Biography Tahir e Millat Meer Sayyad Tahir Miyan Bilgram | تعارف طاہر ملت سید طاہر میاں بلگرام

 حضور طاہر ملت :حیات وخدمات



ولادت باسعادت ●

آپ کی ولادت باسعادت، 15:05:1944ء/کو
شہرستان ولایت محلہ سلہاڑا بلگرام شریف کی مقدس ومتبرک سر زمین میں ہوئی، باد صبا نے جھوم کر آپ کی تشریف آوری کی مژدہ جاں فزا سنایا، ہواؤں نے آپ کے دہن مبارک کو چوما، رحمت خداوندی نے گلے لگایا،

تعلیم وتربیت ●آپ علم وعمل حاصل کرنے کے لئے والد گرامی وقار حضور میر سید آل احمد عرف ستھرے میاں کی بارگاہ ولایت میں حاضر ہوئے، یعنی قاعدہ بغدادی سے لے کر حفظ قرآن اور حفظ قرآن سے لے کر علم فقہ اور علم روحانیت تک مکمل تعلیم وتربیت اپنے والد ماجد سے حاصل کی،

سلسلہ نسب ●
میر سید آل رسول عرف طاہر میاں، بن میر سید آلِ محمد بن میر سید آلِ احمد، بن میر سید محمد زاہد عرف پیر زادے میاں، بن میر سیدعبدالواحد ثالث، بن میر سید کریم الدین حسین، بن میر سید سلطان مقصود، بن میر سید غلام حسین، بن میر سید حامد بن میر سید عبدالواحدثانی، بن میر سید محمد طیب، بن میر سید عبدالواحد بلگرامی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین،

فراست و ذہانت●
ذہانت خدا داد عطیہ ہے اللہ تبارک و تعالی جس کو چاہتا ہے جتنی چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے فرمان عالیشان ہے۔ [یؤتی الحکمۃ من یشاء]جن کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے ایسا ذہین وفطین بنایا ہو، ان کی فکری بالیدگی کا عالم کیا ہوگا،
آپ کا حافظہ بہت مضبوط تھا۔ ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے۔ خداداد خوبیوں کا یہ عالم تھا کہ کسی کتاب کو یاد کرنے کی نیت سے دو تین بار دیکھ لینا کافی ہوتا تھا۔ ایسی قوت حافظہ اللہ تعالیٰ کچھ ہی لوگوں کو عطا فرماتا ہے۔ (فالحمد للہ علیٰ ذالک)
اس میں شک نہیں کہ زمانہ طالب علمی ہی سے آپ اپنی زبردست علمی ،فنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی داد حاصل کرتے آئے اور آخر عمر تک خراج تحسین حاصل کیا۔آپ کے قوت حافظہ کا عالم یہ تھا کہ آپ کے والد ماجد جو سبق آپ کو دیتے آپ وہیں یاد کرکے سنا دیتے، پھر اگلا سبق لیتے، یہی وجہ ہے کہ بہت کم وقت میں قرآن حکیم کو حفظ فرمالیاتھا، آپ کے والد ماجدحضور آل رسول ستھرے میاں علیہ الرحمہ نے جشن دستار حفظ کے تاج زریں سے نوازا، اور بے شمار دعائیں دی، پھر کچھ عرصے میں عربی قوانین و ضوابط کی کتابیں پڑھا کر علوم فقہ، علوم حدیث، علوم تفسیر کامکمل علم عطا فرمایا،

اخلاق و عادات ●
اللہ عزوجل بارگاہ بے کس پناہ سے حضور سید المرسلین ﷺ کے صدقے طفیل اخلاق کا وہ عظیم تحفہ آپ کو نصیب ہوا تھا کہ آپ سے ایک مرتبہ جو ملاقات کرتا وہ آپ کا گرویدہ ہوکر رہ جاتا۔آپ کے چہرۂ مبارکہ پر ہمہ وقت تبسم کی حسین جلوہ باریاں دیکھنے کو ملتیں، ہر چھوٹے بڑے سے ادب کے ساتھ پیش آتے، حتی کہ اپنے مہمانوں کو بھی عزت وتکریم سے نوازتے، آپ کا اخلاق اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ ہر ملاقات کرنے والا یہی تصور کرتا تھا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ سے محبت فرماتے ہیں۔ اور یہی وہ دولت ہے جو انسان کو انسانیت کے پیرایہ میں ڈھال دیتی ہے اور تمام مخلوق کو آپ کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔
آپ نیک اوصاف وکمالات کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا، حالات کیسے بھی ہوں، ہمیشہ خنداں لب، اور خوش مزاج نظر آتے تھے، خاص طور سے مہمانوں کا بہت ہی زیادہ احترام کیا کرتے تھے نیز ہمیشہ خنداں پیشانی سے ملاقات کرتے تھے، یہی وہ خوبی ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی جو بھی آپ سے ایک بار ملاقات کر لیتا ،وہ ہر آن حصول لقا کا متمنی رہتا،


خدمت خلق ●
خدمت خلق آپ کا شیوہ تھا، مخلوق خدا کی رہبری و قیادت آپ کا شغل شبانہ روز تھا، بلا شبہ آپ نیک اور اخلاق حسنہ کے مالک تھے ،اس حوالے سے مشہور قلم کار و صحافی حضرت مولانا محمد قمر اخلاقی امجدی صاحب قبلہ بیان فرماتے ہیں کہ

آپ اخلاق و کراد اور رشد و ہدایت کی دنیا میں مثالی کردار کے متحمل تھے، چہرہ روحانی اور ہمیشہ مسکراہٹ طاری رہتی دور سے دیکھنے والوں کو احساس ہوتا ہے واقعی آل رسول ہیں، علمائے کرام کی بے حد تعظیم فرماتے، دارالعلوم واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف کے دوسالہ زمانہ تدریس میں بارہاں موقع ملا کہ حضرت خود سے چائے بناتے اور سارے اساتذہ کو چائے نوش کرنے کی دعوت دیتے،انکساری اور عاجزی کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی، مریدین کے ساتھ بہت انسیت فرماتے۔درالعلوم واحدیہ طیبیہ کے طلبہ آپ سے بے حد محبت فرماتے، اپنے ہم عصر شیوخ و علمائے کرام میں ممتاز صفت رکھتے تھے

عبادت و ریاضت ●
عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ کبھی نماز قضا نہیں ہوئی، آپ کی عبادت کو دیکھ کر "وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون، کی عملی تفسیر یاد آجاتی تھی،
آپ کی شخصیت زہد و ورع ،صدق و صفا کا حسین و جمیل سنگم تھی،
صرف بلگرام شریف ہی کے قرب و جوار ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی آپ کی کمالات، و اوصاف کا چرچہ، اور شہرہ تھا،اللہ تعالی نے آپ کی ذات کو اگر ایک طرف مذکورہ اوصاف کا حامل بنایا تھا تو دوسری طرف آپ کے دست میں شفاء کا خزانہ بھی رکھا تھا، بیماریوں کے ہو لناک دلدل میں پھنسے ہوئےحضرات، اور مصیبت زدہ لوگ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضری دیا کرتے تھے، اور شفایاب ہوکر واپس جایا کرتے تھے، اسی وجہ سے صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک مریضوں، پریشان حالوں، مصیبت زدہ لوگوں کی لمبی قطاریں لگا رہا کرتی تھی،
کبھی کبھی ایسا ہوا کرتا تھا، کہ مریضوں کی فریاد رسی کرتے کرتے سارا دن گزر جایا کرتا تھا ،بھوکے پیاسے، مصروف رہا کرتے تھے، کھانا کھانے تک کی فرصت نہیں ملتی تھی، اگر کھانا کھاتے وقت کوئی مصیبت زدہ یا تکلیف کا مارا پہنچ جاتا تو آپ کھانا چھوڑ کر فوراً خانقاہ شریف میں تشریف لے آتے ،اور مصروف دعا و تعویز ہوجایا کرتے تھے،


دعوت وتبلیغ ●
آپ ہمیشہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہتے تھے، جب تک آپ کے والد ماجد حضور ستھرے میاں علیہ الرحمہ باحیات رہے، اس وقت تک آپ دعوت و تبلیغ کے لئے مسلسل سفر میں نکلتے رہے ،اور دنیا کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور دنیا کے کئی خطوں میں آپ نے قدم رنجہ فرما کر قوم وملت کی رہبری کی اور تبلیغ دین متین کرتے رہے، اس طرح کئی سو نہیں ،ہزاروں نہیں، بلکہ لا تعداد حضرات نے آپ سے فیض حاصل کیا، آپ کے مریدین و متوسلین کی تعداد کئی ہزاروں میں ہےاور بے شمار لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی، اور سلسلہ عالیہ قادریہ واحدیہ چشتیہ میں شامل فرمایا،
آپ بلا شبہ مبلغ اسلام تھےاور مسلک اعلی حضرت کے سچے پاسبان و ترجمان تھےاور آپ کی حیات مبارکہ "امر بالمعروف "اور نھی عن المنکر"کا حسین پیکر ہے،


شمائل و خصائل ●

خشیت الہی آپ کا شیوہ، خوف خداوندی آپ کا شعار تھا، آپ کی شخصیت متواضع ،منکسر المزاج شخصیت تھی،علم کے ساتھ حلم کے پیکر اور بردبار تھے۔
مواخات اسلامی کے سائے میں ہمیشہ زندگی گزارتے تھے
آپ متنوع، انسانی خوبیوں اور اخلاق جمیلہ کا ایک مجسم پیکر تھے۔ آپ کی نگاہیں شرم وحیا کی عکاسی کرتیں، اور ہمیشہ نیچی رہتیں، اور بقدر ضرورت وہ کبھی کبھار ہی اوپر اٹھتیں، مزاج میں بڑی نرمی، اور طبیعت میں نمایاں سنجیدگی تھی۔آپ نہایت شائستگی اور سبک خرامی سے چلتے، آپ اس وقت متانت وسنجیدگی، خوش پوشی اور نستعلیقیت کا مجسمہ نظر آتے، اور جب آپ خانقاہ میں میں مسند ولایت پر تشریف فرما ہوتے، تو ایسا لگتا کہ ایک نہایت حسین وجمیل پھول کسی درخشاں اور دلکش گلدستے میں بڑے قرینے سے رکھا ہوا ہے۔
علم و فضل، تواضع و شفقت، حلم وعفو، حیا و وقار، عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ، عفو و وفا، جود و سخا، الفت و مروت، بردباری و کسر نفسی اوراخلاقِ حسنہ وغیرہ جملہ صفاتِ عالیہ آپ کی ذات میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ آپ ساری زندگی خلوص و للہیت کےساتھ تبلیغ دین متین، اور وعظ و نصیحت کی صورت میں دینِ اسلام کی حقیقی خدمت کرتے رہے۔ آپ نے اپنے بعد والوں کیلئے خدمت دین اور اتباع شریعت کے حوالے سے ایسے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ تا قیامِ قیامت خدام ِ دین ،داعی دین کی رہنمائی کرتے رہیں گے،


حلیہ و سراپا ●حضور طاہر ملت، نہایت وجیہ شکیل حسین و جمیل اور بہترین قد وقامت کے بزرگ تھے، روشن و تابناک چہرہ سے ہمہ وقت ولایت و روحانیت کا رعب و جلال نمایاں رہتا، پیشانی کشادہ، اور درخشاں ،سر متوسط، رنگ گورا، صبیح و نورانی آنکھیں،
درمیانی ،ریش مبارک (داڑھی) گھنی گول اور ابھری ہوئی،
دندان مبارک صاف و شفاف ،، ہاتھ نرم و نازک ،درمیانی سینہ کشادہ علم و معرفت کا گنجینہ، پائے مبارک متوسط، نرم ولطیف ،رفتار میں قدم بغیر آواز کے زمین پر پڑتا، اور متانت کے ساتھ اٹھاتے، ہیبت و جلال کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی آپ کو زیادہ دیر تک نظر بھر کے دیکھ نہیں سکتا تھا، گفتگو میں جچے، نپے تلے الفاظ بولتے جو پُر از معانی اور مطلب خیز ہوتے،
ان بہت سی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے آپ کی تنہا
ذات گرامی ایک روحانی و عرفانی انجمن بنی ہوئی تھی،

زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں است



قارئین کرام!! آج ہم جب معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا معاشرہ ہر طرف سے برائیوں سے گھرا ہوا ہے ان برائیوں میں سے ایک برائی ہے بد اخلاقی، یہ برائی ایسی ہے جس کا دور کرنا بہت ہی ضروری ہے وہ ایسی برائی ہے جس نے موجودہ دور میں بہت ترقی کی ہے یایسی برائی ہے جس نے عوام الناس تو درکنار دانشمند حضرات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا معاشرہ کے اندر سے اس برائی کا ختم ہونا بہت ضروری ہے اور وہ برائی ہے برا اخلاق ہمیں اور آپ کو سب سے پہلے اپنے اخلاق کی صحیح کرنا ہوگا، کیونکہ حسن اخلاق ہر برائی اور مشکل وقت سے نجات حاصل کرانے کا ذریعہ ہے حسن اخلاق کی کیا فضیلت ہے اور کیوں اخلاق حسنہ ضروری ہے

(1) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ،قَالَ: قَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :(اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ خُلُقًا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔
(2) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (اَلاَ اُنَبِّئُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟)) قَالُوْا: بَلیٰیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ:(خِیَارُکُمْ اَطْوَلُکُمْ اَعْمَارًا وَاَحْسَنُکُمْ اَخْلاقًا۔)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں پسندیدہ لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں اور اخلاق اچھے ہوں۔

(3)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (اَلاَ اُنَبِّئُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟)) قَالُوْا: بَلیٰیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: (خِیَارُکُمْ اَطْوَلُکُمْ اَعْمَارًا وَاَحْسَنُکُمْ اَخْلاقًا۔)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں پسندیدہ لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں اور اخلاق اچھے ہوں۔

(4) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَھَا: (اِنَّہُ مَنْ اُعْطِیَ مِنَ الرِّفْقِ، فَقَدْ اُعْطِیَ حَظَّہُ مِنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَصِلَۃُالرَّحِمِ، وَحُسْنُ الْخُلْقِ، وَحُسْنُ الْجَوَارِ یَعْمُرَانِ الدِّیَارِ، وَیَزِیْدَ انِ فِی الْاَعْمَارِ۔)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اُن کو فرمایا : جس کو نرمی عطا کی گئی، اُس کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی سے نواز دیا گیا اور صلہ رحمی، حسنِ اخلاق اور پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے (جیسے امورِ خیر) گھروں (اور قبیلوں) کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔

اگر حضور طاہر ملت علیہ الرحمہ کی ِحیات مبارکہ کے شب و روز کو بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو آپ ان احادیث مبارکہ کی رو سے اخلاق حسنہ کے حسین و جمیل پیکر تھے،


کرامات ●

آپ کی زبان مبارکہ میں اللہ تعالیٰ بے پناہ تاثیر پیدا فرمائی ہے، آپ نے اپنے رب سے جب بھی کوئی دعا مانگی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا ہےاور باب اجابت نے گلے لگایا ہے، نہ تو میری نظروں نے کبھی دیکھا، اور نہ ہی کانوں نے کبھی سنا کہ کبھی آپ کی دعا رد ہوئی ہو،
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ،اور آسمان سے ہوکر روئے زمین پر آنے والی گرج دار آواز سے گھروں میں خوف و ہراس چھایا ہوا تھا ،راستے لوگوں سے خالی تھے ،کوئی شخص بھاری بارش کی وجہ سے باہر نہیں نکل رہا تھا، دارالعلوم واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف میں اسی دن شب برات اور رمضان کی تعطیل ہوئی تھی، تمام طلبہ گھر جانے کے لئے بے قرار تھے، ادھر آپ تشریف لائے اور دیکھا کہ طلبہ گھر جانے کے لئے بے چین و بے قرار ہیں، آپ نے طلبہ سے پوچھا کہ اے عزیزو ! کس کا انتظار ہےجس کی وجہ سے گھر جانے میں تاخیر ہو رہی ہے تو تمام طلبہ نے عرض کیا کہ حضور، دعا فرما دیں کہ بارش رک جائے، تو ہم لوگ بآسانی گھر چلے جائیں، آپ نے آسمان کی طرف چشم ولایت وکرامت اٹھائیں اور ارشاد فرمایا کہ "ٹھہرجا"آپ کی زبان فیض ترجمان سے اتنا نکلنا تھا کہ فوراً موسلا دھار بارش ختم ہوگئی اور دھوپ بھی نکل آیا، آفتاب فلک اپنے مکمل شباب کے ساتھ حاضر ہوگیا، تمام طلبہ خوشی بخوشی اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے، (ضیاء واحدی ایضا91)
وہ تمام طلبہ آپ کے اوصاف وکمالات اور کرامات کےآج بھی مدح خواں ہیں، اس واقعے سے صاف وشفاف عیاں ہے کہ خالق کائنات نے آپ کی زبان مبارک میں بے پناہ تاثیر عطا فرمائی تھی،

رہبر راہ شریعت حضرت طاہر میاں
منبع رشد و ہدایت حضرت طاہر میاں

فیض کا دریا بہا ہے جسکے شہر پاک سے
ہیں وہی بحر سخاوت حضرت طاہر میاں

اہل ثروت پیکر غربت سبھی کے واسطے
آپ کی یکساں قیادت حضرت طاہر میاں


عقل نجدی دنگ ہے لاریب تاحد نگاہ
دیکھ کر تیری جلالت حضرت طاہر میاں

میر طیب کا عکسِ پاک تجھ میں بالیقیں
تیری صورت میں ہے ندرت حضرت طاہر میاں




تواضع و انکساری ●
توضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اور تعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیوں کہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو بہت زیادہ پسند فرماتا ہے ۔

تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔

حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے سارے کام خود اس لیے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔حضورطاہر ملت کی ذات با برکات میں جملہ مذکورہ صفاتِ عالیہ بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔

اس لیے حضورطاہرملت وعظ و نصیحت کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے کہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں،

آپ عالی نسب تھے، اولاد رسول تھے، حسینی سید تھے، مگر آپ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی زبان وقلم سے اس حسب ونسب کا اظہار نہیں فرمایا، آ پ کے خاندان کے بعض لوگوں کا بیان ہے کہ بعض موقعوں پر آپ اس کی طرف کچھ اشارہ فرماتے تھے جس کا مفہوم و مطلب عام لوگ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں ، مگر تجربہ کار اور ہوش مند حضرات اپنی جگہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ آپ کسی عالی معزز خاندان کے چشم وچراغ ہیں،
مگر آپ اس حقیقت کو پوشیدہ رکھتے تھے آپ کی نگاہ میں درر اصل کون سی حکمت اور مصلحت پنہاں تھی ،اس کو آپ ہی بہتر جان سکتے ہیں، مگر آپ کے طرز عمل اور انداز فکر کو دیکھ کر بظاہر دو سبب معلوم ہوتے ہیں

،اولاً● اگر آپ اپنے عالی نسب ہونے کا اظہار کر کے خاندانی حسب ونسب کے امتیاز و تفریق کو ترجیح دیتے تو اُس دور میں جب کہ اکثر و ییشتر راجے مہاراجے ،نوابوں،زمینداروں اپنے پسماندہ اور چھوٹی قوم کے لوگوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ رہے تھے ان کی عزت و آبرو سے دن دھاڑے کھیل رہے تھے، اور ان کی جہالت و غربت سے فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ زر خرید غلاموں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر
سلوک کررہے تھے، اس لئے آپ مسلمانوں کے ہر طبقے میں مقبول عام نہ ہو پاتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر قوم وبرادری کے مسلمان آپ سے قریب نہ ہو پاتے، جس کے سبب سے آپ کا اصلاحی اور تبلیغی مشن ادھورا رہ جاتا یہ آپ کو کسی بھی طرح گوارا نہ ہوتا، غالباً اسی خیال سے آپ نے خاندانی حسب ونسب کی دنیوی شرافت کو بالائے طاق رکھ کر ایمان و عقیدہ اور حسن عمل کو اولیت دی، آپ کے اس بے مثال طرز عمل و طریقہ کار میں اس قدر جاذبیت اور کشش تھی کہ جس سے ہر طبقے کے لوگ چاروں طرف سے سمٹ کر آپ کے پاس جمع ہوئے، اور ہر شخص نے بقدر ظرف آپ سے شریعت وتصوف کا واحدی طیبی فیض حاصل کیا، اور آپ نے بھی نہایت فیاضی و فراخدلی کے ساتھ سب پر بھر پور فیضان واحدی عنایت و نوازش فرمائی،

ثانیاً●آپ چونکہ خانقاہوں کے عام رجحان اور پیشہ وران خیال 'پدرم سلطان بود'کے قائل نہ تھے اور محض نسبت آباء واجداد کے رد اورمظاہرہ کے خلاف تھے،
شعر۔جنکے رتبے ہیں سوا ان کے سوا مشکل ہے

آپ کا اخلاق کریمانہ، اعلی خیالات کا سنگم، عالی نسب، نیک سیرت ونیک طینت، ہونے کے ساتھ ساتھ، تواضع و انکساری کے اعلی مرتبے پر فائز تھے،تواضع و انکساری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس طرح سے گفتار ،اخلاق و کردار، سے پیش آتے کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ ایک اعلی خاندان اور عالی نسب سے ہیں یا کسی
رئیس گھرانے کے فرزند ہیں، آنے والے مہمان سے اس طرح ملاقات کرتے کہ آنے والا ایک اچھا تاثر لے کر رخصت ہوتا،
کبھی تعطیل کے موقع پر کوئی شخص آجاتا اور طلبہ گھر پر ہوتے تو ضیافت کی ساری اشیاء آپ خود ہی لاکر مہمانوں کو پیش فرماتے، اپنے بچے تو اپنے ہیں، دوسروں کو بچوں کو بھی اس طرح لاڈ و پیار کرتے اور اس قدر شفقت فرماتے کہ شاید ان کے والد بھی اس طرح نہ کرتے ہوں گے اسی لئے بلگرام شریف کے اور ضلع ہردوئی، میں رہنے والے، خواہ، بوڑھے، بچے، جوان، سب آپ کے دامن کرم میں پناہ لیتے، اور آپ کو پیار سے "ابو میاں" کہہ کر پکارتے، اگر کوئی شخص آپ کے سامنے آپ کی تعریف و توصیف بیان کرتا تو آپ منع فرما دیتے اور ارشاد فرماتے کہ میری تعریف کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تعریف کیجئے، جس نے ہمیں آپ کی خدمت کرنے کے لئے مقرر فرمایاہے،

آپ کی عائلی زندگی ●
دنیا میں گھریلو زندگی میں انسان کو جانچا اور ناپا جاتا ہے کہ لوگ کہاں تک اہل قرابت سے اسلامی برتاؤ کرتے ہیں اور کہاں تک نہیں کرتے ہیں۔

ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے خیر کم من خیرکم لاھلہ، و اناخیرکم لاھلی، تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ بیوی بچوں کے لئے بہتر ہو،اور میں اپنے اہل وعیال کے لئے بہتر ہوں ،
سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ گھریلو زندگی پرسنل لائف سے انسان کو ناپا جائے گا،ایمان و اعتقاد کے بعد جو اہل خانہ کے لئے بہتر ہو وہ بہتر مانا جائے گا۔
حدیث مصطفی ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس تناظر میں حضور طاہر ملت ایک کردار تھے، آپ گفتار تو گفتار کردار کے بھی دھنی تھے۔،
آپ کے اہل و عیال (زوجہ، صاحبزداگان) سب خوش تھے قرابت اور صلہ رحمی کے اعتبار سے آپ ایک آئیڈیل اور رہنما تھے، آپ سے آپ کی والدین مکرمین خوش، برادارن صاحبان ، سب خوش اور مطمئن تھے،

(1)عنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ،قَالَ: قَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :(اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ خُلُقًا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔
(2)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :(اَلاَ اُنَبِّئُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟)) قَالُوْا: بَلیٰیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: (خِیَارُکُمْ اَطْوَلُکُمْ اَعْمَارًا وَاَحْسَنُکُمْ اَخْلاقًا۔)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں پسندیدہ لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں اور اخلاق اچھے ہوں۔،

(3) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے بہتر اخلاق والا ہے (ابوداؤد4682)


آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمایا تھا،
جن میں خصوصیت سے (1)شہزادہ حضور طاہر ملت، مصدر تجلیات واحدی، حضرت علامہ سید میر محمد
سہیل میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی، ولی عہد خانقاہ عالیہ واحدیہ طیبیہ محلہ سلہاڑا بڑی خانقاہ بلگرام شریف ضلع ہردوئی، (2)شہزادہ حضور طاہر ملت حضرت سید رضوان میاں صاحب قبلہ قادری چشتی واحدی مدظلہ العالی، شہزادہ حضور طاہر ملت حضرت سید سعید اختر میاں قادری چشتی واحدی مدظلہ العالی قابل ذکر ہیں،

خلفاء طاہر ملت ●
آپ نے کئی حضرات کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازا تھا، جن میں خصوصاً(1)خلیفہ حضور طاہر ملت، خطیب اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد اسرار احمد فیضی واحدی ناظم اعلی جامعہ امام اعظم ابوحنیفہ نسواں عربی کالج، علی پور بازار، ضلع گونڈہ، و صدر رضا اکیڈمی ضلع گونڈہ یوپی، (2)خلیفہ حضور طاہر ملت حضرت قاری محمد عارف القادری واحدی ناظم اعلی جامعہ مرکز الصالِحات اودھم سنگھ نگر ستار گنج، اتر اکھنڈ، (3)عمدۃ الخطباء خلیفہ حضور طاہر ملت حضرت قاری محمد ارشاد ازہری بریلی شریف، عمدہ القراء، حضرت حافظ وقاری محمد اسلم القادری واحدی بہرائچ شریف، کے اسماء قابل ذکر ہیں،
اور بھی حضرات ہیں جن سے حضور طاہر ملت علیہ الرحمہ کو خلافت و اجازت حاصل تھی،



وصال پرملال ●


مورخہ 17 اگست بروز منگل 2021ء/ مطابق 7 محرم الحرام 1443ھ/ کو، تاجدار مسند بلگرام پیر طریقت رہبر راہ شریعت گل گلزارِ واحدیت حضور طاہر ملت حضرت العلام الشاہ سید میر محمد طاہر میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی دنیاء فانی سے دار بقا کی جانب روانہ ہوگئے،اناللہ وانا اليہ راجعون،،

آپ کی نماز جنازہ شہزادہ حضور طاہر ملت، مصدر تجلیات واحدی حضرت سہیل ملت میرسیدمحمدسہیل میاں قادری چشتی واحدی مدظلہ العالی نے پڑھائی، کثیر تعداد میں ملک کی عظیم خانقاہوں کے سجادہ نشین اور علماء، ادباء، حفاظ، قراء، مریدین و متوسلین شریک جنازہ تھے،
Previous Post Next Post