خنساء رضی اللہ عنہا چار شہدا کی ماں
صخر عرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساء کابھائی ہے جو خنساء کے مسلمان ہونے سے پہلے فوت ہوگیا تھا یہ اس کے غم میں دیوانی ہوگئیں۔دن رات ماتم کرتیں اورمرثیے کہتی رہتیں ۔بھائی کی یاد صبح وشام کسی وقت بھی محو نہ ہوتی تھی ۔ حتی کے پورے ایک سال تک یہ کیفیت رہی اسی حال میں آپ نے اسلام قبول کیاتویہ کایا ہی پلٹ گئی۔
اب تو یہ حال ہے کہ یہی خنساء جنگ قادسیہ میں اپنے چاروں جوان بیٹوں کولے کر خود پہنچتی ہیں۔اورجب چاروں بیٹے یکے بعد دیگرے شہادت سے سرفراز ہوجاتے ہیں تواب بجائے ماتم کرنے کے حضرت خنساء فرماتی ہیں ۔
’’اُس خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ان (چاروں بیٹوں)کی شہادت سے عزت بخشی۔‘‘
مزاراتِ شہداء
جب فقیر شام ،بغداد کے مزارات کی زیارت کے لیے دمشق پہونچا تو جس ہوٹل میں ہم نے قیام کیا اس کے جنوب میں دو فرلانگ کے فاصلہ پر ایک جگہ چارشہداکے مزارات بتائے گئے اورکہا گیا کہ یہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے بیٹوں (شہدا)کے مزارات ہیں ۔یہ مزارات جامع مسجد امیہ کے مغرب شمال کی طرف دس بارہ فرلانگ کے فاصلہ میں تھے۔بہرحال مزارات کی زیارت سے ہم مشرف ہوئے اوران کا مختصر تذکرہ بھی فقیر نے سفرنامہ شام وبغدادحصّہ دوم میں لکھا ۔
تفصیلی حالات حضرت خنساء بنت عمر وبن الشریدرضی اللہ عنہا
یہ وہ خاتون ہیں جس نے اپنے چا ر جگر پارے جہاد کے لیے تیار کئے۔ آپ کا اصلی نام تماضر ہے ،لیکن چستی ،ہوشیاری اورحُسن کی وجہ سے خنساء کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں جس کے معنی ہرنی کے ہیں ۔بہ نسبت نام کے اُن کالقب زیادہ مشہور ہے ۔نجد کی رہنے والی تھیں ،ان کے والد کانام عمرو بن الشرید بن رباح بن یقظہ بن عصیۃ بن خفاف بن امرأالقیس تھا ۔جوقبیلہ قیس کے خاندان سلیم سے وابستہ تھے۔ان کا پہلا عقد قبیلہ سلیم کے ایک شخص رواحہ بن عبدالعزیز سلمیٰ سے ہوا اُس کے انتقال کے بعد دوسر اعقد مرداس بن ابی عامر سے ہوا۔(اسدالغابہ)پہلے شوہر سے صرف ایک لڑکا عبداللہ پید اہوا۔ اور دوسرے شوہر سے دولڑکے یزید ،معاویہ اورایک لڑکی عمرہ پیدا ہوئے ۔ (الدرالمنثور) جب اُفقِ مکہ سے آفتابِ رسالت( ﷺ )طلوع ہوا اوراُس کی شعاعیں سارے عالم پر پَرْتَو افگن ہوئیں تو حضرت خنساء کی آنکھیں اُن شعاعوں کی صداقت پاش نورانیت سے منو رہوگئیں اوروہ اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ مدینہ میں جناب سرورِ عالم ﷺکی بارگاہ میں شرف اسلام سے بہرہ اندوز ہوئیں۔ (اسد الغا بہ )
حضور سرورِ کائنات (ﷺ) دیر تک اُن کے شعر سنتے رہے اوراُن کی فصاحت وبلاغت پرتعجب فرماتے رہے۔ (اسدالغابہ)
حالات
اُن کی شاعری کاحال ابتدا میں یہ تھا کہ کبھی کبھی دوتین شعر کہہ لیا کرتی تھیںلیکن قبیلہ بنی
اسد سے اُن کے قبیلے کی لڑائی ہوئی تو اس میںان کا حقیقی بھائی معاویہ مقتول ہوا۔ اوردوسرا سوتیلا بھائی صخر ،ابوثورا لاسد ی سے زخمی ہوا تو حضرت خنساء نے تقریباً ایک سال تک صخر کی بڑی محنت وجانفشانی سے تیمارداری کی لیکن زخم کاری لگا تھا جانبر نہ ہوسکااوراپنی چہیتی بہن کو دائمی مفارقت کا داغ دے کر سفرِ آخرت اختیار کیا۔ (ا سد الغابہ)
حضرت خنساء کو اپنے دونوںبھائیوں سے بہت محبت تھی ۔لیکن صخر کے علم، بردباری، سخاوت ،شجاعت ،عقل مندی،حُسن کی وجہ سے وہ ان سے زیادہ مانوس اورگرویدئہ محبت تھیں۔اسی وجہ سے حضرت خنساء کو صخر کے انتقال سے سخت صدمہ پہنچا ۔اسی وقت سے اپنے بھائی پر بے نظیر مرثیے کہنے شروع کیے۔ (درمنثور واسدالغابہ)
مرثیوں میںشدت غم اورکثرت الم کااظہار ایسے دل سوز وجانگداز الفاظ میں کیا کہ لوگ بیتاب ہوجاتے اورپڑھتے پڑھتے اشکباری کرنے لگتے ۔مرثیے کے چند شعر درج کئے جاتے ہیں جن سے فصاحت وبلاغت اورجودت طبع کاحال معلوم ہوسکتا ہے۔
اعینتی جودًا ولا تجمد!
الاتبکیان بصخر الندیٰ
الا تبکیان ا لجری ا لجمیل
الاتبکیان الفتیٰ السیدیٰ
طویل ا لنجار عظیم الرماد
دساد عشیرتہ امردا
اذالقوم مدّو ا بایدیھم
الی المجد مدَّ الیہ یدا
فنال الذی فوق ایدیھم
الی المجد ثم مضی مسعدا
تری المجد یھدی الی بیتہ
یری افضل المجد ان یحمدا
وان ذکر المجد الفتیہ
تازر با لمجد ثم ارتدیٰ
(ترجمہ)اے میری دونوں آنکھوں سخاوت اختیار کرو اوربخیل مت بن جائو کیا تم دونوں صخر جیسے سخی پرنہیں روتی ہو ،کیا تم دونوں ایسے شخص پر جو نہایت دلیر اورخوبصورت تھا نہیں روتی ہو،کیا تم نہیں روتی ہو ایسے شخص پر جو جوان سردار تھا ، جس کاپرتلہ نہایت دراز تھا اورجو خود بھی بلند وبالا تھا ،وہ اپنے قبیلے کا سردار ایسی حالت میں ہوگیا جب کہ وہ بہت کم سن تھا ۔جب قوم نے علوئے مرتبت کی طرف اپنے ہاتھ دراز کئے تو اس نے بھی اپنے ہاتھ دراز کردیئے۔پس وہ اس عزت کو پہنچ گیا جو ان لوگوں کے ہاتھوں سے بھی اونچی تھی ۔اوراسی سعادت مندی کی حالت میں وہ گزر گیا ،بزرگی اس کے گھر کاراستہ بتلاتی ہے ،اپنے تعریف کئے جانے کو سب شرافتوں سے افضل سمجھتا ہے اگر شرافت وعزت کا ذکرکیا جائے توتُو اس کو پائے گا کہ اس نے عزت کی چادر اوڑھ لی ہے ،زنانِ عرب کی عادت کے موافق حضرت خنساء رضی اللہ عنہااپنے مقتول بھائی کی قبر پر صبح وشام جا کر بیٹھتیں اوراُس کو یاد کرکے روتیںاوریہ مرثیہ پڑھا کرتیں ۔ (درمنثور)
یذکر نی طلوع الشمس صخرًا
ولولا کثرۃ الباکین حولی
واذکرہٗ لکل غرب شمس
علے موتا ھم لقتلت نفسی
(ترجمہ) طلوعِ شمس مجھ کو صخر کی یاد دلاتاہے اورمیں ہر روز غروبِ آفتاب کے وقت صخر کو یاد کرتی ہوں ۔اگر رونے والوں کی کثرت اپنے مردوں پر میرے اِردگِرد نہ ہوتی تو میں اپنی جان کو ہلاک کردیتی۔
الایاصخران ابکیت عینی
فقد اضحکتنی زمنا طویلا
بکیتک فی نسائٍ معولات
وکنت احق من ابدی العویلا
دفعت بک الخطوب وانت حییٌ
فمن ذایدفع الخطب الجلیلا
اذاقبح البکاء علی قتیل
رأیت بُکاء ک الحسن الجمیلا
(ترجمہ) اے صخر اگر تونے میرے آنکھوں کورُلایا تو کیا ہو ااس لیے کہ تونے ایک مدّت دراز تک ہنسایابھی ہے ۔ میں روتی ہوں تجھ پر اُن عورتوں کے زمرہ میں جو چیخ پکار کر رونے والی ہیں اورمیں زیادہ مستحق ہوں اُن سے جو چیخ وپکار کو ظاہر کررہی ہیں۔ میں نے تیرے سبب سے بہت سے
حوادث کودفع کیا اس وقت جب کہ تو زندہ تھا ،پس اب کون دفع کرے گا اس بڑے حادثہ کو جب کہ کسی مقتول پر رونا بُرا معلوم ہوتا ہے تومیں تجھ پر رونے کو نہایت اچھا سمجھتی ہوں۔
صخر کی عزت واحترام کاحال بیان کرتی ہیں کہ ؎
وانّ صخرًا لتأ تَمُّ الھداۃ بہ
کا نَّہٗ علم فی راسہ نار
صخرکابڑے بڑے لوگ اقتدار کرتے ہیں گویا کہ وہ ایک پہاڑ ہے جس کی چوٹی پر آگ روشن ہے۔ان ہی مرثیوں کی بدولت وہ تمام عرب میں مشہور ہوگئیں۔
بیٹوں کو جہادکی تربیت
حضرت عمر(ص) کے زمانہ خلافت ( ۱۶ھ )میںجب قادسیہ کی لڑائی ہوئی (جس میںایرانیوں نے بڑی طاقت سے مسلمانوںکا مقابلہ کیا تھا )تو اس میںخنساء مع اپنے چاروںبیٹوںکے جنگ میںموجود تھیں۔رات کو بیٹوںکو جنگ کے لیے جو مؤثر تقریر کی تھی وہ یہ ہے ۔(اسد الغابہ )
میرے پیارے بیٹو!تم اپنی خوشی سے اسلا م لائے ،اور اپنی رضامندی سے تم نے ہجرت کی ،قسم ہے اس خدا ئے لایزال کی جس کے سواکوئی دوسرا معبود نہیںہے ،جس طرح تم اپنی ماںکے پیٹ سے پیدا ہوئے اسی طرح تم اپنے باپ کے سچے فرزند ہو، نہ میں نے تمہارے باپ سے خیانت کی اورنہ تمہار ے ماموں کورُسواو ذلیل کیا تھا۔ تمہار انسب بے داغ ہے اورتمہارے حسب میں بھی کوئی نقص نہیں ہے ،تم جانتے ہو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کفار سے جہاد کرنے میں ایک ثوابِ عظیم ہے ،تم اس کوخوب جان لو اورغور سے سمجھ لو کہ عالمِ جاودانی کے مقابلہ میں دنیا ئے فانی ہیچ ہے ،خداوند تعالیٰ فرماتا ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ْ ’’اے ایمان والو صبر کرو (اُ ن تکلیفوں پر جوخدا کی راہ میں پیش آئیں)اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہواس امید پر کہ کامیاب ہو ۔‘‘(پارہ۴، سورۃآل عمران،آیت۲۰۰)
جب تم دیکھ لو کہ لڑائی جوش پر آگئی ہے اُس کے شعلے بھڑکنے لگے اوراُس کے شرارے میدانِ جنگ میں منتشر ہونے لگے تولڑائی میںگھس پڑواورخوب بے دریغ تیغ زنی سے کام لو اورخدائے لم یزل سے نصرت وفتح کے اُمیدوارر ہو۔ ان شاء اللہ عالمِ آخرت کی بزرگی وفضیلت پر ضرور کامیاب ہوجائو گے۔ (اسدا لغابہ)
جب صبح ہوئی توچاروں نونہالانِ اسلام وفدا یانِ ملت اپنی ماں کی نصیحت پر کاربند ہو کر
رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود پڑے اوراپنی دلیری وشجاعت کے نقوش صفحاتِ تاریخ پر ثبت کرگئے اورآخر کار شہید ہوگئے ۔ ( ا سدا لغابہ)
جب خنساء کوخبر ہوئی تو کہا خدا کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی شہادت کامجھے شرف بخشا ۔ خدا کی ذات سے اُمید ہے کہ میں ان بچوں سے اللہ تعالیٰ کے سایۂ رحمت میں ملوں گی۔(اسدالغابہ)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی قدر دانی
حضرت عمر (ص) ان کے بیٹوں کوفی کس دوسودرہم سالانہ دیتے تھے وہ اُن لوگوں کی شہادت کے بعد بھی حضرت خنساء کے نام برابر جاری رکھا۔
تمام اقسام ِشعر اورخصوصیت کے ساتھ مرثیہ گوئی میں حضرت خنساء اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔صاحب ِاسدالغابہ لکھتے ہیں :اجمع اھل العلم بالشعرانہ لم تکن امرأۃ قبلھا ولا بعدھا اشعرمنھا۔یعنی خنساء کوجو خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ تمام علمائے عرب کا اتفاق ہے کہ عرب کی عورتوں میں خنساء کے برابر شاعرہ کوئی عورت نہیں ہوئی ،نہ ان سے پہلے نہ بعد ۔(اسد الغابہ) اور درمنثور میں لکھا ہے وقیل لجریر من اشعر الناس قال انالولا الخنسائیعنی جریر شاعر متوفی ۱۱۰ھ (جوعہد بنی اُمیہ کامشہورشاعر تھا ) سے لوگوں نے پوچھا سب سے بڑا شاعر کون ہے ۔‘‘ جریر نے کہا اگر خنساء کے اشعار نہ ہوتے تومیں دعویٰ کرتا کہ عرب کابہترین شاعر میں ہوں۔ (درِ منثو ر)
بشار شاعر(بہت بڑا شاعر تھا )نے کہا کہ میں عورتوں کے اشعار غور سے دیکھتا ہوں تواُن میں ایک نہ ایک نقص یاکمزوری ضرور پاتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا کیا خنساء کے اشعار کابھی یہی حال ہے ،اُس نے کہا وہ تو مردوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ (طبقات الشعراء)
تمام شعرائے عرب نے شاعر عورتوں کاسرتاج لیلے اخیلیہ کوتسلیم کیا تھا ۔ لیکن خنساء مستثنیٰ رکھی گئی تھیں۔
زمانۂ جاہلیت میں عام دستور تھا کہ تما م اہل عرب مختلف مقامات پر مجلسیں منعقد کیا کرتے تھے جن سے اُن لوگوں کامقصد تبادلۂ خیالات ہوتا تھا یاشعر گوئی کامقابلہ ان میںمردوعورت
سب یکساں حصّہ لیتے تھے۔اس کی ابتداربیع الاول یعنی ابتدائے موسمِ بہار سے ہوا کرتی تھی،تمام اہلِ عرب دور دور سے اپنے کاروبار کو ترک کرکے ان میلوں میں شریک ہونے آتے تھے ۔غرہ ربیع الاول میں پہلامیلہ دومۃ الجند ل میں منعقد ہوتاتھااس کے بعد وہاں سے ہجر کے بازار میں آتے تھے ،اورپھر عمان میں ،اس کے بعد حَضَرَمَوْتْ کوروانہ ہوتے تھے،اورپھر صنعاء یمن کی طرف کسی مقام میں دس روز ،کہیں بیس روزقیام رہتا تھا۔ اسی طرح تمام ملک میں گشت لگانے کے بعد ذیقعدہ کے مہینہ میں حج کے قریب آخری میلہ بازار عُکَاظ میں لگتاتھا (جومکہ سے چند میل کے فاصلہ پرتھا ) عرب کے تمام قبائل اوربالخصوص سردارانِ قبائل لازمی طور سے شریک ہوتے تھے اورکوئی سردار کسی خاص وجہ سے شریک نہ ہوسکتا تھا تو اپنا قائم مقام ضرور بھیجتا تھا ۔اسی مقام پر اہل عرب کے تمام معاملات طے ہوتے تھے ،یعنی قبائل کے سردار مقرر کئے جاتے تھے ،مخالفت کا انسداد ہوتا تھا باہمی خون ریزی اورلڑائیوں کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔اس بازار میں اہل قریش کا وقار واحترام زیادہ تھا جب تمام معاملات کا تصفیہ ہوجاتاتو ہر قبیلہ کے شعراء اپنا کلام سناتے جن میں اپنی بہادری،فیاضی ،مہمان نوازی ،آباء واجداد کے کارنامے،صید وشکار اورخوں ریزی کا بیان ہوتا یہاں ہر شاعر اورمقرر کادرجہ و مرتبہ متعین کیا جاتا ۔
خنساء بھی مجالس میں شریک ہوتی تھیں ان کے مرثیے یہاں لاجواب تسلیم کرلئے گئے ، جب اونٹ پر سوار ہو کر آتیں تو تمام شعراء ان کے گرد حلقہ باندھ لیتے اورمنتظر رہتے کہ ان کے اشعار سنیںاورپھر وہ اپنے مرثیے سناتیں۔
خنساء کو اس مجلس میں یہ فخرو امتیاز حاصل تھا کہ ان کے خیمہ کے دروازے پر ایک علم نصب تھا جس پر لکھا ہوا تھا ،’’ ارثی العرب‘‘ یعنی عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو ، زمانۂ جاہلیت میں اچھے اچھے شعراء گزرے ہیں لیکن نابغہ ذبیانی جو عرب کا مشہور وممتاز شاعر تھا جس نے ۲۴ ء میں انتقال کیا وہ اپنی سخنوری کے سبب سے شہرۂ آفاق ہے۔اس کانام زیاد بن معاویہ ہے اورکنیت ابوامامہ ، ابوعبیدہ اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ: ھو من الطبقۃالا ولیٰ المقدمین علی سائر الشعرائکثرت شعر گوئی کی وجہ سے اس کا لقب نا بغہ پڑ گیا ،سُوْقِ عُکَاظْ میں اس کے
واسطے سرخ خیمہ نصب کیا جاتا تھا دوسرا شخص سرخ خیمہ نہیں لگا سکتا تھا کیو نکہ یہ وہ عزت تھی جو صرف اس کا حق ہوتا تھا جو شاعری میں مسلم الثبوت استاد مان لیا جائے اس کے اشعار نہایت دقیق ہیںاورعجیب طرح کی سنجیدگی ان میں پائی جاتی ہے۔ اخلاق کی اصلاح ودرستی کو یہ لازم جانتا اور خوف خدا میں زندگی بسر کرنے کو افضل سمجھتا تھا یہ بڑا فیاض اور صادق القول تھا ۔
اس کے قصائد مدحیہ میں چستی ،خوش طبعی ،رنگینی ،صداقت ، فصاحت وبلاغت کے نمونے کثرت سے پائے جاتے ہیںاسی بازار عکاظ میں نابغہ کے سامنے تمام شعراء اپنے اپنے اشعار سنا کر خراج تحسین حاصل کیا کرتے تھے ، جب خنساء شریک مجلس ہوئیں اور اپنے اشعار سنائے تو نابغہ نے بہت تعریف کی اور خنساء کو بہترین شاعرہ تسلیم کر نے کے لئے یہ الفاظ کہے: فانت الشعر من کانت ذات ثدین ولولا ھذا لا عمیٰ انشدنی قبلکیعنی الاعشیٰ لفضلک علی شعراء ھذا الموسم فانک اشعرالانس والجن (حقیقتاًتو عورتوںمیںبڑی شاعرہ ہے اگر میںاس سے قبل اعشیٰ کے اشعار نہ سن لیتا تو تجھکو اس زمانہ کے شعراء پر البتہ فضیلت دیتا اور کہہ دیتا کہ تو متمدن وغیر متمدن لوگوںمیں سب سے بڑی شاعرہ ہے ) (در منثور)
شعرپر ادبی تنقید
دنیا میں بہت سے شاعر گزرے اور ان لوگوں نے نمودو شہرت بھی حاصل کی مگر شعرامیںجو فضیلت وعظمت جناب حسان بن ثابت (ص)(متوفیٰ ۵۴ھ ) کو ملی اور کسی کو نصیب نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے ان کا شمارصحا بہ اور ان شعرائے عرب میں ہے جو صحبتِ رسالت مآب سے شرف یاب ہوئے مگر وہ رتبہ جناب حسان بن ثابت (ص) کو مبدأفیاض سے عطا ہوا انہی پر ختم ہوگیا ۔حضرت حسان (ص) مداح رسول دو جہاںاور دربار نبوت کے شاعر تھے آپکی عمر کے ۵۹سال ضلالت و تاریکی کفر میںگزرے لیکن ساٹھ سال کی عمر میںمشرف بہ اسلام ہوئے اور اسلام لانے کے بعداپنی قوتِ شعر گوئی کو اسلام اور مسلما نوںکی خدمت میں صرف کرتے رہے ۔آپکے قصائد میںاکثر حضرت محمد(ﷺ)کی مدح اور اسلام کی تعریف ،کفار کی ہجو ،اور غزواتِ نبوی کا بیان ہے ،آپ کاکلام سادہ ۔ملیح اور صاف ہوتا تھا ۔
نابغہ نے خنساء کے بارے میں جو فیصلہ کیا اس سے آپ بہت ناراض ہوئے اور نابغہ سے کہا تم نے بڑا غلط فیصلہ کیا ،خنساء سے بہتر میرے شعر ہیں ‘ نابغہ نے خنساء کی طرف اشارہ کیا انھوںنے دریافت کیا کہ آپ کا جو بہترین شعر ہو وہ سنائیے میں پھراس کی تنقید کروںگی۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ شعر سنایا ۔ (در منثور )
لنا الجفنات الغرّیلمعن فی الضحیٰ واسیافنا یقطرن من نجدۃ دما
(ترجمہ)ہمارے پاس بڑے بڑے صاف شفاف برتن ہیںجو چاشت کے وقت چمکتے ہیںہماری تلواریںبلندی سے خون ٹپکاتی ہیں(اس میں جناب حسان صنے سخاوت اور شجاعت کا حال قلم بند کیا ہے )
حضرت خنساء نے یہ شعر سن کر کہا کہ :
۱)جفنا تــــ:جمع قلت ہے بجائے اس کے جفان کہا جاتا تو ،مفہوم میںزیا دہ وسعت پیدا ہو جا تی ۔
۲)غر :پیشانی کی صباحت کو کہتے ہیںاس کے مقا بلے میںبیض، زیادہ وسیع المعنی ہے ۔
۳)یلمعن:ایک عارضی چمک ہے بجائے اس کے یشرقن کہا جاتا تو بہتر تھا کیونکہ اشراق ، لمعان سے زیادہ پا ئدار ہے۔
۴)ضحیٰ:کے بجائے دجیٰ کہا جاتا تو زیادہ مناسب تھاکیونکہ روشنی سیاہی میںزیادہ قابلِ وقعت ہوتی ہے۔
۵)اسیاف:جمع قلت ہے سیوف کا استعمال انسب تھا ۔
۶)یقطرن کے بجائے یسلن سے معنیٰ زیادہ وسیع ہو جا تے ہیں،کیونکہ خون کا سیلان قطرہ قطرہ ہو کر ٹپکنے سے زیادہ مؤثر ہے ۔
۷)دم کے مقابلے دماء بہترتھا کہ یہ جمع ہے اور وہ واحد۔ حضرت حسا ن( ص) یہ سن کر خاموش رہے اور ان کوان اعتراضوںکا کو ئی جواب نہ دیا ۔(در منثور )
الغر ض شاعری کے لحاظ سے حضرت خنساء ر ضی اﷲعنہاکا مرتبہ طبقہء دوم کے شعرائے عرب میںسب سے زیادہ بلند ہے ،ان کا ایک ضخیم دیوان ۱۸۸۸ء میں بیروت کے کسی مطبع نے شائع
کیا تھا جس میںخنساء کے ساتھ ساٹھ عورتوں کے اور بھی مرثیے شامل ہیں۔۱۸۸۹ءمیںفرانسیسی زبان میں اس کاترجمہ ہوا ۔