حضرت شیخ جلال الدین تبریزی (تذکرہ / سوانح)
آپ خانوادہ چشت میں ایک عظیم شیخ ہیں آپ کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے روحانی فیض ملا۔ بعض مشائخ آپ کو سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ سے تصور کرتے ہیں۔ کشف و کرامات میں بے نظیر تھے۔ ترک و تجرد میں بے مثال تھے۔ ابتدائی سلوک کے سات سال شیخ الشیوخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے (غالباً اسی وجہ سے بعض حضرات آپ کو سہروردیوں میں شمار کرتے ہیں) اگرچہ شیخ جلال الدین تبریزی حضرت شیخ ابوسعید تبریزی قدس سرہ کے مرید تھے۔ مگر ابوسعید کی وفات کے بعد آپ شیخ الشیوخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کمال کو پہنچے کچھ عرصہ بعد آپ کی ملاقات حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ سے ہوئی وہاں ہی آپ نے حضرت خواجہ قطب الدین اوشی کو دیکھا۔ حضرت خواجہ قطب الدین نے آپ کو اپنی روحانی تربیت سے درجۂ کمال تک پہنچا دیا اور اس طرح ان کے خلیفہ خاص بنے۔ اور خانواہ چشت میں معروف ہوئے۔
حضرت شیخ الشیوخ خواجہ شہاب الدین سہروردی حج پر جاتے تو شیخ جلال الدین تبریزی آپ کے ہم رکاب ہوتے تھے۔ آپ ایک دیگدان تیار کرکے سر پر رکھ لیا کرتے تھے اور سر پر اس طرح رکھ لیتے کہ سر کو گرمی بھی نہ لگے۔ مگر ایک دیگ میں رکھا ہوا کھانا ٹھنڈا بھی نہ ہونے پائے۔ یہ حضرت شیخ الشیوخ کی خدمت سفر کا ایک مجاہدہ تھا، حضرت شیخ الشیوخ جس وقت بھی کھانا طلب فرماتے، آپ کو گرما گرم اور تازہ کھانا پیش کیا جاتا تھا۔
حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی قدس السرہٗ السامی نے لکھا ہے کہ ایک بار میں بھی اس قافلہ میں موجود تھا جو سفر حج پر رواں تھا۔ شیخ جلال الدین تبریزی حسبِ معمول دیگدان سر پر رکھے قافلہ میں موجود تھے۔ ہم لوگ صحرائے نبی لام میں پہنچے یہ بڑی دشوار گزار وادی تھی۔ چلنا دشوار ہوا جا رہا تھا، اسی اثنا میں اونٹوں کے تاجر اپنے اونٹ بیچنے کے لیے آ پہنچے اور انہوں نے ہر اونٹ کی بسی اشرفی قیمت مانگی، قافلہ میں امیر اور روساء حضرات نے تو اونٹ خرید لیے، مگر ہم جیسے درویش پا پیادہ موت کے سفر کو روانہ تھے۔ حضرت شیخ جلال الدین تبریزی نے ہماری یہ حالت دیکھی تو انہیں ہماری نا توانی پر بڑا ترس آیا، آپ نے طعام والی دیگ کو خالی کیا،ا ور اپ نے سامنے لا رکھی، اس دیگ میں ایک اشرفی ڈالتے اور اس پر چادر اوڑھا دیتے اور منہ سے یا لطیف کہتے اور دیگ میں ہاتھ ڈال کر بیس اشرفی نکال کر ایک درویش کو دیتے۔ اس طرح آپ نے پانچ اونٹوں کی قیمت نکال کر الگ کردی اور قافلے کے تمام غریب درویشوں کو اونٹ خرید دیے۔ قافلے کے سارے لوگ شتر سوار ہوگئے، مگر خود پاپیادہ چلتے رہے۔
حضرت جلال الدین تبریزی دہلی پہنچے تو سلطان شمس الدین التمش آپ کے استقبال کو باہر آئے ان دنوں دہلی کے شخ الاسلام حضرت خواجہ نجم الدین صغریٰ تھے۔ آپ بھی بادشاہ کے ساتھ استقبال کو آئے سلطان نے شیخ جلال الدین کو دیکھا گھوڑے سے اتر پڑا۔ اور پیادہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیدل چل کر ہی شہر میں پہنچے۔ سلطان نے شیخ الاسلام خواجہ نجم الدین صغریٰ کو کہا کہ حضرت شیخ کو ایسے مکان میں ٹھہرانا، جو میرے نزدیک ہو، یہ بات سن کر نجم الدین صغریٰ کو حسد آیا کہ ایک نووارد بزرگ کی اتنی عزت کی جا رہی ہے۔ شاہی محل کے قریب ہی ایک ایسا مکان تھا۔ جس میں جنات کا ڈیرہ تھا اور ہمیشہ مقفل رہتا تھا اُسے بیت الجن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، حضرت خواجہ نجم الدین نے سلطان التمش کو کہا کہ کیوں نہ شیخ جلا ل الدین کو بیت الجن میں ٹھہرایا جائے، اگر وہ خدا رسیدہ ولی ہیں تو جنوں پر قابو پالیں گے۔ اور اگر جھوٹے مدعی ہیں تو سزا پائیں گے۔ حضرت سلطان التمش نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ شیخ جلال الدین نے نور باطن سے معلوم کرکے فرمایا کہ بیت الجن کی چابیاں مجھے دی دی جائیں ، چابیاں لائی گئیں تو آپ نے اپنے ایک خادم کو دے کر فرمایا کہ جاؤ اور دروازہ کھول کر آواز دو کہ اس مکان میں رہنے والو، آج خواجہ جلال الدین تبریزی یہاں آ رہے ہیں تم اپنا ٹکانہ کرو، رات کو آپ بیت الجن میں پہنچ کر آرام فرما ہوئے۔ سلطان التمش آپ کو ہر روز نئی عزت اور نیا احترام دینا اس صورت حال نے خواجہ نجم الدین صغریٰ کو آتش حسد میں جلا دیا، وہ سوچتے رہتے کہ جلال الدین تبریزی کو کسی ایسے الزام میں ملوث کیا جائے کہ بادشاہ خودہی انہیں دہلی سے نکال دے۔
ایک دن حضرت شیخ جلال الدین تبریزی نماز صبح پڑھنے کے بعد بیت الجن میں ہی اپنی چار پائی پر چادر لیے لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کا ایک خوبصورت ترکی غلام آپ کے پاؤں دبا رہا تھا۔ شیخ نجم الدین نے اپنے محل کی چھت سے اس لڑکے کو پاؤں دباتے ہوئے دیکھا، اسی وقت اُٹھ کر بادشاہ کے پاس گئے اور کہا آپ تو اس شخص کے متعلق اچھا اعتقاد رکھتے ہیں۔ مگر شیخ سورج چڑھے ابھی تک سو رہا ہے اور ایک خوبصورت غلام ان کے پاؤں دبا رہا ہے۔ یہ بات شریعت کے مطابق نہیں، شیخ نے لیٹے لیٹے ہی اس صورت حال کو پالیا اور وہیں سے چادر منہ سے ہٹا کر بلند آواز سے کہا نجم الدین اگر تم تھوڑا سا پہلے دیکھتے تو اس غلام کو میری بغل میں پاتے نجم الدین یہ بات سن کر سخت شرمندہ ہوئے اور شیخ کو تنگ کرنے سے باز آگئے مگر دل میں یہ ٹھان لی کہ اب شیخ کو کسی ایسے الزام میں ملوث کروں گا جس سے بادشاہ اُس سے ہمیشہ کے لیے بدظن ہوجائے اور شیخ کو شہر سے باہر نکال دے۔
دہلی شہر میں ایک جمیلہ نامی عورت تھی جو گانا گایا کرتی تھی۔ وہ ایک بدکردار اور فاحشہ عورت تھی جس کے پاس ملک کے امراء اور دربار کے افسر آیا کرتے تھے۔ اُس کا نام گوہر بے بہا تھا، حضرت نجم الدین نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اگر تم شیخ جلال الدین کو زنا کے الزام میں پھنسا دو اور بادشاہ کے سامنے شہادت بھی دے دو تو میں تمہیں پانچ سو دینار طلائی دوں گا، ان میں سے نصف روپیہ پیشگی ادا کردیا گیا اور نصف روپیہ ایک سبزی فروش احمد نامی کے کان پر بطورِ امانت رکھ دیا گیا کہ جب تم بہتان تراشی کی گواہی دے چکے تو یہ خود بخود آکر لے لینا، چند دن بعد نجم الدین اُس بدکردار عورت کو بادشاہ کے سامنے لے آئے اور عورت کی طرف سے شیخ جلال الدین کے خلاف زنا کی کیفیت کو بیان کیا، بادشاہ نے حیران ہوکرپوچھا کیا یہ عورت اپنی زبان سے زنا کا قرار کر رہی ہے، پھر تو اس کو سنگسار کرنا چاہیے چونکہ ابھی تک شیخ جلال الدین پر یہ گناہ ثابت نہیں ہوا اور تم خود ہی مدعیہ اور شکایت کنندہ ہو، لہٰذا کسی دوسرے قاضی کو اس مقدمے کا فیصلہ کرنا چاہیے، چنانچہ یہ تجویز کیا گیا کہ اس معاملے کی تحقیق کے لیے مشائخ عظام کو مقرر کرنا چاہیے، جس وقت تحقیق ہوجائے تو اس وقت اُس پر فرد جرم عائد ہونی چاہیے ان دنوں شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شیخ جلال الدین تبریزی کے درمیان کچھ رنجش تھی، نجم الدین صغریٰ نے کہا کہ میری طرف سے شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی مقدمہ کے حاکم ہوں گے، ان کا خیال تھا کہ بہاؤالدین اپنی ذاتی مخالفت کی وجہ سے شیخ جلال الدین کے خلاف فیصلہ دیں گے۔
شیخ بہاؤالدین زکریا ملتان سے چل کر دہلی آئے، دہلی کے تمام مشائخ عظام جامع مسجد میں جمع تھے۔ شیخ نجم الدین اُس گانے والی عورت کو لے کر آگئے اور شیخ جلال الدین کو بلانے کے لیے ایک خادم کو بھیجا۔ شیخ جلال الدین آئے ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنا جوتا اتار رہے تھے تو مسجد میں بیٹھے تمام مشائخ ان کے استقبال کے لیے بڑھے۔ شیخ بہاؤلادین زکریا نے خود اٹھ کر شیخ جلال الدین کے جوتے پکڑے اور مسجد میں لے آئے، یہ صورت حال دیکھ کر تمام حاضرین حیران رہ گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی نے فرمایا کہ میں شیخ جلال الدین کے جوتوں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہتا ہوں کیونکہ آپ سات سال تک سفر و حضر میں شیخ المشائخ شہاب الدین سہروردی کے ساتھ رہے ہیں۔ یہ کہہ کر اس عورت کو مجلس میں طلب کیا اور کہا جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (حق آگیا باطل چلا گیا، باطل جانے ہی والا تھا) آپ نے فرمایا کہ یہاں سچی سچی بات کران ورنہ بچ نہ سکو گی، اس عورت نے بلند آواز سے کہا للہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے میں نے حضرت شیخ جلالالدین کے خلاف جھوٹی تہمت لگائی تھی آدھے روپے ابھی تک احمد بقال کے پاس پڑے ہیں، اُسے بلاکر پوچھ لیا جائے نجم الدین نے مجھے دینے کے لیے اُس کے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ نجم الدین یہ صورت حال دیکھ کر بے حد شرمندہ ہوئے۔ حتی کہ بے ہوش ہوکر گر پڑے بادشاہ نے اُسی وقت حکم دیا کہ اس کو شیخ اسلامی کے عہدے سے ہٹا دیاجائے، اور ان کی جگہ شیخ بہاؤلادین زکریا ملتانی کو مقرر کیا جائے۔
اس واقعہ کے چند دن بعد جلال الدین نے دہلی کو چھوڑ دیا اور بدایوں آگئے اور وہیں رہنا شروع کردیا بدایوں میں آئے ابھی چند گزرے تھے ایک دن اپنے دوستوں کو لے کر بدایوں کے نزدیک بہنے والے دریا کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ فوراً اٹھے تازہ وضو کیا اور فرمایا دوستو اٹھو شیخ نجم الدین صغریٰ کا جنازہ پڑھ لیں کیونکہ ابھی ابھی وہ دہلی میں انتقال کرگئے ہیں۔ نماز جنازہ کے بعد فرمایا، اگرچہ میں ان کی تہمت تراشی کی وجہ سے دہلی سے نکل آیا ہوں، لیکن وہ میرے پیروں کی دعا سے دنیا سے چلے گئے ہیں، چند دنوں کے بعد یہ اطلاع ملی کہ واقعی جس دن شیخ جلال ادین نے بدایوں میں نمازِ جنازہ پڑھی تھی، شیخ نجم الدین صغریٰ کا اُسی دن دہلی میں انتقال ہوا تھا۔
کتابوں میں بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شیخ جلال الدین تبریزی کے اختلاف کا واقعہ یوں لکھا ہے ایک دفعہ یہ دونوں بزرگ ایک سفر میں اکٹھے جا رہے تھے وہ اس شہر میں جا پہنچے جہاں شیخ فرید الدین عطار رہا کرتے تھے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا تو عبادت میں مشغول ہوگئے لیکن شیخ جلال الدین شہر کی سیر کو نکل پڑے اچانک وہ شیخ فریدالدین عطار کی خانقاہ کی طرف جا نکلے آپ نے شیخ فریدالدین کو دیکھا تو ان کے انوار و کمالات سے بے حد متاثر ہوئے۔ رات کو واپس آئے تو شیخ بہاؤالدین کو کہنے لگے کہ آج میں نے ا تنا بڑا شہباز دیکھا ہے جس کے جمال با کمال سے مدہوش ہوگیا ہوں، مجھے اور کسی چیز کی خبر ہی نہیں رہی شیخ بہاؤالدین نے کہا کیا تمہیں ا پنے مرشد کے انوار کمال کی بھی یاد نہ آئی انہوں نے فرمایا کہ میں ان کے جمال میں اتنا محو تھا کہ مجھے کسی دوسرے کی خبر ہی نہیں رہی۔ حضرت بہاؤالدین زکریا نے ان کی یہ بات سنی اور فرمایا آج کے بعد تم میرے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
بدایوں میں حضرت شیخ جلال الدین اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھے تھے گلی سے ایک ہندو گزرا جو لسی بیچ رہا تھا۔ شیخ نے اُسے نظر بھر کر دیکھا تو وہ بے اختیار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ حضرت شیخ نے اس کا نام علی رکھا، وہ گھر گیا اور گھر سے اپنا تمام روپیہ اور دولت اٹھاکر حضرت شیخ کی خدمت میں لے آیا اور کہنے لگا کہ میں اس دولت سے دست بردار ہوتا ہوں یہ اب آپ کی ہے اسے آپ خرچ کریں، آپ نے فرمایا کہ یہ روپیہ اپنے پاس محفوظ رکھو جب میں کہوں گا وہاں خرچ کرنا، حضرت شیخ کے پاس کوئی غریب یا مسکین آتا تو آپ علی کو اس کی امداد کے لیے کہتے مگر کسی کو دس روپے سے کم نہ دلاتے، حتی کہ ایک وقت آیا کہ علی کا سارا روپیہ ختم ہو گیا۔ علی کے دل میں خیال آیا کہ اب اگر حضرت شیخ نے مجھے کسی کو دینے کا حکم دیا تو کہاں سے دوں گا کچھ دیر بعد ایک فقیر آیا تو کہا کہ علی تمہارے پاس ایک روپیہ بچ گیا ہے وہ بھی اسے دے دو۔
قاضی کمال الدین جعفری اور شیخ جلال الدین تبریزی آپس میں بڑے دوست تھے ایک دن حضرت شیخ قاضی کمال الدین کے گھر تشریف لے گئے تو قاضی اُس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ ملازموں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضرت قاضی نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا قاضی نماز پڑھنی جانتا ہے یہ کہہ کر اُٹھےا ور اپنے گھر واپس آگئے، دوسرے دن قاضی کمال الدین آپ کو ملنے آئے تو اُس بات کا گلہ کیا جو آپ کہہ کر آگئے تھے، آپ نے فرمایا ہاں فقراء کی نماز یوں ہوتی ہے کہ جب تک اُن کی نگاہوں کے سامنے کعبہ نظر نہ آئے تو وہ اللہ اکبر نہیں کہتے۔ یہ ان کی ابتدائی درجے کی نماز ہوتی ہے جب وہ عظیم مرتبے پر پہنچتے ہیں تو وہ عرش عظیم پر نماز پڑھتے ہیں۔ اگر تمہیں یہ مقام مل گیا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ عامیانہ نماز ہے، قاضی نے یہ بات سنی تو دل میں کڑ کر رہ گئے، لیکن کچھ نہ کہا رات کو خواب میں دیکھا کہ شیخ جلال الدین عرش معلیٰ پر نماز پڑھ رہے ہیں، صبح سویرے اٹھے، حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو معذرت کی اور اپنے بیٹے سیف الدین کو آپ کا مرید بنادیا۔
جب شیخ جلال الدین بدایوں سے بنگال کی طرف گئے تو ان دنوں علی بھی آپ کے درویشوں میں داخل تھا، وہ آپ کے پیچھے پیچے بھاگتا تھا اور روتا تھا، شیخ اُسے فرماتے علی واپس چلے جاؤ اور بدایوں میں چلے جاؤ، علی نے کہا میں آپ کے بغیر اس شہر میں نہیں رہوں گا، آپ نے فرمایا تم یہیں رہو یہ شہر میں نے تمہارے حوالے کردیا ہے اور تمہیں اس شہر کا قطب بنادیا ہے یہاں رہتے تم ہر وقت مجھے دیکھ لیا کرو گے ،میرے اور تمہارے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا، علی وقت کا قطب بن گیا اور وہ جس وقت چاہتا سر اُٹھا کر حضرت شیخ کو دیکھ لیتا۔
حضرت شیخ بنگال پہنچے تو تمام مخلوق ان پر ٹوٹ پڑی، آپ نے وہاں ایک بہت بڑی مسجد بنائی، خانقاہ تعمیر فرمائی اور مکین ہوگئے، خانقاہ کے ساتھ کچھ باغ اور کچھ زمین خرید لی، اور عام لوگوں کے لیے لنگر کھول دیا، روز ہزاروں مسافر اور مسکین آپ کے دستر خوان سے کھانا کھاتے، اُس علاقے میں ایک بہت پرانا بت خانہ تھا، آپ نے اپنی کرامت سے ان بتوں کو توڑا اور ایک بہت بڑی مسجد کی بنیاد رکھی، بت پرستوں کو دامن اسلام میں جگہ دی، آپ کا مزار اُسی بت خانے میں بنا ہوا ہے۔
سیّد محمد گیسوداز کے ملفوظات جوامع الکلم میں لکھا ہوا ہے کہ شیخ فریدالدین گنج شکر ابھی بچے تھے تو آپ بہت عبادت میں مشغول رہتے، لوگوں نے آپ کا نام قاضی زادہ دیوانہ رکھ دیا، ایک بار شیخ جلال الدین تبریزی شیخ فریدالدین گنج شکر کے شہر (پاک پتن) میں قیام فرما تھے۔ آپ نے لوگوں کو پوچھا کہ اس شہر میں کوئی درویش رہتا ہے لوگوں نے بتایا جامع مسجد میں ایک دیوانہ لڑکا ہے آپ اس لڑکے کو دیکھنے کے لیے گئے، ساتھ ایک انار لیا اور شیخ فریدالدین کو پیش کیا شیخ فریدالدین روزہ دار تھے، آپ نے انار کو توڑا اور تمام حاضرین میں تقسیم کردیا اتفاقاً انار کا ایک دانہ وہاں پڑا رہا، اُس دن آپ نے اُس انار کے دانے سے روزہ افطار کیا، وہ انار کا دانہ کھاتے ہی بڑے بلند درجات پر فائز ہوگئے آپ کہا کرتے تھے افسوس اس دن میں نے سارا انار نہیں کھالیا ورنہ میرا مقام کچھ اور ہوتا، جن دنوں آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے نہایت حسرت کے ساتھ انار نہ کھانے پر افسوس کیا، حضرت شیخ قطب الدین نے فرمایا بابا فرید جو کچھ تھا وہ اُس ایک دانے میں تھا۔ اللہ نے اُسے تیرے لیے محفوظ رکھ لیا تھا۔
آپ کا وصال چھ سو سنتالیس ہجری میں ہوا۔
تاریخ وفات:
شد چو از دنیا جلال الدین بخلد
سال وصل آن والا مکان
زبدۂ دین صاحبِ توحید گو
۶۴۲ھ
نیر اکبر جلال الدین بخواں
۶۴۳ھ