سُلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ Hazrat Khwaja Nizamuddin Auliya Ki Walida Majida

 سُلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ 


حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پانچ سال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ، والدہ ماجدہ نے جو اپنے وقت کی ایک بڑ ی صالحہ اورباخدا خاتون تھیں ۔ا س دریتیم کی پرورش اوردینی واخلاقی تربیت کامردانہ ہمت اورپدرانہ شفقت کے ساتھ اہتمام کیا ۔ جب دستار بند ی کا وقت آیا تووالدہ ماجدہ سے آکر کہا کہ اُستاد نے دستار بندی کا حکم فرمایا ہے۔میں دستار کہاں سے لائوں،والدہ ماجدہ نے کہا بیٹا خاطرجمع رکھو میں اس کی تدبیر کروں گی ۔چنانچہ روئی خرید کر اس کو کتوایا اوربہت جلدعمامہ تیار کرکے دیا۔والدہ صاحبہ نے اس تقریب میں علماء وقت کی دعوت کی۔

حضرت خواجہ فرماتے ہیں کہ والدہ صاحبہ کامعمول تھا کہ جس روز ہمارے گھر کچھ پکانے کو نہ ہوتا تو فرماتیں کہ آج ہم سب خدا کے مہمان ہیں۔مجھے یہ سن کر بڑا ذوق آتا ،ایک دن کوئی خدا کا بندہ ایک تنکہ غلہ گھر میں دے گیا۔چند دن متواتر اس سے روٹی ملتی رہی ،میں تنگ آگیا اور اس آرزو میں رہا کہ والدہ صاحبہ کب یہ فرمائیں گی کہ آج ہم سب خدا کے مہمان ہیں آخر وہ غلہ ختم ہوا اوروالدہ صاحبہ نے فرمایا کہ آج ہم خد اکے مہمان ہیں ۔یہ سن کر ایسا ذوق اورسرورحاصل ہوا کہ زبان سے بیان نہیں ہوسکتا۔ایک روز خواجہ صاحب نے والدہ کی قدم بوسی کی اورنئے چاند کی مبارکباد معمول کے مطابق پیش کی ۔فرمایا کہ آئندہ مہینہ کے چاند کے موقع پر کس کی قدم بوسی کرو گے؟میں سمجھ گیا کہ انتقال کا وقت قریب آگیا ۔میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا میں نے کہا      ’’ مخدومہ !مجھ غریب وبے چارے کو آپ کس کے سپرد کرتی ہیں؟‘‘ فرمایا’’ اس کاجواب کل دوں گی۔‘‘میں نے اپنے دل میں کہا،اس وقت کیوں نہیں جواب دیتیں ۔یہ بھی فرمایا :’’کہ جائو رات شیخ نجیب الدین کے یہاں رہو۔‘‘ان کے فرمانے کے مطابق میں وہاں گیا ۔آخر شب میں صبح کے قریب خادمہ دوڑتی ہوئی آئی کہ بی بی تم کو بلارہی ہیں۔میں نے پوچھا خیریت ہے کہا ہاں۔

جب میں حاضرِ خدمت ہوا تو فرمایا کہ کل تم نے مجھ سے ایک بات پوچھی تھی میں نے اس کا جواب دینے کاوعدہ کیا تھا ۔اب میں اس کاجواب دیتی ہوں ، غور سے سنو!فرمایا!’’تمہارادایاں 

ہاتھ کون سا ہے؟ میں نے اپنا ہاتھ سامنے کردیا ،میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اورفرمایا ’’خدایا اس کو تیرے سپرد کرتی ہوں ۔ یہ کہا اور جاں بحق تسلیم ہوئیں ۔میں نے اس پر خدا کا بہت شکر ادا کیا اوراپنے دل میں کہا کہ اگر والدہ سونے اورموتیوں سے بھرا ایک گھر چھوڑ کر جاتیں تومجھے اتنی خوشی نہ ہوتی۔‘‘(  ہفت روزہ’’خدام الدین‘‘لاہور)

تبصرۂ اویسی غفرلہٗ

یہ وہی شہزادہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے لنگرکے ہفتہ میں اونٹ پیازوں کا چھلکا اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ہاں یہ وہی شہزادۂ باکمال ہیں جن کے بیک وقت سات بادشاہ مرید تھے ۔ ہاں جنہیں سلسلۂ چشتیہ میں سلسلہ نظامیہ سے نواز اگیا۔یہ شان ومرتبہ مانا کہ وہبی تھا مانا کہ ان کی محنت وریاضت کوبھی دخل تھا لیکن ماں کی تربیت کوبھی دخل ہے ۔

ہماری اسلامی بہنوں کو بھی اپنے اسلاف کی مائوں سے سبق سیکھنا چاہئے پھردیکھیں کہ تمہاری گود میںبھی ایسے ہیرے موتی نظر آئیںگے ۔(ان شاء اللہ )

کتاب کوضخامت سے بچانے کے لئے یہ دو نمونے عرض کئے ہیں ۔اب چند ننّھے مُنّے بچوں کاذکر کرتا ہوں اوراسی پر کتاب کا اختتام ہے کہ یہ مجاہدین اسلام اوراسلام کے نامور حضرات بھی ’’اچھی مائوں ‘‘کی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔

Previous Post Next Post