عمدۃ المحققین، خلیفہ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی غلام محمد خان اشہرؔ علیہ الرحمہ بانی الجامعۃ الرضویہ بوتھلی ناگپور
اسم گرامی: غلام محمد خان۔
القابات: عمدۃ المحققین، فنا فی الرضا، اشہر علم و فن، مفتی اعظم مہاراشٹرا۔
تخلص: اشہر۔
سلسلہ نسب: غلام محمد خان بن حکیم میاں خان غوری بن عبدالرسول خان غوری بن بخش اللّٰہ خان غوری علیہم الرحمہ۔
تاریخ ولادت: 23 ربیع الاول 1339ھ مطابق 5 دسمبر 1920ء بروز اتوار بوقت صبح اپنے آبائی مکان میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت: پرائمری درجات کی تکمیل کے بعد عزیز و اقارب نے آپ کو مشنری کے انگلش میڈیم کانوینٹ اسکول میں داخل کر دیا جہاں آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور انگلش زبان پر اچھا خاصا عبور بھی۔ اردو اور فارسی کے شہرت یافتہ ادیب و شاعر جناب حیرت لدھیانوی ناگپور میں اپنا میخانہ کھول چکے تھے آپ تجارتی مصروفیات (بوجہ مجبوری تجارت بھی کرتے) سے وقت نکال کر حیرت لدھیانوی کے میخانہ میں حاضر ہوتے۔ حیرت لدھیانوی فیاض استاذ تھے اور آپ ہونہار اور کشادہ ظرف شاگرد، استاذ نے خوب پلایا اور آپ نے خوب پیا ہاں اس بیچ دیگر ماہرین زبان سے بھی استفادہ کرتے رہے اور لاہور یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان دیا اور اعلیٰ نمبروں سے سند حاصل کی۔
1937ء میں جب کہ آپ لاہور یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے ناگپور میں جامعہ عربیہ قائم ہونے کی امید افزا خبر ملی آپ اپنے بہترین دوست ہندوپاک کے معروف شاعر عبدالحمید خان آذرسیمابی کے ساتھ جامعہ عربیہ میں داخل ہوگئے۔ عربی کی ابتدائی کتابیں تو شروع ہوگئیں لیکن تجارتی مصروفیات تعلیم کی طرف خاطر خواہ متوجہ ہونے کا موقع نہیں دے رہی تھیں اور مدرسہ میں خورد و نوش کرنے سے خودداری کو ٹھیس پہنچتی غرض یہ کہ کسب حلال اور تعیلم دونوں میں سے کسی سے بھی ہاتھ چھڑانا ناگزیر تھا مگر تعلیم، تجارت سے زیادہ اہم بھی تھی دو وقت کی روٹی تو ملازمت سے بھی مل سکتی تھی اس لئے آپ نے تجارت موقوف کی اور ایک دکان میں کنگھا بنانے پر لگ گئے روزانہ صبح کو مدرسہ جاتے دوپہر میں مدرسہ سے واپسی پر شام تک کنگھا بناتے وہ بھی اس طرح کہ سامنے کھلی کتاب رکھی ہوتی یعنی مطالعہ بھی ہوتا اور کام بھی۔
1945ء تک یہی آپ کا معمول رہا اور اسی سن میں آپ کی فراغت ہوئی۔
آپ کے اساتذہ میں حضرت علامہ مفتی عبدالرشید فتحپوری، حضرت مفتی عبدالعزیز (برادر مفتی عبدالرشید فتحپوری) اور حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز مبارکپوری علیہم الرحمہ وغیرہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔ شرکائے درس میں رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا نام انتہائی اہم ہے۔
تربیت افتاء: آپ نے جامعہ عربیہ ہی میں شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افتاء کی تربیت بھی حاصل کی (جو حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے بھی استاذ ہیں اس طرح حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ کے استاذ بھائی ہوئے مگر آپ تاحیات حافظ ملت کو اپنے استاذ ہی کی نظر سے دیکھتے تھے) اور پھر فراغت کے بعد جامعہ عربیہ میں کار افتاء پر مامور ہوگئے۔
1964ء تک آپ نے جامعہ عربیہ ناگپور میں افتاء اور دورۂ حدیث کی خدمات انجام دیں اور پھر انتظامی امور میں جامعہ عربیہ کی انتظامیہ سے اختلاف کے سبب 1965ء میں تمام اساتذہ جامعہ عربیہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔
1966ء میں حضور اشرف اشرف الفقہاء، خلیفہ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف رضوی قادری اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "دارالعلوم امجدیہ" قائم فرمایا تو فتویٰ نویسی و دورۂ حدیث کی تعلیم کی خدمت آپ کے سپرد کر دی، یہاں آپ کی جلالت علمی کا آفتاب چمکا اور بہت سے ذی استعداد فاضل اور قابل قدر علماء کو آپ نے فارغ التحصیل فرمایا، اور بتدریج آپ کو فتویٰ نویسی میں ید طولیٰ اور مہارت تامہ حاصل ہوئی، حضور سرکار مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ بھی آپ کے فتوؤں پر اعتماد فرماتے اور داد و تحسین سے نوازتے۔
شرف بیعت: 1953ء تک آپ کی نگاہیں بے شمار مشائخ عظام کے شب و روز کا مطالعہ کرتی رہیں مگر میلان قلب نہ ہو سکا۔
آخر کار پریشان ہو کر آپ نے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبدالرشید خان علیہ الرحمہ سے رجوع کیا: حضور! میں نے ابھی تک کسی سے شرف بیعت حاصل نہیں کیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا: آپ کا یہ قول "ابھی تک" علماء اور عوام و خواص میں مشہور ہے۔ مولانا! اب کہاں ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو شریعت و طریقت میں کامل ہوں سوائے مفتئ اعظم ہند شہزادہ اعلیٰ حضرت کے۔ وہ تھوڑے ہی عرصہ بعد تشریف لانے والے ہیں آپ دیکھیے گا آپ کا دل جم جائے گا۔
1953ء میں سیدنا مفتئ اعظم ہند ناگپور تشریف لائے مشتاقان دید کا ٹھاٹھیں مارتا ازدحام ہے اسی کا ایک حصہ آپ بھی ہیں نگاہیں ہیں کہ ہٹتی نہیں محو نظارۂ یار کچھ ایسے ہوئے کہ مفتئ اعظم کا تقدس مآب چہرہ اپنی عالمانہ گل افشانیوں، زاہدانہ خموشیوں کے ساتھ دل میں گھر کر چکا ہے اضطرابیاں رخصت ہو چکی ہیں ان کی جگہ جذبات عشق کی بے خودی نے لے لی ہے۔ اور کبھی کبھی مفتئ اعظم ہند کی نگاہیں بھی زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ آپ پر پر رہی ہیں گویا واردات قلبی پیش نظر ہیں اسی کیف و مستی میں دل کی بات زبان پر آ ہی گئی: حضور! اپنا غلام بنالیں۔ مفتئ اعظم ہند نے ہاتھ بڑھایا فوراً ہاتھ تھاما اور بیعت ہوگئے۔
فضل خلافت: 1954ء میں دورۂ ناگپور کے موقع پر سیدنا مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کو از خود اپنی خلافت و اجازت سے بھی نواز دیا۔ پھر اس کے بعد ۲ مرتبہ سیدنا مفتئ اعظم ہند نے اعطائے خلافت کی تجدید فرمائی ایک مرتبہ دارالعلوم مظہر اسلام کے جلسہ دستار فضیلت کے موقع پر اور دوسری بار ممبئ میں مجمع عظیم کے سامنے جبکہ و دستار سے نوازا اور مزید کرم یہ کہ پچاس روپے بھی عنایت فرمایا۔
سیرت و خصائص: عمدۃ المحققین، مفتئ اعظم مہاراشٹرا، اشہر علم و فن، فنا فی الرضا، خلیفۂ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضرت علامہ مولانا الشاہ مفتی غلام محمد خان اشہرؔ علیہ الرحمہ۔
اہل سنت و جماعت کے عظیم پاسبان تھے، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ میں گونا گوں خوبیاں اور محاسن ودیعت فرمائے تھے، علوم اسلامیہ دینیہ میں کمال عطا فرمایا تھا، خصوصیت کے ساتھ فن افتاء اور علم کلام میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا، آپ اکابر علمائے اہل سنت و جماعت کے مابین ایک زبردست عالم و مفتی کی حیثیت سے متعارف تھے، 1954ء میں سرکار مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے مبارک فتوے پر آپ کی تائیدی دستخط اس کی بین دلیل ہے۔
عمدۃ المحققین علماء و مشائخ کی نظر میں:
1) سیدنا حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ۔
آپ کا رسالہ تجلیات (مدنی تجلیات ناگپور) دیکھ کر دل بہت مسرور ہوا اور آپ کی محبت اسے دیکھ کر اور بڑھی اور آپ کی صلاحیتِ کار جو اب تک ایسی نہ جانتا تھا معلوم ہوئی آپ کے مضامین پڑھ کر بہت مسرت ہوئی"
2) حضرت مولانا سید افضل الدین حیدر علیہ الرحمہ درگ۔
مشک آنست کہ خود بویدنہ کہ عطار بگوید….. آپ کی خدمت دینی خود لوگوں کو جو اہل ہیں ضرور اپنی طرف مائل کرے گی"
3) حضرت مولانا سید اسرار الحق علیہ الرحمہ صدر آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ
آپ کی دینی لگن اور اعلیٰ صلاحیتوں کو خود دیکھ چکا ہوں آپ کی فطری تنظیمی صلاحیت اور قابل قدر جذبۂ ملی کے پیش نظر مجھے یقین کامل ہے کہ آپ بھولے بھالے سنیوں کو گمراہ کن لیٹریچر کے سیلاب سے بچالیں گے"
4) امام علم و فن حضرت علامہ خواجہ مظفر حسین علیہ الرحمہ۔
اہل سنت کے خلاف اٹھنے والے فتنے ہمیشہ انہیں بے چین رکھا کرتے تھے اور وہ اہل سنت کی نشر و اشاعت اور بد مذہبیت کی اہدام و اہانت کے لئے طرح طرح کی کامیاب تدبیریں کیا کرتے تھے، کبھی کبھی جلسے کرواتے، کبھی کتابچے اور اشتہارات شائع کرواتے یہی وجہ ہے کہ صوبہ مہاراشٹرا کی سمیت کی بقا ہی نہیں بلکہ فروغ بھی ان کا رہینِ منت ہے"
عائلی زندگی: بعمر 21 سال ناگپور کے ایک معزز خاندان میں آپ کی نسبت طے پائی اور اسی سال نہایت سادگی اور احکام شرع کی پاسداری کے ساتھ نکاح بھی ہوگیا۔ جن سے ۳ صاحبزادے اور ۲ صاحبزادیاں ہوئیں۔ (۱) عبدالمتین خان (۲) غلام مرتضیٰ خان (۳) امجد رضا خان۔
الجامعۃ الرضویہ کا قیام: سرکار مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ جب "دارالعلوم امجدیہ" ناگپور کے سنگ بنیاد کی تقریب پر تشریف لائے تھے تو ایسی رقت آمیز دعا فرمائی تھی کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئ تھی۔ آپ نے اپنی دعاؤں میں ارشاد فرمایا کہ "الہیٰ اس ادارے کو مسلک اعلیٰ حضرت کا مضبوط قلعہ بنا دے" اور ادارے کے نام میں "دارالعلوم امجدیہ" سے پہلے "الجامعۃ الرضویہ" کا اضافہ فرمایا۔
یہ سرکار مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ کا ہی فیضان ہے کہ آج تک ملک کے تقریباً تمام صوبہ کے طلبہ اپنی علمی پیاس بجھا رہے۔
ناگپور شہر سے 20 کیلو میٹر دور حیدرآباد ہائی وے پر "بوتھلی" میں 32 ایکڑ زمین پر "الجامعۃ الرضویہ" کے نام سے حضور عمدۃ المحققین علیہ الرحمہ نے علم و عرفان کا بہت بڑا شہر بسا دیا جو دیدہ زیب بھی ہے، نظر فریب بھی۔ خواب تھا رضا عربک یونیورسٹی بنانے کا، پلان تیار کیا گیا، برسوں کی محنت بار آور ہوئی، تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا، ایک طویل و عریض درسگاہی اور رہائشی عمارت ہم آہنگ ہوئی۔ جب تک وہ مرد قلندر باحیات رہا اس کی ایک ایک سانس ادارے کے لیے وقف تھی، اور جب وصال یار پاکر زندۂ جاوید ہوگئے تب سے ادارے کے پڑوس میں آرام کرتے ہوئے روحانی سرپرستی فرما رہے ہیں۔
وصال: 24 محرم الحرام 1424ھ مطابق 28 مارچ 2003ء شب جمعہ ساڑھے چار بجے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے نواسے حضرت علامہ مولانا مجتبیٰ شریف خان اشہری صاحب قبلہ نے پڑھائی۔ آپ کا مزار الجامعۃ الرضویہ بوتھلی، ناگپور میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
ماخذ و مراجع: عجائبِ انکشاف قدیم ص 7 تا 13 ناشر مجلس اتحاد اسلامی کراچی/ عجائبِ انکشاف جدید ص 27 تا 53 ناشر اشہر اکیڈمی ناگپور