یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان جہادی جذبہ سے سرشار رہے ہیں۔ جس کی مثال ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف ایک عظیم جہادی تحریک کا نمایاں کردار ہے۔ اس جہادی تحریک کی خوبی اور وصف یہ تھا کہ اس تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والی عوام نے کالے گورے، عربی و عجمی، رنگ و نسل اور علاقہ و وطن کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ جس کی بدولت شروع میں یہ تحریک فوز و کامیابی پر گامزن رہی، لیکن یہ بات قرونِ اولی سے چلی آ رہی ہے کہ ہرمضبوط ارادہ کی حامل تحریک و تنظیم میں غداروں اور منافقوں کا ٹولہ موجود ہوتا ہے۔ اس تحریک کا بھی یہی حال تھا۔ جس کی بنا پر یہ جہادی تحریک ناکام ٹھہری۔ جس کے بعد مسلمانوں پر مختلف قسم کے مصائب و آلام ڈھائے گئے۔ ان پر تکالیف و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے اور ان کوسزاؤں اور ظلم و ستم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ مسلمانوں کی عزتوں کو پامال، جائیدادوں کو ضبط اور کالے پانیوں کی سزائیں دی گئیں۔ گویا تہذیب ِمسلم کو غاصبوں اور ظالموں نے مسمار کرکے رکھ دیا۔ ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے بعض معزز خاندانوں نے ہجرت کا پروگرام بنایا۔ مکہ معظمہ کو کئی وجوہ کی بنا پر مناسب سمجھا اور اسی کی طرف حضرت مولانا حاجی امداداللہ فاروقی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے تھانہ بھون سے اور رد عیسائیت کے پاسبان حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے کیرانہ سے اور جناب محمد بشیر خان رحمہ اللہ، ان کے بڑے بھائی اور ان کے خاندان سمیت سترہ افراد نے ہندوستان سے مکہ معظمہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
برصغیرپاک و ہند کے سترہ باشندے جب مکہ معظمہ ، رباط اور برما میں جاکر رہائش پذیر ہوگئے، تو ان کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیاء خوردونوش کا فقدان اس قدر تھا کہ بسا اوقات آب ِزمزم پرہی گزارہ کرنا پڑتااور دوسری طرف رنج و الم کا یہ عالم کہ مکہ معظمہ گئے ہوئے ابھی تین سال ہوئے تھے کہ محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے بردار اکبر خالق حقیقی سے جاملے اور پورے خاندان کی معاشی و اقتصادی ذمہ داری محمد بشیر خان رحمہ اللہ پرپڑگئی۔ ایسی بے بسی کے عالم میں محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے خاندان کی سرپرستی کی ذمہ داری مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ نے سنبھال لی، محمد بشیر خان رحمہ اللہ چونکہ جلد سازی میں مہارت رکھتے تھے، لہٰذامولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے ارباب مال وزرسے محمد بشیر خان رحمہ اللہ کا رابطہ کرایا اور محمد بشیر خان رحمہ اللہ ان کے ہاں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خاندان کی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوئے۔محمدبشیر خان رحمہ اللہ کے تین صاحبزادے تھے: بڑا بیٹا عبداللہ، اس سے چھوٹاعبدالرحمن اور سب سے چھوٹا بیٹاحبیب الرحمن تھا۔ محمد بشیر خان رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں صاحبزادوں کو مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں دے دیا۔ چند ماہ بعد محمد بشیر خان رحمہ اللہ کاانتقال ہوگیا تو بچے مکمل طور پر مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں آگئے۔ انہی ایام میں مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور مولانا حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ نے مل کر ایک درس گاہ کا سنگ بنیاد رکھا۔
قیام مدرسہ صولتیہ اور فروغ علم تجوید و قراء ت
۱۲۹۱ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں مولانا حاجی امداداللہ رحمہ اللہ اور مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے مل کر مکہ مکرمہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مدرسہ قائم کیا، جس کا نام مدرسہ صولتیہ رکھا، جس میں مکمل درس نظامی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بچوں کے لیے قرآن کریم کی تعلیم کاباقاعدہ اہتمام فرمایا۔
مدرسہ صولتیہ کی وجہ تسمیہ
مدرسہ صولتیہ کا نام ایک نہایت نیک صولت النساء نامی خاتون کی طرف نسبت کرتے ہوے رکھا گیا ہے،جس کی وجہ یہ بنی کہ کلکتہ کی یہ نیک اور خوشحال خاتون اپنی بیٹی اورداماد کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ تشریف لائی اور وہاں بطور صدقہ جاریہ ’مسافر خانہ‘ بنانے کا ارادہ فرمایا۔ صولت النساء کے داماد مسجد حرام میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ سے اپنے پاکیزہ ارادہ کا ذکر کیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ نے نہایت اہم مشورہ سے نوازتے ہوے فرمایا کہ یہاں مکہ مکرمہ میں مسافر خانے تو بہت ہیں، آپ کویہاں ایک مدرسہ تعمیر کروانا چاہیے، جس میں ہندستانی طریقہ کے مطابق تعلیم دی جاے، تاکہ ہندستانی بچے یہاں سے خوب استفادہ کرسکیں۔ مولانا کے اس مشورہ سے متفق ہوتے ہوئے صولت النساء نے مدرسہ کی زمین اورتعمیر کے تمام اخرجات پنے ذمہ لیے اور۱۲۹۱ ھ میں اس کی تعمیر فرمائی۔
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی سوانح عمری اور علم تجوید وقراء ات کا ارتقاء
نام: محمدعبدالرحمن مکی الہ آباد بن محمدبشیراحمد خان
سن پیدائش: آپ ۱۲۸۰ھ بمطابق۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے۔
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کا تعلیمی دور
الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام القراء قاری عبداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ میں بطورِ صدر مدرس مقرر ہوئے اور ان کے دونوں بھائیوں قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اور قاری حبیب الرحمن مکی رحمہ اللہ نے امام القراء قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے روایت حفص اور سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ میں فیض پایا۔
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی وطن واپسی اور تدریسی خدمات
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی مدرسہ صولتیہ میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک دن مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور مولانا حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ نے باہم مشورہ کرکے متعدد علماء وصلحا کی موجودگی میں دونوں بھائیوں قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ اور قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کو بلوا بھیجا۔ ان کے آنے پر مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے دونوں بھائیوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ عبداللہ تم کو تو میں یہاں مدرسہ صولتیہ کے لیے رکھتا ہوں اور عبدالرحمن تم کو حکم دیتا ہوں تم ہندوستان جاکر قرآن کی خدمت کرو اور تجوید و علوم قراء ات کی ترویج کرو نیزمصری اور عربی لہجوں کی بھی تعلیم دو جن سے اہل ہند نابلد ہیں۔‘‘
مولانارحمت اللہ رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شیخ القراء قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ ۱۳۰۰ھ بمطابق ۱۸۸۳ء میں ہندوستان واپس تشریف لائے۔
مہرمنیر میں مؤلف رقم طراز ہیں:
’’قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن رحمہ اللہ نے بھی مدرسہ صولتیہ میں تعلیم پائی اور وہاں سے واپس آکر کانپور میں کچھ عرصہ قیام کیا جہاں مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ کے فرزندان و دیگر نامور طلباء نے آپ سے علم تجوید و قراء ات حاصل کیا۔‘‘ (ص۱۲۶)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ برادر اصغر قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے حالات لکھتے ہوئے اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے مکہ معظمہ سے واپس ہندوستان آکر جامع العلوم میں درس نظامی کی تکمیل فرمائی ہے یہ بات سو فیصد غلط ہے۔ درحقیقت قاری عبدالرحمن جونپوریa نے جامع العلوم میں تحصیل علم کیاہے اور شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے جامع العلوم میں تدریس کی ہے ، نہ کہ تعلیم حاصل کی ہے۔
جامع العلوم جونپور اور احیاء العلوم الہ آباد میں شیخ القراء کی تدریس
شیخ القراء رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ ہی سے تکمیل تعلیم کرکے واپس ہندوستان پلٹے اور ہندوستان میں جامع العلوم کانپور میں تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور کچھ عرصہ ادھر تدریس تجوید و قراء ات کرتے رہے۔ یہاں سے آپ سے بہت سے لوگوں نے فیض علمی پایا ۔ بعدازاں آپ مدرسہ احیاء العلوم الہ آباد جو ریلوے اسٹیشن سے متصل مسجد عبداللہ میں واقع تھا،میں اپنی حیات و زندگی کا اکثر حصہ تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بسر کیا۔ یہاں سے آپ کے کثیر تعداد میں ماہر علم و فن تلامذہ تیار ہوئے۔
مدرسہ جامع العلوم میں شیخ القرائ کے نامور تلامذہ
١ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ( فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ)
٢ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ( فاضل قراء ات سبعہ وعشرہ بطریق درہ و طیبہ)
٣ قاری نثار احمد کانپوری رحمہ اللہ (صاحبزادہ مولانا احمد حسن مدیر التعلیم جامع العلوم کانپور)
٤ حضرت مولانا مشتاق احمد کانپوری رحمہ اللہ (ایضاً)
٥ قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ
٦ قاری فضل حق رحمہ اللہ
٧ قاری عبدالستار کانپوری رحمہ اللہ
مدرسہ احیاء العلوم میں شیخ القراء کے نامور تلامذہ
١ قاری عبدالوحید رحمہ اللہ
٢ قاری محمدصدیق میمن سنگھی
٣ قاری عبدالمعبود رحمہ اللہ(مدرس عالیہ فرقانیہ لکھنؤ)
شیخ القراء کی وفات
شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ ۶؍جمادی الاوّل بروز منگل ۱۳۴۹ھ بمطابق ۱۹۳۰ء کو دنیا فانی سے رخت سفر باندھتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
شیخ القراء کی تصنیفی خدمات
١ فوائد مکیہ ( یہ اُردو زبان میں ہے، جوتیرہ فصلوں اور تین ابواب پر مشتمل ہے)
٢ أفضل الدُّرر المعروف درر العقیلۃ فی شرح متن عقیلۃ للشاطبی(یہ کتاب عربی زبان میں ہے)
٣ شرح شاطبیہ از ملا علی قاری کی تقریظ بھی شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔
٤ قواعد سبعہ