Documentary on Hazrat mian mir qadri!History Of mian mir darbar mazar Lahore Pakistan حضرت پیر میاں میر لاہوری

حضرت پیر میاں میر لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



شیخ محمد میر نام، میاں میر عرف، والد کا نام قاضی سائیں دتّہ بن قاضی قلندر تھا۔ سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق﷜ تک منتہی ہوتا ہے۔ ۹۵۷ھ میں شہرِ سیوستان میں پیدا ہوئے۔ ابھی سات برس ہی کے تھے کہ پدر بزرگوار اللہ کو پیارے ہوگئے۔بارہ برس تک والدہ ماجدہ کے سایۂ عاطفت میں تعلیم و تربیت پائی اور سلسلۂ قادریہ کی تلقین بھی محترمہ والدہ صاحبہ ہی سے حاصل کی۔ آپ کے والدین اور ہمشیر اپنے وقت کی عرفا سے تھیں۔ والدہ ہی کی فیضِ صحبت سے عالمِ ملکوت کے کشف کا مرتبہ حاصل کرلیا تھا۔ علومِ متداولہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ خضر سیوستانی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر بے حد ریاضت و مجاہدہ کیا۔ تکمیلِ سلوک کے بعد خرقۂ خلافت پایا اور مرشد نے لاہور میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ فرمودۂ مرشد کے مطابق لاہور آکر اقامت پذیر ہوگئے۔ جس وقت آپ لاہور تشریف لائے عمر شریف پچیس برس کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی آپ کو مقبولِ خاص و عام کردیا۔ آپ اپنے عہد کے امامِ طریقت اور واقفِ اسرارِ حقیقت تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں یکتائے روزگار اور عارفِ کامل ہوئے ہیں۔ ریاضت و مجاہدہ، زہد و تقویٰ، فقر و غنا اور توکل و قناعت میں اپنے زمانے میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ عابدِ شب زندہ دار تھے۔ ساری ساری رات عبادت میں گزر جاتی تھی۔ حبسِ دم کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی سانس میں صبح کردیتے تھے جب حالت استغراق زیادہ بڑھ جاتی تو ایک ایک ماہ کے بعد افطار کرتے تھے۔ آپ سے بے شمار خوارق و کرامت صادر ہوئیں۔ حضرت غوث الا عظم ﷫ کے اویسی تھے۔ آپ کا نام بے وضو نہ لیتے تھے۔ سلاطینِ[1] زمانہ آپ سے ملاقات کرنا اور آستانہ عالیہ پر حاضر ہونا فخر و سعادت سمجھتے تھے۔

شہزادہ محمد دارا شکوہ کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت میاں میر کے بھائی وطن سے تشریف لائے، کھانے کو کچھ نہ تھا۔ بڑے پریشان خاطر ہوئے۔ بھائی کو حجرے میں بٹھایا اور باغ کو گئے۔ وضو کیا، دوگانہ نمازِ نفل ادا کی اور اللہ کے حضور دعا مانگی کہ اے باری تعالیٰ تیرے سوا میرا کوئی یار و مددگارنہیں ہے اور تُو یہ بھی جانتا ہے کہ میرے پاس کوئی شے نہیں ہے جس سے مَیں اپنے مہمان کی تواضع کر سکوں۔ اسی اثنا میں ایک شخص نے گھر سے آکر کہا کہ ایک شخص کھانا لایا ہے اور انتظار کر رہا ہے۔ جلدی تشریف لائیے۔ جب آپ گھر پہنچے تو نووارد نے خوانِ طعام پیش کیا اور کہا: جس سے یہ کھانا مانگا گیا ہے اسی نے یہ نقدی بھی بھیجا ہے اور کہا ہے اگر کُچھ اور درکار ہو تو کہیے تاکہ پہنچا دیا جائے۔ آپ نے اُسی وقت دوگانہ شکر ادا کیا اور مہمان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔

ایک روز آپ دریائے راوی کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مارِ سیاہ آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور ایسی زبان میں گفتگو کی کہ جسے اور کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ پھر تین بار آپ کے گرد طواف کر کے لوٹ گیا۔ حاضرین کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا: سانپ یہ کہتا تھا کہ میں نے عہد باندھا تھا کہ جب آپ کو دیکھوں گا تو تین بار آپ کا طواف کروں گا۔ میں نے اجازت دے دی اور وہ طواف کر کے چلاگیا۔

ایک روز آپ میر زین خاں کے باغ میں تشریف فرما تھے کہ ایک فاختہ نے بڑے پُر سوز لہجے میں کُو کُو کرنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک شکاری آیا اور اس نے اسے ایک ڈھیلہ مارا جس کی چوٹ سے وُہ گِر کر مرگئی اور شکاری نے اسے مردہ سمجھ کر پھینک دیا۔ آپ نے خادم سے فرمایا کہ اس فاختہ کو اٹھا لاؤ۔ وُہ اٹھا لایا آپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ اسی وقت زندہ ہوگئی اور اڑ کر درخت پر جا بیٹھی اور پھر اسی انداز میں کُو کُو کرنا شروع کیا۔ شکاری اس کی آواز سن کر لوٹا اور اسے پھر نشانہ بنانا چاہا۔ آپ نے شکاری کو روکا مگر وہ باز نہ آیا۔ وہ اسے نشانہ بنانا چاہتا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں سخت درد پیدا ہوا اور زمین پر گِر کر تڑپنے لگا۔ آپ اس کے پاس پہنچے اور فرمایا: اے بے درد یہ اسی درد کا نتیجہ ہے جو تونے فاختہ پر روا رکھا۔ وُہ اُٹھ کر آپ کے قدموں میں گِر پڑا ور معذرت خواہ ہوا۔ آپ نے درگزر فرمایا اور وہ شکاری حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر بلند مرتبے پر فائز ہوا۔

ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا: میرا لڑکا بیمار ہے اس کے لیے دعائے صحت فرمایئے۔ آپ نے کُوزہ میں پانی دم کر کے دیا کہ اپنے بیٹے کو پلائے جس کے پینے سے وہ صحت یاب ہوگیا۔

اسی طرح ایک شخص کو لائے اور عرض کیا: حضور یہ گونگا ہے بات نہیں کرتا۔ توجہ فرمایئے کہ یہ بولنے لگے۔

آپ نے لڑکے سے فرمایا: پڑھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اس نے یہ کلمہ پڑھا اور بولنے لگ گیا۔

ایک دفعہ آپ نے وُہ رومال جس سے وضو کر کے مُنہ پوچھتے تھے اپنے خادم کو عطا فرمایا اور کہا کہ اسے اپنے پاس رکھو۔ گھر میں جو کوئی بیمار ہو اس کے سر پر باندھ دینا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفا یاب ہوگا۔ خادم نے اس رومال کو بڑا نفع رساں پایا بلکہ اس سے آسیب زدہ بھی اچھا ہوجاتا تھا۔

ایک دن آپ باغ میں تشریف لے گئے اور سرو کے درخت سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کون سے ذکر پر مامور ہے۔ درخت نے جواب دیا: اسمِ ’’یا نافعِ‘‘ پر۔

ایک روز آپ کی مجلس میں ایک مغل برہنہ سرو برہنہ پا آکر بیٹھ گیا۔ اس کے بدن پر صرف ایک تَہ بند تھا۔ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا پچیس روپے نذر کیے جو آپ نے خلافِ معمول قبول فرمالیے اور یہ رقم اس مغل زادہ کو دے دی اور فرمایا کہ گھوڑا خرید لو اور فلاں شہزادے کے پاس چلے جاؤ ملازمت مل جائے گی۔ یہ دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے ایک شخص بڑا برہم ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ہی شخص کو ساری کی ساری رقم دے دی جائے حالانکہ اس میں دوسرے درویش کا بھی حق تھا۔ چنانچہ وہ اسی قسم کی بیہودہ باتیں بکتا ہُوا چلا گیا۔ آپ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس شخص کی کمر میں ایک سو بائیس روپے آٹھ آنے بندھے ہوئے ہیں اور پھر اپنے آپ کو مستحق قرار دیتا ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے چاہا ہے کہ اس کا روپیہ تلف ہوجائے اور یہ اسی روپے کے غم میں مر جائے۔ چنانچہ وُہ حریص و بد لگام شخص ایک غسل خانے میں نہانے کے لیے گیا۔ کمر سے تھیلی کو کھول کر رکھ دیا مگر جاتے ہوئے اٹھانا بُھول گیا۔ وہ تھیلی کسی اور شخص کے ہاتھ میں آگئی جسے وہ اُٹھا کر لے گیا۔ اس زبان دراز کو جب اپنی تھیلی یاد آئی تو روتا پیٹتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: تیری وُہ تھیلی فلاں درویش کے پاس ہے اور وہ اس وقت کشتی میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس سے جاکر لے لے۔ وہ اس درویش کے پاس پہنچا اس نے وُہ تھیلی خود ہی اس کے حوالے کردی مگر یہ اس صدمے سے بیمار ہوچکا تھا آخر مرگیا۔ اس کا مال دو خادم بانٹنے لگے۔ ایک تیسرا شخص انہیں دیکھ رہا تھا اس نے ان دونوں کے کھانے میں زہر ملادیا جس سے دونوں ہلاک ہوگئے۔ اور تیسرا قتلِ ناحق کی پاداش میں مارا گیا اور بخیل کا مال کسی کے کام نہ آیا۔

حضرت کا ایک خادم نور نامی بیان کرتا ہے کہ ایک رات حضرت حجرے کے اُوپر تشریف لے گئے اور مجھے فرمایا کہ پانی کا کوزہ، پنکھا اور نعلین وہاں رکھ دو۔ میں پنکھا اور نعلین تو وہاں رکھ آیا مگر پانی رکھنا بُھول گیا۔ رات کے ایک حصّے میں مَیں بیدار ہُوا اور کُوزۂ آب رکھنا مجھے یاد آیا۔ میں جلدی سے اٹھا، کُوزہ بھرا اور وہاں رکھنے کے لیے گیا مگر آپ کو وہاں نہ پایا۔ بڑا حیران ہوا۔ دیا جلا کر بھی آپ کو تلاش کیا مگر حضرت نظر نہ آئے۔ نمازِ صبح کا وقت ہوا تو آپ نے مجھے آواز دی کہ پانی پلاؤ۔ میں پانی لے کر حاضر ہوا او ر دریافت کیا کہ آپ رات کہاں تھے؟ آپ نے نہ بتایا۔ جب میں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ غارِ حرا میں تھا۔ وہاں جو عبادت میں لطف آتا ہے اور کہیں نہیں آتا۔ اُن لوگوں پر افسوس ہے جو مکہ معظّمہ جاتے ہیں اور اس جگہ کی زیارت نہیں کرتے جہاں رسول اللہﷺ عبادت کیا کرتے تھے۔ وہیں آپ پر نزولِ وحی ہوا تھا۔

جب جہانگیر بادشاہ کشمیر میں تھا تو شیخ عبدالحق محدث دہلوی﷫  اور مرزا حسام الدین﷫  مرید خواجہ باقی باللہ﷫  کے خلاف بعض دشمنوں نے بادشاہ کے کان بھرے جہانگیر نے دونوں کو کشمیر میں حاضر ہونے کا حکم دیا اور لکھا کہ شیخ عبدالحق کا بیٹا شیخ نور الحق کابل چلا جائے۔ شیخ عبدالحق پریشان حال لاہور آئے اور حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: خاطر جمع رکھیے آپ سب لوگ دہلی ہی میں رہیں گے۔ چنانچہ اسی اثنا میں جہانگیر کے فوت ہوجانے کی خبر کشمیر سے آگئی اور اس کی نعش لاہور لاکر دفن کردی گئی اور یہ تینوں حضرات دہلی ہی میں رہے۔

امرائے لاہور سے ایک نے اپنی حویلی میں  کنواں کھدوایا مگر پانی کھارا نکلا۔ وہ اس پانی کا کوزہ بھر کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پریشان حالی بیان کی۔ آپ نے سورۂ الحمد پڑھ کر پانی پر دم کیا۔ اس میں سے تھوڑا سا پیا اور فرمایا: یہ پانی جاکر کنویں میں ڈال دو۔ چنانچہ اس عمل سے اس کنویں کا پانی شیریں اور سرد ہوگیا۔

عہد جہانگیر میں قلعۂ کا نگڑہ کا محاصرہ ہوا۔ جو افسر قلعے کی تسخیر پر مامور تھے اُن میں سے ایک افسر آپ کا مُرید تھا۔ اُس نے آپ کی خدمت میں عریضہ لکھا اور التجائے دعا کی۔ آپ نے اُسی عریضہ کی پشت پر یہ لکھ کر بھیج دیا کہ اِن شاء اللہ قلعہ جلد ہی فتح ہوجائے گا۔ چنانچہ چار روز کے بعد وہ قلعہ فتح ہوگیا۔

ایک شخص محمّد فاضل نامی آپ کا مرید تھا اُس کا لڑکا فوت ہوگیا۔ وہ بڑا غمگین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: غم نہ کھا تیری بیوی حاملہ ہے اللہ تجھے نعم البدل عطا فرمائے گا۔ چنانچہ جب لڑکا پیدا ہوا تو آپ نے اس کا نام افضل رکھا اور فرمایا کہ تقدیر میں تو لڑکی تھی مگر میں نے تین مرتبہ بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی جو قبول ہُوئی اور لڑکا پیدا ہوا۔

ایک شخص کی کنیز بہت سا مال لے کر (جو ایک اور شخص کی امانت تھی) فرار ہوگی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر طالبِ دعا ہوا۔ فرمایا: رنجیدہ نہ ہو۔ کنیز تیرے گھر ہی میں ہے۔ چنانچہ جب وُہ گھر پہنچا تو کنیز کو موجود پایا۔ پوچھا: کہاں غائب ہوگئی تھی۔ کہنے لگی۔ بہت دور بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک شخص نے بازو پکڑ کر مجھے یہاں لا بٹھایا۔ حیران ہوں اتنے دور دراز فاصلے سے چشم زون میں مَیں کیسے پہنچ گئی۔

ایک عالم فاضل شخص ملاسنگی روستاقی نامی آپ کے خدام سے تھا۔ کئی سال سے آپ کی خدمت میں رہ رہا تھا۔ ایک روز آپ نے اسے فرمایا: ملاسنگی تمہیں ایک بار اپنے وطن سے ضرور ہوآنا چائیے مگر ملاجی کا دل نہیں چاہتا تھا۔ ارشادِ مرشد کی تعمیل بھی ضروری تھی۔ ملا وطن روانہ ہوگئے۔ شام کے وقت ردستاق میں داخل ہوئے۔ اپنے گھر کے قریب پہنچ کر دیکھا کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔ شمعیں جل رہی ہیں۔ کھانا تیار ہورہا ہے۔ ایک شخص سے پوچھا: کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا: یہ ملاسنگی کا گھر ہے۔ وہ بائیس سال سے ہندوستان گیا ہوا ہے، چند مہینے ہوئے اس کی موت کی خبر آئی۔ اس کی بیوی نے عدت کی مدت گزار لی ہے ایک شخص نے اس سے نکاح کی خواہش کی ہے۔ یہ مجلس اسی تقریب کی ہے۔ یہ سن کر ملاسنگی کو خیال آیا کہ حضرت نے مجھے اسی لیے وطن آنے کی ہدایت کی تھی۔ اسی اثنا میں ملّاسنگی کے رشتہ داروں کو ملّا کے آنے کی اطلاع مل گئی وہ بڑے خوش ہوئے اور تمام مجلس درہم برہم ہوگئی پس ملّا کچھ مدت اپنے اہل و عیال میں رہے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرکے پھر اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا: کیوں ملا اگر گھڑی بھر دیر ہوجاتی تو بڑی قباحت واقع ہوتی۔ ملّا نے مرشد کی قدم بوسی کرکے عرض کیا: اللہ کے فضل اور آپ کی توجہ سے فتنہ ٹل گیا۔

ایک روز آپ اپنے مرید و خلیفہ ملّا شاہ بدخشانی کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ملّا شاہ کو کشفِ قبور حاصل تھا۔ عرض کیا: آپ سنتے ہیں کہ اس قبر سے کیا آواز آتی ہے۔ فرمایا کیا آواز آتی ہے۔ عرض کیا: صاحبِ قبر یُوں کہتا ہے کہ میں جوانی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اپنی بد اعمالیوں کے باعث عذابِ قبر میں گرفتار ہوں۔ تعجب ہے آپ حضرات میری قبر پر سے گزریں اور میرے عذاب  میں تخفیف نہ ہو۔ آپ نے فرمایا صاحب قبر سے پوچھو تمہارا عذاب کس طرح رفع ہوسکتا ہے۔ ملّا شاہ نے مراقبہ سے معلوم کرکے صاحبِ قبر کہتا ہے کہ اگر ستّر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اس کا ثواب مجھے پہنچایا جائے تو یہ عذاب اٹھ سکتا ہے۔ حضرت شیخ نے سب سے کلمہ پڑھنے کو فرمایا اور خود بھی پڑھنا شروع کیا۔ جب پورا ہوگیا اور اس کا ثواب  صاحبِ قبر کو پہنچا دیا گیا تو ملّا شاہ نے کہا صاحبِ قبر کہتا ہے کہ کلمہ طیبہ اور آپ بزرگوں کے دم قدم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عذابِ قبر سے نجات دے دی ہے۔

۷؍ربیع الاوّل بروز سہ شنبہ ۱۰۴۵ھ میں بعہدِ شاہ جہاں وفات پائی۔ اس وقت لاہور کا حاکم نواب وزیر خاں تھا۔ اٹھاسی سال کی عمر پائی۔ ساٹھ سال سے زیادہ لاہور میں اقامت پذیر رہے۔ یہ مزار لاہور میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ حضرت کے چار بھائی میاں قاضی، قاضی عثمان، قاضی طاہر اور قاضی محمد تھے۔ دو بہنیں بی بی بادی اور بی بی جمال خاتون تھیں جو اپنے عہد کی عارفۂ کاملہ تھیں۔ حضرت شیخ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی کیونکہ آپ نے تمام عمر تجرد میں بسر کی تھی اس لیے آپ کی وفات کے بعد آپ کی ہمشیر جمال خاتون کے فرزند محمد شریف المتوفیٰ ۱۰۵۴ سجادہ نشین ہوئے۔

قطعۂ تاریخ ولادت و وفات:

میرد دنیا و دیں میاں میر است
بندۂ مقتدا میاں میر است
۹۵۷ھ
ہادئ صدق میر اشرف خواں
۱۰۴۵ھ

 

واقفِ راز و محرم اسرار
سالِ تولیدِ آں شہِ ابرار

وصل آں شاہِ زبدۃ الابرار

 

1۔ جہانگیر نے اپنی توزک میں ملا عبدالحمید لاہوری صاحبِ شاہ جہان نامہ نے اکثر جگہ آپ کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ جہانگیر توزک میں ایک جگہ لکھتا ہے: شیخ محمد میر لاہوری عرف میاں میر سے ان کے علم و فضل اور ان کی بزرگی و پرہیز گاری کی وجہ سے ملاقات کی بڑی خواہش تھی لیکن میں اس زمانے میں آگرہ میں تھا اور حالات اس قسم کے تھے کہ لاہور نہیں جاسکتا تھا۔ لہذا اپنی حکومت کے چودھویں سال اُن کو آگرہ آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے نہایت مہربانی سے منظور کرلیا۔ ملاقات کے بعد آپ کے اخلاق اور وسیع معلومات کی تعریف کرتا ہوا لکھتا ہے کہ روحانی پاکیزگی اور صفاءِ قلب میں یہ بزرگ اپنے زمانے میں لاثانی ہیں۔ میں اکثر ان کے پاس جایا کرتا تھا اور وہ مجھے دینی و دنیوی نہایت باریک نکات بتایا کرتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ نقد روپیہ بطور نذرانہ پیش کردوں۔ چونکہ ایسی چیزوں کی انہیں خواہش نہ تھی اس لیے مجھے بھی جرأت نہ ہوسکی۔ آخر میں نے نماز پڑھنے کے لیے سفید ہرن کے چمڑے کا مصلّٰی اُن کی خدمت میں پیش کیا جسے انہوں نے قبول فرمالیا اور تھوڑے دنوں بعد لاہور روانہ ہوگئے۔ میں نے خدمت کی درخواست کی۔ فرمایا: بس خدمت یہی ہے مجھے پھر آنے کی تکلیف نہ دینا۔

ملّا عبد المجید شاہجہان نامہ میں لکھتے ہیں: ایک مرتبہ شاہجہان لاہور آکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور چونکہ وہ جانتا تھا کہ میاں صاحب نذر و نیاز منظور نہیں کیا کرتے اس لیے ایک تسبیح اور سفید کپڑے کی ایک دستار حضرت کی خدمت میں پیش کی اور بے شمار دعائیں لیں۔ شاہجہان کہا کرتا تھا کہ میں نے صرف دو صوفی ایسے دیکھے ہیں جو علم الہٰیات کے ماہر ہیں۔ ایک میاں میر صاحب اور دوسرے محمد فضل اللہ بہاری۔ شاہجہان اپنے دورِ حکومت میں دو دفعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، ایک دفعہ کشمیر جاتے ہوئے اور دوسری دفعہ کشمیر سے واپسی پر۔

دارا شکوہ بھی اپنی کتاب سفینۃ الاولیاء میں جہانگیر سے آپ کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ جہانگیر آپ کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ تخت چھوڑ دینے کی خواہش کی مگر آپ نے منع فرمایا۔

حضرت خاوند محمد المعروف حضرت ایشاں المتوفیٰ ۱۰۵۲ھ آپ کے ہم عصر تھے۔ اکثر مسائل میں آپ کے ساتھ مراسلات کرتے رہتے تھے خاص کر مسئلہ وحدت وجود پر حضرت ایشاں وحدت وجودی یعنی ہمہ اوست کے قائل نہیں تھے۔ جو شخص اس کا قائل ہوتا تھا اس کی سخت سرزنش  کرتے تھے۔ اس مسلک میں آپ حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہندی المتوفیٰ ۱۰۳۴ھ کے ہم مشرب تھے یعنی ہمہ از اوست کے قائل تھے۔ (مترجم)

 

جب حضرت شیخ میانمیر کا ذکر خیر آیا تو آپکے متعلق کچھ عرض کرنا جروری ہے۔ آپ کا شمار اکابرین عارفین و واصلین مین ہوتا ہے۔ آپ ریاجت، مجاہدہ، ترک اور تفرید میں بڑے ثابت قدم تھے اور کشف و کرامات اور فقروفنا مین یگانۂ روزگار تھے آپ کوخرقۂ خلافت حضرت خضر بیابانی سے ملا تھا۔ کہتے ہیں آپ نے ملکوت تک سیرو سلوک اپنی ہمشیرہ سے حاصل کیا۔ آپکو حضرت غوث الاعظم سیدمحی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی کی روحانیت سے قوی نسبت تھی۔ جس سے آپکو روحانی تربیت اور فیضان حاصل ہوا۔ حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ سے آپکو اس قدر محبت تھی کہ آپ حضرت اقدس کا اسم گرامی کبھی بغیر وضو زبان پر نہ لاتے تھے۔ تربیت مریدین اور تصرف یعنی کشف و کرامات میں آپکا مقام بہت بلند تھا۔ چنانچہ آپ کے فیض تربیت سے ایک جہان فیضیاب ہوا اورمرتبہ رشد وارشاد کو پہنچا۔ ان میں سے بہت سے لوگ مرتبہ تکمیل کوپہنچے۔ آپکے ن امور خلفاء کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ حضرت ملا شاہ بدخشی حضرت ملا خواجہ، حضرت شیخ احمد سنامی، مخدوم شیخ عبدالرشید، حضرت شیخ میانمیر لاہوری نے سارے عمر شہرلاہور میں خلوت بسر فرمائی اور فقر واستغناء کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ سلاطین وقت ہمیشہ آپ سے نیاز مندی کا دم بھرتے تھے اور آپکی خدمت میں حاضر ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے اور آپکی زیارت کو برکت سمجھتے تھے۔ شہنشاہ شاہجہان حضرت میانمیرف کے حضور میں نقل ہے کہ ایک دفعہ شہنشاہ شاہجہان حضرت شیخ میانمیر لاہوری کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی بھی ان کے ہمراہ تے۔ بادشاہ نے حضرت اقدس کی خدمت میں زر کثیر بطور نذر پیش کی۔ لیکن آپ نے حسبِ دستور قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر ملا عبدالحکیم نے کہا کہ آپکا یہ فعل خلافِ سنت رسول اکرمﷺ ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ آدم زادہ بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اسکے دو اوصاف بوڑھے نہیں ہوتے ایک حرص دوسرے طول امل (یعنی لمبی امید باندھنا) اور چونکہ آپ پیرانہ سالی کوپہنچ چکے ہیں آپکا یہ نذرانہ قبول نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپکے اندر حرص نہیں ہے لہٰذا آپکا عمل خلاف حدیث ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم نے اس قدر مولیّت کے باوجود اس حدیث کے معنی نہیں سمجھے۔ بڑھاپے میں حرص کے بڑھ جانے سے مراد مطلوب دل کے حصول کا حرص ہے۔ پس جس شخص کے دل میں حق تعالیٰ کی محبت ہے بڑھاپے میں اسکی محبت میں اضافہ ہوگا جیسا کہ اس احقر کا حال ہے اور جس شخص کے دل میں دنیا کی محبت ہے بڑھاپے میں دنیا کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ تمہارا حال ہے۔ ملاعبدالحکیم حضرت اقدس کے اس جواب سےناخوش ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ شیخ نےہمارے علم کی قدر نہیں کی۔ چنانچہ اس نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ التعظیم لامراللہ والشفقۃ علی خلق اللہ (امر الٰہی کی عزت اور خلق خدا پر شفقت ضروری ہے) کا کیا مطلب ہے آپ نے فرمایا کلامِ پاک میں امر الٰہی سے مراد روح ہے جیسا کہ آیۂ مبارک قل الروح من امر ربی سے ظاہر اور اسکی تعظیم کا مقصد یہ ہے کہ ذکر الٰہی میں کوشش کی جائے تاکہ شہود حق تک رسائی ہو اور غیریت کے تفرقہ سےنجات ملے اور روح عالم امر کی چیز ہے اور جسم عالم خلق سے رکھتا ہے خلق یعنی جسم پر شفقت کا مطلب یہ ہے مجاہدہ دریاضت سے اُسے صفات ذمیمہ پاک اور صفات حمیدہ سے آراستہ کیا جائے۔ حضرت شیخ کایہ جواب سن کر وہ خاموش ہوگیا اور آخر مجلس تک بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ حضرت شیخ میاں میر  کے کمالات بیان سے باہر ہیں آپ کا مزار مبارک لاہور میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ اس فقیر کو ایک خرقہ خلافت قطب وقت حضرت شیخ لقمان سے حاصل ہوا جو حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری قدس سرہٗ کے خلیفہ تھے اور ایک سو ستر سال کی عمر رکھتے تے۔ احقر کو ایک خرقہ خلافت مع نعت باطنی واذکار وشاغل مردان غیب میں سے ایک بزرگ سے ملا جنکا اسم گرامی عبدالرب تھا۔ اسی طرح اس احقر کو دوسرے سلاسل سے اتنے خرقہ ہائے خلافت ملے کہ اگر ان تمام کا ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہوجائیگا اور مقصد فوت ہوجائیگا۔ حضرت شیخ کے اسم اعظم پڑھنے کا طریقہ میرے مرشدی وآقا حضرت شیخ سوندہا کے اسم اعظم پڑھنے کا طریقہ جو حق تعالی سید الکونین علیہ الصلوٰۃ والسلام اور تمام مشائخ مشائخ عظام کی طرف سے اس فقیر کو عطا ہوا ہے یہ ہے کہ ہر روز اکتالیس بار ایک سو ایک بار یا ایک ہزار بار پڑھے۔ نیز ہر نماز کے بعد تیرہ مرتبہ ایک لاکھ پورا کرے۔ اس سے ہر حاجت جلالی ہو یا جمالی مثل تسخیر خلق اور دفعیۂ اعدا وغیرہ پوری ہوگی۔ حضرت اقدس کا اسم گرامی کبریت احمد ہے اس وجہ سے کہ آپ کی ذات پاک وجود اکبر ہے۔ وہ اسم یہ ہے۔ ’’شیئاً للہ یا شیخ سوندہا مخدومی ملجائی ماوائی‘‘ اولاد حضرت شیخ سوندہا کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی۔ قصبہ بہوہر کے صاحب ولایت حضرت سید معز الدین کے باطنی اشارے کے مطابق حضرت اقدس نے دوسرا عقد نکاح کیا جس سے ایک فرزند اور ایک دختر پیدا ہوئے۔ فرزند کا اسم گرامی شیخ محمد تھا۔ شیخ محمد کا بھی ایک بیٹا تھا جن کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔ اور وہ اب تک بمع اپنی والدہ کے قید حیات میں ہیں۔ بڑے کا نام شیخ راجو، دوسرے کا نام شیخ پیر محمد اور تیسرے کا نام شیخ حامد ہے۔ یہ حضرات قصبۂ سیفدون میں حضرت اقدس کے مزار کے قریب سکونت پذیر ہیں۔ اور روضۂ اقدس کی خدمت گاری میں اوقات بسر کرتے ہیں۔ اس خاکسار کے علاوہ حضرت اقدس کے خلفاء از قسم جن دانس بیشمار ہیں جنکا اس مختصر کتاب میں ذکر نہیں ہوسکا البتہ حضرت اقدس کے اکابر اصحاب میں سے بعض اصحاب کا ذکر کیا جاتا ہے حضرت شیخ کے اکابر اصحاب میں سے ایک اس احقر کے والد ماجد شیخ محمد علی ابن شیخ المشائخ شیخ اللہ بخش براسوی ہیں جنکے حالات آئندہ سطورمیں آرہے ہیں۔ (اقتباس الانوار)

حضرت میاں میر(رحمتہ اللہ علیہ)

حضرت میاں میرقطب زمن ہیں،واقت سروعلن ہیں۔

خاندانی حالات:

آپ کاسلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں سےامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتا ہے۔آپ کےداداقاضی قلندرفاروق ایک صوف منش بزرگ تھے۔

والدماجد:

آپ کےوالدماجدکانام قاضی سائیں دتاہے۔۱؎

والدہ ماجدہ:

آپ کی والدہ فاطمہ قاضی قادن کی صاحب زادی تھیں۔

بھائی:

آپ کےچاربھائی تھے،جن کےنام حسب ذیل ہیں۔۲؎

قاضی بولن،قاضی عثمان،قاضی ظاہر،قاضی محمد۔

بہنیں:

آپ کی دوبہنیں تھیں،جن کےنام حسب ذیل ہیں۔

بی بی جمال خاتون،بی بی ہادی۔

بی بی جمال خاتون رابعہ عصرتھیں،آپ سےکرامات کااظہارہوا۔۳؎

ولادت:

آپ کی ولادت باسعادت"سیوستان میں جوٹھٹھہ اوربھکرکےمابین واقع ہےاورآپ کےآباؤاجدادکا

اصلی وطن ہے۔۹۳۸ھ میں ہوئی"۔۴؎

نام:

آپ کانام میرمحمدہے۔

القاب:

آپ "میاں میر"،"شاہ میر"،"میاں جیو"،"بالاپیر"کےالقاب سے پکارےجاتےہیں۔

بچپن کاصدمہ:

سات سال کی عمرمیں والدکاسایہ آپ کےسرسےاٹھ گیا۔

تربیت:

بارہ سال کی عمرمیں آپ نےاپنی والدہ ماجدہ سےعلم باطنی حاصل کرناشروع کیا۔اس سےفارغ ہو کرآپ دنیااوردنیوی تعلقات سےکنارہ کش ہوگئے۔

تلاش حق:

آپ والدہ ماجدہ سےرخصت ہوکرجنگلوں،بیابانوں اورباغوں میں گھوماکرتےتھے،تلاش حق میں آپ بےچین رہتےتھے۔ریاضت،عبادت اورمجاہدہ میں مشغول رہتےتھے۔

بیعت وخلافت:

آپ سیوستان کےپہاڑوں میں گھومتےگھومتےایک دن حضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئےحضرت خضرت رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ عالیہ قادریہ کےایک بلندپایہ بزرگ تھے،وہ بارہ مہینےپہاڑوں میں رہتےتھے۔مخلوق سےدوراوریادالٰہی میں مصروف رہتےتھے،ان کےپاس ایک کوزہ اورایک بوریاتھااوراس کےعلاوہ کچھ نہ تھا۔جاڑے کےموسم میں ایک تنوربناکراورلکڑیاں جمع کرکےاس تنورمیں رات کو رہتےتھے۔

آپ حضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ سے اپنی ملاقات کاحال اس طرح بیان فرماتےہیں۔۵؎

"جب میں والدہ ماجدہ سےرخصت لےکربڑے شوق سےباہرنکلاتوبےاختیارجنگل کارخ کئےجارہا تھا،یہاں تک کہ میں سیوستان میں پہنچا۔وہاں پرمیں نےدیکھاکہ ایک کونےمیں تنورہے۔جس کا منہ  ڈھکاہواتھا۔جب کھول کردیکھاتو اس میں پتھردیکھااورتنورگرم تھا۔حیران رہ گیا،مجھےمعلوم ہوا کہ یہ کسی بزرگ کامقام ہےاورمیں نےعہد کیاکہ جب تک اس بزرگ کی زیارت نہ کرلوں گا، یہاں سےنہیں جاؤں گا،تین روزکےبعدحضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے،میں نےجاکر سلام کیا،آپ نےسلام کا جواب مع میرے نام کےدیا۔

بعدہٗ آپ حضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ کےمریدہوئےاوریادالٰہی میں مشغول ہوئے۔اورخرقہ خلافت سے سرفرازہوئے۔

پیرومرشدسےرخصت:

حضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ نےآپ کورخصت فرمایااورآپ کوہدایت فرمائی کہ ان کےپاس رہنےکی ضرورت نہیں،جہاں جی چاہےجائیں اورجہاں جی  چاہےرہیں۔

لاہورمیں آمد:

آپ علوم ظاہری حاصل کرنےکےواسطےلاہورتشریف لائے۔بعض کاخیال یہ ہے کہ آپ پیرو مرشدکی وفات کےبعد لاہورمیں رونق افروزہوئے۔لاہورمیں مسجدوں میں قیام فرمایا۔مولانا سعداللہ کےحلقہ درس میں شامل ہوئےاورکچھ ہی مدت میں علوم معقول ومنقول کلی کی تحصیل سے فارغ ہوئے۔مولانانعمت اللہ سےبھی آپ نے علم حاصل کیا۔

آپ نےاپنی اصلی حالت کاکسی کوپتہ نہیں دیا۔اس کےبعد سےآپ کایہ طریقہ تھاکہ دن میں بزرگان دین کےمزارات پرجاتےاورمزارات سےفیوض وبرکات حاصل کرتے،پھرباغوں، جنگلوں اورغیرآبادمقامات پرجاکریادحق میں مشغول ہوتے۔

سرہندمیں قیام:

لاہورمیں کچھ عرصےرہ کرآپ سرہند تشریف لےگئے۔سرہندمیں آپ بیمارہوگئے۔گھٹنےکےدرد کی شکایت پیداہوئی۔حاجی نعمت اللہ سرہندی نےآپ کی بہت خدمت کی،آپ نے ان کی خدمت اور تیمارداری سےخوش ہوکران کوایک ہی ہفتے میں درجہ کمال کوپہنچادیا۔

بیماری کی حالت میں آپ ایک دن غوث الاعظم میراں محی الدین حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی روح پرفتوح کی طرف رجوع ہوئے۔غوث الاعظم اورحضرت خضر رحمتہ اللہ علیہ آپ کی مزاج پرسی کےلئےتشریف لائے۔آپ نے حضرت غوث الاعظم سےصحت کی درخواست کی۔حضرت غوث الاعظم نےاپناہاتھ آپ کے جسم پرپھیرااورپانی کاایک پیالہ دےکراس کےپینےکی تاکیدفرمائی،آپ تندرست وتواناہوکر خداوندتعالیٰ کاشکربجالائے۔

لاہورمیں سکونت:

ایک سال کےقریب سرہندمیں رہ کرآپ لاہورواپس تشریف لائےاورباغبانوں کےمحلےمیں مستقل سکونت اختیارکی۔۶؎

آپ عبادت،ریاضت،مجاہدہ،تعلیم وتلقین اوررشدوہدایت میں مشغول رہتے۔لوگوں کوراہ حق دکھاتے،آپ کافیض عام تھا،بہت سے لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے۔

سلاطین کی باریابی:

آپ کےکمالات کاشہرہ سن کرشہنشاہ جہانگیرکوآپ سےملنےکاشوق ہوا۔لاہورسےچلنےکےبعداس نے ایک شخص کوآپ کی خدمت میں بھیجااوریہ پیغام بھیجاکہ لاہورسےروانہ ہونےکےبعداس کو آپ  کانام معلوم ہوسکا،اگرلاہورمیں ہوتاتووہ خود حاضرخدمت ہوتا،اب آپ خود ہی ازراہ نوازش اس کےپاس تشریف لےآئیں۔

آپ نےجہانگیرکی درخواست منظورفرمائی۔جہانگیرنےآپ کی بہت آؤبھگت کی۔بہت دیرتک بات چیت ہوتی رہی۔جہانگیرآپ سےبہت متاثرہوااوراسی حالت میں آپ سے عرض کیاکہ۔۷؎

"جوکچھ سلطنت کازرومال اورجواہروغیرہ ہے،وہ میری نظرمیں اینٹ پتھرکےبرابرہے،اگرآپ توجہ فرمادیں تومیں دنیوی تعلقات چھوڑدوں"۔

آپ نےیہ سن کرجہانگیرسےفرمایا۔

"تم پہلےاپنےجیساخلقت کی نگہبانی کےلئےکوئی شخص مہیاکرلو۔پھرمیں تمہیں اپنےساتھ لےجاکر  مشغول کروں گا"۔

جہانگیریہ سن کر بہت خوش ہوا،اس نےآپ سے عرض کیاکہ اگرکسی چیزکی ضرورت ہوتوفرمائیں، آپ نےبادشاہ سےوعدہ لیاکہ جو طلب کریں گے،وہ دےگا،جہانگیرنےکہا۔"ہاں ضروردوں گا"۔

آپ نےفرمایا"توبس میں یہی چاہتاہوں کہ مجھ رخصت دو"جہانگیرنےآپ کونہایت عزت واحترام سے رخصت کیا۔

شہنشاہ شاہجہاں دومرتبہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا۔آپ نےشاہجہاں کونصیحت فرمائی کہ۔۸؎

"عادل بادشاہ کواپنی رعیت اورسلطنت کی خبرگیری کرنی چاہیےاوراپنی تمام ہمت اپنی تمام ولایت کو آباد کرنےمیں صرف کرنی چاہیے،کیونکہ اگررعیت آسودہ حال اورملک آبادہے توسپاہ آسودہ اورخزانہ پرہوگا"۔

شاہجہاں  آپ سےمل کراتنامتاثرہواکہ اکثرکہاکرتاتھاکہ:

"ہم نےترک وتجرید میں حضرت میاں جیوجیساکوئی درویش نہیں دیکھا"۔

دوسری مرتبہ جب شاہجہاں آپ سےملنےآپ دردولت پرگیاتوشال کی دستاراورکھجوروں کی تسبیح اپنے ہمراہ لےگیا،جب اس نےوہ دونوں چیزیں آپ کونذرکیں،توآپ نےدستارواپس کردی اور تسبیح قبول توکرلی،لیکن بعدازاں اپنےایک مریدکودےدی۔

آپ بادشاہ سے بات چیت کرنےجاتے تھےاورلونگ پکاکرپھینکتےجاتےتھے۔شیخ محمد لاہوری وہ لونگیں اٹھاکرکھالیتےتھے۔شیخ محمد لاہورنےشاہجہان کےجانےکےبعدآپ سے دریافت کیاکہ مجلس کیسی گزری،آپ نےجواب دیاکہ:۹؎

"بادشاہ فردکامل اورمظہرخاص ہوتےہیں،لیکن ان کی آمدورفت اوربات چیت سےمجھ میں کسی طرح کافرق نہیں آیا،کیونکہ میں جس کام میں مشغول تھا،اسی میں مشغول رہا"۔

وصیت:

آپ اکثرفرمایاکرتےتھےکہ:۱۰؎

"وفات کےبعدمجھےشورہ زمین میں دفن کرنا،تاکہ میری ہڈیوں تک کانام ونشان باقی نہ رہے اور نہ ہی قبرکی صورت بنانا،کیوں کے۔۱۱؎

صورتےدرقبربعدازمرگ ویراں خوشتراست

نیستی مانند من باخاک یکساں خوشتراست

آپ نےیہ بھی فرمایاکہ۔

"میری ہڈیوں کونہ بیچنااورمیری قبرپردوسروں کی طرح دوکان نہ بنالینا"۔

وفات:

آپ نے۱۷ربیع الاول ۱۰۴۵ھ کواس دارفانی سےعالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا۔مزارفیض آثار لاہورمیں جامع خاص وعام ہے۔

مرید:

آپ کےمریدوں کی تعداد کافی ہے۔خاص خاص حسب ذیل ہیں۔۱۲؎

حاجی نعمت اللہ،میاں نتھاشاہ،حاجی مصطفےٰ سرہندی،ملاحامدگجر،ملاروحی مسمٰی بہ ابراہیم،ملاخواجہ

کلاں،حاجی صالح کشمیری،ملاشاہ صاحب،شیخ عبدالغنی،میاں محمدمراد،میرزاہدمداری عبدالرحمان، شیخ عبدالواحد،محمد شریف،ملاابابکر،ملاعیسٰی سیالکوٹی،سیداشرف۔

سیرت:

آپ تقویٰ،ورع،ترک،تفرید،سیروسلوک،فتوح،کشایش،اوضاع وافعال واقوال اوراشغال میں ممتازتھے،آپ شریعت حقیقت اورطریقت سےآراستہ تھے۔آپ حقائق ومعارف کی وہ باتیں بیان فرماتےجوپہلےنہیں سنی گئی تھیں۔آپ کی کل خوبیاں،حوصلہ،استغراق،استغنا،فنا،وقت کی محافظت،احوال کاچھپانا،توحید معارف،دلوں کوکھولنا،مریدوں پرمہربانی کرنا،امتیازی شان رکھتی تھیں۔

آپ کی تجرید کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ عصالےکردوتین قدم چلےہوں گےکہ عصاپھینک دیااورفرمایا:

وہ شخص عصاپرکیوں سہارالے،جس نےحق سبحانہ تعالیٰ کاسہارالیاہے"۔

آپ کےتوکل کایہ حال تھاکہ رات کےوقت کوزےکاپانی پھینک دیتےتھے،لوگوں سےالگ رہنا پسندفرماتےتھے،رات کوسوتےنہیں تھے،شروع شروع میں ایک سانس لےکرگزاردیتےتھے،پھر جب ضعیف ہوگئےتوچارسانس لےکررات گزاردیتےتھے،آپ بہت کم لوگوں کومریدکرتے تھے۔

آپ کےفقروفاقہ کایہ حال تھاکہ کئی کئی روزتک بھوکےرہتے۔تیس سال تک آپ کےہاں کچھ نہ پکا،آپ کی خوراک بہت کم تھی،ہروقت استغراق کی حالت میں رہتےتھے۔آپ کالباس سادہ ہوتا تھا،خرقہ اورمرقع زیب تن نہیں فرماتےتھے،ایک معمولی کپڑے کی پگڑی سرپررکھتےتھےاور موٹےکپڑے کاکرتہ پہنتےتھے۔

آپ کےگھرمیں ایک پرانابوریابچھارہتاتھا،دنیااوردنیوی چیزوں سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں تھا۔

فرائض،سنن موکدہ اورتہجدپابندی سے اداکرتےتھے،ان کےعلاوہ اورکوئی نماز ادانہیں کرتے تھے۔رمضان کےروزوں کےعلاوہ اورکوئی روزہ نہیں رکھتےتھے۔آپ کےہاتھ میں تسبیح نہیں ہوتی تھی۔

آپ کوسماع کاشوق تھا،لیکن سماع میں وجداوررقص نہیں کرتےتھے۔

تعلیمات:

آپ فرماتےہیں کہ۔۱۳؎

"جس طرح ظاہر میں یہ بات ہے کہ جب تک جنبی شخص کاایک بال بھی خشک رہ جائےتوجنابت قائم رہتی ہےاورپاک نہیں ہوتا،اسی طرح خواہ اس نےتمام تعلقات کوچھوڑدیاہو،اگراس کےدل میں ایک خطرہ بھی باقی ہےتوبھی وہ تعلقات سےپاک نہیں ہوااورجنابت باطنی ابھی باقی ہے"۔

نکتہ:

ایک روزچندعالم آپ کی خدمت میں حاضرتھے۔التعظیم لامراللّٰہ والشفۃ علی خلق اللّٰہ(امرالٰہی کی تعظیم اورخلق خداپرشفقت ضروری ہے)کامسئلہ زیربحث تھا،آپ نے اس کی وضاحت اس طرح کی کہ۔۱۴؎

"امرسےمرادروح ہے،جیساکہ قرآن مجیدمیں آیاہے"۔

"قل الروح من امرربی"

"پس اس کی تعظیم یہ ہے کہ اسےیادالٰہی سےغافل نہ رکھاجائےاورخطرات کودورکیاجائےاورخلق سےمرادخلقت ہے،یعنی اپنےاعضاءپس ان پرشفقت یہ ہے کہ ان سے کوئی فعل ناجائزخلاف شرع ظہورمیں نہ آئےاوردنیوی لذتوں سےآسودہ نہ کرے،تاکہ وہ آخرت کےعذاب میں گرفتار نہ ہوں"۔

دوطریقے:

آپ فرماتےہیں کہ ۔۱۵؎

"اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنےکےدوطریقے ہیں۔

اول،جذبہ کہ اللہ تعالیٰ یک بارگی بندہ کواپنی طرف کھینچ لیتاہے۔اوراس کوواصل بنادیتاہے،اور

دوسرا،سلوک جوریاضت مجاہدےاورکسی بزرگ کادامن پکڑنےسےاللہ تعالیٰ تک پہنچے۔"

سالک:

آپ فرماتے ہیں کہ۔۱۵؎

"سالک کےلئےسلوک میں پہلامرتبہ شریعت ہے۔طالب کےلئےضروری ہے کہ اس کے حفظ مراتب کی کوشش کرےاورجب کوشش سےاس مرتبےکوقائم کرےگاتوشریعت کےادائے حقوق کی برکت سےاس کےدل میں طریقت کی خواہش خودبخودپیداہوجائےگی اورجب طریقت کےحقوق کوبھی اچھی طرح سےاداکرےگاتواللہ بشریت کےحجاب اس کی دلی آنکھوں سےدور کردےگااورحقیقت کےمعنی اس پر منکشف ہوجائیں گے،جوروح کےمتعلق ہے"۔

اقوال:

۔        حق کی طلب آسان نہیں،جب تک تم اس کی طلب میں یگانہ نہ ہوجاؤگے،اسےنہیں پاسکوگے۔

۔        جس کااللہ ہو،وہ فقیرنہیں۔

۔        صوفی جب کامل ہوجاتاہےاوراس کادل خطرے سے پاک ہوجاتاہےتواسےکوئی چیزضرر نہیں دےسکتی۔

۔        شریعت کےمعاملات کی نگہداشت مرتبہ طریقت کےحصول کاسبب ہےاورطریقت بری خصلتوں سےباطن کوپاک کرنےاورمرتبہ حقیقت کےادراک کاموجب ہےاورحقیقت کیاہے؟وجودکوفال بنانااوردل کوماسوااللہ سے خالی کرنا۔

۔        انسان تین چیزوں،نفس،دل اورروح کامجموعہ ہے،ان میں سےہرایک کی اصلاح خاص چیزسےہوتی ہے،چنانچہ نفس کی اصلاح شریعت سے،دل کی طریقت سےاورروح کی حقیقت سے۔

۔        صوفی وجدکی حالت میں ہوتاہےتواپنی ہستی سےخالی ہوتاہےاوربقائے حق سےباقی۔

۔        اولیاء کی موت ان کےنفس کامرناہےاورجب ان کانفس مرجاتاہےتوپھروہ ابدالاباد تک زندہ ہی رہتےہیں۔

۔        اولیاءاللہ کاتصرف زندگی میں اورموت کےبعدیکساں ہوتاہے،بلکہ مرنےکےبعد زیادہ اوربہترہوتاہے۔

کرامات:

آپ فرماتےہیں کہ۔۱۶؎

خوارق دوقسم کےہوتےہیں:ایک اختیاری،دوسرے اضطراری۔

ایک روزآپ نولکھ باغ میں تشریف رکھتےتھے،آپ نےاپنےایک خادم سےفرمایاکہ اس درخت سے پوچھوکہ کون سی تسبیح پڑھتاہے،جب اس سرس کےدرخت سےپوچھاتواس نےجواب دیاکہ "یانافع"کہتاہوں۔

آپ کےایک خادم غیاث الدین کےیہاں کوئی بچہ نہیں ہوا،اس نےدوسری شادی کرناچاہی، آپ نے منع فرمایااوراس کویہ خوش خبری دی کہ اس کےیہاں کئی لڑکےپیداہوں گے۔

چنانچہ اسی بیوی سےدس بچےپیداہوئے۔۱۷؎

۱؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۲۰

۲؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۲۰

۳؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۱۰۱

۴؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۱۹

۵؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۲۲،۲۱

۶؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۲۶

۷؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۳۷

۸؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۳۸

۹؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۴۰

۱۰؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۵۱

۱۱؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۱۷۲،۱۷۳

۱۲؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۳۱۹

۱۳؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۳۶،۳۵

۱۴؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۴۰

۱۵؎سکینتہ الاولیاء(اردوترجمہ)ص۶۶

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

Previous Post Next Post