Biography Rumi|Maulana Jalaluddin Rumi (R.A) Full History & Documentary Explained in Urdu & Hindi مولائے روم شیخ جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ

 اسلام کی بدولت دنیا کو کئی ایسی ہستیاں نصیب ہوئیں جن کے قراٰن و سنّت سے معمور زندہ جاوید اَفْکار، متأثرکُن کردار اور دل کی کیفیت بدل دینے والی تصانیف و تالیفات اور اَشعار  نے ہر دور میں انسانیت کی راہنمائی کی، ان میں سے ایک ہستی حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی بھی  ہے۔



 نام و نسب آپ کا نام ”محمد“ لقب ”جلالُ الدّین“ ہے جبکہ شہرت ”مولانا رُوم“کے نام سے ہے۔ آپ کی ولادت 6ربیعُ الاَوّل 604ہجری بمطابق 30 ستمبر 1207 عیسوی کو بَلْخ میں ہوئی۔ آپ  کا سلسلۂ نسب  امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔(نفحاتُ الانس، ص484، الجواھرالمضیہ،ج 2،ص124)


تعلیم و تربیت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت والدِ گرامی حضرت مولانا بَہاءُالدّین محمدصِدِّیقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمائی، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد کے ساتھ بغداد آئے یہاں قیام کے دوران فِقہِ اَربَعَہ کی تَروِیج و اِشاعت کے لئے قائم مَدْرَسَۂ مُسْتَنْصِرِيَّة میں آپ کی علمی نشو و نما ہوئی۔(البدایۃ والنھایۃ، ج9،ص41، الجواھر المضیہ،ج 2،ص124وغیرہ)


عملی زندگی جب والدِ گرامی قُونِیَہ (ترکی) میں مستقل طور پر مقیم ہوگئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بھی یہیں مستقِل رہائش اختیار کرلی، والدِ ماجد کے وصال کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قُونِیَہ کے مدارس میں تدریس  فرماتے رہے۔


شرفِ بیعت حضرت مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی علیہ رحمۃ اللہ القَوی حضرت سیّدنا شمسُ الدّین محمد تبریزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے دستِ اقدس پر بیعت تھے۔(الجواھر المضیہ،ج 2،ص124)


 دینی خدمات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی شریف“ کو عالَم گیر شہرت حاصل ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے۔


آخری وصیت مولانا جلالُ الدّین رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری وصیت  یہ فرمائی : میں تم کو وصیت کرتا ہوں  کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن  میں ڈرتے رہو،کھانا تھوڑا کھاؤ،کم سو، گفتگو کم کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو،رات  کا قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،لوگوں  کا ظلم  برداشت کرو  ، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس  ترک کردو،نیک بختوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔بہتر کلام  وہ ہے  کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔ (نفحات الانس،ص488)


وصال آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال 5جُمادَی الاُخریٰ 672ھ بمطابق 17دسمبر 1273ء کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک تُرکی کے شہر قُونِیَہ میں ہے۔(الجواھر المضیہ،ج 2،ص124وغیرہ)


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


*ذمہ دار شعبہ فیضان اولیا و علما، المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی 



مولائے روم شیخ  جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ

نام ونسب:اصل نام محمد،لقب جلال الدین اورمولائے روم تھا ۔جواہر مضیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے ! محمد جلال الدین بن محمدبہاؤالدین  بن محمد بن حسین بلخی  بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق۔ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)

تاریخ ِولادت:  مولائے روم۔ ۶۰۴ھ مطابق  ۱۲۰۷ءمیں پیدا ہوئے۔

تعلیم وتربیت:ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد شیخ بہاؤ الدین سے حاصل کی  پھر انہوں نے  اپنے مرید سید برہان الدین کو مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ ۶۳۹ھ میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ان کے علاوہ عالمِ اسلام کی عظیم ہستیوں شیخ سعدالدین حموی ، شیخ محی الدین ابن عربی ،شیخ شہاب الدین سہروردی،شیخ عثمان رومی ،شیخ اوحدالدین کرمانی ،شیخ صدرالدین قونوی (علیہم الرحمۃ والرضوان)سے اکتساب فیض کیا۔ یہاں تک کہ ۶۰۴ھ میں پیدا ہونے والا یہ مولودِ مسعود ۲۶ سال کی عمر میں مرجع خلائق بن گیا اور بڑے بڑے علما انکی طرف رجوع کرنے لگے۔

بیعت وخلافت: اپنے والد صاحب کے وصال کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلق سید برہان الدین سے قائم کرلیا تھا۔ چنانچہ مثنوی میں مولانا نے ان کا تذکرہ اپنے پیر  کی حیثیت سے کیا ہے۔جواہر مضیہ کی روایت کیمطابق شیخ شمس الدین کو ان کے مرشد بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ روم جاؤ وہاں ایک سوختہ دل ہے اس کو گرماؤ۔مولائے روم آپکی شخصیت وتعلیمات سے ایسے متأثر ہوئے کہ آپکے دست حق پرست پر بیعت ہوگئے۔

سیرت وتعلیمات:مولانا پر بچپن ہی سے سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔جب خواجہ فرید الدین عطار مولائے روم کے والدشیخ بہاؤ الدین سے نیشاپور میں ملے اس وقت مولائے روم کی عمرتقریباً ۶ سال تھی۔  خواجہ صاحب نے آپکو دیکھ کر شیخ بہاؤ الدین سے فرمایا!‘‘اس صاحبزادے کے جوہر ِقابل سے غفلت نہ برتیے گا یہ مستقبل میں آفتاب ِ شریعت اور ماہتابِ طریقت ہوگا’’۔واقعی ایسا ہوا جیسے خواجہ صاحب  نے فرمایا تھا ۔مولائے روم ،دانائے مغرب ،میں تواضع اور انکساری  اس حد تک تھی کہ ایک راہب نے آپکی انکساری دیکھ کر اپنے رفقاء سمیت اسلام قبول کرلیا ۔ انتقال سے قبل مولانا نے اپنے اصحاب کو وصیت فرمائی !کہ سرًاو علانیۃًً  اللہ سے ڈرتے رہنا، کھانے، سونے اور گفتگو میں کمی کرنا،گناہوں سے دور رہنا، روزے برابر رکھنا، رات کے قیام میں ہمیشگی اختیار کرنا، شہوتوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا، ہر طرح کے لوگوں کی جفاؤں  کو برداشت کرنا،غافلوں  اورجاہلوں کی ہم نشینی سے بچنا ، نیکوں اور بزرگوں سے مصاحبت رکھنا، بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، اور بہترین کلام وہ ہے جو قلیل اور مکمل ہو۔تمام تعریف و توصیف اللہ جل شانہ کیلئے ہے جو عظمت والا ہے اور اس کےمحبوب حضرت  محمد ﷺ پر سلام ہو۔

وصال:تقریباً ۶۶سال کی عمر میں  یک شنبہ ۵/ جمادی الثانی/۶۷۲ھ،مطابق۱۷،دسمبر ۱۲۷۳ء  کو مغرب کے وقت مولائے روم عالمِ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے اور قونیہ کی پاک سرزمین آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

 

Previous Post Next Post