Biography Sayed Ameen Ul Qadari مبلغ سنی دعوت اسلامی حضرت علامہ سید محمد امین القادری

 مولاناسید محمد امین القادری صاحب 



شہر مالیگائوں میں۱۹۹۴ء میںسواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنی دعوت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔حالاتِ زمانہ کے تھپیڑوں کو برداشت کرتاہوارفتہ رفتہ یہ ننھاسا پودا بڑکپن کی طرف قدم بڑھانے لگا۔اس چمن کی آبیاری وباغبانی کی ذمہ داری ۱۹۹۸ء میںداعی کبیر خلیفۂ سید ملت حضرت علامہ محمدشاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)نے پندرہ سالہ نوجوان آل رسول حضرت مولاناالحاج سید محمد امین القادری صاحب کے سپردکی۔جن کی شریانوں میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لہو دوڑ رہا ہے،جو آلِ نبی اولادِ علی ہیں،جن کے جد امجد میر سیّدیوسف صاحب شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے زمانے میں بحیثیت قاضیِ شہر مالیگائوں بھیجے گئے تھے۔آپ ۱۹۹۴ء میں سواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی سے منسلک ہوئے اور ۱۹۹۸ء میں مرکز کی جانب سے نگراں نامزدہوئے۔آپ ایک بہترین مبلغ، عمدہ خطیب ،اعلیٰ منتظم اور اچھے نگراں ہیں۔آپ نے چند سالوں تک مسجد گلشن امام احمد رضا ،ہڈکوکالونی میں امامت فرمائی۔آپ نے متعدد مدارس ومساجد تعمیر کیں،درجنوں مبلغ اور خطیب تیار کیے،ایک ہزار سے زائد عناوین پر آپ کے خطابات ہیںاور تادمِ تحریر دینی وملی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

آپ کا اسم گرامی سید محمد امین سید یاسین ہے۔۲۹؍مئی ۱۹۸۳ء کو شہر مالیگائوں میں برسوں سے مقیم ایک سادات گھرانے میں آپ کی ولادت ہوئی۔شہر مالیگائوں کے قاضی سید احمد علی مرحوم آپ کے تایا ہیں۔جن کے جد امجد قاضی میر محمدیوسف علی زندگی بھر قاضیِ شریعت رہے اور مالیگائوں کے موجودہ قاضی انھیں کی اولاد میں سے ہیں۔کتاب الانساب میں مرقوم ہے کہ قاضی سید میر محمد یوسف علی کا سلسلۂ نسب ۳۶؍ویں پیڑھی میں سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے جس کی تفصیل ’’نقوش‘‘نامی کتاب میں موجود ہے۔مالیگائوں، گالنہ، پاٹنہ، گھوڑے گائوں، نیم گائوں، اُمرانہ اور سودانہ نامی قصبات میں مغل حکمراں عزیزالدین شاہ عالمگیرثانی نے ۱۱۸۰ھ میں قاضی سید موسیٰ نامی علم وفضل والے بزرگ کو عہدۂ قضا پر مامور کیاتاکہ مذکورہ مقامات کے مسلم باشندوں کی شرعی رہنمائی ہوسکے ۔مغل حکمراں نے قاضی صاحب کو ایک مہر بھی دی تھی جس کا نقش مذکورہ کتاب میں موجود ہے۔

مولاناسید محمد امین القادری صاحب نے راقم کو اپنے تایا جان کے ہاتھوں کا لکھا قلمی نسب نامہ بھی بتایا جس میں حضرت کے والدکی صرف دو اولاد کا ذکر ہے یعنی کہ یہ قلمی نسخہ اس وقت لکھا گیاہوگا جب حضرت کے والد کو صرف دو اولاد رہی ہوںگی۔ان نکات کو اس لیے وضاحت کے ساتھ بیان کیاجارہاہے کہ اکثر حضرت کے نسب پر سوال قائم کیاجاتا ہے ورنہ راقم کو حضرت کے سید ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا یہ مفہوم ہی کافی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو سید کہے تو بغیر شک وشبہہ کے تسلیم کر لواور اپنا نسب تبدیل کرکے سید کہلانے والوں کے حوالے سے بھی آقا علیہ السلام نے فرمایاکہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرلیں۔ (حوالہ)

٭تعلیم وتربیت:

ابتدائی تعلیم مدرسہ غوثیہ،بادشاہ خان نگر میں حافظ اسماعیل یارعلوی صاحب سے حاصل کی۔مدینہ مسجد (آگرہ روڈ،مالیگائوں)کے امام حافظ فراز قادری صاحب سے قراء ت کی تکمیل کی۔مدینہ مسجد میں قیام پذیربرہان ملت کے مرید وشاگرد مولاناقاری واجد علی برہانی سے مولوی کورس کی کتابیں پڑھیں۔اسکول نمبر ۶۱؍میں پہلی تا ساتویں جماعت تک اور آٹھویں تا گیارہویں جماعت تک اے ٹی ٹی ہائی اسکول میںتعلیم حاصل کی۔مالیگائوں کی قدیم درس گاہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ میں بھی آپ نے تعلیم حاصل کی۔چرکھ پتھرجھارکھنڈ سے مولوی کورس اور دارالعلوم غوثیہ غریب

نواز (اندور)سے اعزازی سند فضیلت حاصل ہے۔

٭بیعت وخلافت :

آپ نے جے اے ٹی ہائی اسکول،مالیگائوں میں رضا اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ ’’جشن سادات مارہرہ مطہرہ کانفرنس‘‘(۱۹۹۷ء)میں نبیرۂ اعلیٰ حضرت جانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ حضرت العلام شاہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری برکاتی صاحب کے ہاتھوں پر بیعت کی۔آپ کو پانچ بزرگان دین سے خلافت واجازت حاصل ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(۱)سلسلۂ قادریہ رضویہ نوریہ میں نبیرۂ اعلیٰ حضرت برادرِ تاج الشریعہ حضرت منان رضا منانی میاں صاحب سے۔

(۲)سلسلۂ ابوالعلائیہ میں حضرت سید محمود علی قاضی (مالیگائوں)سے۔

(۳)سلسلۂ قادریہ برکاتیہ امجدیہ اشرفیہ رضویہ میں حضرت سید عبد العلیم قادری جیلانی (ناسک) سے۔ 

(۴)سلسلۂ چشتیہ ،فخریہ چشتیہ نظامیہ، چشتیہ صابریہ،قادریہ نقشبندیہ، سہروردیہ جامع سلاسل میں حضرت سید مرتضیٰ عرف افسر پاشا (عثمان آباد،حیدرآباد)سے۔ 

(۵)سلسلۂ رفاعیہ دسوقیہ طبقاتیہ شاذلیہ میں حضرت سید حسن محب اللہ صاحب (کیرالا)سے۔

٭اساتذہ کرام :

حضرت مولانا حافظ اسماعیل یارعلوی ،حافظ فراز قادری، مولاناسید آصف اقبال ،خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہندمفتی عزیزالحسن ،مولاناقاری واجد علی برہانی،مفتی عارف رضوی (اندور) اور مفتی واجد علی یارعلوی صاحبان ۔ان اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض حاصل کرنے کے ساتھ آپ اب تک حضرت داعی کبیر حضرت مولانامحمد شاکر علی نوری صاحب سے علمی، فکری اور روحانی فیض حاصل کررہے ہیں اور حضرت کی رہبری ونگرانی میں دینی وملی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

٭تدریسی خدمات:

تبلیغ دین کی تڑپ ،تحریک سنّی دعوت اسلامی کے کاموں کی مصروفیات اور شہر مالیگائوں میں تحریک کے استحکام وانصرام کے سبب آپ نے باضابطہ کسی مدرسے میں رَہ کر تدریسی خدمات انجام نہیں دی بلکہ آپ نے اپنی تعلیم بھی تبلیغی خدمات انجام دیتے ہوئے مکمل کی۔ ویسے بھی علم کا حصول محض مدارس کی چار دیواری میں حاصل کرنا ضروری نہیں ہے ۔ہمارے بعض اکابر کی حیات سے اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہوں نے مروجہ علوم وفنون کسی مدرسے میں نہیں بلکہ بزرگوں اور مرشد گرامی کی صحبتوں میں رہ کر حاصل کیے ہیں۔آپ نے فراغت کتنے سالوں میں اور کہاں سے حاصل کی یہ جاننے سے زیادہ ضروری ہے کہ حضرت موصوف نے دین ِ اسلام کے لیے کتنا کام کیااور مستقبل میں کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ہندوستان کی ہر ریاست میں آپ کی تبلیغی مساعی جمیلہ اور تحریکی خدمات کی رمق کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ باضابطہ فارغ ہونے والا آپ کاکوئی شاگرد نہیں ہے مگر یہ بھی حق ہے کہ آپ نے سیکڑوں کی تعداد میں مبلغین تیار کیے جو مختلف شعبوں میں مکمل دیانت داری ،اخلاص اور فی سبیل اللہ تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔آپ نے کسی مدرسے میں طلبا کو درس نہیں دیا مگر آپ کے تیار کردہ مبلغین ایک ماہ میں شہر مالیگائوں کے گلی کوچوں،چوک چوراہوں اور مسجدوں میںعوام کے درمیان چار تا پانچ ہزار درس دیتے ہیں جس کی ابتدا آپ نے شہر مالیگائوں میں ۱۹۹۸ء سے کی تھی۔ آپ کی محفلیں اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کی منہ بولتی تصویر ہوتی ہیں۔آپ نے اپنی جوانی دوردراز کے اسفار اور حکم ِ امیر پر عمل کرنے میں گذار دی اور ہنوز یہ سلسلہ دراز ہے۔

٭تحریکی خدمات:

۱۹۹۲ء میں ممبئی کی سرزمین پر تحریک سنّی دعوت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔رفتہ رفتہ مختلف علاقوں میں تحریک کا کام بڑھنے لگا،اسی کے ساتھ شہر مالیگائوں میں بھی تحریکی کام کی بنیاد رکھی گئی۔حافظ ساجد حسین اشرفی، مولانااسماعیل یارعلوی، مظفرحسن نوری،قاری مشتاق احمد چشتی (مرحوم )، قاری صلاح الدین،قاری امتیاز صابری، عتیق مؤذن، مرحوم مختار بیباک ،قاری نورمحمد رضوی اور قاری عبدا لسلا م قادری تحریک کے ابتدائی ساتھی ہے۔مذکورہ افراد میں سے کئی ایک نے یکے بعد دیگرے نگراں شپ کے فرائض انجام دیے۔۱۹۹۲ء میںمالیگائوں میں آگرہ روڈ کے 

قریب مہاراشٹر سائزنگ کے سامنے وسیع وعریض میدان میں سنّی دعوت اسلامی کا عظیم الشان اجتماع ہوا جس میں مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی ،داعی کبیرحضرت مولانامحمد شاکر نوری (امیر سنّی دعوت اسلامی)،بلبل باغ مدینہ قاری محمد رضوان خان صاحب (پرنسپل ہاشمیہ ہائی اسکول، ممبئی)اور کئی علمابغرض خطاب تشریف لائے تھے۔ 

۱۹۹۴ء سے مولاناسید محمد امین القادری صاحب تحریک سنّی دعوت اسلامی کے مبلغ بنے اور ۱۹۹۸ء میں آپ کو مرکز کی جانب سے شہر مالیگائوں کا نگراں مقرر کردیا گیا۔آپ کی قیادت کے بعد سے لے کر آج تک شہر مالیگائوں میں ہر دن تحریک کی برتری اور ترقی کا دن ثابت ہوا۔ہزاروں معاندین اورحاسدین کی تکلیفوں اوررُکاوٹوں سے گریز کرتے ہوئے آپ’’میںچراغِ رہِ گذر ہوںمجھے شوق سے جلائو‘‘کی مانندرات دن دین وسنّیت کے فروغ وتحفظ اور بقاکی خاطر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ محنت اور کوشش کررہے ہیں۔وقت اور حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ نے ہرموڑپراصلاحِ اُمت کا فریضہ انجام دیا۔شہر میں بڑھتے ہوئے فتنوں کے سد باب کے لیے آپ نے ہمہ وقت کردارِ فاروقی وسیرتِ ایوبی کا مظاہرہ کیا۔جوروجفاکی آندھیاں پاش پاش ہوگئیں مگرآپ کے پائے استقامت کومتزلزل نہ کر سکیں۔ معاندین وحاسدین نے ہر وقت آپ کوروکناچاہامگر آپ نے صبروضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضور حافظ ملت کے اس قول پر عمل کیا:’’ہر اعتراض کا جواب کام ہے ۔‘‘ اپنے اور بیگانے حتیٰ کہ باطل بھی اپنے اپنے خیموں میں برملا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر شہر مالیگائوں میں سنّی دعوت اسلامی کا قیام عمل میں نہ آیاہوتاتو آج سنّیت مردہ ہوچکی ہوتی مگر اللہ پاک نے ہر دور میں ملت میں ایسے افراد پیدا فرمائے ہیں جنھوں نے اپنے خون جگر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چمن کی آبیاری کرکے اسلام کو تحریفات سے بھی محفوظ رکھااور ملت کی آستینوں میں پروان چڑھنے والے سانپوں کا منہ کچل کررکھ دیاانہیں مجاہدین میں ایک نام حضرت موصوف کا ہے۔

تیز وتند مخالفتوں کے درمیان بھی حضرت موصوف کا مزاج خالص دین کی ترویج و اشاعت رہاہے۔آپ ہر طرح کے طعنوںاور اعتراضات سے بے پروا ہوکر بقول حضور حافظ ملت ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام‘‘کے مثل رات دن دین اسلام کی ترویج واشاعت میں منہمک رہتے ہیں۔اسے ہماری عقیدت و محبت سے تعبیر نہ کیجیے بلکہ مالیگائوں اور اطراف کی سرزمین پر لہلہاتاہوادین اسلام کا گلستان اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مقبولیت راقم کے دعوے کی پختہ دلیل ہے۔شہر ومضافات شہر اور خاندیش میں آپ کی زیرقیادت تعمیر کردہ بیسیوں مساجد اور سیکڑوں مدارس ودارالعلوم کو بھی اس باب میں پیش کیاجاسکتاہیں۔علامہ موصوف نے شہر میںسنی دعوت اسلامی کے مختلف شعبہ جات کو تشکیل دیااور ہر گوشے میں تشنگان کوسیراب کیااورراہِ راست کے متلاشیوں کی رہبری کی۔مثلاً: اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں دینی بیداری اور علمی ذوق وشوق کوبیدارکرنے کے لیے ’’ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ونگ‘‘کا قیام،بچوں کی عربی تعلیم وتربیت کے لیے ’’شعبۂ اطفال‘‘کا قیام ، خواتین میںاسلامی تعلیمات سے آگاہی کے لیے ’’شعبۂ خواتین‘‘ کا قیام ، قوم کے ننھے ننھے نونہالوں کے روشن مستقبل کے لیے ’’حرا انگلش اسکول ‘‘کاقیام،شہر میں بڑھتے ہوئے نجی،خانگی اور خاندانی مسائل کے حل کے لیے ’’دارالقضاء‘‘کا قیام،شریعت مطہرہ کے مسائل سے آگاہی کے لیے ’’سنّی نوری دارالافتاء‘‘ کا قیام،غربا و مساکین کی حتی المقدور امداد کے لیے ’’شعبۂ خدمت خلق‘‘ کا قیام،دیہاتی  مسلمانوں کے ایمان وعقائد اور مضافات کی مسجدوں کے تحفظ کے لیے ’’شعبۂ خدمت مساجد‘‘کا قیام ،مساجد ومدارس اور درس گاہوں کی ترقی کے لیے ’’شعبۂ علماو حفاظ‘‘کا قیام وغیرہ۔ان تمامی شعبہ جات کے ساتھ شعبۂ نشرواشاعت بھی اپنی بساط بھر خدمات انجام دے رہاہے،اس شعبے کے تحت درجن بھر کے قریب کتاب وکتابچے منظرعام پر آکر عوام وخواص سے دادحاصل کرچکے ہیں۔ساتھ ہی تحریک سنّی دعوت اسلامی کاآرگن  ہفت روزہ اخبار ’’بہار سنّت‘‘بھی  پانچ سالوں تک علمی سوغات لُٹاتارہا جس کی ادارت کی ذمہ داری راقم پر ہے مگر تعلیمی سرگرمیوں اور پی ایچ ڈی کے رجسٹریشن کے تگ ودَو کے سبب یہ سلسلہ فی الحال موقوف ہے۔

٭حق گوئی وبے باکی :

اہلیان مالیگائوں اس بات کے شاہد ہیں کہ شہر میں جنم لینے والے ہر فتنے کی روک تھام کے لیے آپ ہی سب سے پہلے کمر بستہ ہوتے ہیں۔چند سالوں پہلے سیّدوں کے وجود کے انکار کا 

فتنہ بپاہواتو آپ ہی کی وہ عظیم شخصیت تھی جنہوں نے نہ صرف تحریر وتقریر سے اس کاسدّباب کیابلکہ منکرین کوباضابطہ مباہلہ کی دعوت بھی پیش کیں۔باطل افکار ونظریات کے حامل ’’فرقۂ بہائیہ ‘‘نے شہر میں قدم جماناچاہاتو آپ ہی نے اس فرقے کی سرکوبی کیں۔مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اوربرائی کے خاتمے کے لیے اورقوم وملت کی بچیوں کی عزت وعصمت کے تحفظ کے لیے آپ نے ایک مہم بنام’’تحفظ عزت نسواں‘‘کاآغاز کیاتھا۔بہت ممکن تھا کہ اس اسکینڈل میں سماج میںاثر و رسوخ رکھنے والے بااثر حضرات کاپردہ فاش ہوتا مگر اس سے قبل ہی حضرت پر کیس درج کردیا گیااور کورٹ کچہری کی دوڑ بھاگ میں یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔ 

خاندیش میں بڑھتے ہوئے نشہ آور اَدویات کے استعمال اور اس کے ذریعے وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے ’’نشہ اور اسلام‘‘جیسی کئی کانفرنسوں کا انعقاد کیاجس کے سبب محکمۂ فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن اور محکمۂ پولس حرکت میں آیااور خاندیش کے کئی علاقے ان خرافات سے بہت حد تک پاک بھی ہوئے۔شہر میں خودکشی کا رُجحان بڑھنے لگا تو آپ نے اس محاذ پر بھی اپنے خطابات کے ذریعے عوام کی اصلاح کی ۔شب معراج،شب براء ت اور شب قدر میں عبادت وریاضت،زیارت قبور اور ایصال ثواب کوبدعت سے تعبیرکیاگیاتو آپ نے اکابر کے نقش ِ قدم پر رہتے ہوئے اسلاف کے تحریر کردہ اسلامی تعلیمات کے ذخائر سے اسے جائز، مستحب ومستحسن اور اسلاف کاطریقہ ثابت کیا۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن پر انگشت نمائی کی گئی تو آپ نے شہر بھر میں اجتماعات کے ذریعے اہلیان شہر میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ رَمق پیدا کی کہ گلی گلی کوچہ کوچہ سجا ہوا نظر آیا ۔ سبیلِ حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف یزیدی لشکر نے جب جب منہ کھولاتو آپ نے اس شعر کے مصداق اغیار کے ایوانوں میںلرزہ طاری کردیا   ؎

کلکِ رضا ہے خنجر خونخوار برق وبار 

اعدا سے کہدو خیر منائیں ، نہ شر کریں

راقم نے جن کارناموں کا اجمالی خاکہ پیش کیاان کا حصول سہل نہ تھا بلکہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے حضرت موصوف کو پُرخار راہوں سے گزرنا پڑا،تخریب کاروں کی تخریب کاری، حاسدین کے حسد اور معاندین کی خفیہ سرگرمیوں سے آپ کے قدم کئی مرتبہ لہولہان ہوئے مگر اس مردِمیدان نے ہمیشہ کی طرح جواں عزم وحوصلے اور بلند استقلال کے ساتھ تمام مہموں کو سَر کیا ۔ اُمتِ مسلمہ کے تابناک مستقبل کے لیے سنّی دعوت اسلامی کے مسودے میں بہت سے مقاصد ہیں جنھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ شب وروزمحنت کررہے ہیں۔

٭ممتازتلامذہ:


٭وعظ وخطابت:

اللہ رب العزت نے آپ کو میدانِ خطابت کا شہ سوار بنایا ہے۔آپ کے خطاب کی گونج ہندوستان کی تقریباً ہر ریاست میں سُنی جا سکتی ہے۔سوشل میڈیااور یوٹیوب کے ذریعے بیرون ہند بھی آپ کے خطابات کو کافی مقبولیت حاصل ہے۔اب تک آپ ایک ہزار سے زائد عناوین پر خطاب کر چکے ہیں۔۱۹۹۹ء سے ہر ہفتہ سنّی دعوت اسلامی کے ہفتہ واری مرکزی اجتماع میں منفرد عناوین پر خطاب کا سلسلہ دراز ہے ،اسی طرح گذشتہ سات سالوں سے روزانہ ہندوستان کے کسی نہ کسی شہر میں آپ کا خطاب ہونا یقینی ہے بلکہ جمعہ کے دن آپ کے تین خطاب ہوتے ہیں ،اوّل نماز جمعہ سے قبل، دوّم بعد نماز مغرب کے اجلاس میں اور سوّم تحریک کے مرکزی اجتماع میں۔آپ کو ’’ثانیِ شاکر نوری‘‘بھی کہاجاتا ہے۔عمدہ اندازِ خطابت، پُر کشش لب ولہجہ،مستند دلائل اور عناوین کا تنوع آپ کے خطاب کی خصوصیات ہیں۔گذشتہ دو برسوں سے مارہرہ مطہرہ میں عرس قاسمی کے موقع پر آپ کا خطاب ہورہا ہے۔آپ کے متعلق رفیق ملت حضرت سید نجیب حیدر صاحب برکاتی مارہروی (سجادہ نشین مارہرہ مطہرہ)فرماتے ہیں کہ :


٭ داستان آلِ رسول بزبان آلِ رسول(۱۹۹۸ء سے جاری):

۱۹۹۸ء سے سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ’’ ذکر تاجدار کربلا‘‘ کاآغازہواجواُنیس سالوں سے جاری ہے۔ابتدائً اس محفل میں کم لوگ شریک ہوتے تھے مگر الحمدللہ!اب فیضانِ 

حسینی کے حصول کے لیے ہزاروں عشاق شریک ہوتے ہیںاور اب یہ محفل شہر کے مختلف علاقوں میں پانچ سے چھ روز تک منعقد ہوتی ہے جس میں حضرت موصوف کے سلسلہ وار خطابات ہوتے ہیں۔

٭جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم(۲۰۰۷ء سے جاری):

۲۰۰۷ء سے شہر مالیگائوں میں سنّی دعوت اسلامی معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک موقع پر ۳؍تا ۴؍ روزہ اجتماعات کا انعقاد کررہی ہے جس میں حضرت موصوف کے منفرد عنوانات پر سلسلہ وار خطابات ہوتے ہیں۔ماضی میں شب معراج آکر گذر جاتی تھی مگر اب لوگوں میں بیداری آچکی ہے۔اب عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وریاضت ،ذکر واذکار اوراَوراد و وَظائف کا اہتمام کرتے ہیں۔ان اجتماعات میں شرکا کی تعداد اور عوام کا جوش وخروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

٭جشن ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم(۲۰۰۷ء سے جاری ):

اہلیان مالیگائوںکے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ اللہ پاک نے مالیگائوں کو ایسا خطیب عطا فرمایاہے جس کی آواز پر بیک وقت ہزاروں لوگ لبیک کہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مقامی خطیب کے پروگرام میں مقامی لوگ کثیر تعداد میں شریک ہو مگر بحمدہ تعالیٰ! شہر مالیگائوں کے بڑے بڑے پروگراموںمیں بیرونی خطیبوںکی آمد کی بجائے حضرت مولانا سید محمد امین القادری صاحب خطاب فرماتے ہیں،آپ مقامی خطیب ہونے کے باوجود اسکول وکالج کے وسیع وعریض گرائونڈتنگ دامنی کی شکایت کرتے ہیں۔۲۰۰۷ء سے حضرت کی سرپرستی میں پانچ روزہ اجتماعات کا انعقاد ہورہاہے جس میں حضرت موصوف وقتِ ولادت ظہور پذیر ہونے والے محیرالعقول واقعات ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور خصائص پر مدلل گفتگو فرماتے ہیں۔

٭محفل درود وسلام(۲۰۱۲ء سے جاری ):

۲۰۱۲ء سے مرکز سنّی دعوت اسلامی سنّی جامع مسجد یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر’’محفل درود وسلام‘‘کا انعقاد ہورہاہے۔بحمدہ تعالیٰ!بارہ رات اور گیارہ دنوں تک عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماہوکرنماز کے علاوہ مسلسل سرکارصلی اللہ علیہ وسلم پر درودمبارکہ کانذرانہ پیش کرتے ہیں۔بارہویں شب میںرات بارہ بجے ’’محفل ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کاآغاز ہوتاہے ۔جس میں نعتوں کاحسین گلدستہ بارگاہ رسالت میں پیش کیاجاتاہے اورحضرت موصوف کا خطاب ہوتاہے۔ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ومستحسن گھڑی میں اُمتِ مسلمہ کے لیے خصوصی دعاکااہتمام ہوتاہے اور موئے مبارک کی زیارت ،درودوسلام اور تصور مدینہ میں دعااور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد بابرکت محفل کااختتام ہوتاہے۔ 

٭محفل تفسیرِ قرآن(۲۰۰۴ء سے جاری ):

ہماری زبان عربی نہیں ہے اس لیے ہم قرآن کریم کے احکامات وفرامین خدا کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔عوام الناس کی قر آن سے آگاہی کی خاطرسنّی دعوت اسلامی نے۲۰۰۴ء سے’’محفل تفسیر قرآن‘‘ کا سلسلہ شروع کیا۔تین سالوں تک یہ سلسلہ سنّی جامع قادریہ مسجد، رمضان پورہ مالیگائوں میں جاری رہااورگیارہ سالوں سے ہر سال مرکز اہل سنت جامع مسجد یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ’’تفسیر قرآن‘‘ کا اہتمام کیا جارہاہے۔اس بزم میں نمازِ تراویح میںحافظ صاحب کے تلاوت کردہ قرآن کریم کی آسان اورعام فہم زبان میںحضرت موصوف تفسیر بیان کرتے ہیں۔بعد تفسیر روزآنہ سوال وجواب کا کھلا سیشن ہوتا ہے جس میں سامعین کے ذریعے پوچھے گئے سوالات کا مولانا موصوف قرآن وحدیث کی روشنی میں اطمینان بخش جواب عنایت فرماتے ہیں۔حضرت کے تبلیغی دورے یا زیارت حرمین شریفین کے لیے جانے پر علماے کرام اس محفل میں خطاب فرماتے ہیں۔ 

٭اجتماعی اعتکاف(۱۹۹۸ء سے جاری ):

ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی سنّت کریمہ ہے۔الحمدللہ تعالیٰ! بہت سے افراد اس عظیم سنّت کی ادائیگی کی خاطراعتکاف کرتے بھی ہیں مگر مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کا اعتکاف یا تو فاسد ہوجاتا ہے یا وہ اتنے ثواب کے 

حقدار نہیں ہوپاتے ہیںجن کے وہ مستحق تھے ۔ان باتوں کے پیشِ نظر سنی دعوت اسلامی حضرت موصوف کی نگرانی میں سال ۱۹۹۸ء سے اجتماعی اعتکاف کا اہتمام کررہی ہے۔جس میں تلاوتِ قرآن ، تلاوت قرآن کی مشق،نماز کے شرائط، فرائض، مکروہات، مفسدات،روزمرّہ کی ضروری دعائیں و مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔حضرت موصوف کا ہر سال ایک اچھوتے عنوان پر روزانہ درس ہوتا ہے۔

٭تصنیف وتالیف:

ہندوستان بھر میں دعوتی اَسفار، وعظ وخطاب کی مصروفیات، عالمی مجلس شوریٰ کے رُکن کی ذمہ داریاں اورعلاقۂ خاندیش کی نگرانی کے فرائض بہ حسن وخوبی ادا کرتے ہوئے آپ میدانِ قلم میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔آپ کے نوکِ قلم سے اب تک ایک درجن کے قریب مطبوعات منظر عام پر آچکی ہیں۔

(۱) ماہ رمضان کے فضائل(۲)علم اسلام کی زندگی ہے (۳) قربانی کے فضائل(۴)عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت(۵)عقائد اہلسنّت قرآن کی روشنی میں(۶)حیات مقصدؔ(۸)قربانی کیسے کریں؟(۹)ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت۔

٭شعروادب:

حرمین شریفین کی زیارت کے دوران ،اولیاے کرام کی مزارات پر حاضری کے وقت اور کبھی کبھی دل ٹوٹنے پرعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مادۂ سیال مژگاں سے چھلک پڑتا ہے اور اسی جذب وکیف ،سرورومستی اور عالم وارفتگی کی حالت میں آپ اپنے دل کی کیفیات صفحۂ قرطاس کے سپرد کرتے ہیں۔آپ کا شعری اثاثہ بہت زیادہ نہیں ہے البتہ جتنا ہے وہ مصنوعی نہیں بلکہ قلب وجگر پر گذرنے والے واردات کی عکاسی کرتا ہے۔ جس سے سچائی اور صداقت کا برملا اظہارہوتا ہے۔ آپ نے اب تک ۲۵؍ سے زائد نعتیں اور ایک غزل سپرد قلم کی ہے۔چند اشعار بطورنمونہ پیش ہیں  ؎

عیسیٰ کی ہو نوید دعائے خلیل ہو 

وحدت کا گُل ہو اور خدا کی دلیل ہو 

دیکھا تھا آمنہ نے درخشاں وہ خواب ہو 


قرآن جس کی شان میں رطب اللسان ہے 

والیل خیر الف خدا کا بیان ہے 

مشتاق جس کا رب ہے تم ایسے جناب ہو 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭اعزاز:

آپ کی دینی وملی خدمات کا اعتراف کئی مقامات پر ہوچکا ہے اور بطور اعزاز آپ کو کئی مرتبہ ایوارڈز،ٹرافی اور سپاس نامے دیے جاچکے ہیں۔مالیگائوں میں منعقدہ ’’جشن صابر کلیری‘‘ میںآپ کو سنّی جمعیۃ الاسلام کی جانب سے ایورڈ سے نوازا گیا۔۳۰؍دسمبر ۲۰۱۶ء کو بزمِ غوثیہ کمیٹی ممبئی نے آپ کی خدمت میں ’’رحمۃ للعالمین ایوارڈ پیش کیا۔۶؍جنوری ۲۰۱۷ء کو انجمن سرکار مفتی اعظم ،مالیگائوں کی جانب سے آپ کو ’’مفتی اعظم ہند ایوارڈ‘‘دیا گیا۔جوناگڑھ گجرات کے اجتماع میں آپ کو ’’فخراہلسنّت ایوارڈ‘‘پیش کیاگیا۔

مجدد اعظم ایوارڈ (مولیٰ علی اکیڈمی،مالیگائوں)

٭اہم کارنامہ:

حضرت موصوف نے تحریک سنّی دعوت اسلامی کے ذریعے بہت سے اہم اُمور انجام دیئے ہیں۔ذیل میں چند شعبہ جات کی تفصیل سے حضرت کے کارناموں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

٭شعبۂ مدارس کا قیام :

ہندوستان کے طول وعرض میں ہزاروں چھوٹے بڑے مدارس اپنے اپنے طورپر دینی وعملی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صرف بڑے شہر نہیں بلکہ قصبات اور دورافتادہ گاؤں دیہات تک مدارس 

کادائرہ پھیلا ہوا ہے ۔ یہ مدارس کہیں شاندار عمارتوں میں،کہیں معمولی اور خستہ حال کمروں میں، کہیں مکانوں میں اور کہیں جھونپڑوں میں چل رہے ہیں ۔ بے شمار مساجد میںبھی ناظرہ وحفظ قرآن اورابتدائی دینی تعلیمات سے طلبہ وطالبات کو آراستہ کیا جارہا ہے ۔ درحقیقت یہی مدارس انسانیت وآدمیت اوراخلاق وکردار کو تہذیب وشائستگی کا خوگر بناتے ہیں ۔ یہی مدارس ماحول ومعاشرہ کے لیے بہت زیادہ مفید وسودمند ہیں۔ مدارس خودشناسی اور خداشناسی کا جوہر پیدا کرتے ہیں۔ مدارس سے انسانوں کے سینے ذخائر ومضامین ارض کی طرح نہ صرف یہ کہ معمور ہیں بلکہ ان کے آثار وبرکات سے صفحۂ گیتی کا چپہ چپہ اور فضائے بسیط کا ہر گوشہ رنگ ونور کا ایک جہان نوبنتا چلا جارہا ہے۔

مدارس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظرحضرت موصوف کی قیادت میں ۲؍نومبر ۲۰۰۷ء کو باضابطہ ایک شعبہ بنام ’’شعبۂ مدارس‘‘ قیام کیا ہے ۔اس شعبے کے تحت تین دارالعلوم بنام الجامعۃ القادریہ نجم العلوم(۲۰۱۰ء میں قیام) ،جامعہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۲۰۰۹ء میں قیام) ، جامعہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا(۲۰۱۰ء میں قیام) اور اکیاون مدارس جاری ہیں۔ان اکیاون مدارس میں اسّی (۸۰)شفٹوں میں ۶۳؍معلم ومعلمات کے ذریعے ہزاروں طلبہ و طالبات دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ان دس سالوں میںتجوید وقراء ت میں۳۵۷، ختم قرآن ۹۸۹،حفظ ۲۵اور شعبۂ عا  لمیت سے ۶۹؍ طلبہ وطالبات فارغ ہوئے ہیں۔شہر مالیگائوں میںجولائی ۲۰۱۲ء میں اہلسنّت وجماعت میں پہلی مرتبہ لڑکیوں کے لیے سرکارغریب نواز علیہ الرحمہ کی شہزادی سے منسوب ’’بی بی حافظہ جمال مدرسہ‘‘کا قیام عمل میںآیا جہاں سے مسلم بچیاں بطور حافظہ فارغ ہورہی ہیں۔ان بچیوں کو ہنر مند بنانے کے لیے’’ شعبۂ نسواں‘‘ کے زیر اہتمام سلائی کلاس،مہندی کلاس اور کشیدہ کاری کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔الجامعۃ القادریہ نجم العلوم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اب تک نو حفاظ کرام ایک نشست میں مکمل قرآن مقدس سناچکے ہیں۔

٭دارالقضاء:

مورخہ ۱۱ ؍فروری بروز منگل ۲۰۱۴ء کو توشۂ غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارونق بزم کے اختتام پر مرکز سنّی دعوت اسلامی پر ’’سنّی دارالقضاء‘‘کا قیام داعی کبیر حضرت علامہ محمد شاکرعلی نوری صاحب(حضورامیر سنّی دعوت اسلامی)کی سرپرستی اورحضرت موصوف کی نگرانی میںعمل میں آیا۔ سنّی دارالقضاء میں شریعت مطہرہ کی روشنی میں لوگوں کے مقدمات کافیصلہ کیاجاتا ہے۔

٭سنّی نوری دارالافتاء:

عوام کی سہولت اور ان کے مسائل کے حل کے لیے سرکار ابوالحسین نوری میاں علیہ الرحمہ کی ولادت کے موقع پرمورخہ ۳۰؍اگست بروز جمعہ ۲۰۱۳ء کوحضرت موصوف نے مرکز سنّی دعوت اسلامی سنّی جامع مسجد یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،مولانا شاکر نوری چوک، شہید عبدالحمید روڈ محلہ گلشن چشت،مالیگائوں میں ایک دارالافتاء بنام ’’سنّی نوری دارالافتاء‘‘کاقیام فرمایا۔ شام ۴؍بجے سے رات ۱۰؍بجے تک دارالافتاء کے ذریعے مالیگائوںاور قرب وجوار کے افرد اپنے مسائل کاحل اور شرعی رہنمائی حاصل کررہے ہیں۔

٭جمعیۃ الائمہ و علما:(ترکیب)

بحمدہ تعالیٰ!تحریک کے زیراہتمام مختلف شعبہ جات کامیابی کے ساتھ جاری ہے ۔ان شعبہ جات سے مربوط قراء، ائمہ ،حفاظ اور علما کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کو باہم مربوط کرنے اور تحریکی سرگرمیوں میں انہیں بھر پور حصہ لینے کی طرف آمادہ کرنے کے لیے شعبۂ علما کی ایک مجلس بنام ’’شعبۂ جمعیۃ الائمہ وعلما‘‘ قائم کی جا چکی ہے۔

٭شعبۂ حفاظ:

رمضان المبارک میں نماز تراویح کے لیے شہر و بیرون شہر کی مسجدوں میں اس شعبے کے تحت حفاظ کرام کو تراویح کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ جن مسجدوں کے اراکین حفاظ کرام کی آمد و رفت اور قیام کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، تحریک خود اخراجات برداشت کر کے ان مسجدوں میں تراویح کا اہتمام کراتی ہے۔واضح ہو کہ اس شعبے کے تحت تحریک کے اداروں سے فارغ حفاظ کے ساتھ ساتھ دیگرسنی اداروں کے فارغین کو بھی بھیجا جاتا ہے۔

٭شعبۂ خواتین:

حضرت موصوف نے خواتین کے درمیان تعلیمی ذوق و شوق بیدار رکھنے کا بیڑا بھی اُٹھایا ہے۔ تحریک کی مبلغات اور عالمات کی ایک بڑی تعداد شب و روز اس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ جگہ جگہ خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کانظم بھی تحریک میں موجودہے۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں خواتین کے لیے تعلیمی و تربیتی کلاسیزکابھی اہتمام کیاجاتاہے۔ماہ رمضان میں شہر کے مختلف علاقوں میں درس قرآن کی محفلوں کا انعقاد بھی ہوتا ہیں۔
٭ سمر ویکیشن کیمپ:
گذشتہ کئی سالوں سے اسکول وکالج کی تعطیلات میںطلباء کو علم دین سے آراستہ کرنے،اخلاق وادب سکھانے ،شرعی مسائل سے آگاہی کے لیے سنی دعوت اسلامی سمر ویکیشن کیمپ کا انعقاد کررہی ہے۔جس میں شہر مالیگائوں،مضافات مالیگائوں اور بیرون شہر سے شریک طلباء کو تلاوت قرآن مجید مع تجوید،سنتیں،دعائیں،روزمرہ کے ضروری مسائل اور عقائد اہلسنّت سے روشناس کرایا جاتاہے۔
٭حرا انگلش اسکول :
’’شعبۂ دراسات عصریہ‘‘کے تحت مالیگائوں میں حرا انگلش اسکول وتھ اسلامک اسٹڈیز کاقیام ۱۹۹۸ء میں عمل میںآچکاہے۔اس اسکول میں زیر تعلیم طلبہ کو علوم دینیہ سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔اب تک حرا میں جونیئرکے جی سے آٹھویںجماعت تک کلاسیس جاری ہیں۔کل ۷۵۰اسٹوڈنٹس اور ۳۵؍عدد اسٹاف ممبرس ہیں۔
٭سنّی دعوت اسلامی شعبۂ نشر و اشاعت:
یہ تحریک سُنّی دعوتِ اسلامی کا اشاعتی ادارہ ہے۔اس شعبے کے تحت اجتماعات کی رپورٹنگ،سنی دعوت اسلامی کی کارکردگی اور سرگرمیاں شہروبیرون شہر کے اخبارورسائل میں شائع کروائی جاتی ہے۔اس شعبے کے تحت چند نشریات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔حضرت امیرسنّی دعوت اسلامی کی تصنیف:(۱) قربانی کیاہے؟(۲)موبائل کا استعمال قرآن کی روشنی میں(۳)جہیز کی حقیقت ۔اور حضرت موصوف کی کتابیں جن کاذکر تصنیف وتالیف کے باب میں ہے۔حافظ غفران اشرفی صاحب کی تجوید کے متعلق کتاب’’اشرف التجوید‘‘، شعبۂ مدارس کے لیے تعلیمی نصاب ، نوری قاعدہ اورراقم کی چار کتابیں(۱)حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ(۲)سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ (۳)حضرت سیداحمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کی چند ناصحانہ باتیں(۴)جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علما کامجاہدانہ کردار۔ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔
٭طیبہ آڈیوکیبل:
حضرت موصوف نے شہر مالیگائوں میںسنّی دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے۲۰۰۲ء میں ’’طیبہ آڈیو کیبل ‘‘کاآغاز کیا ہے۔اس آڈیو کیبل کی شہر کے کئی اہم علاقوں میں کنیکشن لائن موجود ہے۔بارہ سو سے زائداسپیکرس ہیں جس کے ذریعے ہر روزبعد نماز فجرسے رات ساڑھے گیارہ بجے تک دینی نشریات جاری رہتی ہیں۔ان نشریات میں تلاوت قرآن،نعت ،روزمرہ کی دعائیں،ضروری مسائل،سنتیں اور علماے اہلسنّت کے خطابات شامل ہیں۔
٭ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ونگ:
اس شعبے کے قیام کابنیادی مقصد طلبہ ،ڈاکٹرس،ٹیچرس، انجینیئرس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں دینی بیداری اور علمی ذوق وشوق کوابھارناہے تاکہ ان کے ذریعہ آسانی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں مذہب اسلام کی دعوت پہنچنے لگے۔
٭شعبۂ تربیت مناسک:
شہر مالیگائوں میںاہلسنّت وجماعت کی جانب سے سنی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام باضابطہ طور پرپہلی مرتبہ خانقاہ صوفیہ حسین سیٹھ کمپائونڈمیں۲۰۰۳ء میں ۵؍روزہ حج تربیتی کلاس کا انعقاد ہواتھا۔اپنی اس سالانہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے سنی دعوت اسلامی ہر سال حج تربیتی کیمپ کا انعقاد کررہی ہے۔ مقامات مقدسہ کے ماڈل کے ذریعے حاضرین کو طریقہ سمجھایا جاتا ہے۔ حج تربیتی کیمپ میں خواتین اسلام کے لیے بھی نشست کا معقول انتظام کیاجاتاہے اور حج کی سعادت حاصل کرنے والوں کو حضور امیر سنی دعوت اسلامی کی تصنیف ’’معمولات حرمین‘‘تحفۃً پیش کی جاتی
ہے۔
٭شعبۂ خدمت خلق (۲۰۰۱ء سے جاری ):
اس شعبے کے تحت ناگہانی مصیبت زدہ لوگوں تک تحریک کے رضاکار خود پہنچتے ہیں اور ان تک ریلیف پہنچاتے ہیں۔ غربا و مساکین کی حتی المقدور مدد کی جاتی ہے۔ مریضوں کے لیے دوا ئوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ آفات ارضی و سماوی میں گرفتار ہونے والوں تک مفت میڈیکل، کپڑے، خوراک اور دیگر ضروری اشیا پہنچائی جاتی ہیں۔اسپتالوں میں ایڈمِٹ مریضوں کے درمیان خاص خاص مواقع پر پھل تقسیم کیے جاتے ہیں۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکے نام مبارک سے منسوب وظیفہ ہرمہینے بیوائوں میں تقسیم کیاجاتاہے۔مختلف اوقات میں مریضوں کوخون کاعطیہ دیاجاتاہے۔۲۰۰۱ء کے مالیگائوں فساد میں ریلیف تقسیم کی گئی۔۲۰۰۶ء کے مالیگائوںبم بلاسٹ میںزخمیوں کوہاسپٹل پہنچایا گیا،دوائیوں اور خون کا انتظام کیاگیا۔ اکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کے سبب شہر میں ۲۴؍دنوں کے لیے کاروبار بند تھا،ایسے نازک وقت میں مضافاتی علاقوں میں ریلیف کا انتظام کرواگیا۔ متعدد شہروں میں آفات ارضی وسماوی پر بلا تفریق مذہب متأثرین تک امداد پہنچائی گئی۔اجتماعی نکاح کا نظم کیاگیا ۔ اس طرح کے ڈھیروں کام ہیں، جو تحریک کے سماجی و فلاحی شعبے کے تحت انجام دیے جاتے ہیں۔
٭شعبۂ خدمت مساجد:
دیہاتوں میں موجود مساجد کے نطم ونسق اور غیروں کے قبضے سے مساجد کو بچانے کے لیے سنّی دعوت اسلامی نے اپنے شعبوں میں ’’شعبۂ خدمت مساجد‘‘ کااضافہ کیا۔ اس شعبے کے تحت مساجد کی تعمیر، نظم ونسق اور ائمہ کرام ومؤذنین کے نذرانے کابھی انتظام کیاجاتا ہے ۔
تحریک سنی دعوت اسلامی کے زیراہتمام اور زیرنگرانی میں جاری مسجدوں کے نام یہ ہے۔
 (۱)مرکز اہل سنّت جامع مسجد یارسول اللہ (مرکز سنّی دعوت اسلامی)مالیگائوں
(۲) مرکزاہلسنّت فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا ، زہرہ پارک مالیگاؤں 
(۳)مسجد اہلسنّت گلشن امام حسین رضی اللہ عنہ ، پوارواڑی ،مالیگاؤں
(۴)مسجد اہلسنّت باغ فریدہ ،۶۰؍فٹی روڈ، مالیگاؤں
(۵)مسجد اہلسنّت عبدالغفور ،دیانہ شیوار مالیگاؤں
(۶) جامع مسجد ،اجنگ
(۷) مسجد اہلسنّت بتول حجن، پاٹ کنارہ عائشہ نگر،مالیگاؤں
(۸ ) مسجد اہلسنّت گلشن محمود،عائشہ نگر پاٹ کنارہ
(۹)مسجد اہلسنّت رضائے اشرفی عائشہ نگر
(۱۰) جامع مسجد ،راول گاؤں
(۱۱) جامع مسجد ،گالنہ
 (۱۲) مسجد گلشن نوری ،مالیگاؤں۔
(۱۳)مسجد اہلسنت حافظ عبدالکریم 
(۱۴)مسجد علامہ شاکر نوری 
اس کے علاوہ شہر ومضافات کی کئی کئی مسجدوں میں تحریک سے وابستہ ائمہ کرام امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ 
٭مرکز سنّی دعوت اسلامی کی تعمیر:
یوں تو شہرمالیگائوں میں تحریک ۱۹۹۳ء سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے مگرسال ۲۰۰۶ء تک تحریک کا ذاتی مرکز نہیں تھا۔مرکز کے قیام کی غرض سے ۲۰۰۶ء میں قلب شہر میں بیس لاکھ کی خطیر رقم سے سنّی جامع مسجد یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین خریدی گئی۔ایک مہینے کی قلیل مدت میں شبانہ روز محنت کرکے مسجدکی کچی تعمیر عمل میں آئی اور مولانامحمد میاں مالیگ صاحب (لندن )کی نماز جمعہ کی امامت سے مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔۲۰۱۳ء میں مفتی اعظم برار مفتی عبدالرشید کارنجوی صاحب کے ہاتھوں مسجد کی تعمیر جدید کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔تاحال مسجد کا تعمیری کام بحسن خوبی جاری ہے۔
٭حوالہ جات :
(۱)نقوش :تذکرۂ شعراے مالیگائوں،جلد ۱،ص؍۱۵۳،مولف:حفیظ مالیگانوی،سردار پریس، 
(۲)مالیگائوں میں سنّی دعوت اسلامی کی سترہ سالہ خدمات، مرتب:عطاء الرحمن نوری، ناشر:مکتبۂ طیبہ،اپریل ۲۰۱۵ء 

٭٭٭
Previous Post Next Post