شیخ الاسلام حضرت مولانا شاہ عبد القدیر قادری بدایونی (تذکرہ / سوانح)
شیخ الاسلام حضرت مولانا شاہ عبد القدیر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی: حضرت مولانا شاہ عبدالقدیر بدایونی۔کنیت: ابوالسالم۔لقب: شیخ الاسلام، عاشق رسولﷺ،ظہورِ حق۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی بن تاج الفحول محب رسول مولانا شاہعبدالقادر بدایونی بن سیف اللہ المسلول حضرت مولانا شاہ فضل ِرسول بدایونی بن عین الحق شاہ عبد المجید بد ایونی،بن شاہ عبد الحمید بد ایونی۔رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔سلسلۂ نسب حضرت عثمان غنی تک منتہی ہوتاہے۔(اکمل التاریخ:33)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 11/شوال المکرم1311ھ،مطابق وسط اپریل/1894ء کوبدایوں شریف(انڈیا) میں ہوئی۔
ولادت سے قبل بشارت:آپ کی ولادت سے قبل ہی جد کریم سیف اللہ المسلول حضرتمولانا شاہ فضل رسول بدایونی نے1283ھ /1866ء میں ہی بشارت دے دی تھی کہ اس وقت تشریف لانے والے عبدالمقتدر ہیں،اوردوسرےصاحبزادے تشریف لائیں گے تو ان کانام عبدالقدیرہوگا۔اسی وقت دونوں صاحبزادوں کےلئے تعویذ بھی عنایت فرمائے۔یعنی آپ پر حضرت سیفاللہ المسلول کی پہلےسے ہی توجہات وعنایات کی بارش ہونے لگی تھی۔(تذکارمحبوب:9)
تحصیلِ علم: مولانا شاہ مطیع الرسول عبد المقتدر قدس سرہٗ کی آغوش میں پرورش پائی، ابتدائی تعلیم حافظ غوثی شاہ، مولوی سید الطاف علی، مولوی سید عبد الحی سے پائی۔ درس نظامی کی کتب متداولہ مولانا فضل احمد قادری، مولانا محب احمد قادری، مولانا حافظ بخش قادری اور برادر بزرگ سے پڑھیں، مولانا حبیب الرحمٰن قادری بد ایونی سے بھی کسب علم کیا،1331ھ میں فراغت کے بعد متواتر‘کابوس’’ کا دورہ پڑا، علاج کے لیے حضرت العلامہ حکیم سید برکات ٹونکی کے پاس گئے، تین ماہ تک اُن کی خدمت میں رہ کر علوم عقلیہ کی کتابوں کا درس لیا، اورر ام پور میں مولانا سید عبد العزیز انبیٹھوی تلمیذ مولانا عبد الحق خیر آبادی سے قدماء کی کتابیں پڑھیں، درس و تدریس کی لیاقت ورثہ میں پائی تھی، مُدتوں مدرسہ عالیہ قادریہ میں طلبہ کو پورے انہماک کےساتھ تعلیم دی۔
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ قادریہ میں اپنے برادر بزرگوار جامع شریعت وطریقت حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالمقتدر قادری بدایونی سے بیعت ومجاز ہوئے۔اسی طرح نقیب الاشراف خانقاہ قادریہ بغداد معلی کے مسند نشین حضرت شیخ حسام الدین کی طرف سے اجازت حاصل تھی۔
سیرت وخصائص: شیخ الاسلام،محسن اہل اسلام،مجاہد کبیر،جامع العلوم،محبوب حضرت محبوب سبحانی،عاشقِ رسولﷺ،مفتی اعظم ریاست حیدر آباد دکن،حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالقدیر قادری بدایونی ۔آپ علیہ الرحمہ خاندان عثمانیہ کے فرد وحید اور حضرت سیف اللہ المسلول،اور حضرت تاج الفحول علیہماالرحمہ کے سچےجانشین،اور ملت اسلامیہ کےصحیح نقیب تھے۔آپکی ذات گرامی عجیب وغریب جامعیت کی حامل تھی۔معقولی سلسلہ خیرآباد کےروشن چراغ،پچاسوں علماء کے استاذ،ہزاروں کے شیخ طریقت،ریاست حیدرآباد کےمفتیِ اعظم،خانقاہ قادریہ کےسجادہ نشین،اپنے اکابر کی علمی وروحانی امانتوں کےوارث وامین،قومی اور ملی قائد،تحریک آزادی کےمرد مجاہد،بیک وقت حیدر آبادحجاز اور عراق کےشاہی خاندانوں کےاور فقراء ودرویشوں سے یکساں تعلقات وروابط،حرمین شریفین،مسجد اقصیٰ،اور جامع قادریہ بغداد شریف میں امامت وخطابت،ایسے کمالات واوصاف فردواحد میں جمع ہونا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔
جذبۂ حریت: فرنگی تاجوں کےہاتھوں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت زوال پذیر ہوئی تو آخری جدوجہد کےمنظم کرنے والوں میں اکابر علماء اہل سنت ہی تھے۔جن کےسرخیل وروح رواں حضرت علامۃ الدہر علامہ فضل حق خیر آبادی،حضرت مفتی کفایت علی کافی،مفتی عنایت علی کاکوروی،مولانا رضا علی خان بریلوی،حضرت سیف اللہ المسلول اور حضرت تاج الفحول، حضرت مولانا کیرانوی علیہم الرحمہ کے اسماء نمایاں ہیں۔بالخصوص حضرت کےجد امجد حضرت سیف اللہ المسلول مولانا فضل حق خیرآبادی کےمعاصر تھے،اور فرنگی دشمنی میں ان کے شریک حال،یہی وجہ ہے کہ اس خانوادے کوہمیشہ سے انگریز سرکارسےنفرت رہی۔حضرت مولانا شاہ عبدالقدیر بدایونی نےانھیں جذبات کو اپنے سینے میں موجزن پایا اور علمی طور پر ہر اس تحریک کے روح رواں رہے جو فرنگیوں کے خلاف ہوتی تھی۔آپ کے رفقاء خاص میں حضرت مولانا شاہ مصباح الحسن پھپھوندی،رئیس الاحرار حضرت مولانا حسرت موہانی،مولانا عبدالباری فرنگی محلییہ حضرات انگریز کےخلاف اور ان کو نقصان پہنچانے کے ہر طریقے کوصحیح سمجھتے تھے۔
آپ نےعرب میں انگریز کی کارستانیاں اور بالخصوص حجاز مقدس میں سعودیوں کےغصب اور ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری پر کانفرنسیں منعقد کیں،اور ان علاقوں کےدورےکرکے مسلمانوں کوبیدارکیا۔آپ حجاز مقدس میں سعودیوں اور ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کی حکومت کوبیسویں صدی کاانگریز کاسب سےبڑا فتنہ تصور کرتےتھے۔آپ علیہ الرحمہ کی عالمی امور پر اورمسلمانوں کےمعاملات پر گہری نظر ہوتی تھی۔آپ مسلمانوں کی کامیابی وترقی کےلئےہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔دنیا کےکسی کونے میں اگر مسلمانوں پر کوئی ظلم وجبر ہوتا،یا ان کےعلاقوں میں فرنگیوں کی طرف سےشورش برپا ہوتی تو آپ ماہی بے آب کی طرح بےقرار ہوجاتے۔جنگ ِ بلقان میں مسلمانوں کی کامیابی کےلئےآپ کی دعاایسی رقت انگیز تھی کہ بےخودی میں آپ کےعمامے شریف کےپیچ کھل گئے مجلس دعا میں ایک کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
مولانا قطب الدین عبد الوالی کے ساتھ صوبہ سرحد کا دورہ کیا، انگریزی حکومت کی دست درازی سے ریاستوں کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے لاہور میں کل ہند کانفرنس بلائی، اور خطبہ صدارت پڑھا۔مسجد شہید گنج کی واپسی کے لیے حضرت مولانا پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے جدو جہد کی تو آپ نے اُن کی پوری مدد کی۔انگریزوں نے عرب اکثریت کا توازن برباد کرنے کے لیے ارض مقدس میں باہر سے یہودیوں کو لاکر آباد کرنا شروع کیا اور عربوں نےاُن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو حالات کا مشاہدہ کرنےکے لیے آپ نے ہندوستان کےنمائندہ کی حیثیت سے فلسطین کا سفر کیا۔ مفتئ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے عربی یونیورسٹی کےلیے ہندوستان کا دورہ کیا تو اُس کےترجمان اور سیکرٹری کا کام کیا ۔
اسی زمانے میں میر عثمان علی آصف جاہ سادس والیِ سلطنت آصفیہ نے محکمہ امور مذہبی کے صدر الصدور کے لیے آپ کا انتخاب کے لیے آپ کا انتخاب کیا،مگر سابقہ انگریز دشمن سیاسی زندگی کی بناء پر انگریزی حکومت نے اس عہدہ پر آپ کا تقرر مناسب نہ سمجھا، اور عدالت عالیہ (ہائیکورٹ) میں منصف اعظم مقرر کیاگیا۔ دو بار حج وزیارت سے مشرف ہوئے اندرون خانۂ کعبہ غسل میں شرکت کی، حرم نبوی اور روضۂ مطہرہ کی خلوت خاص میں باریاب ہوئے۔دربار غوث اعظم کی حاضری معمولات سے تھی، آپ سب سے پہلے عالم وبزرگ تھے جن کو دربار شریف میں امامت وخطابت کا اعزاز ملا، اسی طرح مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کے بے حد اصرار پرنےمسجداقصی میں جمعہ کی نماز اورفصیح عربی زبان میں خطبہ دیا۔ایک مرتبہ گیارہویں شریف کی محفل میں آپ بغداد معلی میں صاحبزادگان غوث الاعظم کےہمراہ تشریف فرماتھےکہ جنرل فوزی حاضر ہوئے اور اپناخواب بیان کیا کہ سرکار بغداد تشریف لائے اور فرمایا:’’مولوی کی طرف سے گیارہویں ہے اس میں شرکت کرو اور ان کو ہمارا سلام پہنچاؤ‘‘۔پھر جنرل صاحب نےآپ سےسلسلۂ عالیہ میں داخل کرنے کی درخواست کی آپ نے اسے سلسلہ عالیہ میں داخلِ بیعت فرمایا۔آپ کا قوت حافظہ بہت قویتھا۔اقوال فقہاء ومحدثین وصوفیاء ازبر تھے ہزارہا اشعار یاد تھے خود بھی شعر موزوں فرماتے تھے۔حضرت علامہ مولانا عبدالحامد بدایونی آپ کےابتدائی تلامذہ میں سےہیں۔
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 3/شوال المکرم 1379ھ مطابق31/مارچ 1960ءکوبوقتِ عصر 5:00بجے ہوا۔درگاہ قادری بدایوں میں سپرد خاک ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔تذکار المحبوب۔خیر آبادیات۔