شیخ محمد عابد سندھی مدنی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: شیخ محمد عابد۔ لقب: رئیس العلماء،فقیہِ اعظم، محدث، محقق،صوفی،شیخ العرب والعجم۔آپ مولداً سندھی۔نسباً ایوبی۔موطناً مدنی۔ مسلکاً حنفی۔ مشرباً۔ نقشبندی تھے۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: شیخ محمد عابد بن شیخ احمد علی بن شیخ الاسلام محمد مراد بن حافظ محمد یعقوب بن محمود انصاری بن عبدالرحمن بن عبد الرحیم بن محمد انس بن عبداللہ بن محمد جابر بن محمد خالد بن مالک بن ابی عوف بن حسان بن سالم بن اشعث بن مت بن ثعلبہ بن جنید بن مقدم بن شرحبیل بن اشعث بن مت بن صحابیِ رسول حضرت ابوایوب انصاری(رحمہم اللہ عنہم اجمعین)۔ (الامام الفقیہ محمد عابدالسندی الانصاری،مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ،بیروت،ص:55)۔آپ کے والدِگرامی مولانا شیخ احمد علی،چچا شیخ محمد حسین انصاری،اور جد امجد شیخ الاسلام مولانا محمد مراد اپنے وقت کے جید عالم و عارف تھے۔مولانا محمد مرار حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد ہاشم ٹھٹوی کے تلمیذ ِ خاص تھے۔شیخ محمد مراد نے حرمین شریفین کی محبت کی وجہ سے اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ1194ھ میں حجاز ِ مقدس کی طرف ہجرت فرمائی۔ابتداءً مکۃ المکرمہ میں رہائش پذیر ہوئے اور پھر جدہ میں سکونت اختیار کرلی،یہیں پر1198ھ میں ان کا انتقال ہوا۔پھران کے خاندان نے حجاز سے یمن کی طرف ہجرت فرمائی اور ابتداء ً شہر حدیدہ میں سکونت اختیار کی پھر صنعاء منتقل ہوگئے۔جہاں مخلوقِ خدا اور دین اسلام کی خدمت کرتےرہے۔ (ایضا:90)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1190ھ مطابق 1776ء کو ’’سیوہن شریف‘‘ سندھ پاکستان میں ہوئی۔(ایضا:107)
تحصیلِ علم: آپ کا خاندان علم وفضل میں اپنی مثال آپ تھا۔آپ کے جد امجد مولانا محمد مراد اپنے وقت کے عظیم محدث اور سبعہ عشرہ کے قاری تھے۔ اسی طرح آپ کے والدِ گرامی اور چچا علم الادیان وعلم الابدان کے ماہر تھے۔ان کا فیض عرب و عجم کو شامل رہا۔آپ کی تعلیم و تربیت انہی نفوسِ قُدسیہ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ان کے علاوہ یمن کے علمی مرکز زبیدہ کےشیوخ سے علمی استفادہ کیا۔اسی طرح حرمین شریفین کے شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ کیا۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:768)
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت خواجہ محمد زمان ثانی صدیقی(لواری شریف) کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔
سیرت و خصائص: الامام العالم العلامہ، القدوۃ الفہامہ، خاتمۃ المحققین، عمدۃ المدققین، فخر العلماء الراسخین، سید الفضلاء المقدسین،سند العارفین، حجۃ الواصلین، امام الحرمین، عالم ربانی، صاحبِ اسرار و معارف ِ رحمانی حضرت علامہ مولانا شیخ محمد عابد سندھی مدنی یمنی انصاری ۔آپ اپنے وقت کے عظیم محدث اور فقیہ ِ یگانہ تھے۔علماء و شیوخِ عرب و عجم نے آپ کی ثقاہت،فقاہت، اور علمی بصیرت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ عمدہ الفاظ میں خراج ِ تحسین بھی پیش کیاہے۔چنانچہ مفسر کبیر علامہ شہاب الدین ابو الثناء محمود بن عبد اللہ (صاحبِ روح المعانی) اپنی کتاب ’’شہی النغم فی ترجمۃ شیخ الاسلام عارف الحکم‘‘ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ومنھم بحر الرائق، و کنز الدقائق، ومن کلامہ تنویر الابصار، و الدر المختار، ذوالتالیف الشریفۃ، و قرۃ عین الامام الاعظم ابی حنیفۃ، العالم الزاہد الشیخ محمد عابد غمرہ اللہ بمزید العوائد‘‘۔(شیخ محمد عابد السندی:156)
درس و تدریس : تدریس کا آغاز زبیدہ ( یمن ) سے کیا ۔ یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں بھی درس و تدریس کی مسند پر جلوہ افروز رہے۔ یمن کے بادشاہ کے شاہی طبیب بھی رہے۔بادشاہ کے وزیر نے آپ کے علم و فضل کے پیشِ نظر اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دےدی۔اسی طرح آپ فہم و فراست اور صلاحیت کی بناء پر بادشاہِ یمن کی جانب سے بادشاہ مصر کی جانب سفیر بن کر گئے ، دونوں ملکوں کی طرف سے سفارتی تعلقات کو اپنی علمی بصیرت اور ذہنی صلاحیت سے بہتر بنایا۔ اس طرح علامہ محمد عابد سندھی کو دونوں ملکوں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے علم و فضل سے فقط عام نہیں بلکہ خاص الخاص بھی استفادہ کرتے تھے۔ان کے زندگی کا اکثر حصہ یمن میں گذرا۔ یمن میں اس قدر عزت و منزلت کے باوجودآپ کا دل مدینہ منورہ کے لئے تڑپتا رہتا تھا ۔ یہ سب کچھ شہنشاہِ مدینہ حضور پر نورﷺکے عشق و محبت کی وجہ سے تھا۔ اسی محبت کی خاطر آپ نے تمام اعزازات و مناصب قربان کرکے مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور حبیبِ خداﷺ کے شہر میں رہنے لگے۔مدینۃ المنورہ میں آپ نے درس و تدریس اور وعظ ونصیحت کا سلسلہ شروع کردیا۔آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت حاسدوں کو گوارہ نہ ہوئی۔انہوں نے آپ کی مخالفت میں ایک محاذ کھول لیا۔جس کی بناء پر آپ کو مدینۃ المنورہ سے ترکِ سکونت کرنی پڑی اور واپس یمن آگئے۔
قید و بند: جب آپ یمن واپس آئے تو یہاں بھی انقلاب آچکا تھا۔ وہاں قاضی حسین بن علی حازمی مقرر ہوئے تھے جو کہ زیدی شیعہ تھے۔ اس نے یہ بدعت نکالی کہ اذان فجر سے الصلوۃ خیر من النوم کو نکالا جائے اور اس کی جگہ ’’حی علی الخیر‘‘ کا اضافہ کیا جائے۔ لیکن عام مسلمانوں نے قاضی کے حکم پر کوئی توجہ نہیں دی اور پاگل کی بڑسمجھ کر اس خیالِ باطل کو سراسرٹھکرادیا۔ عدم ِعمل کی صورت میں قاضی نے چالیس حنفی علماء کو گرفتار کرنے کا آڈر جاری کیا ان چالیس میں سر فہرست علامہ محمد عابد سندھی تھے۔ علامہ سندھی کو جیل میں سخت اذیت ناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔دوسرے علماء تو چھوڑ دیے گئے لیکن آپ کو نہیں چھوڑاگیا،بلکہ کوڑے مارے گئے اور شہر بدری کا حکم دیا گیا۔(سندھ کے صوفیاءِ نقشبندجلد اول:560)
جب آزادی ملی تو حالات ناساز گار کی وجہ سے آبائی وطن سندھ واپس آنے کا پروگرام مرتب کیا ۔ یہاں پیر خانہ پر حاضری دی کچھ روز حضرت خواجہ کی صحبت میں رہ کر فیض یاب ہوئے ۔ روضہ رسول ﷺ کی جدائی بہت شاق گذر رہی تھی ، اندر ہی اندر دل مدینہ منورہ کے لئے پگھل رہا تھا۔حضرت خواجہ صاحب نے عاشق مدینہ کی یہ کیفیت نور بصیرت سے محسوس کر کے انہیں مدینہ منورہ کے لئے واپسی کی اجازت اورکثیردعاؤں سےرخصت کیا۔ سندھ سے واپسی کے بعد مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ اس بار کا یا ہی پلٹی ہوئی تھی ۔ اللہ کے ولی کی دعاوٗں نے رنگ دکھایا، حالات ہر طرف ساز گار تھے۔ محبین و معتقدین کے حلقہ میں اضافہ تھا۔ سندھ کے عظیم حنفی محدث نے اطمینان قلبی کے ساتھ مدینہ شریف میں درس و تدریس ، تحریر و تصنیف ، عبادت و ریاضت ، ذکر و فکر ، تہجد و نوافل ، اور کثرت درود شریف کے معمولات میں مصروف و مشغول ہو گئے ۔ انہیں مصروفیات میں مشغول تھے کہ بغیر کوشش وکاوش کے بادشاہ مصر نے آپ کو مدینہ منورہ کا ’’رئیس العلماء ‘‘ کے مقام و منصب سے نوازا۔ آپ مدینہ منورہ کے مذاہب اربعہ ( حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی ) علماء کے رئیس قرار پائے۔عرب و عجم، شرق تاغرب علماء و مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا۔آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے شیوخ اور نامور علماء کرام ہیں۔1۔امام مسجد الحرام شیخ حسین بن صالح جمل اللیل حنفی ۔ (ان سے اعلیٰ حضرت نے سند ِحدیث حاصل کی تھی)۔2۔سیف اللہ المسلول علامہ شاہ فضل رسول بدایونی ۔3۔ حضرت علامہ خواجہ ابو سعید مجددی رامپوری۔وغیرہ علیہم الرحمہ۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:770)
علم حدیث: حدیث سے آپ کے شغف اور قلبی لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف علم حدیث کا درس دیا کرتے تے اور دوسری طرف احادیث کو اپنے ہاتھ سے تحریر بھی فرمایا کرتےتھے۔چنانچہ صحاح ستہ کو بڑی باریک قلم سے صرف ایک جلد میں اپنے ہاتھ سے تحریر کرکے اپنے مرشد کے آستانے پر پیش کیا۔
تصنیف و تالیف: علامہ محمد عابد سندھی صاحب تصانیفِ کثیرہ تھے۔ دو درجن سے زیادہ کتب مختلف علوم و فنون پرتحریرفرمائی ہیں۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں۔1۔ طوالع الانوار شرح الدرالمختار (آٹھ جلدیں)۔منحۃ الباری فی جمع مکررات البخاری۔شرح مسند ابی حنیفہ۔شرح بلوغ المرام۔حصرالشارد فی اسانیدِمحمدعابد۔ اسی طرح نجدی عقائد کے رد میں بھی کتب و رسائل تحریرفرمائے ۔1۔رسالہ ردِ عقائد ِ نجدیہ۔2 کتاب الشمالی و یوم مولدہ ﷺ بحوالہ البشریٰ لمن احتفل بمیلا د المصطفیٰ۔3۔ رسالۃ فی جواز الاستغاثۃ والتوسل، و صدور الخوارق من الاولیاء المقبورین۔4۔ رسالۃ فی التوسل و انواعہ واحکامہ۔5۔ رسالۃ فی کرامات الاولیاء والتصدیق بھا۔6۔ شفا ء قلب کل سؤول فی جواز من تسمی بعبد النبی و عبدالرسول۔وغیرہ۔آپ کی اولاد صغرِ سنی میں انتقال کرگئی۔
تاریخِ وصال: 17/ربیع الاول1257ھ،مطابق 10/مئی 1841ء، بروز پیر،یہ خادم الاسلام واصل باللہ ہوئے۔جنت البقیع مدینۃ المنورہ میں حضرت عثمان غنی کے مقبرے کےدروازے سے متصل جگہ نصیب ہوئی۔ (الشیخ محمد عابد السندی الانصاری:125)یہ عالی شان مقبرہ ودیگر مزاراتِ مبارکہ سعودی حکومت کی ’’ابلیسی توحید‘‘ کی نذر ہوگئے۔البتہ ان کی عیاشی و بےضمیری و ملت فروشی اور یہود ونصاریٰ سے دلی قربت چھپی ہوئی نہیں ہے۔
Post a Comment