سیدالاولیاء شیخ الکبیرحضرت سید احمدکبیر رفاعی علیہ الرحمۃ
نام و لقب:
السید السند، قطبِ اوحد، امام الاولیاء، سلطان الرجال، شیخ المسلمین، شیخ ِ کبیر، محی الدین، سلطان العارفین،عارف باللہ، بحرشریعت وطریقت ابوالعباس احمد الرفاعی۔اباً حسینی، اُماًّ اَنصاری، مذہبا ً شافعی، بلداً واسطی۔
ولادت :
امام احمد رفاعی بروز جمعرات، ماہِ رجب کے نصف اوّل (15/رجب) کو 512ھ میں مسترشد باللہ عباسی کے زمانہ خلافت میں مقام اُم عبیدہ کے حسن نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ اُم عبیدہ علاقہ بطائح میں واسط وبصرہ کے درمیان واقع ہے۔ آپ کے والدابوالحسن سلطان علی (متوفی:519ھ) بغداد کے سفر پرتھے کہ غیبی بلاوا آپہنچا۔ اور وہیں بغداد میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ ابن مسیب نے آپ کی قبر بہت خوبصورت تعمیرکرائی، اُس کے بغل میں آپ کے نام سے معنون ایک مسجد بھی تعمیر کی۔ بغداد شارعِ رشید پرآپ کا مزار پر اَنوار آج بھی زیارتِ گاہِ خلائق ہے. معمولی سی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ کے ماموں شیخ منصور کی آغوشِ تربیت میں آپ کی نشوو نماشروع ہوئی، جہاں آپ کو زیورِ اَدب اور حلیہ اخلاق سے آراستہ ہونے کا سنہرا موقع میسر آیا۔ پھر آپ کی تعلیم وترتیب کے اُمور علامہ مقری شیخ علی ابوالفضل واسطی کے سپرد ہو گئے، جن کی کامل سرپرستی میں آپ کو جہانِ فقہ وتصوف کی سیر کی سعادت نصیب ہوئی، اور ان کے پاس سے آپ کندن بن کرنکلے۔
نسب:
حضرت سید احمد کبیر ،بن سید علی، بن سید حسن رفاعی مکی الاشبیلی،بن سید احمد اکبر صالح ،بن سید موسی ثانی ،بن سید ابراھیم مرتضی، بن امام موسی کاظم، بن امام جعفر صادق ، بن امام محمد باقر ،بن امام زین العابدین، بن امام حسین ،بن امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجھہ و رضی اللہ عنھم اجمعین۔
تحصیل ِعلم:
آپ نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت مقری شیخ عبد السمیع الحربونی کی بارگاہ سے حاصل کی۔ پھر جب تربیت و تعلیم کے اُمور ابوالفضل واسطی-قدس سرہ العزیز- کے حوالے ہو گئے، اس وقت آپ نے عقلی ونقلی علوم میں ماہرانہ کمال پیدا کیا، اور فضل وکمال کی ہرشاخ پر اپنا آشیانہ بنایا۔ آپکی عمر کی بیس سال تھی کہ اُستاذ و مرشد شیخ الواسطی نے جملہ علوم شریعت وطریقت کی اجازتِ عام عطا فرمادی، اور ساتھ ہی خرقہ پوشی کر کے خلعتِ خلافت سے بھی نواز دیا۔ تاہم آپ نے تحصیل علم کے تسلسل کو برقرار رکھا، اور پوری ذمہ داری ومستعدی کے ساتھ شیخ ابوبکر واسطی کے حلقہ دروس سے خود کو وابستہ رکھا،اور علم شریعت سے پورے طور سے آسودہ ہو کر وہاں سے اُٹھے۔ نیز فقہ کے غوامض ودقائق کی تحصیل اپنے ماموں شیخ منصور بطائحی کے ہاتھوں مکمل کر کے اُن سے اجازت وصول کی۔ جس وقت آپ کے ماموں شیخ منصور کو اپنی زندگی کا چراغ گل ہونے کا اندازہ ہوا توانھوں نے آپ کو بلوا کرشیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کی ذمہ داری نبھانے کاعہد لیا، اور آپ کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔ شیخ احمد رفاعی نے اس قدر تحصیل علم کیا کہ آپ بیک وقت عالم وفقیہ بھی تھے، قاری ومجود بھی، مفسرو محدث بھی تھے اور دین کی اعلیٰ قدروں کی نشرواشاعت کرنے والے عظیم مجاہد بھی۔ فقہ میں آپ امام شافعی کے مذہب کے مقلدتھے۔
سیرت وکردار:
سیرت و کردارمیں آپ اپنے جدامجدسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کامل نمونہ تھے۔ سنت وشریعت کی اسی پیروی نے آپ کو اپنے زمانے ہی میں شہرت وعظمت کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز کر دیا تھا۔ مؤرخین نے آپ کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اور اَرباب فکروقلم نے آپ کے فضائل ومناقب میں قلم توڑ توڑ دیا ہے۔آپ رمزتصوف اور رازِ طریقت آشکار کرتے ہوئے کبھی کبھار فرمایا کرتے تھے:
"ما رایت أقرب ولا أسہل طریقاً إلی اللّٰہ من الذل والافتقار والانکسار بتعظیم أمر اللّٰہ والشفقۃ علی خلق اللّٰہ والاقتداء بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم"
یعنی میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کا اِس سے زیادہ سہل اور قریب ترین کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ رضاے الٰہی کی خاطر تواضع وانکسار اِختیار کی جائے، خلق خدا کے ساتھ لطف ونرمی سے پیش آیاجائے، اورسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی پیروی میں زندگی کا سفرطے کیا جائے۔
خدمت خلق کا عنصر آپ کی حیاتِ طیبہ میں بہت غالب نظر آتا ہے۔ اگر کسی بیمار کا سن لیتے تو وہ خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ سکونت پذیر ہو، اس کی عیادت کے لیے ضرور جاتے تھے۔ اور(بعدِ مسافت کے باعث) ایک دو دن کے بعد اُدھر سے لوٹتے تھے۔ نیز عالم یہ تھا کہ راستے میں جا کر اندھوں کی آمد کا اِنتظار کرتے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں منزل تک پہنچائیں۔ اور جب بھی کوئی بزرگ دیکھتے، انھیں علاقے تک پہنچا آتے، اور اہل علاقہ کو نصیحت فرماتے کہ لوگو! میرے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے : من أکرم ذا شیبۃ یعنی مسلماً سخر اللّٰہ لہ من یکرمہ عند شیبتہ۔ یعنی جس نے کسی بوڑھے مسلمان کی خدمت وتکریم کی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے اپنے بڑھاپے میں کسی کو اُس کا سہارا اور خدمتی بنا دے گا۔ ایک مرتبہ اپنے سلسلے کا نشانِ امتیاز بیان کرتے ہوئے فرمایا : طریقنا طریق نقی وإخلاص فمن أدخل فی عملہ الریاء والفجور فقد بعد عنا وخرج منا۔ یعنی ہمارا طریقہ مبنی بر اِخلاص، اور بالکل صاف و شفاف ہے، لہٰذا یاد رہے کہ جس کے عمل سے ریاونمود اورفسق وفجورکی بوآنے لگے، پھر اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اوراس کا قدم ہمارے دائرہ طریق سے باہر نکل چکا ہے۔ طریقی دین بلا بدعۃ، وھمۃ بلا کسل، وعمل بلا ریائ، وقلب بلا شغل، ونفس بلا شہوۃ۔ یعنی میرا طریقہ یہ ہے کہ دین میں بدعت کی آمیزش نہ ہو۔ ہمت سستی پر غالب ہو۔ عمل ریا سے پاک ہو۔ (یادِ محبوب میں محویت کے باعث) قلب دیگر مشغولیات سے آزاد ہو۔اور نفس شہوت کے بکھیڑوں سے دور ہو۔
سیّدنا امام رفاعی کی سخاوت
حضرت شیخ عبدا لصمد حَربونی جو کہ َرواق (شہر) میں اوقافِ احمدی کے ذمہ دار تھے وہ فرماتے ہیں کہ 567ھ میں حضرت (سیّدنا) امام احمد رفاعی کے کھیت اور آپ کے رواق میں موجود اوقاف سے سات لاکھ دیوانی چاندی کے درہم اور بیس ہزار سونے کے ٹکڑے حاصل ہوئے اور اسی سال آپ کے لئے مختلف شہروں سے اَسّی ہزار چادریں ، پچاس ہزار تمشکۃ (رومال وغیرہ) بیس ہزار عجمی اونی کمبل، بتیس ہزار کاٹن کے عمامے اور گیارہ ہزار سونے کے دوافقی ٹکڑے آئے اور سات لاکھ ہندی چادریں آئیں اور اسی دن آپ نے رواق کی نہر کے کنارے اپنے کپڑوں کو دھویا اور اپنی ستر پوشی اپنے رومال سے فرمائی اور رواق میں آپ کی الماری میں ایک بھی درہم نہ تھا جو کچھ آپ کو حاصل ہوا تھا وہ سب آپ نے کمزوروں پر صدقہ کر دیا، یا مستحقین، سائلین اور فقراء و مساکین کو دیدیا۔ (سیرت سلطان الاولیاء ، ص۶۹ بتصرف)
شیخ ِ اجل کیلئے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ نمودار ہوا :
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری نسیم الریاض شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں !
کان الشیخ احمد بن الرفاعی کل عام یرسل مع الحجاج السلام علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلما زارہ وقف تجاہ مرقدہ وانشد:
؎
فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا تقبل الارض عنی فھی نائبتی
وھذہ نوبۃ الاشباح قد حضرت فامدد یدیک لکی تحظی بھا شفتی
فقیل ان الید الشریفۃ بدت لہ فقبلھا فھنیئا لہ ثم ھنیئا ۱؎۔
ترجمہ:
یعنی امام اجل قطب اکمل حضرت سید احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر سال حاجیوں کے ہاتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام عرض کربھیجتے ،جب خود حاضر آئے مزار اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی:
""میں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا کہ میری طر ف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی، اور اب باری بدن کی ہے۔ کہ جسم خود حاضر ہے دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب ا س بسے ہرا پائیں۔ کہا گیا کہ دست اقدس ان کے لئے ظاہر ہوا انھوں نے بوسہ دیا تو بہت بہت مبارکی ہو ان کو۔
(۱؎ فتاویٰ رضویہ ۔ج،۲۲بحوالہ ۔نسیم الریاض شرح الشفاء فصل ومن اعظامہ واکبارہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالفکر بیروت ۳/ ۴۴۲)
تصنیفات و تالیفات:
سیداحمد رفاعی نے توحیدوتصوف اوراخلاقِ حمیدہ پر مشتمل بہت سی مفیدو گراں قدر کتابیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب کشف الظنون میں بعض کا ذکر کیا ہے، جب کہ کچھ کا ذکر سید محمد ابوالہدیٰ الصیادی کی تصنیف میں ملتا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق شیخ الرفاعی کی تصانیف حسب ذیل ہیں :
البرہان المؤید،
الحکم الرفاعیۃ،
الأحزاب الرفاعیۃ،
النظام الخاص لأھل الاختصاص،
الصراط المستقیم فی تفسیر معانی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم،
الرؤیۃ، الطریق إلی اللہ
العقائد الرفاعیۃ،
المجالس الأحمدیۃ،
تفسیر سورۃ القدر،
حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللّٰہ،
الأربعین،
شرح التنبیہ،
رحیق الکوثر،
البہجۃ فی الفقہ۔
اس میں کچھ تومطبوعہ ہیں، بعض تاہنوز مخطوطہ ہیں، اور بیشتر فتنہ تا تار یہ کی نذر ہو گئیں۔
وصال:
66سال کی عمر پا کر جمعرات 12/جمادی الاولی 578ھ کوشریعت وطریقت کا یہ آفتاب عالم تاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اپنے دادا شیخ یحییٰ بخاری کے گنبد تلے عراق کے مقام اُم عبیدہ میں مدفون ہوئے، جو زیارت گاہِ ہرخاص وعام ہے
صاحب ِ خزینۃالاصفیاء فرماتے ہیں!
سیدالاولیاءحضرت شیخ ِکبیرسید احمدکبیر رفاعی علیہ الرحمۃ
اپنے زمانے کے شیخ الوقت اور امام الاولیأ تھے۔ بڑے عابد و زاہد، عالم فاضل اور صاحبِ کشف و کرامت تھے۔ آبائی نسبت امام علی بن موسیٰ کاظم سے ہے۔ نسبتِ خرقہ پانچ واسطوں سے حضرت شیخ شبلی تک منتہی ہے۔ حضرت غوث الاعظم سے بھی فیوض و برکات حاصل کیے ہیں۔ حضرت غوث الثقلین نے ان کی ہمشیر کو اپنی بہن کہا تھا اس لیے آپ انہیں اپنا خواہر زادہ سمجھتے تھے۔ ایک روز شیخ احمد رفاعی کے بھانجے شیخ ابوالحسن اِن کے حجرے کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر نظر کی تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ حیران رہ گئے کہ یہ کس راستے سے اندر آیا ہے۔ چند ساعت تک وہ شیخ سے ہم کلام رہا۔ جب فارغ ہوا تو جو روزنِ دیوارِ خلوتِ شیخ میں تھا اُس میں سے برقِ خاطف کی طرح نکل گیا۔ شیخ ابوالحسن کہتے ہیں میں یہ حال دیکھ کر خدمتِ شیخ میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ یہ کون شخص تھا۔ فرمایا: ‘‘تُونے اسے دیکھا ہے’’ کہا ہاں۔ فرمایا: یہ شخص رجال الغیب سے تھا۔ تین روز ہوئے بارگاہِ کبریائی سے مہجور (یعنی معزول) ہوگیا ہے۔ میں نے سبب پوچھا۔ فرمایا: ایک روز جزأر بحرِ محیط میں جہاں یہ مقیم ہے۔ دو تین روز بارش ہوتی رہی اس کے دل میں خیال گزرا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ بارش آباد زمین پر ہوتی اور خلقِ خدا کو اس سے پُورا نفع ہوتا۔ اپنے خیال کی وجہ سے بارہ گاہِ رب العزّت سے مہجور ہوگیا ہے۔میں نے کہا: آپ نے اسے اس حال سے خبر کیوں نہ دی۔ فرمایا: شرم آئی کہ اس کے سامنے اُس کی معزولی کا حال بیان کروں۔ میں نے کہا: اگر آپ فرمائیں تو اسے اس حال سے مطلع کروں۔ فرمایا: کرسکتا ہے۔ کہا: کیوں نہیں؟ فرمایا: اپنا سر گریبان میں ڈالو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ایک لمحہ کے بعد آواز آئی۔ اے ابوالحسن! سر اٹھا اور آنکھیں کھول۔ جب سر اٹھایا اور آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں بحرِ محیط کے جزائر میں سے ایک جزیرے میں ہوں۔ حیران رہ گیا۔ ہمت کرکے اٹھا۔ ابھی تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ ایک جگہ پر اُس مرد کو بیٹھے ہوئے دیکھا پاس گیا۔ سلام کیا اور سارا قصّہ بیان کیا۔ اس نے مجھے قسم دی کہ جس طرح میں کہوں تم نے اسی طرح کرنا ہے۔ میں نے کہا بسر و چشم۔ اس نے کہا: میرا خرقہ میری گردن میں ڈال اور مجھے زمین پر گھسیٹ اور یہ کہہ کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو حق تعالیٰ کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے۔ پس میں نے اس کا خرقہ اس کی گردن میں ڈالا اور زمین پر گھسیٹنا ہی چاہتا تھا کہ ندائے غیب آئی: اے ابوالحسن اسے چھوڑ دے۔ ملائکہ زمین و آسمان پر گریہ زاری کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے۔ میں نے جب یہ آواز سنی تو بے خود گیا۔ جب اپنے آپ میں آیا تو دیکھا سیّد احمد رفاعی کے سامنے حاضر ہوں۔میں اپنے آنے جانے پر مطلق آگاہ نہ ہُوا۔
عشق کیاہے؟
صاحبِ مناقبِ غوثیہ حضرت شیخ محمد صادق شیبانی فرماتے ہیں: ایک روز میں حضرت غوث الاعظم کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے اپنے ایک خادم سے کہا: سیّد احمد رفاعی کے پاس جا اور پُوچھ کہ عشق کیا ہے؟ اور اس کا جواب مجھے لاکر دے۔ خادم ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت کا پیغام دیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے ایک آہِ جانکاہ اپنے سینۂ پُر سوز سے کھینچی اور کہا کہ عشق ایک ایسی آگ ہے جو ماسوا اللہ کو جلا ڈالتی ہے۔ اُن کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ جس درخت کے نیچے آپ بیٹھے ہوئے تھے وہ جل اٹھا اور سیّداحمد رفاعی بھی اس کے ساتھ جل کر خاکستر ہوگئے۔ پھر وہی راکھ پانی ہوکر برف کی مانند جم گئی۔ خادم خوف زدہ ہوکر خدمتِ حضرت غوث الاعظم میں حاضر ہوا اور تمام ماجرا بیان کیا۔ فرمایا: پھر اسی جگہ پر جا اور اس جگہ کو بخور و عطر سے معطر کر، جسمِ سید احمد رفاعی اس عالمِ عنصری کی طرف رجوع کرے گا۔ چنانچہ خادم اسی جگہ پر واپس آیا اور حضرت کے فرمودہ کے مطابق اُس جگہ کو معطر کیا۔ ابھی ایک ساعت بھی نہ گزری تھی کہ جو پانی سیّد احمد رفاعی کی جگہ پر جما ہوا تھا اس نے جسم کی صورت اختیار کرلی اور سیّد احمد رفاعی دوبارہ زندہ ہوگئے۔
روایت ہے جو شخص حاجت کے لیے آپ سے تعویذ طلب کرتا آپ اسے تعویذ کردیتے۔ اگر قلم و سیاہی نہ ہوتی تو سفید کاغذ پر ہی اپنی انگلی سے بغیر قلم و سیاہی لکھ دیتے۔ ایک روز ایک شخص بغرضِ امتحان تعویذ کھول کر خدمتِ شیخ میں لایا اور استدعا کی کہ تعویذ لکھ دیجیے۔ جب انہوں نے کاغذ ہاتھ میں لے کر دیکھا تو فرمایا: اے فرزند تعویذ تو اس پر لکھا ہوا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو سادہ کاغذ پر دوبارہ سیاہی سے لکھ دوں۔ اس کاغذ پر حروف بشکلِ خود موجود ہیں۔
ایک روز ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں چاہتا ہُوں کہ آپ کے واسطے سے آتشِ دوزخ سے آزاد ہوجاؤں اور مجھے اسی وقت خطِ آزادی آسمان سے آجائے۔اُسی وقت ایک سفید کاغذ برق خاطف کی طرح آسمان سے آپ کے سامنے آگِرا۔ شیخ نے وُہ کاغذ اٹھا کر سائل کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا: لے آتشِ دوزخ سے یہ تیرا خطِ آزادی ہے اس نے دیکھا تو وہ محض سفید کاغذ تھا۔ عرض کیا: اس پر تو کچھ نہیں لکھا ہوا۔ فرمایا: یہ کاغذ نور سے لکھا ہوا ہے جو دل ہی کی آنکھ سے پڑھا جاسکتا ہے۔
۵۷۲ھ میں وفات پائی۔(یہ مفتی صاحب کی اپنی تحقیق ہے اصل تاریخ جوکہ زیادہ معروف ہے وہ ۵۷۸ ہے۔ادارہ )
قطعۂ تاریخِ وفات:
سیّد احمد رفاعی سرورِ دورِ زماں | شد چو از دنیائے فانی راہیِ خلدِ بریں |
ماخذومراجع:
(۱)خزینۃ الاصفیا۔
(۲)اردو دائرہ معارف اسلامیہ ۔
(۳)فتاوٰی رضویہ ۔
(۴)الشیخ احمد کبیر الرّفاعی (ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی )