﷽
خاد م السادات والعلماء حافظ صوفی محمد امیر اعظم صاحب نو راللہ مرقدہ
مدتوں رویا کریں جام و مینا تجھے
اس خاکدان گیتی پر مختلف خیال و صفات کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔جو اپنی خوشبو و رنگ سے ایک جہاں کو مہکاتے ہیں۔ ان کے اوصاف کی خوشبو ہی ان کی شناخت کا حصہ ہوتی ہے مگرعشق مصطفیٰ سے سرشار دل ہو اورمسلک اعلیٰ حضرت پر ثابت قدمی ہویہ وصف خاص چنندہ افراد میں ہی پایا جاتا ہے۔ حافظ امیر اعظم بھی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو ایک طرف ان میں عاجزی و انکساری اور تواضع و خوش اخلاقی ہے تو دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو موہ لینی اور روح میں پیوست ہونے والی شخصیت پائی جاتی ہے۔
میری ان سے زیادہ قربتیں تو نہیں رہی جتنی قربتیں رہیںوہ کم بھی نہیں ۔کہا بھی جاتا ہے کہ کسی کو سمجھنے کے لیے ایک ملاقات ہی کافی ہوتی ہے۔مجھےاب بھی ان کی نرم لہجےاور انداز گفتگو کارس کانوں میں گھولتا محسوس ہوتاہے ۔ ان سے قلبی وابستگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ نے بھی جامعہ نظامیہ سے سند فراغ پائی تھی۔مدتوں رویا کریں گے جام و مینا تجھے۔
آپ کا نام محمد امیر اعظم ہے ۔ اپنے حلقے میں خادم السادات والعلما۔ صوفی صاحب ، حافظ صاحب وغیرہ جیسے القاب سے جانے پہچانے گئے۔
آپ کی ولادت ضلع شیموگہ کے شکاری پور میں بتاریخ 12 جولائی 1968 کو متوسط سنی مسلم جناب عبد العزیز بن محمدصاحب کے گھر ہوئی۔
آپ کی ابتدائی تعلیم گھر سے شروع ہوئی اور پھر دارالعلوم دستگیریہ منڈگود میں شعبۂ حفظ و قرات میں داخلہ لیا جہاں سن 1979 میں محض گیارہ سال کی عمر میں تکمیل حفظ قرآن کے شرف سے مشرف ہوئے۔ مزید تعلیم کے لئےجنوب ہند کی مشہور ومعروف اور قدیم علمی ودینی مرکز جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں داخلہ لیا۔جہاں درس نظامی کی تکمیل فرمائی۔
مولانا امیر اعظم کا نکاح سن 1989 میں ہیرے کیرور کے جناب محمد قاسم ہوسلی کی دختر نیک اختر محترمہ فریدہ بانو سے ہوا۔ آپ کی چار نرینہ اولاد ہوئیں۔ جو ماشاء اللہ نیک و صالح ہیں۔جو اخلاق واطوار میں والد گرامی کے پرتو ہیں۔جن کی نیک خصلتیں بہترین تعلیم وتربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مولانا امیر اعظم نے ہبلی، سدا شیوگڑھ، سدا پور، ہیریکرور وغیرہ جیسےمقامات میں امامت و خطابت، درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
1990 میںاکی آلور کی جامع مسجد میں اپنے روحانی پیشوانورا لمشائخ حضرت سید محمد محمود صاحب قبلہ عرف باشاہ پیراں رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر تشریف لائے اور یہاں دینی وقومی خدمت انجام دینے لگے اور اسی قریہ کو اپنا وطن ثانی بنایا اور تاحیات یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
مولانا امیر اعظم صاحب نے خلق خد اکی خدمت کے جذبے سے سر شار ہوکرمسجدکی امامت کے ساتھ ساتھ طب وحکمت ، دعا وتعویذکا بھی سلسلہ جاری رکھا۔بہت قلیل عرصے میں موصوف مکرم کو بڑی شہرت نصیب ہوئی اس لئے دوردراز کے شہروں اور علاقوں سے بڑے پیمانے پر مریض بلاتفریق مذہب وملت آپ کے شفاخانے میں حاضر ہوتے رہے اور شفاء پاتے رہے۔
مولانا امیر اعظم شروع ہی سے صوفیائے کرام اور سادات کرام کے بڑے عاشق رہے۔کئی بزرگوں سے فیض حاصل کیا اور ان کی خدمت کی ۔اخیر میں نورا لمشائخ حضرت سید شاہ محمد محمود قادری عرف باشاہ پیراں رحمۃ اللہ علیہ سےبیعت وخلافت کا شرف حاصل کیا۔
بحیثیت انسان مولانا صاحب ایک سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ممکن ہے کہ ان میں آپ کو کچھ کمیاں بھی نظر آئیں اور آپ ان سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔مگر میں نے ان یہی محسوس کیا کہ آپ کی طینت میں حلم،صبر،شکر،قناعت،اور منکسرالمزاجی قدرت کی طرف سے ودیعت کردی گئی تھی۔ہمدردی وایثار،بے لوث روادرای،مشفقانہ رحمدلی،اور متعدد اوصافِ حسنہ کے مالک تھے ۔قرآن وسنت پر خود سختی سے عمل پیرا رہتے تھے،اور مسلمانوں کوبھی اس پرعمل کی تلقین کرتے تھے۔مولانا صاحب ظاہری عبادت کے ساتھ اصلاح قلب و باطن کو لازمی سمجھتے تھے۔اور اسے ہی قربِ خداوندی کاذریعہ بھی سمجھتے تھے۔اپنے مریدین ومتوسلین کو کم کھانا ،کم سونا ،خودغرضی سے بچنے ،اور دوسروںکی ہمدردی،راضی برضا رہنے،اور ذکروفکر میں مشغول رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ہر قسم کی نشہ آور اور حرام چیزوں سے سختی سے منع کرتے تھے۔مولانا امیر اعظم صاحب ہرایک کے کام آتے اور سماج میں بلاتفریق ہر ایک کی ضرورت کو حتی المقدور پور افرماتے۔حد درجہ مہمان نواز اور خوش اخلاق تھے چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے تکریم کے ساتھ پیش آتے۔
بالآخر یہ علم و اخلاق کا روشن ستارہ بتاریخ ۱۰ شوال المکرم ۱۴۴۲ ھ مطابق 23 مئی 2021
بروز اتوار صبح ۱۱ بجے مختصر سی علالت کے بعد ہبلی کے ایک ہاسپٹل میں آخری سانس لیتے ہوئے آسمان زوال پر غروب ہو گیا۔
اللہ وانا الیہ راجعون
اور اپنے پیچھے سینکڑوں اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر دار باقی کو کوچ کرگئے
مورخہ27 جون2021 کومرحوم ومغفور صوفی صاحب نوراللہ مرقدہ کے مکان واقع نزد محمودیہ شفاء خانہ اکی آلور (ضلع ہاویری) میں صوفی صاحب رحمہ تعالیٰ کا فاتحہ چہلم میں تعزیت وتلاوت وایصال ثواب کیا گیا۔
جس میں قرب وجوار کےساتھ دور دراز کے علما ومشائخین نیز سیاسی و سماجی شخصیات نے قبلہ موصوف کو خراج تحسین پیش کیا۔