Biography Allama Abdul Mustafa Azmi علامہ شیخ الحدیث عبد المصطفیٰ اعظمی گھوسوی مصنف کتب کثیرہ

 *🕯شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ🕯*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖



*نام و نسب:* 

*اسمِ گرامی:* علامہ عبد المصطفیٰ۔

*لقب:* اعظمی۔

*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* محمد عبدالمصطفیٰ بن شیخ حافظ عبدالرحیم بن شیخ حاجی عبدالوہاب بن شیخ چمن بن شیخ نور محمد بن شیخ مٹھوبابا رحمہم اللہ تعالٰی۔

والدۂ ماجدہ کا نام حلیمہ بی بی تھا۔


*تاریخِ ولادت:* شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمۃ ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ کے گنجان آباد قصبہ گھوسی میں ماہِ ذیقعد 1333ھ میں شیخ حافظ عبدالرحیم علیہ الرحمۃ کے گھر پیدا ہوئے۔


*تحصیلِ علم:* آپ اپنے والدِ گرامی سے ابتدائی تعلیم حاصل کر کےمدرسۂ اسلامیہ گھوسی میں داخل ہوئے اوراردوفارسی کی مزید تعلیم پائی۔ چند ماہ مدرسۂ ناصر العلوم گھوسی میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسۂ معروفیہ معروف پورہ میں میزان سے شرح جامی تک پڑھا۔

پھر 1351ھ میں مدرسۂ محمدیّہ حنفیہ امروہہ اورمدرسۂ منظرِاسلام بریلی میں علی الترتیب شیخ العلما حضرت مولانا شاہ اُویس حسن عرف غلام جیلانی اعظمی (شیخ الحدیث دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف (متوفّٰی 1397ھ)، مولانا حکمت اللہ امروہوی، حضرت مولانا سیّد خلیل احمد کاظمی محدث امروہوی، حضرت مولانا سردار احمد محدث اعظم پاکستان (علیہم الرحمۃ) سے حاصل کی۔

10؍ شوّال المکرم 1355ھ کو دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ ریاست دادوں علی گڑھ پہنچے، حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمۃسے دورۂ حدیث پڑھا، 1356ھ میں سندِ فضیلت مرحمت ہوئی۔حضرت مولاناسیّد شاہ مصباح الحسن صاحب چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سر پردستار فضیلت باندھی۔ مذکورہ مشائخ کے علاوہ آپ علیہ الرحمۃ نے اِن نابغۂ روزگار ہستیوں سے بھی علمی و روحانی استفادہ فرمایا:


حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ حامدرضا خان صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (خلفِ اکبر سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ) کی خدمت میں حاضری دی اور شرف یاب ہوئے۔موصوف آپ پر بڑا کرم فرمایا کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہٗکے برادرِخورد حضرت مولانا محمد رضا خاں صاحب عرف ننھے میاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سےعلم المیراث کی مشق کی اورحضور مفتیِ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں نوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (زیب سجادہ آستانۂ عالیہ قادریّہ رضویہ بریلی شریف، خلفِ اصغرحضور اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہٗ) کے دارالافتاء میں بھی حاضر ہوتے تھے۔ اسی طرح حضرت مولانا سیّد سلیمان اشرف بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (خلیفۂ اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہٗ) کی خدمت میں بھی حاضری دیتے اورعلمی اکتساب فرماتے رہے۔


*بیعت و خلافت:* 17؍صفر المظفر 1353ھ میں حضرت حافظ شاہ ابرار حسن خان صاحب نقشبندی شاہجہاں پوری سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے، اور 25؍صفر المظفر 1358ھ میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ نے سلسلۂ قادریہ رضویہ کی خلافت عطا فرمائی۔ اس کے بعد حضرت مولانا قاضی محبوب احمد عباسی صاحب خلیفہ حافظ شاہ ابرار حسن صاحب شاہ جہاں پوری نے سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ کی خلافت سے سر فراز فرمایا۔


*سیرت و خصائص:* فقیہِ ملّت حضرت علامَہ مفتی محمد جَلال الدین صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’علامۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا الحاج عبد المصطفیٰ صاحب اعظمی مجددی قبلہ مدظلہ العالی، اپنے علمی جاہ و جلال اور فضل و کمال کے اعتبار سے اکابر علمائے اہلِ سنّت میں ایک خصوصی امتیاز کے ساتھ ممتاز ہیں۔ آپ ایک مُسلّم الثبوت، ماہر درسیات، ساحرالبیان اور ایک خصوصی طرزِ تحریر کے موجد و کامیاب مصنّف ہونے کی بنا پر ملک و بیرونِ ملک میں ’’جامع الصفات‘‘ مشہور ہیں۔ چند خاص خاص اور اہم موضوعات پر آپ کی چھوٹی بڑی پندرہ کتابیں طبع ہوکر عوام وخواص سے خراجِ تحسین حاصِل کر چکی ہیں۔‘‘ (تقریظ، جنتی زیور)


*درس و تدریس:* آپ ساری زندگی مدارسِ اہلِ سنّت میں تدریس کے فرائض سر انجام ديتے رہے، اور حقیقی طور پر دینِ متین کی خدمت فرمائی۔ بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی ان درس گاہوں میں سیکڑوں طلبہ آپ کے درس سے فارغ التحصیل و دستار بند ہو کر ہندوستان و پاکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ اور افریقہ میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔


*وعظ و تقریر:* آپ ایک بلند پایہ مقرر تھے۔ وعظ و تقریر کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ زبان میں شیرینی،روانی اور تاثیر تھی۔ملک کے طول وعرض میں آپ کے بیانات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔


*تصانیف:* آپ کی خاص خاص تصانیف جو بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی طبع ہو کر ملک و بیرون ملک میں مقبولیت ِ عامّہ پا چکی ہیں۔تقریباً ان کی تعداد 24 ہے۔


*سفرِ حج اور آپ کے مشائخ حرمین:* 19؍شوّال المکرم 1378ھ میں حرمین شریفین روانہ ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں حضرت مفتی محمد سعد اللہ المکی نے صحاحِ ستّہ ودلائل الخیرات شریف و حزب البحر کی اجازت دے کر سندیں عطا فرمائیں اور مفتی المالکیہ مولانا سیّد علوی عباس مکی نے صحاحِ ستّہ کی سند عطا فرمائی اور حضرت شیخ الحرم مولانا محمد ابن العربی الجزائری علیہ الرحمۃ نے بخاری اور مؤطا شریف کی سندِ خاص سے سرفراز فرمایا اور مدینہ منورہ میں شیخ الدلائل حضرت علامہ یوسف بن محمدبن علی باشبلی حریری مدنی نے اپنی سندِ خاص کے ساتھ دلائل الخیرات شریف کی اجازت عطافرمائی۔ حج کوجاتے وقت آپ نے حضور مفتیِ اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شیخ مذکور کے نام ایک تعارفی خط لکھوالیا تھا جس سے توجہات عالیہ کو منعطف کرانے میں مدد ملی۔ شیخ کی بارگاہ میں پہنچ کر جب آپ نے خط پیش کیا اور شیخ اس جملہ پر پہنچے ’’ھٰذا تلمیذ تلمیذ الشیخ مولانا احمد رضا خان الھندی۔‘‘ 

تو فرمایا: ’’عبدالمصطفیٰ آپ ہی ہیں؟‘‘ آپ نے عرض کیا: ’’ہاں میں ہی ہوں۔‘‘ پھر تو بڑی ہی گرم جوشی سے معانقہ فرمایا اور دعائیں دیں اور کچھ دیر تک سرکار مرشِدی حضور مفتیِ اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیۃ کا ذکر کرتے رہے اور سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا تذکرہ فرمایا، پھر اپنے گھر بلایا۔ جب آپ اُن کے گھر پہنچے تو وہ آپ کے ساتھ بہت ہی توجہ اور مہربانی سے پیش آئے اور اپنی تمام تصانیف کی ایک ایک جلد عنایت فرما کر صحاحِ ستّہ کی سندِ حدیث عطا فرمائی۔ مولانا الشیخ محمد بن العربی الجزائری کے نام بھی سرکار مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا خط لے کر حاضر ہوئے تو آپ کی مسرت کی انتہانہ رہی، بڑے تپاک سے ملے اور صحیح بخاری شریف اور موطا کی سندِ حدیث عطا فرمائی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا تذکرۂ جمیل اِن الفاظ میں فرمایا: ’’ہندوستان کا جب کوئی عالم ہم سے ملتا ہے تو ہم اس سے مولانا شیخ احمد رضا خاں ہندی کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اگر اُس نے تعریف کی تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سنّی ہے اور اگر اس نے مذمّت کی تو ہم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص گمراہ اور بدعتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہی کسوٹی ہے۔‘‘ 

مولانا الشیخ ضیاء الدین مہاجر مدنی خلیفۂ اعلیٰ حضرت سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا اورآپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ آپ ہی نے دیگر حضرات سے بھی ملاقات کرائی جن میں شیخ الدلائل حضرت سیّد یوسف بن محمد المدنی بھی ہیں۔ اُن متعدد شیوخ کی اَسناد کی نقلیں حضرت علامہ اعظمی صاحب نے اپنی کتاب ’’معمولات الابرار‘‘ میں نقل فرمائی ہیں جو کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔


*وصال:* وفات سے چھ ماہ قبل شدید بیمار ہوئے، بالآخر 5؍ رمضان المبارک 1406ھ مطابق15؍ مئی1985ء بروز جمعرات بوقتِ عصر علم و حکمت ،فضل و کمال کا یہ مہر درخشاں ہمیشہ کے ليے غروب ہوگیا۔ دوسرے دن بعد نماز جمعہ ہزاروں سوگواروں نے اس پیکرِ علم ودانش اور صاحبِ قلم ہستی کو اُن کی ذاتی زمین میں سپرِد خاک کردیا۔


(ملخص از سیرتِ صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ)


Previous Post Next Post