Biography Hazrat Abul Hasanaat Muhammad Ashraf Sialvi|تعارف شیخ الحدیث ابو الحسنات محمد اشرف سیالوی

 علم و فضل کی درخشاں تاریخ کا ایک تابندہ باب بند ہوا

حکیم الامت‘ اِمامِ اہل سنت

شیخ الحدیث علامہ محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

(۱۳۵۹ھ/ ۲۰۱۳ء ۔۔۔ ۱۴۳۴ھ/ ۲۰۱۳ء)

از قلم: محمد رضاء الحسن قادری


شیخ الحدیث علامہ اشرف سیالوی مناظرہ کے میدان میں مناظر اعظم مولانا محمد عمر اچھروی کے بعد ان کا نمبر تھا۔ ان کی تحریر میں صدر الافاضل سیّد نعیم الدین مرادآبادی کی علمیت۔۔۔ قلم میں شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی گرفت۔۔۔ شخصیت میں سیّد سلیمان اشرف بہاری کی وجاہت۔۔۔ گفت گو میں غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ کاظمی کی مٹھاس۔۔۔ طبیعت میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کی طراوت۔۔۔ فراست میں حکیم محمد موسیٰ امرت سری کی فرزانگی۔۔۔ بصیرت میں قائد ملت اِسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی کی جھلک۔۔۔ عزم میں مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کی صلابت تھی۔ اُن کی پارسائی سراجِ اہل تقویٰ سیّد ابو البرکات احمد قادری کی مثل اور ذکاوت و فطانت علامۃ الوریٰ شیخ عبد العزیز پرہاروی کا عکس تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں دورِ آخر کے مرحوم علما کی زندہ یادگار تھے اور صحیح طور پر اِمامِ اہل سنت کہلانے کے حق دار تھے۔


حکیم الامت اشرف العلما شیخ الحدیث حضرت علامہ ابو الحسنات محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ دبنگ عالم‘ ثقہ مدرّس‘ صائب الراے نقاد‘ دیدہ ور محقق‘ مُنْصِف مُصَنّف‘ زیرک فقیہ‘ جید مفتی‘ نکتہ دان خطیب‘ سکہ بند مناظر‘ معقولات و منقولات کے اِمامِ جلیل‘ متکلم و فلسفی‘ ادیبِاریب‘ صوفی صافی تھے۔

آپ ۱۳۵۹ھ/ ۱۹۴۰ء کو گاؤں غوثے والا ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام فتح محمد ہے۔ قصبہ بڑانہ میں مڈل تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد کلی طور پر دینی تعلیم کے حصول کی طرف متوجہ ہوگئے۔ درسِ نظامی کے دوران جامعہ محمدی (جھنگ) میں مولانا حافظ محمد شفیق، سیال شریف (سرگودھا) میں مولانا صوفی حامد علی (متوفی ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء) اور مولانا محمد عبد اللہ جھنگوی (متوفی ۱۳۹۳ھ/ ۱۹۷۴ء)، پپلاں (میاں والی) میں مولانا سیّد احمد اور مولانا محمد حسین شوقؔ (متوفی ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۵ء)، مرولہ شریف (سرگودھا) میں حضرت خواجہ غلامِ سدید الدین معظم آبادی (متوفی ۱۴۰۹ھ/ ۱۹۸۹ء)، چھپڑ شریف (سرگودھا) میں حضرت مولانا سلطانِ اعظم قادری (متوفی ۱۳۸۷ھ/ ۱۹۶۷ء)، گولڑہ شریف اور دار العلوم مظہریہ اِمدادیہ بندیال (خوشاب) میں ملک المدرّسین علامہ عطا محمد بندیالوی (متوفی ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۹ء) آپ کے اساتذہ رہے۔ ۱۹۶۱ء میں شیخ القرآن علامہ ابو الحقائق عبد الغفور ہزاروی (متوفی ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دورۂ قرآن کیا۔ اسی سال جامعہ رضویہ (فیصل آباد) میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قادری (متوفی ۱۳۸۲ھ/ ۱۹۶۲ء) سے دورۂ حدیث کیا اور ۱۹۶۲ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ آپ کے ہم درسوں یا اُستاد بھائیوں میں شیخ الحدیث علامہ غلامِ رسول رضوی، مولانا اللہ بخش واں بھچروی، علامہ سیّد محمود احمد رضوی، حضرت پیر سیّد عبد الحق گولڑوی، حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی، صاحب زادہ علامہ محمد عبد الحق بندیالوی، علامہ غلامِ رسول سعیدی، علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری، علامہ علی احمد سندھیلوی، علامہ محمد رشید نقش بندی، علامہ مقصود احمد قادری، مولانا گل احمد عتیقی، قاضی محمد مظفر اِقبال مصطفوی، ڈاکٹر محمد اشرف آصفؔ جلالی، سیّد شاہ حسین گردیزی وغیرہم شامل ہیں۔

شیخ الاسلام و المسلمین حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی (متوفی ۱۴۰۱ھ/ ۱۹۸۱ء) کے دست مبارک پر سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت خواجہ صاحب قبلہ نے وصیت فرمائی کہ اُن کے بعد مشیر حضرت اشرف سیالوی ہوں گے۔

۱۹۶۲ء سے وصال تک پورے پچاس سال ملک کے عظیم الشان مدارس مثلاً دار العلوم ضیاے شمس الاسلام سیال شریف، جامعہ نعیمیہ لاہور، جامعہ نظامیہ لاہور، جامعہ رکن الاسلام حیدر آباد، جامعہ غوثیہ مہریہ منیر الاسلام سرگودھا، دار العلوم شمسیہ رضویہ سلاں والی وغیرہ میں علومِ دینیہ کی تدریس کی۔ آپ کے چشمۂ علم سے ہزاروں تشنگان سیراب ہوئے جن میں شرفِ ملت علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری، شیخ الحدیث قاضی عبد الرزّاق بھترالوی، محقق العصر مفتی محمد خان قادری، اُستاذ المجوّدین قاری محمد یوسف سیالوی، صاحب زادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر نقش بندی، مناظر اِسلام علامہ سعید احمد اسد، علامہ مفتی محمد رفیق حسنی، ڈاکٹر خالق دادملک (صدرِ شعبۂ عربی پنجاب یونی ورسٹی)، ڈاکٹر محمد شریف سیالوی، پروفیسر دوست محمد شاکر، ڈاکٹر خورشید حسین خاور (گورڈن کالج راول پنڈی)، مولانا نذیر احمد سیالوی، علامہ محمد اکرم الازہری، علامہ سہیل احمد سیالوی، علامہ حافظ فریاد علی قادری وغیرہ بڑے فضلا شامل ہیں۔ حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری بھی آپ سے علمی اِستفادہ کرتے تھے۔ تین بیٹے بھی آپ کے علمی وارث ہیں؛ صاحب زادہ غلامِ نصیر الدین سیالوی، صاحب زادہ بشیر الدین سیالوی، صاحب زادہ فرید الدین سیالوی۔

درجن سے زائد آپ نے کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’کوثر الخیرات لسید السادات‘‘ (تفسیر سورۂ کوثر)، ’’تحفۂ حسینیہ‘‘، ’’متعہ اور اِسلام‘‘، ’’جلاء الصدور فی سماع اہل القبور‘‘، ’’گلشن توحید و رسالت‘‘، ’’ہدایۃ المتذبذب الحیران‘‘، ’’اِزالۃ الریب‘‘، ’’تحقیقات‘‘، ’’تنویر الابصار بنور نبی المختار‘‘، ’’انبیاے سابقین اور بشاراتِ سیّد المرسلین‘‘، ’’دی ہولی بائبل اور شانِ انبیا میں گستاخیاں‘‘ مشہور ہیں۔ بلاشک آپ کی تصانیف میں علوم و عرفان اور تحقیقات و اِجتہادات کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تراجم میں ’’مجموعہ صلوات الرسول‘‘ (خواجہ عبد الرحمن چھوہروی)، ’’الوفا‘‘ (ابن جوزی)، ’’شواہد الحق‘‘ (علامہ نبہانی)، ’’سیرتِ حلبیہ‘‘ (علی حلبی) ہیں۔

۲۷؍ اگست ۱۹۷۹ء کے ’’مناظرۂ جھنگ‘‘ میں مولانا حق نواز جھنگوی سے سات گھنٹے کی طویل ترین بحث کے بعد علامہ اشرف سیالوی کی فتح آپ کے تاریخی و تجدیدی کارناموں میں سے ہے۔ اِس مناظرہ میں طرفین سے صدور مولانا منظور احمد چنیوٹی اور علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی تھے، جب کہ منصفین پروفیسر تقی الدین انجم، محمد منظور خان ایڈووکیٹ اور ماسٹر غلام باری تھے جنھوں نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بالاتفاق علامہ سیالوی کے دلائل کو وزنی قرار دے کر ان کے حق میں فیصلہ جاری کر دیا۔

آپ نے تحصیل سلاں والی ضلع سرگودھا میں تین مدارس قائم کیے۔ نصف صدی مسند تدریس پر آپ کی شاہی رہی جس کی بہ دولت بیسیوں نام ور مدرّس اور سینکڑوں علماء و فضلا تیار ہوئے۔ آپ نے ہزاروں جلسوں، کانفرنسوں، محافل اور تقریبات میں خطابات کیے جن سے لاکھوں کروڑوں سامعین معارف و حقائق کے خزانے سمیٹتے رہے۔

شیخ الحدیث علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ اُن کے وجود باجود کو اِن خصوصیات کا جامع دیکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’وہ موجودہ دور میں اُمتِ مسلمہ کے لیے قدرتِ ربانی کا عظیم عطیہ ہیں۔ وہ بہ یک وقت متعدد اوصافِ جمیلہ کے حامل ہیں؛ وہ عالم ربانی بھی ہیں اور عبقری محقق بھی، مد مقابل پر چھا جانے والے مناظر بھی ہیں اور دلائل کی فراوانی سے سامعین کے دل و دماغ کو متاثر کرنے والے خطیب بھی، وہ کتبِ درسیہ کا گہرا اِدراک رکھنے والے مدرّس بھی ہیں اور کثیر التصانیف مصنف بھی، وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں ان کا قلم سیال کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا، زبانِ عربی پر اِس قدر عبور رکھتے ہیں کہ اُردو سے زیادہ روانی کے ساتھ عربی میں لکھتے ہیں۔‘‘ (عظمتوں کے پاسبان ص ۲۵۰)

۷۵ سال عمر پاکر چند دن کی بیماری کے بعد ۱۲ رجب ۱۴۳۴ھ/ ۲۳ مئی ۲۰۱۳ء جمعرات کو صبح ساڑھے سات بجے وصال فرماگئے۔ نمازِ جنازہ بعد العصر سلاں والی اسٹیشن کے بالمقابل پارک میں ادا کی گئی۔ حسبِ وصیت علامہ مقصود احمد قادری (سابق خطیب مسجد داتا دربار لاہور) نے اِمامت کرائی۔ شرکا میں سینکڑوں علما اور ہزاروں عوام تھے۔ صاحب زادہ پیر امین الحسنات شاہ، صاحب زادہ محمد معظم الحق محمودی، علامہ محمد شریف رضوی، مولانا سعید احمد اسد، حضرت مولانا محمد اِبراہیم سیالوی، قاضی محمد مظفر اقبال مصطفوی، مولانا پیر محمد چشتی، مولانا رحمت اللہ سیالوی، مولانا محمد احمد بصیر پوری، صاحب زادہ محمد محب اللہ نوری، صاحب زادہ ابو الحسن شاہ، مولانا حافظ محمد خان نوری، پیر سائیں غلامِ رسول قاسمی، مفتی محمد فضل رسول سیالوی، مفتی محمد اِقبال مصطفوی، مولانا غلام نصیر الدین چشتی، مفتی غلامِ حسن قادری، ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، جناب صبغت اللہ قادری، مولانا جان محمد مصطفائی اور دعوتِ اِسلامی کی کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔

قل خوانی کی تقریب ۱۴ رجب/ ۲۵ مئی کو سلاں والی میں منعقد ہوئی۔ علاوہ کثیر علما کے مفتی سعید قمر صاحب، شیخ الحدیث مولانا سیّد محمد اِقبال شاہ گیلانی، مفتی شیر خان اور سیال شریف کے صاحب زادگان نے شرکت کی اور سوگ واران سے تعزیت کی۔

ہمارے عزیز دوست مولانا احمد رضا عطاری (شیخوپورہ) نے اِظہارِ جذبات کا یہ انداز اپنایا:

’’روزانہ شام سے پہلے ایک سورج غروب ہوتا دیکھا جاتا ہے، لیکن ۲۳ مئی کو سلاں والی میں دو سورج غروب ہوئے؛ ایک آسمانِ دُنیا کا سورج، دوسرا آسمانِ علم کا سورج.... جھکی ہوئی گردن، نیچی نظریں، لباس اور گفت گو سے ٹپکتی ہوئی سادگی و عاجزی؛ میری نظروں میں اُن کا مقدس سراپا اُترا جارہا ہے اور یقین نہیں آتا کہ اُس دن ہم ایسی باکمال شخصیت کے جنازے کی نیت باندھے کھڑے تھے۔ اُنھوں نے مظلومیت کی زندگی بسر کی اور مَیں نے دیکھا کہ وہ وقتِ رُخصت بھی اپنوں کے ہاتھوں مظلوم گئے کہ اُن کے مخالفوں کے دلوں میں اُن کی وفات پر بھی کوئی نرمی نہیں آئی۔‘‘

اگر مَیں اپنے اِحساسات کو الفاظ کا پہناوا دوں تو وہ میرے خیالات کی غمازی کرتے یوں دکھائی پڑیں گے کہ..... شیخ الحدیث علامہ اشرف سیالوی کا دنیا سے چلے جانا اہل سنت کے لیے اُستاذ الکل علامہ عطا محمد بندیالوی کے وصال کے بعد بڑا سانحہ ہے۔ مناظرہ کے میدان میں مناظر اعظم مولانا محمد عمر اچھروی کے بعد ان کا نمبر تھا۔ ان کی تحریر میں صدر الافاضل سیّد نعیم الدین مرادآبادی کی علمیت۔۔۔ قلم میں شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی گرفت۔۔۔ شخصیت میں سیّد سلیمان اشرف بہاری کی وجاہت۔۔۔ گفت گو میں غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ کاظمی کی مٹھاس۔۔۔ طبیعت میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کی طراوت۔۔۔ فراست میں حکیم محمد موسیٰ امرت سری کی فرزانگی۔۔۔ بصیرت میں قائد ملت اِسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی کی جھلک۔۔۔ عزم میں مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کی صلابت تھی۔ اُن کی پارسائی سراجِ اہل تقویٰ سیّد ابو البرکات احمد قادری کی مثل اور ذکاوت و فطانت علامۃ الوریٰ شیخ عبد العزیز پرہاروی کا عکس تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں دورِ آخر کے مرحوم علما کی زندہ یادگار تھے اور صحیح طور پر اِمامِ اہل سنت کہلانے کے حق دار تھے۔

خادم العلماء: غلام مرتضٰی مظہری۔00923022576336 


Post a Comment

Previous Post Next Post