Faqih E Millat allama moulana jalaluddin Amjadi تعارف فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی



فقیہ ِملت مفتی جلال الدین احمد  امجدی رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب:اسمِ گرامی:مفتی جلال الدین احمد۔لقب:فقیہِ ملت۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مفتی جلال الدین احمد بن جان محمد بن عبدالرحیم بن غلام رسول بن ضیاء الدین بن محمد سالک بن محمد صادق بن عبدالقادر بن مراد علی۔ رحمہم اللہ تعالیٰ ۔آپ کاتعلق ایک علمی ودیندارگھرانےسےتھا۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت1352ھ،مطابق 1933ء کو ضلع "بستی" کی مشہور آبادی اوجھا گنج میں ہوئی، جو شہر بستی سے بیس کلو میٹر مغرب فیض آباد روڈ سے دو میل جنوب میں واقع ہے۔

تحصیل ِعلم: سات  سال  کی عمر میں  مولانا حافظ زکریاسےناظرہ قرآنِ مجید مکمل کیا  اورپھرحفظ کا شوق ہوا تو تین سال میں قرآن ِ مجید ساڑھے دس سال کی چھوٹی سی عمرمیں حفظ مکمل کرلیا۔پیر زادہ مولانا عبدالباری صاحب اورمولانا عبدالرؤف صاحب سے  فارسی  کی چھوٹی بڑی بارہ  کتب پڑھیں اور عربی کی ابتدائی تعلیم بھی انہیں سے حاصل کی۔مزیدحصولِ علم کےلیۓ"مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم"میں رئیس المتکلمین ملک التحریر حضرت علامہ ارشدالقادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں 24 شعبان المعظم 1317ھ مطابق 19 مئی 1952ء کو  سندِ فراغت حاصل  فرمائی۔آپ فرماتے ہیں:وقت کی قدرکی،اسےضائع نہ کیا۔درسی کتابوں کی شروح و حواشی سےگہرامطالعہ کرنےکےبعد پڑھایا،اساتذہ اوروالدین کوخوش رکھا،ان کی خدمتیں کیں،ان سے دعائیں لیں اوریقین ہوگیاکہ حقیقت میں علم حاصل کرنےکاوقت فراغت کےبعدہےاورزمانۂ طالبِ علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے تو خداتعالیٰ نےمجھےاس منزل پر پہنچا دیا جس کا کبھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ فللہ الحمد۔

شرفِ بیعت: آپ کوزمانۂ طالب علمی سے ہی صدرالشریعہ بدرالطریقہ  حضرت مفتی محمد امجد علی صاحب اعظمی قدس سرہ العزیز سےگہری  عقیدت تھی، اور جب یہ معلوم ہوا کہ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان کے خلیفہ ہیں تو آپ کی  عقیدت اور زیادہ ہوگئی ،چنانچہ 29جمادی الاولی 1378ھ مطابق 1948ء کو  صدرالشریعہ  سے مرید ہوکر سلسلہ قادریہ  رضویہ میں داخل ہوگئے ۔

سیرت وخصائص:محسن اہل سنت،فقیہ ملت،فقیہ العصر،مناظرِ اعظم،مدرس اکمل،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،صاحبِ اوصاف کثیرہ حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمدامجدی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ  اپنے وقت کی ایک عظیم اورجامع شخصیت کے مالک تھے۔آپ کی تصنیفی ،تدریسی ،دینی،ملی،علمی اورتقریری  خدمات اور بالخصوص دینی مدارس کاقیام  جو مسلک حق اور دینِ اسلام کیلۓ روح  کی حیثیت  رکھتے ہیں آپ کی زندگی کےایسے  شاندار کارنامے ہیں جن پر اہلسنت آپ کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے ۔

مدارس یقیناًایک قلعےکی حیثیت رکھتے ہیں،مدارس کااثرمستقل اوردیرپاہوتاہے۔جس علاقےمیں مدرسہ ہوگاوہاں کےلوگوں کااوران کی نسلوں کاایمان محفوظ رہےگا۔بہت سےعلاقےہمارےمشاہدےمیں ہیں کہ وہاں بدمذہبوں نےمدرسےکھولےاورپوری سنی آبادی کوبدمذہب بنادیا۔حضرت فقیہ ملت فرماتے ہیں:" مذہب اہل سنت کی تبلیغ، مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور ضلع بستی وگونڈہ کی بڑھتی ہوئی بد مذہبی کی روک تھام کےلیے حضرت شاہ محمد یار علی صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیر بیشہ اہل سنت قدس سرہ جیسے ساحر البیان مقرر اور مناظر کو ہمراہ لے کر بہت سے دیہاتوں کا دورہ فرمایا جن کی تقریر و مناظرے نے پورے علاقہ میں دھوم مچا دی اور اہل سنت میں نئی روح ڈال دی لیکن چوں کہ تعلیم کے مقابلہ میں تقریر و مناظرہ کا اثر زیادہ دیر پا نہیں ہوتا اس لیے حضرت شعیب الاولیاء کی عین تمنا تھی کہ اس علاقےمیں اہل سنت کےمدارس بنائےجائیں اوران کے تعلیمی معیارکواعلیٰ کیا جائے تاکہ تعلیم خوب عام ہوجائے ۔آپ اپنے تمام مریدین و معتقدین کومدارس کی مددکی تلقین فرماتے تھے۔"(مقدمہ انوارلحدیث،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

ایک اورمقام پرافسوس کےساتھ ارشادفرماتےہیں:درس وتدریس، تالیف اور فتوی نویسی کے ساتھ ہم نے وعظ و تقریر کی بھی کوشش کی اس لیے کہ جاہل عوام کی تبلیغ کے لیے یہی ایک ذریعہ ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ آج کل وعظ و تقریر کے بارے میں ہماری جماعت کا مزاج بہت بگڑ گیا ہے کہ سیرت  النبی ﷺکے مبارک اسٹیج پر فساق و فجار ہر قسم کے شعراء کثرت سے بلائے جاتے ہیں اور گیارہ بارہ بجے تک فلمی ٹھمری وغیرہ ہر قسم کی طرز کے اشعار پڑھے جاتے ہیں،پھرتھوڑی دیر عالم کی تقریر ہوتی ہے اور آخر میں پھر اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ اس طرح تقریر کا جو کچھ اثر ہوتا ہے وہ زائل ہوجاتاہے اور سامعین صرف نغمہ وترنم کا اثر لے کر اپنے اپنے گھر جاتے ہیں۔ بعض جلسوں میں تو اتنے بڑے شعراء بلائے جاتے ہیں جو بڑے بڑے شیخ الحدیث سےبھی بڑے ہوتے ہیں کہ ان سے زیادہ شاعر کی خاطر مدارت ہوتی ہے، لوگ اسے گھیرے رہتے  ہیں اور نہایت ہی اعزاز اور تعظیم و تکریم کے ساتھ اسے رخصت کرتے ہیں۔ میں ایسے جلسوں میں جہاں گویے شاعر حاصل جلسہ ہوں شرکت کرنے سے پرہیز کرتا ہوں کہ مذہبی جلسوں میں مذہبی پیشوا کی ثانوی حیثیت ہونا مذہب اور مذہبی پیشوا دونوں کی موت ہے۔(ایضاًٍ)

علماءومشائخ سےشکوہ:حضرت فقیہ ِ ملت فرماتے ہیں:"ہماری جماعت میں تصنیف و تالیف کی بہت کمی ہے۔ دوسرے لوگ قرآن و حدیث کے ترجمے، ان کی تفسیر تشریح، درسی کتابوں کے شروح و حواشی اور ان کےترجمےتاریخ وسیر اور اخلاق و تصوف وغیرہ ہر علم و فن کی کتابیں لکھنے میں پیش پیش ہیں اور ہم بالکل نہ لکھنے کے برابر اس لیے کہ ہماری جماعت کے اکثروہ جلیل القدر علماء جو تصنیف و تالیف کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اپنا پورا وقت وعظ و تقریر پیری مریدی، میں صرف کرکے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے غفلت برت رہے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ پیری مریدی اور وعظ و تقریر نہ کریں لیکن ان سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ وقت کی ا س اہم ضرورت پر توجہ دیں اور اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر تصنیفی کام ضرور کریں ورنہ سنیت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جائے گا"۔(ایضاً)

آپ مسلکِ حق اہل اہلسنت وجماعت کے فروغ  کیلئے ساری زندگی خلوص وللہیت کیساتھ جدوجہد کرتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ زمانہ آپ کو"فقیہِ ملت"کے نام سے یاد کرتا ہے۔آپ نے حصول علم کیلۓجو مشقتیں برداشت کیں  آج کا طالب ِ علم سوچ بھی نہیں سکتا ۔آپ نے اپنی کتب کےمقدمات میں جوتجربات قلم بند کیے ہیں آ ج کے علماءوطلباء  کو انکا ضرور مطالعہ  کرنا چاہیے ۔

 

وصال:4/جمادی الثانی 1422ھ،مطابق24/اگست2001ءشبِ جمعہ بارہ بجکرپچپن منٹ پر 70سال کی عمر میں اوجھا گنج(انڈیا)میں وصال فرمایا۔

ماخذومراجع:  مقدمہ انوارلحدیث۔

Post a Comment

Previous Post Next Post