملت‘‘ کہا وہ امام احمد رضا جنہوں نے سب سے پہلے اُس وقت ’’دوقومی نظریہ‘‘کاپرچا ر کیا۔جب قائد اعظم اورعلامہ اقبال بھی متحدہ قومیت کے حامی تھے۔وہ امام احمد رضا۔ایسے عالم کہ وہ کون سا علم ہے جوان کو نہ آتا ہو اوروہ فن ہی کیا ہے جس سے وہ واقف نہ ہوں۔وہ امام احمد رضا ۔ایسے مفتی کہ ان کے ’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ کی چند جلدیں مطالعہ کرنے کے بعد شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؔ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’میں نے دور آخر میں ان (مولانا احمد رضا خاں )جیسا فقیہ نہیں دیکھا۔مولانا جو رائے ایک بار قائم کرلیتے ہیں ۔اُسے دوبارہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔کیونکہ وہ اپنا موقف ہمیشہ خاصی سوچ و بچار کے بعد اختیار کرتے ہیں ۔(سرِ عشق رسول  (ﷺ )کی وجہ سے)ان کی طبیعت میں شدت نہ ہوتی تووہ اپنے دور کے امام ابوحنیفہرحمۃاللہ علیہہوتے ۔وہ امام احمد رضا ۔جنہیں دنیا آج اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت فاضلِ بریلوی کے نام سے یاد کرتی ہے ۔

ولادت

آپ نے ۱۰؍ شوال المکرم  ۱۲۷۲؁ھ/ ۱۴ ؍جون ۱۸۵۶؁ء بوقت ظہر اس دنیائے فانی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا۔والدِ ماجد مولانا نقی علی خان علیہ الرحمۃ نے آپ کا نام ’’محمد‘‘ تجویز فرمایا اور جد امجد مولانا رضا علی خان علیہ الرحمۃ نے ’’احمد رضا ‘‘ اورتاریخی نام ’’المختار‘‘رکھاگیا جس سے آپ کاسنِ ولادت  ۱۲۷۲؁ھ برآمد ہوتا ہے ۔حضور رحمت عالم (ﷺ)کی سچی غلامی پر فخر کرتے ہوئے آپ اپنے نام سے پہلے ’’عبدالمصطفیٰ‘‘کااضافہ کرکے یوں لکھا کرتے تھے۔’’عبدالمصطفیٰ احمد رضاخاں‘‘ آپ کی پیدائش کے ساتویں روز 
آپ کاعقیقہ مسنونہ ہوا۔اسی دن آپ کے جدا مجد مولانا رضا علی خان علیہ الرحمۃ نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر تھی کہ یہ فرزند ارجمند فاضل وعارف ہوگا ۔

تبحرعلمی

آپ کو علوم درسیہ کے علاوہ علوم جدیدہ و قدیمہ پرمکمل عبور حاصل تھا۔حیرت کی بات ہے کہ ان میں بعض علوم ایسے ہیںجن میں کسی استاد کی رہنمائی حاصل کئے بغیر آپ نے اپنی خداداد صلاحیت وذہانت سے خود ہی کمال حاصل کیا ۔ایسے تمام علوم وفنون جن پرامام احمد رضا کومکمل عبور حاصل تھا ۔جدید تحقیق کے مطابق کم وبیش ستر(۷۰) ہیں اوران میں کئی فن توایسے ہیں کہ دور جدیدکے بڑے بڑے محققین اورعالم انہیںجاننا تودرکنار شاید ان کے ناموں سے بھی آگاہ نہ ہوں۔

حفظِ قرآن

آپ نے صرف ایک ماہ میں پورا قرآن مجید حفظ فرمایا۔ہوایوں کہ بعض حضرات آپ کے نام سے پہلے لفظ’’حافظ‘‘ بھی لکھ دیا کرتے تھے۔آپ کو اس کابڑا احساس ہوا ۔ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ’’حافظ‘‘نہیں مگر لوگ مجھے’’حافظ ‘‘ لکھ دیتے ہیں ۔لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ وہ غلط ثابت ہو۔رمضان شریف کا مہینہ آیا تو روزانہ ایک سپارہ حفظ کرنا شروع کردیا ۔وہ اس طرح کہ روزانہ دن میں ایک سپارہ کا دور فرماتے اوررات کو تراویح  میںسنادیتے۔اس طرح آپ آخر ی رمضان المبارک کوتیسویں سپارے کادورفرمارہے تھے۔آپ نے صرف ایک مہینہ میں پورا قرآن مجید حفظ فرماکر سارے حفاظ کا ریکارڈ توڑ دیا۔یہ خدا کا خاص انعام تھا اورآپ کے حافظہ کی کرامت۔

تصانیف

آپ نے مختلف علوم وفنون پر تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ کتابیں تصنیف فرمائیں اور علوم ومعارف کے وہ دریائے بہائے کہ جن سے تشنگانِ علم رہتی دنیا تک سیراب ہوتے رہیں گے آپ کے تبحر علمی کا اعتراف آپ  کے مخالفین نے بھی کیا ہے۔اورتحدیث نعمت کے طور پر خود 
فرمایا ہے   ؎
    ملک سخن کی شاہی تم کورضاؔ مسلم !     
جس سمت آگئے ہوسکے بٹھادیئے ہیں

 حاضریٔ حرمین

آپ پہلی بار  ۱۲۹۵؁ھ/ ۱۸۷۸؁ء میں اپنے والد ماجد مولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمۃ کی معیت میں زیارتِ حرمین شریفین کے لئے تشریف لے گئے ۔ اس سفر مبارک میں جب مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے توایک نظم تحریر فرمائی جوواردات وکیفیات قلبیہ کی آئینہ دار ہے۔جس کے حرف حرف سے بوئے محبت پھوٹ پھوٹ برستی نظر آتی ہے اوراس کامطلع مشہور ہے   ؎
 حاجیو آئو شہنشاہ کا روضہ دیکھو
 کعبہ تو دیکھ چکے کعبہ کاکعبہ دیکھو
دوسری بار حاضری ۱۳۲۳؁ھ میں نصیب ہوئی۔والحمدللّٰہ علٰی ذلک

تبصرۂ اویسی غفرلہٗ

اس طرح ہزاروں بچے تاریخ کے اوراق پلٹنے سے مل سکتے ہیں جو ماں باپ کی تربیت اوران کی ازلی نیک بختی سے بعد کو وقت کے غوث،قطب ،ابدال اورمجدد ومحقق بنے ۔آج بھی ایسا ناممکن نہیں بلکہ عین حقیقت ہے کہ بچپن سے نیک تربیت کااہتما م کیا جا ئے تووہ نیک تربیت ضرور رنگ لائے گی۔

Previous Post Next Post