محب اعلی حضرت ،حضرت مولانا عبدالرحمن محبی ،شمالی بہار کی ایک اہم علمی وفکری اور کثیرالجہات شخصیت تھی جن کے کار نامے مختلف سمتوںمیں پھیلے ہوئے ہیں ، انہوں نے کئی محاذوں پر دین وسنیت کی مثالی خدمات انجام دی ہیں ، لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں ،گائوں والوں نے تو ان کو محض ایک امین اور فارسی داں کی حیثیت سے جانا اور اہل خانوادہ نے ان کو فقط ایک صاحب کشف وکرامت بزرگ کی حیثیت سے روشناس کرایا اور کبھی ان کی علمی اور دینی خدمات کو منظر عام پر لانے کی کوئی ٹھوس اور منظم کوشش نہیں کی۔
حضرت محبی اپنے عہد (۱۸۵۶ تا ۱۹۳۱ ء)کی ایک بہت ہی متحرک ،فعال اور بیدار مغز شخصیت کا نام ہے ،
سرکار محبیٰ کی ولادت با سعادت تیرہویں صدی کے نصف آخر ۱۲۷۲ ھ میں صوبہ بہار کے ضلع سیتاپور کے نہایت مشہور ومعروف قصبہ پوکھریرا شریف میں ہوئی۔
آپ کا نام مبارک محمد عبد الرحمٰن ، تخلص محبیٰ ۔کنیت ابو الولی اور لقب سرکار محبیٰ سراج العارفین ، قدوت السالکین وغیرہ ہیں۔
آپ کے والد کا نام منیر الدین اور دادا کا نام ریاض الدین ہے۔
سرکار محبیٰ نے اپنے آبائی درسگاہ میں علوم و فنون حاصل کیا ۔ علوم مشرقیہ کی تحصیل سے فراغت کے بعد اولاً امانت کا کام انجام دیا پھر گاندھی ازم کی اسلام دشمن تحریک نیز وہابیت و دیوبندیت کی عقیدہ سوز چال سے بیزار ہو کر امام اہل سنت امام احمد رضا کی تائید میں بہار میں سرگرم عمل ہوئے۔
سرکار محبیٰ نے آزادی ہند میں بھی حصہ لیا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے شہروں میں کانفرنسیں اور جلوس ہوتے تھے تو شہر مظفرپور کی کانفرنس سرکار محبیٰ کی صدارت و قیادت میں پوکھریرا شریف میں منعقد ہوئی۔ جس کی تفصیلی رپورٹ اسی زمانے میں مرادآباد سے نکلنے والا رسالہ السواد الاعظم میں شائع ہوئی۔
سرکار محبیٰ کو شہزادۂ غو ث اعظم سید داتا نور الحلیم شاہ کاشغری سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔
سرکار محبیٰ علیہ الرحمہ کو مجدد اعظم امام احمد رضا سے تین ملاقاتیں ہوئیں، دو مرتبہ خود سرکار محبیٰ بنفس نفیس بریلی شریف میں حاضر ہو کر ملاقات کی اور تیسری ملاقات جب امام احمد رضا خان جلسۂ ندوہ میں تشریف لائے تھے اور ایک مرتبہ سرکار محبیٰ نے ماہ صفر ۱۳۲۵ ھ میں بڑے پیمانے پر جلسہ کروایا تھا جس میں اس وقت کے اکثر جلیل القدر علما اہل سنت کو پوکھریرا شریف مدعو کیا تھا ۔اس جلسہ میں اعلیٰ حضرت کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نےاپنی مصروفیات کے سب معذرت کرتے ہوئے ان کی جگہ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو ایک خط کے ساتھ روانہ فرمایا تھا ۔ جس میں تحریر تھا کہ
اگر چہ میں اپنی مصروفیت کی بنا پر حاضری سے محروم ہوں مگر حامد رضا کو بھیج رہا ہوں یہ میرے قائم مقام ہیں ان کو حامد رضا نہیں احمد ہی کہا جائے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت)
اس خط کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے اپنا قیمتی جبہ بھی سرکار محبیٰ کی نذر فرمائی تھی۔ جو آج بھی خانقاہ رحمانیہ نوریہ میں موجود ہے ۔
سرکار محبی علمائے اہل سنت میں بے حد نمایاں مقام اور امتیازی شان رکھتے ہیں دین مصطفیٰ کے عظیم مبلغ، درسگاہ کے عمدہ مدرس، درالافتا کے بہترین و مشاق مفتی، قلم و دوات کے بادشاہ، میدان تصوف کے عظیم صوفی۔ میدان مناظرہ کے بے مثال مناظر ، فارسی اور اردو کے عظیم شاعر تھے۔ آپ کے نوک قلم سے کئی کتابیں قرطاس پر اتری جن میں
الحبل القوی الہدایہ الغوی
چہک بلبل ناداں معروف بہ حدیث وہابیاں
،نورالہدی فی ترجمۃ المجتبی
تعلیم تفسیر محبی
نور الطلاب فی العلم الانساب اول
نور الطلاب فی العلم الانساب دوم
غرۃ المحجلین معروف بی نور اسلام
تمسک اقوی باحادیث نبی الانبیا،
اثبات تقلید شرعی،
انفع الشواہدلمن یخرج الوہابیین عن المساجدا
بارہ ماسہ خادم رسول اس کے علاوہ بھی کئی کتب ہیں سرکار محبیٰ کی سب سے اہم اور گراں قدر کارنامہ فارسی زبان میں آپ کا ترجمہ قرآن ہے ،حضرت محبی کو زبان فارسی پر مہارت تامہ حاصل تھی ، اس طرح یہ کہنے میں کوئی مضائقہ اور مبالغہ نہیں کہ حضرت محبی ایک عالم ربانی تھے اور مختلف علو م و فنون پر ان کی گہری نظر تھی ،یہ دیکھتے ہوئے کہ انہوں نے کسی بڑی دینی درسگاہ میں اور اپنے والد کے علاو ہ کسی اور نامور استا دکے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا تھا ، ان کے علم کو سوائے عطائے ربانی کے اور کیا نام دیا جائے،اس لئے حضرت محبی کی عالمانہ اور عارفانہ شخصیت کوثابت کرنے کے لئے ان کے کسی کشف و کرامت کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ،ان کا خدا داد علم و فضل ہی ان کواکابرین امت اور مصلحین ملت کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لئے کافی ہے ۔
اس کے علاوہ شعرو سخن میں بھی آپ کی خدمات نمایاں ہیں۔ضرورت ہے کہ آپ کی ساری کتابوں اوررسائل کو جدید معیار تحقیق وتصنیف کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے۔
تبلیغ دین کی غرض سے ۱۳۱۰ ھ میں مدرسہ نورالہدیٰ کا قیام بھی سرکار محبیٰ کا کارنامہ ہے ۔۔ اس کے علاوہ سرکار محبیٰ نے نور الہدیٰ نامی ایک رسالہ بھی جاری فرمایا تھا۔
ان تما م خوبیوں کا حامل ، اوصاف حمیدہ کا پیکر، دین و سینت کا محافظ ۱۳۵۱ ھ بمطابق ۱۹۳۱ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ ان کا مزار شریف پوکھریرا شریف میں عوام و خواص کے لیے اکتساب فیض کا مرکز ہے۔
Post a Comment