مورخِ ہندی علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی چشتی رحمة اللہ علیہ
ہندستان کے بہت سے اصحابِ فکر و نظر نے اپنی خدا داد صلاحیتوںکو بہ روئے کار لاکرعلوم و فنون کے ایک جہان کومتعارف کرایا۔ان کی تحقیقات و نگارشات عالمی ادب میں اپنا امتیازی مقام رکھتی ہیں۔ان کے علمی جواہر پارے اسکالرز اور محققین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سرور قرار پائے۔ان صاحبانِ علم و فن میںعلامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی چشتی علیہ الرحمہ ایک منفرد اور یگانہ مقامِ استناد رکھتے ہیں۔علامہ سید غلام علی آزادبلگرامی جلیل القدر سادات خاندان کے علمی وروحانی وارث تھے۔خاندانی شرافت و وجاہت اور علمی ماحول کا آپ کی شخصیت پر گہرا اثر پڑا۔تعلیم و تربیت کی منازل سے گزرنے کے بعد علامہ آزاد بلگرامی کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو سامنے آئے اور اپنے وقت کے عظیم محدث،مفکر،صوفیِ باصفا،شاعر،سیاح،مورخ،سیرت نگار اور سچے عاشقِ رسول(ﷺ)تسلیم کیے گئے۔
بچپن ہی میںآپ کو خواب میں جلوہ حبیبِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر تسکینِ قلب کے لیے زیارتِ حرمیَن طیبیَن کی جانب تنِ تنہا پروانہ وار نکل پڑے۔شہرِ محبت مدینہ مقدسہ میں آٹھ ماہ قیام کیا، اس دوران میں اکابر علماے عرب بالخصوص حضرت شیخ محمد حیات سندھی مدنی سے علمِ حدیث کادرس لیا۔ایامِ حج میں فریضہ حج کو ادا کیا اور کئی ماہ مکہ مکرمہ میں قیام کیا،مقاماتِ مقدسہ اور اسلامی آثار کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔نیز حضرت شیخ عبدالوہاب طنطاوی شافعی سے بھی علمِ حدیث پڑھا۔
حجازِ مقدس سے واپسی کے دوران مختلف مقامات کی سیاحت کی۔علما و مشایخ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضرہوئے۔اس سفر کے احوال آپ کی خود نوشت سوانح حیات میں مذکور ہے۔یہ سفر 1152ھ کو اختتام پذیر ہواجس کا مادہ تاریخ آپ نے”سفربخیر“سے نکالا۔آپ کاجہاز سورت کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔اور وہاں سے آپ نے دکن کا رخ کیا۔اورنگ آباد اور حیدرآباد میں کئی سال گزارے۔ تصنیف و تالیف،شعر وشاعری، تدریس و اعادہ اور خدمتِ خلق وغیرہ آپ کے مشاغل تھے۔آپ کی کتابِ حیات کا ورق ورق اخلاق واخلاص اورخداترسی سے عبارت تھا۔ساری عمر فقر و غنا،صبروقناعت اور صوفیانہ بے نیازی میں بسر کی۔دنیا کی رعنائیاںبھی ایک لمحہ کے لیے اپنی جانب مائل نہ کرسکیں۔کئی اعلیٰ عہدوں کی پیش کش کی گئی،شاہی مناصب اور اقتدارکا لالچ بھی دیا گیا مگر اس پیکرِ عزیمت نے تصوف اور خدمتِ علم کو منتخب کرلیا تھا،اور اسی میں زندگی گزاردی۔
علامہ آزاد بلگرمی ایک عظیم شاعر بھی تھے۔آپ کی شاعری کو ہندوستانی عربی ادب کا شاہکار کہا گیا ہے۔عجمی ہوتے ہوئے رواںدواں اور فصیح و بلیغ عربی میں آپ کے اشعار کو دیکھ کر اہلِ عرب بھی آپ کے معترف ہوگئے۔آپ کے عربی اشعار کی تعداد محققین نے سترہ ہزار (17000)کے قریب شمار کی ہے جو عربی ادب کی فنی لطافتوں اور صوفیانہ نغمگی سے پُرہے۔علامہ آزاد بلگرامی کی شاعری میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چاشنی پائی جاتی ہے،ان کی شاعری کا موضوع مدحتِ آقا صلی اللہ علیہ وسلم رہا،اسی لیے انہیں”حسان الہند“جیسے باوقاراور عظیم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ علامہ آزاد بلگرامی نے اپنی شاعری میں جابجا حب الوطنی کااظہار کیا ہے۔اور آپ وہ پہلے ہندوستانی فن کار کہے جاسکتے ہیں جس نے سب سے پہلے اپنی نظم و نثر میں عظمتِ ہند کے نغمے گنگنائے ہیں اور اسے باقاعدہ طور پر فنی حیثیت عطا کی ہے۔چناںچہ آپ کی شہرہ ¿ آفاق کتابیں”سبحةالمرجان فی آثارِ ہندوستان“ اور ”شمامةالعنبرماورد فی الہند من سیدالبشرصلی اللہ علیہ وسلم“اس باب میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں،جن میں حدیث و تفسیر اور مستند کتب تاریخ سے ہندوستان کے تذکرہ کو یک جا کرکے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور بے مثال کار نامہ انجام دیا گیا ہے۔اسی طرح مدینةالاولیا خلدآباد کے اولیا کرام کے حالات پر روضةالاولیاءنامی کتاب آپ کی علمی و تاریخی عظمت پر شاہد ہے۔اور انہیں تاریخی کارناموں اور تاریخی استناد کے حوالے سے آپ کو”مورخِ ہندی“کے موقر لقب سے مورخین و محققین یاد کرتے ہیں۔(نوٹ:راقم کی معلومات کے مطابق علامہ آزاد بلگرامی کی تصنیف شمامةالعنبر کی اشاعت ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی نے اپنی نگرانی میں دارالعلوم جائس سے کی ہے۔اسی طرح بریلی شریف سے سبحةالمرجان کی اشاعت عمل میں آئی اور مالیگاؤں سے روضةالالیاءکی اشاعت آل انڈیا سُنّی جمعیةالعلماءکے زیر اہتمام ہوئی جس کے مرتب و مترجم جامعہ حنفیہ سنیہ کے سابق مدرس مفتی صابررضا مصباحی ہیں۔)
آپ کے عربی شعری دیوان سے متعلق ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی(پروفیسر مولاناآزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی حیدرآباد) نے نشان دہی کی ہے کہ آپ کے صرف چار دیوان مطبوعہ ہیںباقی ماندہ مختلف لائب رےریزاور یونی ورسٹیزمیںمنتشر ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان دواوین کی بازیافت کرکے علمی و تحقیقی تقاضوں کی تکمیل کے بعد شایانِ شان اشاعت کی جائے،تاکہ عالمی عربی ادب میں اس ہندوستانی عبقری کوجائز مقام حاصل ہوسکے ۔ایک اطلاع کے مطابق ادیبِ شہیرعلامہ ارشدالقادری کے فرزند مولانا ڈاکٹرغلام زرقانی(مقیم امریکہ)نے آپ کی عربی نگارشات پر مقالہ تحقیق قلم بند کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
جس طرح علامہ آزاد بلگرامی نے بحیثیت شاعر و ادیب اور سیاح و مورخ اپنی علمی یادگاریں چھوڑی ہیںاسی طرح بحیثیت محدث آپ نے بخاری شریف کی کتاب الزکاة تک کی شرح تحریر کی۔اس کے علاوہ آپ نے عربی و فارسی میں سیرت اورہندوستان کی اسلامی تاریخ سے متعلق متعدد کتابیں تحریر فرمائیںجن سے آپ کی مورخانہ و محققانہ شان و عظمت اجاگر ہوتی ہے۔آج بھی علمی و ادبی تحریروں میں آپ کی تحقیق کوقولِ فیصل ماناجاتا ہے۔بڑے بڑے مورخین آپ کی کتابوں کے حوالے نقل کرتے ہیں۔
اگرچہ علامہ آزاد بلگرمی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے مگر بنیادی طور پر وہ ایک صوفیِ باصفا تھے۔ان کا خاندان برصغیر میں خانقاہی نظام کا نمایندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔صدیوںسے یہ سادات بلگرام،مسولی،مارہرہ وغیرہ سے اپنا علمی و روحانی فیضان لٹارہے ہیں۔اسی سلسلةالذہب کی ایک نوری کڑی علامہ آزاد بلگرامی ہیں۔ساری عمر علمی و روحانی مشاغل میں گزاری۔زندگی کے آخری ایام گوشہ نشینی میں گزارے۔مدینةالاولیا خلدآباد میںحضرت امیر علاءسنجری رحمةاللہ علیہ کے مزار مبارک کے پہلو میں ایک قطعہ اراضی خریدی،اس کا نام ”عاقبت خانہ“ رکھا۔وصال سے چند روزقبل دکن کے صوفیا اور فقرا کی دعوت کی ۔مجلس کے اخیر میں ہر ایک سے فرداً فرداً معافی مانگی اور دعا کی درخواست کی اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ 1200ھ میں علم و فن کا یہ ماہ تاب اپنے کمالات کی تمام تر رعنائیاںبکھیر کروصال کی لذت سے سرشار ہوگیا۔ہر سال ماہ ذی قعدہ میںعرسِ حسان الہندشرعی پابندیوں کے ساتھ خلدآباد میںمنایا جاتا ہے۔