حالات مصنف’’جامع الاحادیث‘‘
علامہ مفتی محمد حنیف رضوی بانی امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی انڈیا
گرم دم جستجو ، نر م دم گفتگو
رزم ہویابز م ہو،پا ک دل وپاک باز
فضیلۃالعلم حضرت مولانا محمد حنیف خانصاحب ابن مولانامحمدعلی خانصاحب ابن جناب ولی محمد خاںصاحب ابن جناب صدر الدین خاں صاحب عصر حاضر میں ایک جلیل القدر علام ، پابند و مستعد معلم اور مستقل مزاج مصنف و مولف ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے علمی و عملی قدو قامت کی بلندی نے معاصرین میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔
۱۱؍ذی الحجہ ۱۳۷۶ھ مطابق ۳۱؍ جون ۱۹۵۶ھ کواپنے وطن موضع بھوگپور تحصیل بہیڑی بریلی شریف یوپی میں ایک نہایت شریف اور باعزت خاندان میں پید اہوئے تقریباًپانچ سال کی عمر میں اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کی قرآن پاک ناظرہ اور اساسی اردو کے بعد چوتھے کلاس تک مروجہ ہندی اسکول میں پڑھا، سن شعور کی پختگی کے بعد بہیڑی کی ایک درسگاہ مدرسہ شیریہ میں عربی فارسی کا آغاز کیا ، یہاں دو سال گزرانے کے بعد ایک اور دانش گاہ بحر العلوم بہیڑی میں داخل ہوئے اور درجہ رابعہ تک بڑی محنت اور لگن سے پڑھا اس کے بعد الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور تشریف لے گئے آخر میں مرکز اہل سنت دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں حضرت صدرالعلماء الشاہ علامہ تحسین رضا خانصاحب دامت برکاتہم کی سرپرستی میں شراب علم وعمل سے شاد کام ہوتے رہے اور یہیں سے ۱۹۷۹ء میں سند فراغت وتاج فضیلت سے شرف یاب ہوئے ۔
تاجدار اہلسنت حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ باعظمت میں حاضرہو کرداخل سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ ہوئے اور اکثر حضرت کی زیارت وخدمت کا شرف حاصل رہا اور تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خانصاحب قبلہ ازہری میاں نے الجامعۃ القادریہ رچھا اسٹیشن میں ایک پُر کیف تقریب میں سعادت خلادفت واجازت سے نوازا۔
آپ نے دوران تعلیم جن اساتذئہ کرام سے اکتساب علوم وفنون کیا ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
صدر العلماء حضرت علامہ تحسین رضا خانصاحب قبلہ
شیخ الحدیث جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف
سماحۃالفضل حضرت مفتی محمد جہانگیر خانصاحب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ
بحرالعلوم حضرت مفتی عبدالمنان صاحب اعظمی
شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی
شیخ التفسیر حضرت علامہ عبداللہ خانصاحب
الجامعۃ الاسلامیہ روناہی فیض آباد
محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی صاحب
شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
جامع معقولات ومنقولات علامہ نعیم اللہ خانصاحب
صدر المدرسین منظر اسلام بریلی شریف
سماحۃ الشیخ حضرت علامہ سید عارف صاحب
سابق شیخ الحدیث منظر اسلام بریلی شریف
ماہر معقولات حضرت علامہ مناظر حسین صاحب سنبھل ،مرادآباد
شیخ الادب حضرت علامہ یٰس اختر صاحب مصباحی بانی دارالقلم دہلی
ادیب شہیر حضرت مولانا محمدافتخار صاحب اعظمی
حضرت مولانانصیرالدین صاحب عزیزی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
حضرت مولانا محمد اسرار صاحب الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
حضرت مولانا بلال احمد صاحب بہار
حضرت مولانا سلطان اشرف صاحب بہیڑی
حضرت مولانامحمود رضا خانصاحب پیلی بھیت شریف
حضرت مولانا حامدحسین صاحب علیہ الرحمۃ بہیڑی
حضرت مولانا انوارعالم صاحب پورنوی
حضرت مولانا سید عباس علی صاحب علیہ الرحمۃبھوگپوری ۔
دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے ۱۹۷۹ء میں فراغت کے بعد آپ نے مسند تدریس کو زینت بخشی ، گردونواح کے کئی ایک مدارس میں طالبان علوم نبوی کو علم وادب کے گراں قدر زیور سے آراستہ فرمایا ،منفرد اور یگانہ طرز تدریس سے حلقہ تلامذہ میں اپنا گہرا اثرو رسوخ قائم فرمایا ،آپ کے علم عمل نے حلقہ بگوشوں کی تعلیم وتربیت میں علم وآگہی کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ عملی جزبات کو بھی بے دار کیا یہ آپ کی تعلیمی مقبولیت ہی کی تو دلیل ہے کہ آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے طلبہ اپنے آپ ہی آپکے ساتھ ساتھ ہوتے آپ حلقہ درس اتنا وسیع ہے کہ بلامبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ علاقہ کے نوجوان شہرت یافتہ علماء میں دوچند ہی ایسے ہونگے جن کو آپ کا یا آپ کے تلامذہ کا شرف تلمذ حاصل نہ ہواہو ۔
آپ نے جس مدرسہ میں بھی تعلیم وتدریس کی خدمات انجام دیں اسکے عروج وارتقاء کیلئے انتظامی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کچھ مدارس تو ایسے بھی ہیں جن کے تعلیمی وانتظامی روح رواصرف اور صرف آپ ہی رہے ، آپکی انتظامی جدوجہد اور تعلیم سرگرمیوںنے ان کو نیا وجود اور پائیدار شہرت بخشی اور اراکین وطلبہ کیلئے وہ لمحے یادگار بن گئے۔
جن مدارس کی آپنے آبیاری فرمائی وہ اس طرح ہیں:۔
Y الجامعۃ الرضویہ قصبہ کیمری ضلع رامپور(مدت تدریس :ڈیڑھ سال )
Y دارالعلوم گلشن بغداد رامپور (مدت تدریس : تقریباً پونے چارسال)
Y مفتاح العلوم جامع مسجد رامنگر ضلع نینی تال (مدت تدریس : تقریباً پونے تین سال
Y بدر العلوم جامع مسجد جسپور ضلع نینی تال (مدت تدریس : ڈیڑھ سال )
Yالجامعۃ القادریہ رچھا اسٹیشن ضلع بریلی شریف (مدت تدریس :تقریباً چار سال )
اس کے بعد حضرت منانی میاں صاحب قبلہ کی خواہش وفرمائش کا احترام کرتے ہوئے جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف تشریف لائے، حضرت نے آپ کی تعلیمی و تنظیمی اہلیت ولیاقت کو دیکھ کر جامعہ کے سارے انتظامی اور تعلیمی معاملات آپ ہی سپرد کردیئے، آپ نے بڑی جاں فشانی اور عرق ریزی کے ساتھ جامعہ کیلئے ترقی کی راہیں ہموار فرمائیں چنانچہ جامعہ کے شایان شان اساتذہ کی تلاش وجستجو ایک جواں حوصلہ ، محرک وفعال اور کار آمد عملہ فراہم کر نے میں کامیاب ہوگئی ، بلاشبہ جامعہ کی موجودہ ترقی ، کامیابی اور کامرانی موصوف ہی طرف منسوب ہے۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ قلم کی گل کاریاں قلم کار کو حیات جاوید بخشتی ہیں موصوف کو دور طالب علمی ہی سے قلم کاری اور مقالہ نگاری کا شوق تھا اس نے بعد فراغت اور فروغ حاصل کیا ، متعلقہ مدارس کی تمام تر ذمہ داریوں کے باوجود تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی چلتا ہی رہا اگر چہ دوران تعلیم وتدریس مختلف صبر آزما مراحل ومسائل بھی پیش آئے مگر طبعی جد وجہد اور حرکت وعمل نے عزم وحوصلہ کو کمزور نہ ہونے دیا بلکہ مضبوط سے مضبوط تر بنادیا ۔بلفظ دیگر بخشاہے ٹھوکروںنے سنبھلنے کا حوصلہ ٭ ہر حادثہ خیال کو گہرائی دے گیا
ارباب قلم جانتے ہیں کہ تصنیف وتالیف یک سوئی چاہتی ہے مدرسہ کی تعلیمی ، انتظامی اور تعمیری ذمہ داریوں کے باوجود تصنیف وتالیف بہت مشکل کام ہے مگر پھربھی آپ کے قلم زرنگار نے بے مثال گراں قدر تصنیفی کارنامے انجام دیئے ۔ آپ کا اب تک کا سرمایۂ قلم اس طرح ہے ۔
۱۔ جامع الاحادیث ۶ جلدیں
۲ ۔ ترجمہ جامع الغموض جلد اول
۳۔ ترجمہ جامع الغموض جلد دوم (غیر مطبوعہ )
۴۔ نحوی پہلیاں
۵۔ حاشیۂ ہدایۃ الحکمت عربی (غیر مطبوعہ )
۶۔ مفردات حنفیہ (غیر مطبوعہ )
۷۔ مسئلہ قرأت خلف الامام
۸۔ تلخیص وترجمہ تبشیر الوری مصنفہ مولانا سلامت اللہ صاحب رامپوری (غیر مطبوعہ )
۹۔ حالات مصنفین (غیر مطبوعہ )
۱۰۔ تاریخ وہابیہ (غیر مطبوعہ )
۱۱۔ مقالات حنفیہ (غیر مطبوعہ )
۱۲۔ حضور مفتی اعظم ہند قرآن وحدیث کی روشنی میں
۱۳۔ سچی نماز
اس کے علاوہ نشر واشاعت سے بھی آپ کو گہراشغف رہا ، آپ نے نشرواشاعت کی اب تک کی زندگی میں مختلف کارہا ئے نمایاں انجام دیئے ، اولین ترین کاوش چند احباب کی معیت میں ’’رضا اکیڈمی رامپور ‘‘کے نام سے اشاعتی ادارہ کا قیام ہے جو ۱۹۸۱ء میں عمل میں آیا جس کے ذریعہ کئی اشاعتی پروگرام انجام پائے اس کے بعد چند رفقائے کار کے ساتھ ۱۹۸۲ء میں ’’قادری اکیڈمی رامپور ‘‘ کے قیام میں بھی سر گرمی و مستعدی کے ساتھ شامل رہے جو آج تک اسی اساس پر کام کر رہا ہے ۔
رامنگر نینی تال پہونچنے کے بعد ’’رضادار الاشاعت‘‘ کا قیام فرمایا جس نے مختصر سے عرصہ میں مثالی کارکردگی سے حیرت انگیز شہرت حاصل کرلی ، الجامعۃ القادریہ رچھا اسٹیشن پہونچکر اپنے معاون کار مخلص احباب کے ساتھ ماہنامہ رضائے مصطفی نکالا اور بحسن خوبی اسکی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف تشریف لاکر بھی نشر واشاعت کی طرف کئی ایک مثبت قدم اٹھائے جو کامیاب تو رہے مگر حسب مراد نہیں ، آپ بریلی شریف میں منصوبہ بند اشاعتی پروگرام کی امنگ رکھتے تھے ،اس کو تائید غیبی ہی کہیں گے کہ مخیر قوم وملت حضرت سید شوکت حسین صاحب ممبیٔ نے ایک ایسے ہی پروگرام کی پیش کش کی ، اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر اس کو بکمال رغبت قبول کرلیا اور’’ امام احمد رضا اکیڈمی‘‘ کے نام پر اس عظیم کام کی داغ بیل ڈالدی جس کو ارباب عقیدت بڑی قدرو قیمت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں خداپاک اس کار نمایاں کو غایت درجہ کامیابی عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم )
الغرض حضرت مصنف کا کاروان شوق پہ بہ پہ منازل عظمت کی طرف رواں دواں ہے تھوڑے ہی عرصہ میں اتنی کامیابیاں مستقبل میں اور بھی زرین خدمات کا پتہ دیتی ہیں ۔ بقول شاعرابھی جاناہے مجھ کو اور آگے یہ منزل آخری منزل نہیںہے
آخر میں دست بدعا ہوں کہ خدائے پاک اپنے حبیب صاحب لولاک ﷺ کے صدقہ میں بے پناہ برکت فرمائے تاکہ اسی طرح اپنی بیش بہا نگارشات اور گرا ں قدر خدمات سے
نواز تے رہیں ۔ع ایں دعااز من وازجملہ جہاں آمین باد
صغیر اختر المصباحیؔ