حضرت حافظ سیّد مُحمّد جمال اللہ رامپوری رحمۃ اللہ علیہ
گجرات (پاکستان)۱۱۳۷ھ/۱۷۲۴ء۔۔۔۱۲۰۹ھ/۱۷۹۴ءرامپور (انڈیا)
قطعۂ تاریخِ وفات
غوثِ اعظم سے اُن کو نسبت تھی
|
| اُن کی تصویر تھے جمال اللہ |
|
(صابر براری، کراچی)
آپ کا اسمِ مبارک سیّد محمد جمال اللہ اور والد گرامی کا نامِ نامی سیّد محمد درویش رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ آپ کی ولادت با سعادت گجرات (پنجاب) میں ہوئی۔ سلسلۂ نسب حضرت غوث الاعظم قدس سرہ کے واسطہ سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی ولادت ۱۱؍ربیع الاوّل ۱۱۳۷ھ بمطابق ۲۸؍ نومبر ۱۷۲۴ء کو ہوئی۔
آپ ابھی بچّے ہی تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں اپنا لعابِ دہن آپ کے منہ میں ڈالا اور حضرت غوث الاعظم قدس سرہ آپ کی رُوحانی تربیّت فرماتے رہے۔ یہی وجہ کہ آپ پر شروع سے ہی بے خودی کی حالت طاری تھی۔
آپ نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ اس لیے مکمّل سپاہیانہ تربیت حاصل کر کے اپنے شوق کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اور سیر و سیاحت کرتے ہوئے دہلی تشریف لے آئے اور یہاں ایک درویش صفت عالمِ دین جو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے وابستہ تھے اور بہت بڑے فقہیہ کامل تھے، سے حدیث و فقہ کی کتابیں پڑھیں اور جلد ہی علوم متداولہ میں کامل و اکمل ہوگئے۔
اُس زمانے میں آپ نے مجاہدۂ نفس شروع کردیا تھا اور روزانہ دو قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے۔ آپ کے اُستادِ محترم چونکہ حضرت خواجہ سیّد قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مرید خاص تھے لٰہذا آپ غائبانہ طور پر اُن سے مانوس ہوچکے تھے۔ ایک رات حسبِ معمول تلاوتِ قرآن مجید کر رہے تھے کہ غیب سے آواز آئی:
’’اے جمال اللہ! اگرچہ تلاوتِ قرآن مجید فُرقانِ حمید بہت بڑی عبادت ہے، لیکن عبادت میں لذّت و سرور اُسی وقت ہی حاصل ہوسکت ہے جبکہ کسی شیخ سے بیعت کرلی جائے‘‘۔
یہ سُنتے ہی آپ کی حالت دگر گوں ہوگئی اور آپ اُفتاں و خیزاں اپنے اُستاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ خدا را مجھے جلد اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں لے چلیں اُستاد صاحب نے کہا کہ اب رات کا وقت ہے، انشاء اللہ تعالیٰ صبح چلیں گے۔ یہ سُن کر آپ کی طبیعت میں بے قراری غالب ہوگئی اور رات گزارنا مشکل ہوگئی۔ صبح ہوتے ہی اُستاد محترم کے ہمراہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کے مزار مقدس پر حاضر ہوئے کیونکہ حضرت سیّد قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت وہاں گوشہ نشین تھے۔ شرفِ بیعت حاصل کرنے کے بعد سب کچھ چھوڑ کر پیر و مرشد کی خدمتِ با برکت میں ہی رہنا شروع کردیا اور بارہ سال تک شیخ کی صحبت کیمیا اثر میں رہے۔ حضرت سیّد قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کی جدائی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ جب شیخ حج مبارک کے لیے تشریف لے گئے تو آپ بھی ہمراہ تھے۔مدینہ شریف پہنچے تو حضرت خواجہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ کو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ملا کہ حافظ سیّد محمد جمال اللہ کو خرقۂ خلافت پہنا کر واپس ہندوستان بھیج دو وہاں ہزار ہا لوگ اُن سے مستفید و مستفیض ہوں گے۔
مدینہ طیّبہ سے واپس تشریف لا کر آپ سر ہند شریف میں مقیم ہوگئے اور مجدّدی فیوض و برکات کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ بعد از ویرانیٔ سرہند آپ رام پور المعروف بہ مُصطفےٰ آباد تشریف لے گئے اور مستقل سکونت اختیار فر ماکر خلقِ خدا کی روحانی رہنمائی فرمانے لگے۔ ابتدائی دور میں رام پور میں عرصہ تک نواب رام پور فیض اللہ خاں کی فوج میں سپاہی رہ کر اپنی درویش کو چھپائے رکھا۔ حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی رامپور تشریف لا کر آپ سے ملے تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’میں گرمیٔ محبّت اور حرارتِ مؤدتِ کی طلب میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ آپ نے شاہ صاحب کو تربور عطا فرمایا تھا۔
اتباعِ سُنّت کا نہایت التزام و اہتمام فرماتے تھے۔ اعمالِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔ دل عشقِ الٰہی سے محمور اور حُبّ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے چُور تھا۔ ایک کثیر خلقت نے آپ سے استفادہ کیا۔ کثرتِ اذکار آپ کا معمول تھا۔ نگاہ میں اس قدر تاثیر تھی کہ جو ایک دفعہ دیکھ لیتا، گرویدہ ہوکر غلام بے دام بن جاتا۔ بڑے بڑے امراء و رؤساء آپ کے مرید و معتقد تھے۔ آپ کا لنگر شاہی تھا۔ جہاں سینکڑوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے تھے۔ جو دو سخا اور خوش اخلاقی آپ کا طرّۂ امتیاز تھا۔ کوئی سائل آپ کے در سے خالی نہ جاتا تھا بلکہ آپ سائلوں کے منتظر رہتے تھے۔ مستجاب الدعوات تھے جس کے اثر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو بڑی بڑی مشکلیں آسان فرما دیتے تھے۔ حافظ رحمت خاں رحمۃ اللہ علیہ والیِٔ روہیلکھنڈ آپ کے بڑے معتقد تھے اور اُن کی بیٹی خدیجہ آپ کی مرید تھیں۔
آپ میں جذب و مستی کی فراوانی تھی۔ ایک دن رامپور کے بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک پُر اثر آواز سُن کر جوش میں آگئے اور اللہ، اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے دولت خانہ کی طرف تشریف لے گئے۔ اس حال میں جو انسان یا حیوان آپ کے سامنے آتا تھا وہ مست و مدہوش ہوجاتا تھا اور بعض تو مرغِ بسمل کی طرح خاک پر لوٹتے تھے۔ یہ واقعہ آناً فاناً پورے شہر میں پھیل گیا اور خلق کثیر حاضر ہوکر آپ سے مستفید و مستفیض ہونے لگی۔
آپ کو سیر و سیاحت اور شکار کا بہت شَوق تھا۔ آپ نے اپنی زندگی میں کئی شیروں کا شکار کیا۔ ایک دفعہ بسلسلہ شکار دہلی سے واپس رامپور بمعہ دوستاں تشریف لے جارہے تھے۔کہ اثنائے راہ شکار کرنے کی خواہش ہوئی۔ اپنے ایک خادم شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک جگہ کھڑا کر کے فرمایا کہ تم اس جگہ ٹھہرو ہم واپسی پر تمہیں ساتھ لے کر رام پور چلیں گئے۔ اور خود ایک جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ شکار کرتے کرتے شام ہوگئی اور آپ ایک نواحی گاؤں میں شب بسری کے لیے تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے عازم رامپور ہو گئے کہ شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ خود بخود رامپور پہنچ جائیں گے۔ لیکن شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ رامپور نہ پہنچے۔
تقریباً ایک سال بعد آپ پھر دہلی تشریف لے جاتے ہوئے اُسی راستہ سے گزرے تو شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ کو اُسی مقام (جس جگہ کھڑا ہونے کا حکم دیا تھا) پر غمگین، پریشان حال اور گرد آلود دیکھا۔ بکمال شفقت پُوچھا ’’کہ اس جگہ کب سے کھڑے ہو؟‘‘ اس پر شاہ درگا ہی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ ’’جب سے آپ نے حکم دیا ہوا ہے۔ اسی جگہ پر ہی کھڑا ہوں‘‘۔
مِٹا دیا میرے ساقی نے عالمِ من و تُو |
| پلا کے مجھ کو مَے لَا اِلَہٰ اِلّا ہُو |
یہ حال دیکھ کر حضرت سیّد جمال اللہ قدس سرہ جوش میں آگئے اور شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ کو سینے سے لگا کر نُورٌ علیٰ نُور کردیا ۔ آنِ واحد میں سلوک و تصوّف کی اعلیٰ منازل طے کرادیں اور فرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا، اُس کو معرفتِ خدا وندی حاصل ہوگئی‘‘۔
کرامات
۱۔ ایک قوی ہیکل، سنگدل اور زاہد خشک، مولوی اذکر نامی شخص درویشوں کا منکر تھا اور حلقۂ درویشاں میں بطور تماشائی جا کر تمسخر اڑایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ آپ کی مسجد میں آیا، جہاں آپ حلقۂ ذکر منعقد فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے نُورِ فہراست سے معلوم کرلیا کہ یہ ایک بے ادب، گستاخ اور بدبخت آدمی ہے۔ آپ نے اُس سے نام پوچھا تو بڑی بلند، کرخت اور مکروہ آواز سے کہنے لگا، ’’مُلّا اذکر‘‘ آپ نے فرمایا کہ تیرا جسم اور اسم دونوں سخت ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اس زور سے ’’اللہ‘‘ کا نعرہ مارا اور وہ سُنتے ہی صاعقہ زدہ کی طرح گر کر بیہوش ہوگیا اور اس طرح تڑپنے پھڑکنے لگا کہ ابھی مرجائے گا۔ اُس کی یہ حالت دیکھ کر آپ کو رحم آگیا اور اپنا دستِ مبارک اُس کے دل پر پھیرا۔ اس پر اُس کی ساری سختی اور غرور زائل ہوگیا اور معافی مانگ کر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدّدیہ میں داخل ہوگیا۔
۲۔ آپ کی رحلت شریف کے بعد جب آپ کی قبر مبارک تیار ہو رہی تھی تو معماروں کا انچارج آپ کا مرید صادق تھا۔ وہ گنبد مبارک پر گلکاری کا کام کر رہا تھا کہ اچانک اُس کا پاؤں پھسلا اور نیچے گر گیا ابھی زمین پر نہیں پہنچا تھا کہ اُس نے آپ کو یاد کیا۔ آپ فوراً تشریف لائے اور اسے فضا سے پکڑ کر زمین پر بالکل صحیح سالم کھڑا کردیا۔ اُسے کسی قسم کی چوٹ نہ آئی۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر بہت متحیّر ہوئے۔
آپ نے تمام زندگی مجرّدانہ بسر کی لٰہذا کوئی اولاد نسبی باقی نہ چھوڑی البتہ رُوحانی اولاد میں سے تین خلفاء حضرت شاہ درگاہی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ صحرائی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ محمد عیسیٰ گنڈا پُوری رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور ہوئے۔ ان کے علاوہ مُلّا فدا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ اور میاں سیف اللہ، قصبہ سر سی تحصیل سنبھل ضِلع مراد آباد بھی آپ کے خلفاء میں سے تھے۔
آپ کی وفات حسرت آیات۳؍ صفر المظفر /۳۰ اگست ۱۲۰۹ھ/۱۷۹۴ء کو ہوئی اور رام اور رام پور شہر متصل دروازہ عیدگاہ مزار مقدس بنا جو آج مرجعٔ خلائق ہے۔ قطعۂ وصال مبارک جو مزار مبارک کے جنوبی دروزہ پر کندہ ہے۔
آں شاہِ جمال قُطبِ عالم |
| خوش رفت بجلوہ گاہِ وحدت |
|
(تاریخِ مشائخ نقشبند)