Life Story Hazrat Zinda Shah Madar | Badiuddin Zinda Shah Madar Inspirational History & Documentary حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ اولیاء ہند میں کبار مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ بڑی بڑی عجیب و غریب کرامات کا اظہار ہوتا ہے مقامات ارجمند پر فائز تھے۔ حضرت شیخ مدار کی بزرگی احاطہ تحریر میں نہیں آسکتی اخبار الاخیار۔ معارج الولایت۔ تذکرہ العاشقین اور مناقب الاولیاء جیسی کتابوں کی سند سے یہ بات صحیح ہے کہ آپ مقام صمدیت پر فائز تھے۔ بارہ سال تک کھانا نہیں کھایا۔ ایک بار جو لباس پہن لیا وہ کبھی میلا نہیں ہوا۔ آپ اپنے چہرہ منور کو حجاب میں رکھا کرتے تھے۔ ان کے حسن و جمال میں اتنی کشش تھی کہ جو کوئی آپ کو دیکھتا سجدہ میں گرجاتا۔ آپ کا سلسلہ خلافت پیرانِ کبرویہ سے ہوتا ہوا حضرت خاتم الانبیاءﷺ سے ملتا ہے۔

صاحب معارج الولایت نے کشف انعمات کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ شیخ عبداللہ مکی خلیفہ حضرت شیخ طیفور شامی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصاحب تھے کے مرید تھے۔ شیخ طیفور شامی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے معجزانہ کمال سے زندہ رکھا اور انہیں حکم دیا تھا۔ کہ فلاں پہاڑ کی غار میں چھپ رہو ایک وقت آئے گا حضرت محمد رسول اللہﷺ کا ظہور ہوگا ان کے ہاتھ پر بیعت ہونا چنانچہ حضور کے زمانہ میں آپ حاضر دربار رسالت ہوئے اور حضور سے کمالات باطنی حاصل کیے۔

حضرت شاہ بدیع الزماں مدار قدس سرہٗ رسول خدا ﷺ کے اویسی تھے۔ سید اشرف جہانگیر قدس سرہٗ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ شیخ سعداللہ کیسہ دار کنتسوری نے چہار دہ خانوادہ سلسلہ تصوف میں سے تھے۔ حضرت شاہ بدیع الزمّاں مدار نے بھی اسستفادہ کیا ان کے جواب میں ایک مکتوب لکھا تھا جس کا لُب لباب یہ ہے کہ مشائخ میں ایک خانوادہ اویسی ہے جس میں اکثر مشائخ عظام ہوئے ہیں اس سلسلۂ عالیہ کے سردار حضرت خواجہ اویس قرنی﷜ ہیں۔ جو باطنی طور پر حضور کی صحبت کے تربیت یافتہ تھے چنانچہ جو ولی باطنی طور پر حضور نبی کریمﷺ سے استفادہ کرتا ہے یا کسی دوسرے بزرگ سے فیضان حاصل کرتا ہے اور روحانی طور پر بیعت ہوتا ہے وہ اویسی کہلاتا ہے چنانچہ شاہ مدار بھی ایسے پیر ہیں۔ جنہوں نے باطنی اور روحانی طور پر حضورﷺ سے تربیت پائی اور اویسی کہلائے بزرگان دین میں سے حضرت ابوالقاسم گرگانی۔ شیخ ابوالحسن خرقانی بھی اویسی ہیں شیخ نظام الدین گنجوی﷫ بھی اویسی تھے۔ انہوں نے بھی باطنی فیض حضور سرور کائنات کی روح پر فتوح سے حاصل کیا تھا۔ حافظ شیرازی﷫ جو اپنے زمانہ کے مقتدائے مخدومان عالم اسلام تھے۔ حضورﷺ سے براہ راست روحانی فیض یافتہ تھے۔ آپ کو لسان الغیب کا خطاب اسی وجہ سے ملا تھا۔

خواجہ محمد رشید﷫ اپنا سلسلۂ مداریہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

بندہ امیدوار رحمتِ کر دگار محمد رشید مصطفیٰ جمال کہتا ہے کہ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بھائی محمد تقی سے اجازت حاصل کی تھی۔ انہوں نے شمس الدین محمد الحسینی البخاری انہوں نے حاجی الحرمین الشرفین بایزید انہوں نے شاہ فخرالدین زندہ دل سے انہوں نے سیّد جمن جتی سے انہوں نے قطب الارشاد بدیع الدین مدارسے اور انہوں نے حضرت رسالت مآبﷺ سے اجازتِ سلسلہ حاصل کی تھی۔ (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)

کہتے ہیں کہ شاہ مدار برصغیر ہندوستان میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ اجمیر شریف حاضر ہوئے اور خواجہ بزرگ سید حسن سنجری معین الدین اجمیری چشتی﷫ کے مزار پاک پر پہنچے اور کوہ کوکلایک پر ایک چلہ کاٹا۔ اس استفادہ اور حصولِ برکات کے بعد کالیجا کی طرف روانہ ہوئے صاحب معارج الولایٔت نے آپ کا شجرۂ نسب ازطرف والد اور والدہ یوں درج کیا ہے۔

’’شیخ بدیع الدین بن شیخ علی بن شاہ طیفور بن شاہ کافور بن قطب بن اسماعیل بن محمد حسن بن علی بن طیفور بن بہاؤالدین محمد شاہ بن بدرالدین بن قطب الدین بن عمادالدین بن عبدالحافظ بن شہاب الدین طاہر بن عبدالرحمان بن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہم۔‘‘

اس طرح آپ کا شجرہ نسب حضرت ابوہریرہ﷜ سے ملتا ہے آپ کی والدہ کا اسم گرامی بی بی حاجرہ تھا۔ والدہ ماجدہ کی نسبت سے آپ کا ان واسطوں کے ساتھ شجرۂ نسب حضرت عبدالرحمان بن عوف﷜ سے ملتا ہے بی بی حاجرہ نبت حامد بن محمود بن عبداللہ بن احمد بن آدم بن محمد بن فخرالدین بن طیفور بن محمد بن قوام الدین بن شمس الدین بن سراج الدین بن عبدالرحمٰن بن بلخور بن عبدالرشید بن عبدالجلیل بن عبدالرحمان بن عوف﷜۔‘‘

شاہ بدیع الزمان ۸۴۰ھ میں فوت ہوئے صاحب معارج الولایت نے آپ کی عمر دو سو پچاس (۲۵۰) لکھی ہے۔ مخبرالواصلین نے آپ کا سال ولادت ۷۱۶ھ تحریر کیا ہے۔ اور وفات بتاریخ ۱۸؍جمادی الاوّل بروز جمعۃ المبارک ۸۴۰ھ کی ہے۔ اس طرح آپ کی عمر شریف ایک سو چوبیس سال تحریر کی گئی ہے (واللہَ عَلم بَصورت حَالٰہ)

شیخ عالم راہنمائے دوجہاں
ہست تولیدش فنا شیخ العلوم
۷۱۶ھ
رحلتش سلطان مخدوم است و نیز
۸۴۰ھ

 

آن بدیع الدین ولی کا مگار
ہم امام خلد گوئی با وقار
۷۱۶ھ
مہرباں والی حق قطب مدار
۸۴۰ھ

 

 

پار سا سلطان بدیع الدین مدار

بدرخلد

سخی حق بیں

 

۸۴۰ھ

۸۴۰ھ

۸۴۰ھ

 

      

سے بھی تواریخ وصال برآمد ہوتی ہیں۔

(خزینۃ الاصفیاء)

حضرت شاہ بدیع الدین مدار(رحمتہ اللہ علیہ)

حضرت شاہ بدیع الدین مدارولی زماں اورقدوہ کاملاں تھے۔

خاندانی حالات:

آپ ہاشمی ہیں اورسادات بنی فاطمہ ہیں۔۱؎

والدماجد:

آپ  کےوالدماجدکانام سیدعلی ہے۔

والدہ ماجدہ:

آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ ثانی کاسلسلہ نسب کئی واسطوں سےحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے،ان کےوالدکانام عبداللہ تھا۔

ولادت باسعادت:

آپ حلب میں یکم شوال ۴۴۲ھ کوصبح صادق کےوقت پیدال ہوئے۔۲؎

نام نامی:

آپ کانام بدیع الدین ہے۔

لقب:

آپ"قطب مدار"کےلقب سےمشہورہیں۔

تعلیم وتربیت:

آپ کی عمرجب پانچ سال کی ہوئی توآپ کےوالدبزرگوارنےآپ کی بسم اللہ کےبعدآپ کومولاناحذیفہ شامی کےسپردکیا،آپ کی تعلیم مولاناحذیفہ شامی کی نگرانی میں شروع ہوئی،آپ نے

بہت جلدقرآن شریف ختم کیا،بارہ سال کی عمرمیں آپ نےمختلف علوم میں اچھی خاصی استعداد حاصل کی۔اس کےبعدآپ نےتفسیر،حدیث،فقہ میں کمال حاصل کیااورمحدث مشہورہوئے۔ چودہ سال کی عمرمیں آپ کاشمار علماء میں ہونےلگا۔آپ نےاسی پراکتفانہیں کیا،بلکہ علم سیمیا،علم کیمیا اورعلم ریمیامیں بھی دستگاہ حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

بعدتحصیل علوم ظاہری جذبہ الٰہی نےآپ کوعلم باطن کےحصول کی طرف متوجہ کیا۔آپ حضرت طیفور شامی سے بیعت ہوئے۔۳؎اوربعدمیں خرقہ خلافت سے سرفرازہوئے،آپ کےپیرودستگیر نےآپ کوجس دم کی تعلیم فرمائی،آپ حکم بجالائے اوراس قدرحبس دم کیاکہ کھانے پینے کی خواہش جاتی رہی۔

زیارت حرمین شریف:

مکہ معظمہ پہنچ کرآپ نےحج کافریضہ اداکیا،کچھ دن وہاں قیام کرکےمدینہ منورہ حاضرہوئے۔دربارِ رسالت میں باطنی نعمتوں سے مستفیدومستفیض ہوئے،نسبت محمدی سےآپ کالقب روشن ہوا۔

فرمان:

ایک دن آپ درباررسالت میں حاضرتھے۔مراقب ہوئے۔حضوری ہوئی،سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےآپ سے فرمایا۔"بدیع الدین!تم ہندوستان جاؤاوروہاں جاکرمخلوق کی ہدایت میں کوشش کرو۔

ہندوستان میں آمد:

آپ پہلی بار جب ہندوستان تشریف لائےتوگجرات میں کچھ عرصہ قیام فرمایا۔گجرات سےروانہ ہو کراورشہروں کوزینت بخشی۔

روانگی:

کچھ دن ہندوستان میں رہ کراورمختلف شہروں میں گھوم کرآپ مکہ معظمہ چلےگئے۔حج کیااورپھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔بعدازاں کاظمین،بغداد،نجف اشرف ہوتےہوئےپھرہندوستان تشریف لائےاوربغدادمیں حضرت غوث الاعظم سے ملاقات کی"۔۵؎

اس مرتبہ جوہندوستان تشریف لائےتودیگرمقامات کی سیرکی،پھراجمیرپہنچے،اجمیر میں کوکلاپہاڑی پر آپ نےقیام فرمایا۔خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ سےآپ کی ملاقات ہوئی۔۶؎اجمیرسےروانہ ہوکردیگرمقامات کوشرف بخشا۔

حج:

حرمیں شریفین کی زیارت کاشوق پھردامن گیرہوا۔آپ حرمین شریفین کی زیارت اورحج سےفارغ ہوکرنجف اشرف گئے۔وہاں سےاپنےوطن حلب آئے۔حلب سے چنارگئے،وہاں کچھ دن قیام فرمانےکےبعدآپ اپنےعزیزسیدعبداللہ کےتینوں لڑکوں سیدابومحمدارغون،سیدابوتراب فصوراور سید ابوالحسن طیغورکوہمراہ لےکرمدینہ منورہ آئےاورایک عرصےتک انوارمحمدی سےمنوروروشن ہوتےرہےاورمستفیدہوتےرہے۔

ارشادعالی:

ایک روزدرباررسالت سےآپ کوحکم ملاکہ۷؎

"بدیع الدین!ہم نےتمہارےقیام کےلئےہندوستان کوتجویزکیاہے۔وہیں تم جاؤ اوررہوسہواور دین  محمدی کوپھیلاؤاوراس کی کوشش میں دقیقہ نہ اٹھارکھو"۔

ہندوستان میں سکونت کےمتعلق آپ کودرباررسالت سےیہ حکم ملاقنوج کےمیدان میں جنوب کی طرف جوتالاب ہے،اس کی لہروں سےیاعزیزکی آوازآتی ہے،وہ زمین ان کےرہنےکےلئے

مناسب ہے،ان کامسکن اوران کامدفین وہیں ہوگا"۔

ہندوستان میں:

حکم پاکرہندوستان روانہ ہوئے۔ممالک عرب،عجم،خراسان کی سیروسیاحت فرماتےہوئے،اجمیر آئےاوراجمیرسےکالپی چلےگئے۔کالپی سےجونپورہوتےہوئےمکن پورپہنچے،وہاں کنتورگئے،پھر گھاٹم پورہوتےہوئےسورت میں رونق افروزہوئے۔

آخری حج:

آپ کی زیارت حرمین شریف کےمقصدسےروانہ ہوئے۔حج سےفارغ ہوکرمدینہ منورہ حاضر ہوئے اوردربارنبوی کی عنایت سےسرفرازہوئے۔

مکن پورمیں مستقل  قیام:

ہندوستان واپس تشریف لائےاورمکن پورمیں مستقل سکونت اختیارکی۔۸؎

وصیت:

آپ نےوصیت فرمائی کہ۔۹؎

"سیدمحمدارغون،سیدابوتراب فصور،سیدابوالحسن طیفورکومیں نےاپناجانشین کیا۔ان تینوں کو بجائے میرےتصورکرنااورجوکوئی مشکل پیش آئےتوان کی طرف رجوع کرنا"۔

دوسری وصیت آپ نےیہ فرمائی کہ۔

"میرےجنازےکی نمازمولاناحسام الدین سلامتی پڑھائیں گے"۔

وصال:

آپ نے۱۷جمادی الاول۸۳۸ھ کووصال فرمایا۔مزارپرانوارمکن پورمیں واقع ہے۔۱۰؎"ساکن بہشت"مادہ تاریخ وفات ہے۔

خلفاء:

تین حضرت کوآپ  کی خلافت وجانشینی کاشرف حاصل ہوا۔ان تین حضرات کو"کنفس واحدہ" مانا جاتاہےاورایک ہی لقب سے تینوں پکارےجاتےہیں۔ان تین حضرات کےنام حسب ذیل ہیں۔۱۱؎

حضرت خواجہ سیدابومحمدارغوں،حضرت سیدابوتراب فصور،حضرت سیدابوالحسن طیفور۔

آپ کےممتازخلفاء حسب ذیل ہیں۔۱۲؎

حضرت قاضی محمود،حضرت سیداجمل جونپوری،حضرت قاضی مطہر۔ان کے علاوہ حسب ذیل حضرات کوآپ کاخلیفہ ہونےکاشرف حاصل ہے۔۱۳؎سیدپولادشمس ثانی چوبدار،حضرت قاضی شہاب الدین پرکالہ آتش سیدصدرالدین،شیخ حسین بلخی،سیدصدرجہاں شیخ آدم صوفی۔۔سلطان شہباز،سلطان حسن عربی،میاں سیف اللہ شیخ فخرالدین،عادل شاہ۔

سیرت پاک:

آپ کومقام صمدیت حاصل تھا،آپ حبس دم بہت فرماتےتھے،آپ کی عمربہت ہوئی،آپ کھانے پینےکی خواہش سےمدتوں بےنیازرہتےتھے،آپ سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض یافتہ تھے،آپ اویسی تھے۔۱۴؎

مرتےکوماریں زندہ شاہ مدار:

یہ مثال"مرتےکوماریں زندہ شاہ مدار"زبان زدخاص وعام ہے۔جب کوئی شخص کسی تکلیف یا مصیبت میں گرفتارہوتاہےاوراس پرکوئی نئی مصیبت یاتکلیف واردہوتی ہےیااس پرکوئی ظلم کیاجاتا ہےتولوگ کہتے ہیں کہ"مرتےکوماریں زندہ شاہ مدار"اس کےمعنی،مضمرات اورمتعلقات سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں۔

اس کےمعنی یہ ہیں کہ شاہ مداررحمتہ اللہ علیہ کویہ قدرت حاصل تھی کہ جو صوفی مرتبہ فنامیں ہوتے تھے،آپ ان کو اس مقام سے نکال کرمرتبہ فناءالفنامیں پہنچادیتےہیں۔

تعلیمات:

آپ کی تعلیمات معرفت خزینہ ہیں۔

خداطلبی:

آپ نےحضرت شاہ فضل اللہ بدخشانی سےفرمایاکہ۔۱۵؎"اےعزیز!تم نےاس کوچےمیں قدم رکھاہے۔جوایک دریائےناپیداکنارہے۔جس میں بلااندربلاہے۔جولوگ ہوشیارہوتےہیں،وہ جرات و ہمت کواپناشعارکرکےپارہوجاتے ہیں اورحیات ابدی حاصل کرتے ہیں۔اس میں راحت و آرام کوخیربادکہناہوتاہےاورجیتےجی مصیبت میں مبتلا ہوناپڑتاہے"۔

معرفت خداوندی:

آپ فرماتے ہیں۔۱۶؎

"اول اپنےآپ کوپہچانوخداکوپہچان لوگے۔من عرف نفسہ فقد عرف ربہتم کویہ خیال کرناچاہیےکہ تم کون ہو،کہاں سے آئےہو،کہاں جاناہے۔اس عالم میں کس لئے آئےتھےاور خداوند تعالیٰ نےتم کو کس لئےپیداکیاہےاورنیک بختی اوربدبختی کیاہے۔اول تم کوان چیزوں سے آگاہ ہوناچاہیےاورتمہاری صفات بعض حیوانی ہیں،بعض شیطانی،بعض ملکی"۔

"تم کویہ معلوم ہوناچاہیےکہ تمہاری اصل صفات کون ہیں۔یادرکھوکھانا،پینا،سونا،فربہ ہونا،غصہ کرنایہ حیوانی صفات ہیں۔۔مکروفریب کرنا،فتنہ برپاکرنا،یہ شیطانی صفات ہیں،اگران صفات کےتم تابع ہوگےتوحق تعالیٰ کی معرفت تم کوحاصل نہیں ہوسکتی،ہاں اگرصفات ملکوتی تم حاصل کرلوگ تو کیاعجب کہ معرفت خداوندی سےتمہاراقلب  روشن ہوجائے۔تم کوکوشش کرنی چاہیےکہ صفات

حیوانی وشیطانی سےنکل کرصفات ملکوتی حاصل کرو"۔

"دیکھواللہ تعالیٰ نےتم کودوچیزوں سےبنایاہے"۔

ایک بدن اوردوسری روح۔

"روح کی دوقسمیں ہیں۔حیوانی،انسانی،روح حیوانی تمام جانوروں کوعنایت ہوئی ہےاورروح انسانی انسان کےساتھ خاص ہے۔جب تک روح انسانی سےکام نہ لوگے،انسان نہیں ہوسکتےاورنہ معرفت خداوندی حاصل ہوسکتی ہے"۔

اقوال:

آدمی پرذات کاپرتوہےاورکعبہ پرصفات کا۔

وحدت نقطہ سےزیادہ نہیں ہے۔

قلندروہ ہوتاہے،جوصفات الٰہی کےساتھ متصف ہو،بفحوائےحدیث پاک۔

واتصفوابصفات اللّٰہ یاتخلقواباخلاق اللّٰہ اوکماقال

یعنی خداکی عادت اورصفات کےساتھ تم کو اپنی عادت کرنی چاہیے۔دل کی حفاظت کرو،سالک وہ ہوتاہےکہ چاہتاہےکہ آسمان پرچلاجائے۔

کشف وکرامات:

بی بی نصیبہ کےکوئی لڑکانہیں تھا۔جب بغداد تشریف لےگئے،بی بی نصیبہ آپ سے دعاکی طالب ہوئیں،آپ کی دعاسےدولڑکے ہوئے۔۱۷؎

ایک روزکاواقعہ ہےکہ آپ دریاکےکنارےرونق افروزتھے،ایک سوداگراپنامال کشتی میں رکھ کر روانہ ہوا،کچھ دورجاکروہ کشتی دریامیں ڈوب گئی،ایک شخص نےجووہاں موجود تھا۔اس حادثےکی خبرآپ کودی،آپ نےایک مٹھی خاک اس کودی اوردریامیں ڈالنے کی تاکیدفرمائی اس نے وہ مٹھی خاک دریامیں ڈالی،کشتی برآمدہوگئی۔۱۸؎

حواشی

۱؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)تذکرہ الکرام تاریخ خلفاء عرب والاسلام،مداراعظم ص۲۸

۲؎مداراعظم ص۳۹،۳۴

۳؎مداراعظم ص ۳۴،۲۹

۴؎مداراعظم ص۲۴،۲۳

۵؎ثمرۃ القدس،تحفتہ المداریہ،ذوالفقاربدیع ص۸۳

۶؎مداراعظم ص۵۶

۷؎مداراعظم ص۸۷،۵۹

۸؎مداراعظم ص۸۸،۸۷

۹؎مداراعظم ص۱۲۰

۱۰؎مداراعظم ص۱۳۱،۱۲۲

۱۱؎یحفتہ الابرار،تحفتہ المداریہ،ذولفقاربدیع ص۵۵

۱۲؎لطائف اشرفی

۱۳؎مداراعظم ص۹۳

۱۴؎مداراعظم ص۵۷

۱۵؎ذوالفقار بدیع ص۴۵،۴۳

۱۶؎مداراعظم ص۹۱،۹۰

۱۷؎ذوالفقاربدیع ص۴۵،۴۳

۱۸؎مداراعظم ص۹۱،۹۰

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

لوگ آپ کے متعلق بڑے بڑے عجیب و غریب واقعات نقل کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ سمندر میں رہا کرتے تھے جو صوفیوں کا ایک مقام ہے، آپ نے بارہ سال تک کھانا نہیں کھایا، ایک بار جس کپڑے کو پہنتے پھردھونے کی غرض سے اتارتے نہ تھے، اکثر کپڑے سے چہرہ ڈھانپے رہتے تھے، آپ کے چہرہ پر جس کی نظر پڑجاتی تو وہ بے اختیار ہوکر آپ کی غایت درجہ تعظیم و تکریم کرتا۔

عمر کے طویل ہونے یا کسی اور وجہ سے آپ کا سلسلہ پانچ یا چھ واسطوں سے رسول کریم ﷺ تک مل جاتا ہے اور سلسلہ مداری کے بعض لوگ تو آپ کو بغیر کسی واسطہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں، بعضے کچھ اور کہتے ہیں لیکن یہ سب باتیں حدود شریعت سے خارج اور بے اصل ہیں واللہ اعلم بالصواب۔

قاضی شہاب الدین دولت آبادی بھی آپ ہی کے ہم عصر تھے، ایک خط کے متعلق لوگوں میں بہت مشہور ہے کہ یہ خط شاہ بدیع الدین نے قاضی شہاب الدین کو لکھا تھا اور جو کچھ شیخ سراج سوختہ کے متعلق لکھا گیا ہے وہ کالپی کے بعض بڑے فضلا سے منقول ہے، یہی فضلاء فرماتے ہیں کہ اس خط کا قصہ ہمارے دیار میں بھی مشہور ہے لیکن یہ بلاسند بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

اخبار الاخیار

Previous Post Next Post