حضرت ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ
ولادت باسعادت: ١٤ شعبان ١٣٣٣ھ بمطابق ١٤، اگست ١٩١٤ء ، مظفر نگر ، یوپی انڈیا
سلسلہ نسب: آپ کا نسب میزبان رسول سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتاہے۔
تعلیم: آپ نے تقریباً چھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اس کے بعد آپ پرائیویٹ درس نظامی کے ساتھ ساتھ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے۔
اعزاز: علیگڑھ سے بی اے اور بی ایس سی کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔
ایم ۔ اے (فلسفہ) میں بھی آپ نے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔
تاریخی ریکارڈ: بی اے (فلسفہ) کے امتحان میں 98% نمبر حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس میں آپ کے ممتحن شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ تھے اور علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے نام ہی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر عظیم فلسفی سے ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے یہ نمبر حاصل کئے ہیں۔اور یہ بھی علم میں رہے کہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ بڑے سخت ممتحن تھے چیکنگ کے معاملے میں کسی قسم کی رورعایت کے قائل نہ تھے۔جس کی تصریح جناب پروفیسر سعید راشد (علیگ) اپنی کتاب تذکرہ اقبال کے صفحہ نمبر 208 پر فرماتے ہیں:
"بڑے سخت ممتحن تھے نمبر غیر معمولی احتیاط سے دیتے تھے۔ اگر کوئی شخص کسی کمزور طالب علم کے نمبربڑھانے کی سفارش کربیٹھتا توانہیں غصہ آجاتا اورڈانٹ دیتے۔ برملاکہہ دیاکرتے تھے کہ نااہل اورنالائق نوجوان میری قوم میں سے نہیں ہیں۔"
تمام تر سخت اورغیر معمولی احتیاط سے کی گئی چیکنگ کے باوجو د ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کا 98٪نمبر حاصل کرنا واقعی ایک بہت بڑا اعزازاورکمال ہے۔اور آپ کا یہ تاریخی ریکارڈ تاحال برقرار ہے۔
اساتذہ کرام: علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنے وقت کے دو عظیم اساتذہ امام الشریعہ علامہ سید سلیمان اشرف اور ڈاکٹر سید ظفر الحسن سے بھرپور استفادہ کیا۔
پی ایچ ڈی: اسلامی اخلاق اورفلسفہ مابعد الطبیعات '' کے موضوع پر آپ نے تحقیقی مقالہ تحریرکیا ۔
عقد نکاح: 1936ء میں آپ کا عقدِ نکاح حضرت شاہ محمدعبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمۃ کی سب سے بڑی صاحبزادی امۃ السبوح سُبحیہ سے ہوا۔
اولاد واحفاد
آپ نے ایک فرزند، ایک بیوہ اور چار صاحب زادیاں یادگار چھوڑیں۔
بیعت وخلافت: علوم باطنی کے حصول کے لیے مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ؒ کے دست اقدس پر بیعت کی اور طویل عرصہ تک مرشد کریم کی صحبت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کیں اور ان کی معیت میں مختلف ممالک کے سفر کیے اور اپنے مرشد کریم کے وصال کے بعد آپ رئیس الخلفاء کے منصب پر فائز ہوئے۔
تبلیغی خدمات: دنیا کے پانچ براعظموں کے کئی ممالک میں آپ کی تبلیغی کوششوں اور دلنواز خطابات سے ہزاروں افراد تائب اورحلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی زیر ادارت دنیا کے مختلف ممالک میں کئی زبانوں میں اسلامی جرائد کا اجراء کیا اور جدید موضوعات پر کئی کتب تصنیف کیں۔ اس کے علاوہ پوری دنیا کا آپ نے تقریباً پانچ دفعہ تبلیغی دورہ فرمایا جس کے نتیجے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ اہل علم حضرات کے علاوہ کئی لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ کا قیام: تبلیغی مشن اور خدمت خلق کوموثر بنانے کے لیے ١٩٥٨ء میں کراچی میں ایک منفرد دینی اور رفاہی ادارہ الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیہ (المرکز الاسلامی) قائم فرمایا اور الوفاق العالمی کے زیر انتظام ١٩٦٤ء میں علیمیہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کا قیام عمل میں آیا۔ ادارے کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جس کے لیے انٹرمیڈیٹ بورڈ آف کراچی اور کراچی یونیورسٹی سے الحاق کیاگیا ہے۔آپ علیہ الرحمہ کے زیرنگرانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے طلبہ و علماء دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ دین کا فریضہ تاحال سرانجام دے رہے ہیں۔
وصال: ١١ جمادی الاولیٰ ١٣٩٣ھ بمطابق ٣ جون ١٩٧٤ء
تعارفِ ثانی
ڈاکٹرعلامہ حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ ، شخصیت جانی پہچانی، جن کی ولادت کی گھڑی سہانی، ہوگئی صدی پرانی، آباء ہندوستانی،ہوئے ہجرت سے پاکستانی،رخ تابانی،چہرے پر شادمانی،کشادہ پیشانی،صورت نورانی،عالم ربانی،محبوب یزدانی،اسلاف کی نشانی،عبدالعلیم ثانی، پیروئے نعمانیؒ، جدامجد کو ملاشرف میزبانی، ملی خیر کی فراوانی،عطاہوئی ہفت زبانی،قلم میں جولانی، تحریر میں روانی،الفاظ مختصرمفہوم طولانی،تقریر میں شعلہ فشانی، تارک خواہش نفسانی،پاکیزہ ان کی جوانی، اقتصاد تھا درمیانی،پاٹی ہرمصیبت بآسانی(تمام خاردار وادیوں،سنگلاخ چٹانوں اورلق ودق صحراؤں کوبآسانی عبور کیا یعنی تمام قسم کے جسمانی، ذہنی، معاشرتی،معاشی، سیاسی،سماجی مصائب وآلام سے بآسانی انتہائی پرسکون،راضی برضا ئے الٰہی رہتے ہوئے گزرے)، چومے قدم کامرانی، آڑے آئی نہ الفتِ مکانی،نہ الجھاسکامکرِ شیطانی،نہ تہذیبِ مغرب نہ فلسفۂ یونانی، گزاری یوں ہی زندگانی،جب بھی آئی پریشانی یا پیش آئی گردش زمانی، کی رب نے نگہبانی،مرشد نے پاسبانی،جب ہوائیں تھی طوفانی،دریامیں تھی طغیانی،آپ نے کی بادبانی۔
سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی (علامہ اقبال)
سن کر زوال( مسلم) کی کہانی ،دیکھ کرخون کی ارزانی،اورمسلمانوں کی حالتِ غلامانی، بہائے اشک مثل ِپانی،دل میں پھر ٹھانی، جان تو ہے آنی جانی ،نہیں دیکھی بے سروسامانی،صبرکی ردا تانی،پہنچے ہرخطہ ریگستانی،جہاں نہ ہوسکے باغبانی،اراضی ہے صرف بارانی،یاپھر خطہ کوہستانی جوعلاقہ ہے برفانی،جہاں نہیں دانہ پانی، ہر طرف وحشت وویرانی(بظاہرافراد کا ٹھاٹیں مارتاہواسمندر ہے لیکن پھربھی قحط الرجال اورویرانی کاسامنا۔یعنی باحوصلہ ،جرأت مند،اہل دل وصفا افراد سے یہ بستیاں ویران ہیں)،آئی نداء وجدانی،پھیلاؤ قول حقانی، فکرہے دل میں جمانی، لوٹ آؤ جانب پیغام قرآنی،یہ تھی حق کی ترجمانی،پھر کی آپ نے جہاں بانی،مستقل وانتھک جانفشانی،جامعہ علیمیہ کے بانی،جس کا درجہ ہے فوقانی،جہاں ملتی ہے تربیت ذہنی اورجسمانی ، ہوتا ہے تزکیۂ روحانی،یوں دورکی علمی ویرانی،یہ کام نہیں تھا انسانی بغیر رحمت ربِّ سبحانی ، تھی اک خلقت دیوانی،افغانی ہویاسوڈانی(افغانی سے سفید (گورے) رنگ کے افراد مراد ہیں اورسیدناحضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی نسبت جلیلہ سے سوڈانی سے بلالی رنگ مراد ہے) ، کی دلوں پر حکمرانی، ملا مقامِ سلطانی،خلق نے کی گل افشانی ،یوں قبول ہوئی آپ کی قربانی،جب ملاپیغام اجل کی رب نے مہربانی ، رحمت کی چادرتانی، پائی حیات جاودانی، بنے ابدی، لاثانی ولافانی۔ہم نے کرائی یاد دہانی ،ان کی برسی ہے منانی۔دل میں یاد ان کی ہے بسانی اور اپنی عاقبت ہے بنانی۔
یہی فرزند آدم ہے جس کے اشک خونیں سے
کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے
غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی(علامہ اقبال )
Post a Comment