ماہ تابِ چرخِ بریلی: علامہ سبطین رضا خان قادری علیہ الرحمہ
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
(یوم وصال پر خصوصی تحریر)
مرکزِ علم و فن بریلی شریف کا اختصاص خدمتِ علمِ دین، احقاقِ حق، ابطالِ باطل اور حفظِ ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے۔ صدیاں گزر گئیں، بریلی کا کشورِ علم درخشاں ہے آج بھی، اس کی زمیں سے اُٹھنے والا ہر ذرہ آفتاب و ماہ تاب بن کر چمکا۔ خانوادۂ اعلیٰ حضرت کا یہ تفرد رہا کہ اس کا ہر فرد اشاعتِ دین کے لیے سرگرمِ عمل اور شریعت کی حفاظت کے لیے پیکرِ استقامت بن کر ایمان وعمل کی فصل کو سرسبز وشاداب کرتا رہا۔
خانوادۂ اعلیٰ حضرت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کو عشقِ رسول، شعرو سخن میں مہارت و ادبی بصیرت کی وجہ سے ممتاز مقام حاصل ہے، آپ کی شاعری مسلکِ اہلِ سنت کی ترجمان اور حق کی آئینہ دار ہے، جس میں شرعی التزامات بھی ہیں اور فقہی رعایت بھی، فنی مہاکات بھی ہیں اور لوازمِ شعری بھی جس سے کلام میں زورِ بیان اور احساسات کی چمک بڑھ گئی ہے۔ آپ کے فرزند علامہ حسنین رضاخان قادری؛ اعلیٰ حضرت کے تلمیذ و خلیفہ تھے۔ صحافی اور ادیب تھے۔ مسندِ افتا کے ساتھ درس و تدریس کی بزم کے ماہ تاب تھے۔ انھیں کے لائق و فائق فرزند تھے حضرت مفتی محمد سبطین رضاخان قادری بریلوی، جنھیں دنیاے اہلِ سنت ’’امینِ شریعت‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
۹؍نومبر کی سہ پہر یہ رُوح فرسا اطلاع ملی کہ نبیرۂ استاذِ زمن حضرت امینِ شریعت رحلت فرما گئے۔ یقیں نہ آیا۔ بریلی شریف تحقیق کی۔ معلوم ہوا کہ اطلاع درست ہے۔ اِمسال کئی نادرِ روزگار ہستیاں ہم سے رُخصت ہو گئیں۔مختلف میادین میں جن کی خدمات کے اشجار بار آو ہوئے۔ حضرت مولانا ابوداؤد محمد صادق رضوی شاگردِ رشید محدث اعظم پاکستان، حضرت مولانا مشہود رضاخان حشمتی پیلی بھیتی، مفتی محمدیامین رضوی(شیخ الحدیث جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس)، منصورِ ملت علامہ منصور علی خان قادری(جنرل سکریٹری سنی جمعیۃالعلماء ممبئی)وغیرہم۔ ان کی رحلت سے اہلِ سنت پہلے ہی نڈھال تھے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ پُر بھی نہ ہو سکا کہ بریلی شریف کے موجودہ اکابر میں نمایاں شخصیت وصالِ حق سے مشرف ہو کرہم سے رُخصت ہوگئی۔
کچھ مدت گزری کہ آپ کے خانوادے کے دو معتبر آفتاب رُوپوش ہوئے۔ علامہ تحسین رضاخان قادری علیہ الرحمہ ایک حادثے میں منزلِشہادت پر فائز ہوئے، علامہ مفتی حبیب رضاخان بھی رُخصت ہو گئے۔ پھر حضرت امینِ شریعت کا وصال مزید صدمات کا موجب بنا۔آپ کی ذات بیک وقت متعدد خصوصیات کی حامل ہے۔ مختلف اعتبارات سے آپ کی علوے شان اور رتبۂ بلند سے اہلِ سنت بخوبی آگاہ ہیں۔ ان میں چند تو یہ ہیں۔
[۱]آپ کی تربیت میں والد ماجد کے ساتھ خصوصی فیض حضور مفتی اعظم کا رہا ہے۔
[۲]فقہی بصیرت موروثی ہے، علم الفقہ میں مہارت و بصیرت کا یہ عالَم کہ دارالافتاء بریلی کا قدیم وقار قائم رکھنے میں آپ کا بھی عمل دخل ہے۔
[۳]تاج الشریعہ جیسی عبقری شخصیت کی نگاہ میں آپ کی ذات کو درجۂ اعتبار حاصل تھا۔
[۴]سلسلۂ قادریہ کی عظیم پیمانے پر اشاعت، صفائیِ قلب ونظر کے لیے تگ ودو۔روحانی مسائل میں رہ نمائی وغیرہ۔
[۵]بنجر علاقوں میں ایمان وعمل کا صالح انقلاب بڑا کارنامہ ہے۔
[۶]شریعت پر بے پناہ استقامت وتصلب یقینی طور پر کسی کرامت سے کم نہیں۔
[۷] مصلحت کی جگہ ’’استقامت‘‘اہم ترجیحات سے ہے۔اعلاے کلمۃالحق کے لیے کسی کی پروا نہ کرنا استقامت فی الدین کا عملی مظاہرہ ہے۔
[۸]صیانتِ دین کے لیے ترکِ دُنیا اور ظاہری کروفر کو خاطر میں نہ لا کر صدق و سچائی کا اظہار ہر ایک کے حصے میں کہاں! یہ وصف امینِ شریعت کا خاصہ تھا۔
[۹]جاں نثار مریدین بھی ہوں، اہلِ محبت کا ہجوم ہو، اہلِ دول ہر آن سب کچھ وارنے کو تیار ہوں؛ ایسے ماحول میں نفس کو تج دے کر شریعت کی خاطر زندگی گزارنا کسی جہاد سے کم نہیں، یہی تقویٰ آپ کا خاص وصف ہے۔
[۱۰]درس و تدریس کے ذریعے بریلی کے علمی مزاج کی برقراری،ذوقِ اشاعتِ علم دین کی تسکین بھی اہم خوبی ہے، یہی وجہ ہے کہ تلامذہ کی بڑی تعداد موجود ہے۔
آپ کے بھائی علامہ تحسین رضاخان کا بھی یہی معاملہ تھا کہ ان کی مقبولیت شہادت کے بعد دُنیا نے دیکھ لی۔ خلقت کا وہ ہجوم کہ لاکھوں دیوانہ وار موجود ہوئے۔ مقبولیت ایسی کہ کسبی نہیں، وہبی تھی۔ اﷲ نے دلوں میں عظمت ڈال دی۔ گویا کارکنانِ قضا وقدر سے ندا کرادی گئی کہ وصل کا جام پینے والا محبوبیت کے مقام پر فائز ہے۔ دلوں میں محبت کا دریا موج زَن کردیا۔ یہی مقبولیت حضرت امینِ شریعت کو عطا ہوئی اور آپ کی ذات چہار جانب دَمک رہی ہے۔
حضرت امین شریعت کی تقویٰ شعار زندگی در اصل دعوتِ فکروعمل ہے۔ بندہ جب آخرت کے لیے جیتا ہے اور دُنیا میں مقصدِ تخلیق کی تکمیل میں کوشاں رہتا ہے تو بلاشبہہ وہ اعلیٰ حضرت کے اس شعر کی کنہ پا لیتا ہے
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
ﷲ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
اسی کے مصداق حضرت امین شریعت کا جینا اور مرنا تھا۔ آپ نے ہمیشہ عملی جہت اپنائی۔ سنتوں کا التزام، فرائض واحکام کا اہتمام اور مصالحت و پالیسی کی جگہ حکمت و سچائی کو ترجیح دی۔یہ فکر آپ کو اہلِ سنت کے مابین مدتوں زندہ رکھے گی۔
قرطاس وقلم سے بھی وابستگی تھی۔ خاندانی علمی خزینوں کے امین تھے۔ خانوادۂ رضا کی وراثتوں کے نقیب تھے۔ تاج الشریعہ کے مشن ’’اشاعت حق وصداقت‘‘ کے معاون تھے۔ گستاخِ رسول کے لیے کبھی مداہنت نہیں کی بلکہ آپس میں نرم خو اور باطل کے لیے حسامِ بے نیام تھے۔ اور اس شعر کے حقیقی مصداق بھی
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم گاہِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اﷲ کریم امینِ شریعت کی امانتوں کے وارث وامیں علامہ سلمان رضاخان قادری کو آپ کا صحیح جانشین و نائب بنائے۔ اور آپ کے ذریعے دین وسنیت کی بیش از بیش خدمات لے اور آپ کے توسط سے سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہو۔ اہلِ سنت بالخصوص خانوادۂ رضا کو نعم البدل دے تاکہ ’’مشن‘‘ کی طرف سفرمزید خوش گواری کے ساتھ جاری رہے۔اﷲ کریم آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور خدماتِ دینیہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔آمین بجاہِ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
Post a Comment