seerate hazrat abu bakar siddique maqame Hazrat Abubakar Siddue حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ___ مختصر حیات اور کارنامے

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ___ مختصر حیات اور کارنامے

از:محمد زاہد رضا، دھنباد

متعلم، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور




حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام اور لوگوں سے افضل ہیں، آپ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف کردی۔


  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ کرجانے کے بعد پورے مدینہ میں غم و الم کے سیاہ بادل چھا گیا تھا، ہر شخص کی آنکھوں سے سمندر کا سیلاب جاری تھا،لوگ عالم اضطراب میں غوطہ زن تھے، ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی مشن کو کون اب آگے لے جائے گا؟ کون ہماری رہنمائی کرے گا؟ کون ہمیں راہ راست پر لائے گا؟ ایسے نازک اور مشکل وقت میں صحاباے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متفقہ فیصلہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور مذہب اسلام کے امیر مقرر ہوئے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی مشن کو بحسن و خوبی پاے تکمیل پہنچایا۔


آپ نے اپنے دور خلافت میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو آب زر سے لکھےجانے کے لائق ہے ۔


ذیل میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مختصر حیات اور ان کے روشن کارنامے یکے بعد دیگرے ذکر کیے جارہے ہیں۔


   نسب نامہ۔ عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن تمیم بن مرہ بن کعب یے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب شریف سے جاملتا ہے۔


  کنیت ابو بکر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر ہونے کی درجہ ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔


  عربی زبان میں "البکر” جوان اونٹ کو کہتے ہیں، جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب کے لوگ اسے "ابو بکر”کہتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مال دار تھا، نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لیے آپ بھی "ابو بکر” کے نام سے مشہور ہوگئے۔


  لسان عرب میں ابو کا معنی ہے "والا” اور "بکر”کے معنی "اولیت”کے ہیں، پس ابو بکر کے معنی "اولیت والا”ہے۔ چوں کہ آپ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں، اس لیے آپ کو ابو بکر( اولیت والا) کہا گیا۔ (مراۃ المناجیح، مفتی احمد یار خان نعیمی، ج،8، ص، 347)


                         لقب


  آپ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں، ایک عتیق اور دوسرا صدیق۔


   عتیق۔ آپ اسلام میں سب سے پہلے عتیق سے ملقب کیے گئے، اس تعلق سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام "عبداللہ” تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: انت عتیق من النار (تم جہنم سے آزاد ہو) تب سے آپ کا نام عتیق ہوگیا۔(صحیح ابن حبان، کتاب اخبارہ عن مناقب الصحابۃ، ج،9، ص،6)


  ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے، کہ اچانک میرے والد گرامی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:کہ "جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔” (المعجم الاوسط، من اسمہ الھیثم، الرقم 9384)


   آپ کے لقب "صدیق”کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یا ابا بکر ان الله قد سماک الصدیق، یعنی "اے ابو بکر!  بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام "صدیق”رکھا”۔ ( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف النون، ج،8.ص، 332)


   حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا! مشکرکین مکہ دوڑتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: کہ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انھوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟ 


  آپ نے فرمایا: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟ کفار نے کہا:جی ہاں: آپ. نے فرمایا: "اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں”۔ کفار نے کہا: کیا آپ اس حیران کن بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آگئے؟  


  آپ نے فرمایا:”جی ہاں میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی خبروں کی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں، اور یقیناً وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب خیز بات ہے”۔(المستدر علی الصحیحین، الرقم، 4515)


 پس اس واقعہ کے بعد آپ صدیق کے لقب سے مشہور ہوگئے۔


   ولادت باسعادت۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیدائش عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں ہوئی، آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے جب کہ والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر ہے، آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔


  زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام "عبد الکعبہ” رکھا گیا تھا، بعض روایات کے مطابق آپ کے والدین کے لڑکے زندہ نہیں رہتے تھے، اس لیے انھوں نے نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام "عبد الکعبہ” رکھیں گے اور اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ چناں چہ جب آپ پیدا ہوئے تو انھوں نے نذر کے مطابق آپ کا نام "عبد الکعبہ” رکھا اور جوان ہونے پر آپ عتیق(آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے کیوں کہ آپ نے موت سے رہائی پائی تھی، جو کہ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر "عبداللہ” رکھ دیا تھا۔


   قبل از اسلام۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے، اور ان کی دیانت، راست بازی اور امانت کا خاص شہرہ تھا، اہل مکہ ان کو علم، تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے، اور ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا۔ اگر کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔


  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایام جاہلیت میں بھی شراب سے ویسے ہی نفرت تھی جیسے زمانہ اسلام میں تھی، اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: کہ شراب نوشی میں نقصان آبرو ہے۔


   قبول اسلام۔ حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لیے گئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا جو "بحیرا” نامی راہب کو سنایا اس نے آپ سے پوچھا: کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ فرمایا: مکہ سے، اس نے پھر پوچھا: کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ فرمایا: "قریش” سے، پوچھا کیا کرتے ہو؟  فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا!  اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچا فرما دیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد جانشین۔


  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو پوشیدہ رکھا، کسی کو کچھ نہیں بتایا، اور جب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ نے  یہی واقعہ بطور دلیل حضرت ابو بکر کے سامنے پیش کیا، یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگایا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا! کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں”۔


  اخلاق و عادات۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فطرۃً اخلاق حمیدہ سے متصف تھے، ایام جاہلیت میں عفت، پار سائی، رحم دلی، راست بازی اور دیانت داری ان کے مخصوص اوصاف تھے، فیاضی، مفلسی، و بےنوا کی دستگیری، قرابت داروں کا خیال اور مہمان نوازی، الغرض اس قسم کے تمام محاسن و محامد ان میں پہلے سے موجود تھے، اور جب شرف ایمان نصیب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے ان اوصاف کو اور بھی چمکا دیا۔


                        زہد و تقویٰ


   زہد۔ امارت، دنیا طلبی و جاہ پسندی سے قطعی نفرت تھی، خلافت کا بارگراں بھی محض امت مرحومہ کو تفریق و اختلاف سے محفوظ رکھنے کے لیے اٹھا لیا تھا ورنہ دل سے اس ذمہ داری کے متمنی نہ تھے، انھوں نے بارہا اپنے خطبوں میں اس حقیقت کی تصریح فرما دی تھی اور اعلان کر دیا تھا کہ اگر کوئی اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار ہوجائے تو وہ خوشی کے ساتھ اس بار کو اٹھا سکتے ہیں۔


  تقویٰ۔ ورع و تقویٰ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے معدان اخلاق کا سب سے درخشاں گوہر ہے، ایک دفعہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کسی نامعلوم راستہ سے چلا اور بولا، اس راہ میں ایسے آوارہ آدمی اور بدمعاش رہتے ہیں کہ اس طرف سے گزر نے میں بھی حیا دامن گیر ہوتی ہے، یہ سننا تھا کہ زمین نے پاؤں پکڑ لیے اور آپ یہ کہ کر واپس ہوگئے کہ”میں ایسے شرم ناک راستے سے نہیں جاسکتا”۔


  وفات۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ابھی صرف سوا دو برس ہوئے تھے اور اس قلیل عرصہ میں مدعیان نبوت، مرتدین اور منکرینِ زکات کی سرکوبی کے بعد فتوحات کی ابتدا ہی ہوئی تھی کہ پیام اجل آپہنچا اور بالآخر 63،سال کی عمر شریف پاکر 22،جمادی الآخر سنہ 13ھ میں وفات کر گئے۔


  ازواج و اولاد۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ازواج کی تعداد چار ہے،(ام قتیلہ، ام رومان، حبیبہ بنت خارجہ، سیدہ اسماء بنت عمیس) آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کیے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹی ہوئیں۔


                            کارنامے


     حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے لبریز ہے، خصوصاً انھوں نے سوا دو برس کی قلیل مدت خلافت میں اپنے مساعی جمیلہ کے جو لازوال نقش و نگار چھوڑے وہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سرزمین عرب ایک دفعہ پھر ضلالت و گمراہی کا گہوارہ بن گئی تھی، لیکن جانشین رسول نے اپنی روشن مشعل ہدایت سے تمام عرب کو منور کر دیا، اس لیے حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کو جس نے دوبارہ زندہ کیا اور دنیاے اسلام پر سب سے زیادہ جس کا احسان ہے وہ یہی ذات گرامی ہے۔


  مرتدین کی سرکوبی۔ حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے اور ہر ایک اپنے حلقہ کا بادشاہ بن بیٹھا چناں چہ نعمان بن منذر نے بحرین میں سر اٹھایا، لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا اور اسی طرح  کندہ کے علاقہ میں بہت سے بادشاہ پیدا ہوگئے تھے، چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدعیان نبوت سے فارغ ہونے کے بعد اس طوائف الملوکی کی طرف توجہ کی، حضرت علا بن حضرمی  رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیج کر نعمان بن منذر کا قلع قمع کرایا، اسی طرح  حضرت حذیفہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار سے لقیط بن مالک کو قتل کرا کے سرزمین عمان کو پاک کیا اور حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے ملوک کندہ کی سرکوبی کی۔


   جمع ترتیب قرآن۔ صحیح بخاری میں زید بن ثابت سے روایت ہے کہ جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میری جانب ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ میرے پاس اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں بے شمار حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کے ایک بہت بڑے حصے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اس لیے ان کی راے ہے کہ میں قرآن کریم کو جمع کروں ۔


  قرآن کریم کو جمع کرانا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی وجہ سے رہتی دنیا تک ہر مسلمان کو قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہوگئی، قرآن پاک کو پہلی مرتبہ کتابی شکل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی۔


   تدوین حدیث۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تدوین احادیث میں نہایت احتیاط سے کام لیا اور یہ مجموعہ اپنی بیٹی کے سپرد کرتے ہوئے انھیں اچھے سے رکھنے کا حکم دیا۔ روایت میں  آتا ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے احادیث کا نسخہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیا تو اس رات ان کے ہاں قیام فرمایا اور تمام رات اس خوف سے کروٹیں بدلتے رہے کہ کہیں کسی حدیث کے تحریر کرنے میں کوئی کوتاہی نہ رہ گئی ہو، ام المومنین سے جب آپ کے والد ماجد کی اس کیفیت کے مطابق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے اول معلوم ہوتا تھا کہ شاید والد صاحب سخت بیمار ہیں اور اس بے چینی میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔(سیرت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، ص، 109 تا 111)


   محکمہٴ افتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسائل فقہیہ کی تحقیق و تنقید اور عوام کی سہولت کے خیال سے افتا کا ایک خاص محکمہ قائم کردیا تھا، اور حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جو اپنے علم و اجتہاد کے لحاظ سے تمام صوبہ میں منتخب تھے، اس خدمت پر مامور تھے، ان کے سوا اور کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ تھی۔


  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں اسی پابندی کے ساتھ اس کو قائم رکھا۔


    اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرمائے۔ آمین

Previous Post Next Post