رجب طيب أردوغان ۔ ایک مجاہد
(الطاف حسین, toba tek singh)
26 فروری 1954 کو پیدا ہونے والا مرد مجاہد کیسے قسطنطنیہ(استنبول)کو دوبارہ فتح کرنے کے لیے سر پر کفن باندھے نکل کھڑا ہو گا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ دشمن ترکی کی فضاؤں کو کسی کی سوچ سے بھی زیادہ پراگندا کر چکا تھا ۔1976 میں ایک سٹوڈنٹ یونین سے شروع ہونے والا سفر اسلامک سالویشن پارٹی کے یوتھ ونگ کا ہیڈ بننے تک پہنچا تھا کہ 1980 کا مارشل لا اسکی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور ساری سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئ۔
1994 میں استنبول (قسطنطنیہ) کا میئر الیکٹ ہوا تو پہلا فوکس عوامی مسائل جس میں ٹریفک، پانی اورماحویاتی آلودگی جیسے مسائل پر کیا۔ خوش اسلوبی سے سارے مسائل نمٹائے اور اسلام پسندوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔
1997 میں ایک اسلامک نظم پڑھنے پر اس مرد مجاہد کو 10 مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
2001 میں ساری اسلامک پارٹیز پر پابندی لگی تو اپنی جماعت بنا کر میدان میں کود پڑا جب ساری عدلیہ اور ملٹری اسلام کے نام سے شدید متنفر اور بغض رکھتی تھی۔
2002 میں اللہ پاک نے اس مرد مجاہد کی پارٹی کو اکثریت دلوائ لیکن عدلیہ نے طیب اردگان پر اسلامی زہن رکھنے کی وجہ سے پابندی لگا رکھی تھی لہزا یہ پارلیمنٹ میں نا آ سکا۔
2003 میں پارلیمنٹ کی ایک قرار داد سے واپسی ممکن ہوئ تو وزیر اعظم بنا لیکن صدارت ابھی بھی سیکولر گروپ کے پاس تھی ۔ بہترین کارکردگی دکھائ اور اللہ پاک نے اسکی مقبولیت اور بھی بڑھا دی ۔
2008 میں اتحادی صدارتی امیدوار کو کامیابی دلوائ۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ غیر اسلامی معاشرے کو سدھارنے کی کچھ پوزیشن میں آ چکا تھا ۔
یہ ایسا معاشرہ تھا جہاں سر پر دوپٹہ یا سکارف لینے کو گناہ سمجھا جاتا تھا اور عدالتیں اس کام پر سخت سزا سناتی تھیں ۔ شراب ہر جگہہ قانونی تھی ۔ مخلوط LGBT پروگرام منعقد ہو رہے تھے ۔ دشمن اپنے حساب سے مسلمانوں سے قسطنطنیہ (استنبول) واپس لے چکا تھا
2007 میں جب صدارتی الیکشن میں آیا تو 3 لاکھ سیکولر مغربی ایجنڈے کے پیروکار اسکے خلاف انقرہ میں اکٹھے ہوئے۔ ہفتوں تک لاکھوں لوگوں کو اسکے خلاف سڑکوں پر نکالا گیا ۔ احتجاج کا ختم نا ہونے والا سلسلہ چل پڑا انہیں ڈر تھا اگر یہ کامیاب ہو گیا تو اتنے سالوں کی محنت بیکار چلی جائے گی۔ اتنی شدید مخالفت کے باوجود اللہ پاک نے اس مرد مجاہد کو کامیابی دلوائ۔
2011 میں شراب کی پروموشن اور مختلف مواقع پر اسکی سیل پر پابندی لگوائی جو کہ عدلیہ نے قائم نا رہنے دی۔
2013 میں سر پر سکارف لینے کی پابندی کو ختم کروایا جسکے خاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ مغرب اپنے قدم ترکی میں جما چکا تھا۔ بے راہ روی عام تھی ۔ LGBT پروگرامز پر پابندی لگانا اور سر پر دوپٹے کی اجازت دینا اور شراب پر پابندی اسکا قصور بن چکے تھے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کے حق میں بولنا اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرنا بھی اپنے اوپر لازم کرنے کی وجہ سے امریکی پٹھو اسلامی ممالک بھی اسکے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
کچھ اسلامک ممالک نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ترکی پر معاشی پابندیاں لگوایئں اور اسکی حکومت کو بدنام کرنے کی بہت کوشش کی جسے اللہ نے ناکام کیا ۔
آج سارا مشرق اور مغرب اس مرد مجاہد کے خلاف ہو چکا ہے ۔ لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ۔ اللہ پاک اس مرد مجاہد کو مزید کامیابیاں دلوائے آمین
یہ حدیث تو پوری ہو چکی لیکن جو کوئ ترکی کے معاشرے کو سمجھتا ہے وہ ضرور جانتا ہے کہ قسطنطنیہ دوبارہ فتح ہو رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے ،،، پس بہتر امیر ،اُس کا امیر ہوگا، اور بہترین وہ لشکر ہوگا۔