Biography HUZUR ASHRAFUL AULIA Syed Mujtaba Ashraf Ashrafiul Jilani حضور سیدی و مرشدی اشرف الاولیاء حضرت سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی

 حضور سیدی و مرشدی اشرف الاولیاء حضرت سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی رحمتہ اللہ علیہ



جب آتا ھے میرے دل میں خیال مجتبیٰ اشرف

نظر میں    رقص    کرتا     ھے       جمال      مجتبیٰ      اشرف

چمکتا    چاند    سا چہرہ     جبیں      رشک      قمر     جنکی

کوئی کس      طرح       لائے گا         مثال        مجتبیٰ      اشرف

چودھویں صدی کی ایک عبقری شخصیت خانوادہ اشرفیہ کے ایک چشم و چراغ، مرشد کامل،

حضرت اشرف الاولیاء سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان ایک نظر۔

 آپ ایک عالم باعمل،صوفی باصفا،کامل مرشد ہدایت اور رہنمائے طریقت تھے، آپ کی ذات تنہا ایک انجمن تھی، آپکا وجودنہ جانے کتنی انجمنوں کے لئے شمع فروزاں، نہ جانے کتنے جسم کے مریضوں نے آپ سے دوائے شفا پائی، آپ فیوض و بر کات کے سر چشمہ تھے۔


ولادت باسعادت

26 ربیع الآخر 1346ھ مطابق 23 اکتوبر 1927ء کو علم و عرفان والے گھرانے میں کچھوچھہ مقدسہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی، جس دن آپ کی ولادت پاک ہوئی اسی روز موضع پھلام، سمری بختیار پور، سہرسہ (بہار) میں سنی دیوبندی مناظرہ میں مسلسل تین روز مناظرہ کے بعد دیوبندیوں کو شکست فاش اور اہل سنت والجماعت کو فتح مبین ملی تھی۔

جب آپ کے والد گرامی حضور تاج الاصفیاء اور حضور محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہما فتح کا پرچم لہراتے ہوئے کچھوچھہ شریف پہونچے اور سلطان المناظرین بحرالعلوم حضرت علامہ  سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کو فتح کی خوشخبری سنائی تو آپ نےفرمایا "اسی تاریخ کو آپ کے یہاں شہزادے تشریف لائے ہیں اور کامیابی کا چاند طلوع ہوا ہے" اور پھر حضور سلطان المناظرین علیہ الرحمہ نےاپنے بھتیجے کو گود میں لیکر برجستہ فرمایا "یہ میرا ہمشکل ہے، اسکی آمد سعید ہےاور مجھے لگتا ہے کہ اسکی ولادت کی برکت ہے کہ مناظرہ میں اہلسنت والجماعت کو فتح مبین حاصل ہوئی ہے" پھرآپ نے حضوراشرف الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کاتاریخی نام "بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ" تجویز فرمایا جسکے اعداد "1346" نکلتے ہیں۔

آپکے نام میں "بدرالفتح" اسی مناظرہ پہلانا م میں فتح وکامیابی کی مناسبت سے ہے۔

"بدرالفتح سیدمحمد مجتبیٰ" کے ساتھ "اشرف" کے لگانے سے آپکے تاریخی نام کی مطابقت سن ہجری کےساتھہ ساتھہ سن عیسوی سے بھی ہو تی ہے "بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف" کے اعداد 1927 ہیں اور اسی سن عیسوی میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی. سبحان اللہ.

حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچتا ہے جس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے.

µ  اشرف الاولیاء سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی

µ  بن سید مصطفیٰ اشرف

µ  بن سید محمد علی حسین المعروف بہ اشرفی میاں

µ  بن سید سعادت علی

µ  بن سید قلندر علی

µ  بن سید تراب علی

µ  بن سید نواز اشرف

µ  بن سید محمد غوث

µ  بن سید جمال الدین

µ  بن سید عزیزالرحمان

µ  بن سید محمد عثمان

µ  بن سید ابو الفتح زندہ پیر

µ  بن سید محمد اشرف

µ  بن سید محمد حسن اشرف

µ  بن سید عبدالرزاق نورالعین

µ  بن سید عبدالغفور حسن

µ  بن سید ابو العباس احمد

µ  بن سید بدرالدین حسن

µ  بن سید علاء الدین

µ  بن سید شمس الدین

µ  بن سید سیف الدین

µ  بن سید ظہیرالدین  

µ  بن سید ابو نصر

µ  بن سید ابوصالح عمادالدین

µ  بن سید ابوبکر عبدالرزاق

µ  بن سید محی الدین عبدالقادر جیلانی

µ  بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست

µ  بن سید ابو عبداللہ

µ  بن سید یحییٰ زاہد

µ  بن سید محمد

µ  بن سید ابو داؤد

µ  بن سید موسیٰ ثانی

µ  بن سید عبد اللہ ثانی

µ  بن سید موسیٰ

µ  بن سید عبد اللہ محض

µ  بن سید حسن مثنیٰ

µ  بن سید حسن مجتبیٰ

µ  سیدہ فاطمۃ الزہرا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

µ  آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

حضور اشرف الاولیاء حضرت سید ابوالفتح مجتبی اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچتا ہے جس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے.

µ  اشرف الاولیاء سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی

µ  بن سید مصطفیٰ اشرف

µ  بن سید محمد علی حسین المعروف بہ اشرفی میاں

µ  بن سید سعادت علی

µ  بن سید قلندر علی

µ  بن سید تراب علی

µ  بن سید نواز اشرف

µ  بن سید محمد غوث

µ  بن سید جمال الدین

µ  بن سید عزیزالرحمان

µ  بن سید محمد عثمان

µ  بن سید ابو الفتح زندہ پیر

µ  بن سید محمد اشرف

µ  بن سید محمد حسن اشرف

µ  بن سید عبدالرزاق نورالعین

µ  بن سید عبدالغفور حسن

µ  بن سید ابو العباس احمد

µ  بن سید بدرالدین حسن

µ  بن سید علاء الدین

µ  بن سید شمس الدین

µ  بن سید سیف الدین

µ  بن سید ظہیرالدین

µ  بن سید ابو نصر

µ  بن سید ابوصالح عمادالدین

µ  بن سید ابوبکر عبدالرزاق

µ  بن سید محی الدین عبدالقادر جیلانی

µ  بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست

µ  بن سید ابو عبداللہ

µ  بن سید یحییٰ زاہد

µ  بن سید محمد

µ  بن سید ابو داؤد

µ  بن سید موسیٰ ثانی

µ  بن سید عبد اللہ ثانی

µ  بن سید موسیٰ

µ  بن سید عبد اللہ محض

µ  بن سید حسن مثنیٰ

µ  بن سید حسن مجتبیٰ

µ  سیدہ فاطمۃ الزہرا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

µ  آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

   

           حلیہ مبارک

حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کا نقش سراپا یہ ہے۔وجیہ وشکیل دراز قد، سینکڑوں میں ممتاز و نمایاں، رنگ گورا، سر بڑا گول، بال سیاہ، چہرہ گول روشن وتابناک نور برستا ہوا، جسے دیکھ کر خدا یاد آجائے، پیشانی روشن کشادہ جس پر سعادت کے آثار نمایاں، پلکیں گھنیں بالکل سفید ہالہ نما، آنکھیں بڑی بڑی خوبصورت، ہونٹ پتلے پتلے گلابی رنگ لئے ہوئے، دندان مبارک چھوٹے چھوٹے ہموار، صاف و شفاف، ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی، کان متناسب، ریش مبارک مشروع گھنی اور گول، رخسار آفتابی، چہرے پر رعب و جلال، گردن معتدل، سینہ مبارک صاف اور فراخ، دستہائے مبارک نرم و نازک لمبے لمبے سخاوت و فیاضی میں ضرب المثل، کلائیاں چوڑیں، ہتھیلیاں بھری ہوئیں نرم وگداز، گفتگو متوسط آواز، آواز شیریں، رفتار صوفیانہ، لباس و وضع میں سادگی، سر پر خاندانی کلاہ اور کبھی مخصوص تاج خاندانی۔۔۔  مجدد دین و ملت اعلیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

یا رسول اللہ ﷺ


تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا


         تعلیم و تربیت

جب حضور اشرف الاولیاء حضرت ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان کی عمر 4 سال 4 ماہ 4 دن کی ہوئی تو حسب دستور خاندانی آپکے والد ماجدتاج الاصفیا حضرت سید مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے کچھوچھہ مقدسہ میں قائم "مدرسہ اشرفیہ" میں آپکا داخلہ کر وایا۔

بعدہ حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مبارک پور یو پی کا رخت سفر باندھا اور وہاں باغ فردوس الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جس کی سنگ بنیاد آپ کے جد امجد ہم شبیہ غوث اعظم اعلیٰحضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے رکھی تھی اور تا حیات آپ اس کے سر براہ اعلیٰ رہے، اور آ ج بھی وہاں انکا فیض جاری ہے۔

حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ خانوادہ اشرفیہ کے پہلے فرد تھے جنہوں نے الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جب یہ خبر جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ہوئی تو آپ نے پورے مبارک پور میں یہ منادی کرادی کہ "اے مبارک پور کے لوگو تم خوش نصیب ہوتمہاری  قسمت کا ستارہ عروج پر ہے کہ تمہارے یہاں نبیرہ اعلیٰحضرت بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف تعلیم حاصل کر نے کے لئے تشریف لا رہے ہیں، چلو اپنے مخدوم زادے کے استقبال کے لئے چلو اور اپنے محسن و کرم فر ما کے پوتے کا شایان شان استقبال کرو، چلو سٹھیاؤں اسٹیشن سے مخدوم زادے کو لیکر آئینگے"،

آپ کے ایک اعلان پہ سارا مبارک پور اکٹھا ہوکر سٹھیاؤں اسٹیشن استقبال کے لئے پہونچا، شوق دید میں سبھی بے چین ہو نے لگے، تاریخ نے ایسا پہلی بار دیکھا تھاکہ استاذالعلماء حافظ ملت علیہ الرحمہ جیسی جلیل القدر شخصیت اپنے شاگرد (خاص) کے استقبال کے لئے خود تشریف لے گئے تھےاور کیوں نہ ہو تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی تھی کہ ان کے جد امجد غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمتہ والرضوان کے استقبال کیلئے بھی ان کے پیر و مرشد قطب عالم پنڈوہ حضور مخدوم علاء الحق والدین علیہ الرحمتہ والرضوان آبادی سے باہر نکلے تھے۔

جب حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ ٹرین سے اترے تو پورا خطہ آل رسول اور فیضان مخدوم سمناں کے نعروں سے گونج اٹھا، دست بوسی اور قدمبوسی کے لئے منتظرین پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑے سب سے پہلے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ سے بغل گیر ہوئے اور آپ کو سینے سے لگایا،

الجامعتہ الاشرفیہ میں آپ نے اپنےوقت کے جلیل القدر اساتذہ کی تربیت میں مروجہ تمام علوم و فن میں مہارت حاصل کی۔


 آپ کے جلیل القدر اساتذہ کرام:

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ

مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی

مولانا عبد المصطفی ازہری

مولانا عبد الرؤف بلیاوی

مولانا سلیمان اشرف بھاگلپوری

مولانا شمس الحق

مولانا علی احمد

رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔

      ایّام طفولیت میں نبی کونین سلطان دارین صلی اللہ علیہ وسلّم، محبوب سبحانی حضور غوث الاعظم دستگیر، حضور خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز اور محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کی زیارت پاک سے مشرف ہونا۔

حضور اشرف الاولیاء حضرت سید ابوالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کے بچپن اورلڑکپن کا زمانہ تھا، آپ کے جد امجد حضور اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی طبیعت سخت علیل تھی، مسلسل علالت کی وجہ سے آپ میں اٹھ کر بیٹھنے کی سکت بھی نہ تھی، خانوادہ کے سبھی لوگ عیادت اور تیمارداری میں مصروف تھے، چھوٹے چھوٹے بچے دادا جان کو مرض میں مبتلا دیکھ کر خدمت میں لگے ہوۓ تھے، جن میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ بھی تھے، اتنے میں آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی، اورعوام وخاص سبھوں کو فورا حجرہ خالی کرنے کا حکم دیا، حکم سنتے ہی سبھی حجرے سے باہر ہو گئے، لیکن حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ جہاں تھے وہیں رہے، دادا جان رحمتہ اللہ علیہ نے دوبارہ آپ کو مخاطب کیا اور باہر جانے کا حکم دیا تو آپ مچل گئے اور عرض کرنے لگے "میں یہیں رہونگا اس حالت میں آپ کو چھوڑ کر با ہر ہرگز نہ جاؤنگا"۔

اپنے نو عمر پوتے کی زبان سے یہ محبّت اور دَرد بھرا جُملہ سُن کر آپ کو رحم آگیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا : "اگر باہر جانا نہیں چاہتے ہو تو میری چارپائی کے نیچے چھپ جاؤ"،

حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور غور سے دیکھنے لگے کہ آخر آج خلاف معمول ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

جب تنہائی ہو گئی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا کچھ با رونق شخصیتیں ظاہرہوئیں جن کی آمد پر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اپنے بستر علالت سے اٹھ کر از خود کھڑے ہوگئے، اور آنے والوں کی نہایت ہی مؤدب انداز میں تعظیم وتوقیر بجا لاۓ، پھر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اور آنے والے معزز حضرات کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہوا جو بہت دیر تک جاری رہا، اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ عربی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، پھر اچانک وہ مکرم شخصیتیں غائب ہوگئیں اور آپ آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستر علالت پر لیٹ گئے-

جب یہ پُربہار وپُرنور سَماں ختم ہوا تو جد امجد علیہ الرحمہ نے آپ کو باہر نکلنے کی اجازت دی۔

تب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دادا جان سے عرض کی: "حضور آپ میں تو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی، آخر یہ بزرگ کون تھے جن کی تعظیم کے لئے آپ کھڑے ہوگئے اورکافی دیر تک ان سے عربی زبان میں بات چیت کی" تو دادا جان رحمتہ اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا: "چپ رہو، چپ رہو، ابھی ابھی جن بزرگوں کو تم نے دیکھا ہے ان میں حضور پر نور شافع یوم النشور سید عالم روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلّم، محبوب سبحانی حضور غوث الاعظم دستگیر، حضور خواجہ خواجگان  خواجہ غریب نواز و حضور محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تشریف لاۓ تھے،

بھلا ان کی آمد پر میں اپنے بستر پر کیسے لیٹا رہتا۔ دیکھو! میری زندگی میں اس واقعہ کو کسی سے بیان مت کرنا ورنہ گونگے ہوجاؤگے۔

اس طرح حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ سرکار دو عالم روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ ساتھ ان بزرگان دین کی زیارت سے بھی مشرّف ہوئے اور جد امجد حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد اس واقعہ کو اپنے اہل خاندان اور مرید و متوسلین سے بیان فرمایا- سننے والوں کا بیان ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی حیات ظاہری میں گاہ بگاہ اس واقعہ کو بیان فرماتے اور جب بھی اس واقعہ کو بیان فرماتے، بیان کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتے،سبحان اللہ!

شریعت میں طریقت میں سخاوت میں شجاعت میں

کوئی  ثانی    نہیں    ملتا     ہمارے    پیرو مرشد کا


بیعت و خلافت

حضور اشرف الاولیاء حضرت ابوالفتح  سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان جب سن بلوغ کو پہونچے تو آپ کے باطنی کمالات اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اسی وقت آپ کے جد امجد حضور مخدوم الاولیاء ہمشبیہ غوث الاعظم اعلیٰ حضرت علی حسین المعروف اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ اشرفیہ میں آپ کو بیعت کیا اور اجازت و خلافت عطا فرمائی،

پھر حسب روایات خاندانی ودستور خانقاہی اپنے والد ماجد مخدوم المشائخ تاج الاصفیاء حضرت علامہ سید شاہ پیر مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام سلاسل حقہ ماذونہ خصوصا سلاسل اربعہ مشہورہ کی اجازت وخلافت مع تاج و جبہ مرحمت فرمائی اور جملہ اوراد و وظائف اور اعمال خاندانی خصوصاً دعائے حیدری، دعائے سیفی، دعائے بشمخ، دعائے الف اور حزب البحر وغیرہ کی اجازت مرحمت فرمائی اور آپ کو اپنا جانشیں قائم مقام ولی عہد نامزد فرمایا-

تبلیغ و اشاعت

دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں مسند درس وتدریس پر رونق افروز تھے مگر ابھی سال بھی پورا نہ ہو پایا تھا کہ والد محترم، حضور تاج الاصفیاء علیہ الرحمہ کے مشاغل و مصروفیات اور کارہاۓ تبلیغ کی وسعتوں کے مد نظر تدریسی خدمات سے آپ کو علاحدگی اختیار کرنی پڑی اور تبلیغی خدمات کی جانب زمام زندگی کو موڑنا پڑا۔

جماعت اہلسنت کی تبلیغ واشاعت اور اپنے والد گرامی کے مشن کے فروغ میں مصروف ہو گئے، دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی نشر و اشاعت اور مسلک اہلسنت و جماعت کے فروغ وارتقاء کے لئے ایشیا و یوروپ کے مختلف ممالک اور ہندوستان کے مختلف صوبوں کا آپ نے دورہ کیا، یوں تو آپ کا فیضان پوری ملّت اسلامیہ کے لئے عام تھا لیکن بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، گجرات، یوپی، ایم پی، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب، کرناٹک، آندھراپردیش، بھوٹان، سکّم اور بیرون ہند بنگلہ دیش، پاکستان، سعودیہ، انگلینڈ وغیرہ کے مسلمان آپ سے زیادہ فیضیاب ہوئے۔


کہیں دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلّم کی حفاظت کیلئے مدرسے قائم کئے- کہیں اپنے معبود حقیقی کے آگے سر بسجود ہونے اوراظہار بندگی کیلئے مسجدوں کی تعمیر فرمائی کہیں تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کیلئے خانقاہوں کی تعمیر کی،اور اگر کہیں دین اسلام اور مذھب اہل سنت و جماعت کو کسی نے اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا اور انگشت نمائی کی تو ان سے مقابلہ کر کے دشمنان دین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔

جس سے ہزارہا لوگ اپنے باطل عقائد اور غلط نظریات سے تائب ہوکر اہل حق کے جھرمٹ میں آگئے-

حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کے تبلیغی دورے کا خاص مقصد مسلک اہلسنّت و جماعت کی نشر واشاعت اور مخدومی مشن کا فروغ و ارتقاء تھا- ہندوستان کے مختلف صوبے بالخصوص صوبہ بنگال و بہار، بھوٹان و سکم اورآسام میں آج جو سنیت کی چہل پہل نظر آرہی ہے اور مسلک اہلسنّت و جماعت کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے ہیں اس میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کی قربانیوں کا زیادہ حصّہ شامل ہے- بیل گاڑی، رکشا، وین اور پیدل چل کر مسلسل دیہاتوں کا سفر کر کے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پہنچ کر دین و سنیت کیلئے جو قربانی آپ نے پیش کی ہے وہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔

آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعہ بہت سے بد عقیدوں کو سنی صحیح العقیدہ بنایا دین سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں دین اسلام کی شمع فروزاں کی اور بعض وہ مساجد و مدارس جو برسوں سے بد مذہبوں کے تسلّط میں تھے، اپنی کوشش اور حکمت عملی سے سنیوں کے حوالے کیا-



برِ صغیر ہند و پاک کی روح پرور ’’خانقاہوں‘‘ میں خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کو جو نمایاں مقام حاصل ہے وہ محتاج بیاں نہیں۔ سلطان التارکین، محبوب رب العلمین ، غوث العالم حضرت مخدوم اشرف سید اشرف جہانگی سمنانی رحمتہ اﷲ علیہ کے قدوم میمنت لرزوم سے یہ سر زمین علم و ادب اور رشہ و ہدایت کا گہوار بن گئی۔ خانوادہ اشرفیہ کی عظیم ہستیوں میں گلستان اشرفی کی بہار جاوداں رشہ و ہدایت کے مہر درخشاں، اشرف الاولیاء، اشرف الشرف حضرت علامہ الحاج سید شاہ ابو الفتح محمد مجتبی اشرف الاشرفی الجیلانی رحمتہ اﷲ علیہ کی ذات با برکت ہے۔

زیرِ نظر مقالہ ان کی حیات و خدمات کا ایک تحقیقی جائزہ ہیں۔

نام و نسب : اسم گرامی، سید ابو الفتح مجتبی اشرف، تاریخی نام ’’بدر الفتح سید محمد مجتبی اشرف‘‘ ۔ سلسلہ نسب ۳۸ (اڑتیس) واسطو سے حضور نبی کریم ﷺ تک پہونچتا ہے۔

القابات : اشرف الشرفا، اشرف الاولیاء ، مناظر اہلِ سنت ، طیب حاذق ، مفکر اسلام، شیخ المشائخ، زہد العارفین، قدوۃ المساکین

تاویخ ولادت : آپ کے ولادت با سعادت ۲۶؍ ربیع الاخر ۱۳۴۶ھ؁ مطابق ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء؁ کو کچھوچھہ مقدسہ میں ہوئی۔

تحصیل علم : جب آپ کی عمر ۴ سال ، ۴ ماہ، چار دن کی ہوئی تو حضور تاج الاصفیا دنے کچھوچہ مقدسہ میں قائم ’’مدرسہ اشرفیہ‘‘ میں آپ کو وقت کے ماہر اساتذہ کے سپرد کیا، آپ نے پورے انہماک اور توجہ قلب کے ساتھ علم دین کے حصول کا مبارک آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم سے لیکر شرح جامی تک کی تعلیم جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ ہی میں اپنے وقت کے ماہرین علم و فن اساتذہ کی تربیت میں حاصل کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ۱۲؍ شوال المکرم ۱۳۶۰ھ؁ کو ازہر ہند ’’الجامعہ الاشرفیہ‘‘ مبارک پور میں داخلہ لیا۔ او رحضور حافظِ ملت کے زیر سایہ تمام مروجہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی اور شعبان المعظم میں جامعہ اشرفیہ سے دستار و سند فضیلت حاصل کرکے بحیثیت معین المدرسین منتخب ہوئے۔ آپ کا شمارا الجامعہ الاشرفیہ کے قابل فخر فرزندوں میں ہوتا ہے۔

شرف بیعت و خلافت : جب آپ سن بلوغ کو پہونچے تو آپ کی باطنی کمالات اور اعلیٰ قائدانہ صلاحتیوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اسی وقت آپ کے جد امجد اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمتہ و الرضوان نے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ اشرفیہ میں آپ کو بیعت کیا اور اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ پھر حسب روایت و دستور خانقاہ اپنے والد ماجدنے تمام سلاسل حقہ ما ذونہ خصوصاً سلاسل اربعہ مشہور ہ کی اجازت و خلافت مع تاج و جبہ مرحمت فرمائی۔

عقد نکاح : اب دورہ حدیث سال اول میں زیر تعلیم ہی تھے کہ ۱۸۴۵ء؁ کہ عرس مخدوم سمنان کے موقع پر آپ کے والد گرامی نے حکم صادر فرمایا کہ تمہارا رشتہ میں نے عزیز القدر جناب حکیم سید حسین اشرف علیہ الرحمہ کی بڑی صاحبزادی سیدہ حمیرہ خاتون سے طے کردیا ہے۔ انشاء اﷲ العزیز آئندہ ۲؍ صفر المظفر کو تمہارا عقد کیا جائیگا۔ اور اسی مبارک سعید گھڑی میں آپ کی رسم نکاح انجام پذیر ہوئی۔

تبلیغ و اشاعت : دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں مسند درس و تدریس پر رونق افروز تھے مگر ابھی سال بھی پورا نہ ہوپایا تھا کہ والد محترم حضور تاج الاصفیاء کے مشاغل و مصروفیات اور کار ہائے تبلیغ کی وسعتوں کے مد نظر تدریسی خدمات سے آپ کو علاحدگی اختیار کرنی پڑی اور تبلیغی خدمات کی جانب اپنی زندگی کو موڑنا پڑا۔

جماعت اہلسنت کی تبلیغ و اشاعت اور اپنے والد گرامی کے مشن کے فروغ میں مصروف ہوگئے۔ اس مشن کے لئے آپ کو ایشیا و یوروپ کے مختلف ممالک اور ہند کے مختلف صوبوں کا آپ نے دورہ کیا، یو تو آپ کا فیضان پوری ملت اسلامیہ کے لئے عام تھا لیکن بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، گجرات، یوپی، ایم پی، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب ، کرناٹک ، آندھرا پردیش، بھوٹان، سکم اور بیرون ہند بنگلہ دیس، پاکستان ، سعودیہ عربیہ، انگلینڈ وغیرہ کے مسلمان آپ سے زیادہ فیضیاب ہوئے۔

دینی و ملی خدمات : حضور اشرف الاولیاء نے ملک اور بیرون ملک میں دینی اور تبلیغی سفر فرمایا، نہ جانے کتنے تشنگان معرفت کو جام معرفت سے سرفراز فرمایا۔ جگہ جگہ دین کے قلعہ کو مسجد و مدرسہ خانقاہ کی صورت میں قائم فرمایا ۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

(۱) مدرسہ اشرفیہ اصلاح المسلمین، دارجلنگ، (۲) جامعہ علائیہ قطب شہر، مالدہ، (۳) مدرسہ نظامیہ اشرف العلوم، مالدہ، (۴) مدرسہ انجمن اشرفیہ، اشرف نگر، جلپائی گوڑی، اصلاح المسلمین، اتر دیناجپور، (۵) مدرسہ قادریہ ، سہرسہ بہار، (۶) مدرسہ مصباح العلوم، جھارکھنڈ، (۷) مدرسہ قادریہ، سہرسہ ، بہار، (۸) مدرسہ مصباحی العلوم ، جھارکھنڈ، (۹) مدرسہ اشرفیہ راجستھان وغیرہ،۔

خانقاہ : (۱) خانقاہ سراجیہ سعد اﷲ ، مالدہ، (۲) خانقاہ جلالیہ علائیہ اشرفیہ، پنڈوہ شریف، (۳) خانقاہ مخدوم اشرف ، ہوڑہ۔

ملی خدمات : مجلس شوری و مجلس علماء کے ایک اہم رکن، ’’جماعت رضائے مصطفے ‘‘ بریلی شریف کے نائب صدر رہے۔ اسکے علاوہ دیگر اہلسنت کے تحریک میں ہمیشہ شریک رہے۔

زیارت حرمین شریفین : آپ نے اپنی زندگی میں ۴ حج اور ۲ عمرے کئے۔ پہلا حج ۱۹۵۲ء؁ اپنے والدین کے ساتھ ، دوسرا ۱۹۶۵ء؁ میں اپنے والدین اور دو صاحبزادوں کے ساتھ۔ تیسرا ۱۹۷۵ء؁ اپنے عقیدت مند مریدین کے ساتھ۔ چوتھا ۱۹۸۳ء؁ یہ حج بھی اپنے مریدین کے ساتھ فرمائی اور رمضان المبارک کے موقع پر دو عمرے کئے۔

تبحرعلمی : آپ شریعت و طریقت دونوں کے جید عالم اور عامل تھے۔ خدا داد ذہانت و فطانت کی بدولت مروجہ تمام علوم و فنون میں کمال مہارت حاصل تھی، (قرآن و حدیث وفقہ، اصول فقہ، تفسیر ، اصولِ تفسیر، منطلق و بلاغت صرف و نحو وغیرہ)۔

تقوی و پرہیز گاری : اتباع سنت آپ کی زندگی کا روشن باب اور تقوی و طبارت اس کے صاف و شفاف اوراق تھے۔

مخدوم اشرف مشن : حضور اشرف الاولیاء ہمیشہ قوم مسلم کی کامیابی کے بارے میں سوچتے اسلئے آپ نے متعدد مکاتب ، مدارس، مساجد اور جامعات کی بنیاد ڈالی۔ آپ کے قائم کردہ اداروں میں جس کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ وہ ’’مخدوم اشرف مشن ‘‘ پنڈوہ شریف ہے۔ پنڈوہ شریف ایک زمانے میں علم و حکمت کا مرکز تھا۔ مگر بدلتے حالات کے ساتھ تمام اسلامی تعلیمات ختم ہوکر کفر و شرک کی رسومات نے جگہ لے لی۔ ایسے وقت میں آپ نے پنڈوہ شریف کو اپنی دعوت کا محور بنایا اور باطل قوتوں سے مقابلہ کرنے کیلئے ۱۲؍ شوال المکرم ۱۹۹۳ء؁ کو الجامعۃ الجلالیہ العلائیہ الاشرفیہ المعروف بہ مخدوم اشرف کی بنیاد رکھی۔ تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر آپ نے فرمایا۔ یہ ادارہ ایک منفرد المثال ادارہ ہوگا۔ اس ادارے کے اثر سے دارالعلوم کے علاوہ اسکول اور کالج بھی چلیں گے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہاں کے طلبہ کو عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیا جائے گا۔ تاکہ یہاں کہ فارغین ہر میداں میں اپنے علم و ہنر کے ذریعہ خدمات انجام دے اور ساتھ ہی طبی خدمات بھی ہوگا۔

ایک نظر شعبہ جات پر : الحمد اﷲ ! آج یہ تمام ترشعے موجود ہیں۔ (۱) جامعہ جلالیہ العلائیہ الاشرفیہ، (۲) سراج المجتبی دارالحفظ، (۳) قادری دارالافتا، (۴) اشرف الاولیائے لائبریری، (۵) تاج الاصفیاء دارالمطالعہ، (۶) اشرف الالیاء انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، (۷) نورین ایجوکیشنل سینٹر، (۸) اندرا گاندھی اوپین یونیورسٹی، (۹) اسپیشل اسٹڈی سنٹر، (۱۰) عربی اسٹدی سینٹر، (۱۱) ہائی اسکول، (۱۲) مخدوم العالم ہومیو پتھک ریسرچ اینڈ چیرٹی سینٹر، (۱۳) بی۔ ایڈ کالج وغیرہ

حضور اشرف الاولیاء کے متعلق علماء کے اقوال

حضرت علامہ عبد الشکور صاحب شیخ الحدیث الجامعہ الاشرفیہ : ’’اشرف الاولیاء حضرت علامہ و مولانا الحاج سید شاہ مجتبی میں صاحب اشرفی جیلانی مسند نشیں جادہ اشرف سمنانی ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ اشرفیہ کے عظیم بزرگ اور فیوض و برکات کے چشمہ تھے وہ مصباحی فاصل جلیل، بلند پایہ خطیب تھے علم و عمل، زہد و تقوی اور اخلاص میں بلند رتبہ تھے‘‘

حضرت مفتی ایوب نعیمی و جامعہ نعیمیہ مراد آباد، یوپی : حضور اشرف الاولیاء ان نفوس قدسیہ سے تھے جن کو دیکھ کر اﷲ کی یاد آجائے جو ایک ولی کی پہچان ہے۔ علم و عمل سے مزین زہد و تقویٰ سے آراستہ نور سیادت اور ضیاء ولایت انکے حسین چہرے سے نمایاں ہوتی۔

بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی : سید محترم حضرت مولانا شاہ مجتبی رحمتہ اﷲ علیہ ایک عالم با عمل، صوفی با صفا، کامل مرشد ہدایت اور رہنمائے طریقت تھے۔ آپ کی ذات تنہا ایک انجمن تھی۔ آپ کا وجود کتنی انجمنوں کے لئے شمع فروزاں وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔

حضرت مولانا الحاج عبد الودود صاحب (بانی و سربراہ اعلیٰ، ادارہ شرعیہ اتر پردیش) : حضور اشرف الاولیاء ایک تن تنہا ایک انجمن تھی۔ یقینا وہ قوم کی فلاح و بہبود کے ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتے تھے۔ بنگال و بہار اور بھوٹان و سکم جیسے پس ماندہ اور غریب زدہ علاقوں میں تبلیغی خدمات انجام دیکر انہوں نے فقیری و درویسی، غریب دوستی و غربت پسندگی کے جو نمونے پیش کئے ہیں، وہ ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے۔

امام احمد رضا کے تبحرعلمی اور تشخص کااعتراف : خانقاہ رضویت اور اشرفیت کے درمیان جب کچھ متعصبین نے نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی کردیں اور فریقین میں سے بعض کو بعض سے سخت بغض و عناد پیدا ہوگیا۔ تو ایسے پر آشوب ماحول میں بھی حضور اشرف الاولیاء نے اپنے شہزادہ حضرت علامہ الحاج سید جلال الدین اشرف کو حضور اعلیٰ حضرت کی ذات پر (پی ایچ ڈی )کرنے کی اجازت مزحمت فرماکر یہ ثابت کردیا کہ اعلیٰ حضرت تبحرعلمی اور تفقہ فی الدین کا نام ہے۔ حتی کہ آپ کا سراپا گرا نقد اور قابل تقلید ریسرچ ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوگئی کہ متعصبین کے رواج سے آپ بہت دور رہیں۔

پیغام : تم مخدوم اشرف مشن کو دیکھو ، مجھے دیکھ رہے ہو۔

وصال : اپنی پوری زندگی دینی و ملی، تبلیغی و تعلیمی خدمات میں گزارنے کے بعد خانوادہ اشرفیہ کا یہ چشم و چراغ دنیائے اہلِ سنت کو سوگوار کرتے بروز جمعہ ۲۱؍ ذی القعدہ ۱۴۱۸ھ؁ بمطابق ۲۰؍ مارچ ۱۹۹۸ء؁ کو ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔

ماخذ : (۱) ماہنامہ غوث العالم ، اگست ۲۰۰۷ء؁ ، (۲) اشرف الاولیاء نمبر (۳) اشرف الاولیاء حیات و خدمات (مفتی کمال الدین مصباحی )


Previous Post Next Post