Biography Hazrat Makhdoom Shaikh Ahmad Abdul Haq Rudaulwi تعارف ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺭﺩﻭﻟﻮﯼ

 

 حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ



غواص بحر معانی خورشید ولایت، غرق شہودِ ذات مطلق قطب ابدال مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ متلاشیان راہ حق کے رہنماہیں۔ آپ شانِ عظیم، حال قوی، ہمت بلند اور نفس  مطمئنہ کے حامل تھے۔ قہر سے ہو یا لطف سے آپکے خیال میں جو کچھ گذرتا تھا فوراً ہوجاتا تھا۔ آپ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کے محبوب ترین مرید وخلیفہ تھے۔ آپ نے اس قدر سخت ریاضات و مجاہدات کیے اور تجرید و تفرید میں ایسا مضبوط قدم رکھا کہ طبقۂ صوفیاء میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ حتیٰ کہ آپ چھ  ماہ قبر میں بند رہ کر یاد حق میں مشغول رہے۔ اور حق تعالیٰ کی طرف سے  عبدالحق کا خطاب سے سرفراز ہو کر دوبارہ زندگی میں آئے۔ اور براہِ راست بطریق الہام ہدایت خلق پر مامور ہوئے۔ اسکے بعد آپ ہر وقت مشاہدۂ جمال و یاد الٰہی میں مستغرق اور محفوظ رہتے تھے۔ اور مراقبہ سے  سر نہیں اٹھاتے تھے۔صرف اور صرف پنجگانہ نماز، تہجد وغیرہ کے یا مریدین کی تربیت  اور مخلص دوستوں کی ملاقات کے وقت ہی سر اٹھاتے تھے۔ آپ کے یہاں دستور یہ تھا کہ جب نماز کا وقت آتا یا کوئی دوست ملنے کیلئے آتا تو خادم تین مرتبہ صدا حق حق حق بآواز بلند کہتے تھے۔ اس پر آپ آنکھ کھول کر وجہ دریافت فرماتے تھے۔ کہتے ہیں پہلی دفعہ حق کی آواز سن کر آپ عالم لاہوت سے عالمِ جبروت میں آتے، دوسری آواز سنکر عالمِ جبروت سے عالمِ ملکوت میں آتے اور تیسری آواز سنکر آپ عالم ملکوت سے عالمِ ناسوت(دنیا) کی طرف آتے تھے۔ ضروری کام کے بعد آپ پھرخدا کی میں گم ہوجاتے۔

 غرضیکہ حضرت کو یادخدا میں اس قدر استغراق حاصل تھا کہ جب آپ نماز جمعہ یا دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوتے تھے تو خادم آگے چلتے ہوئے حق حق حق کی آواز دیتا تھا۔ اور آپ اسکے پیچھے چلتے جاتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے خادم خاموش ہوجاتا تو آپ متحیر ہوکر کھڑے ہوجاتے اور  دائیں بائیں آگے پیچھے کی خبر نہ ہوتی تھی۔

سلسلۂ نسب

حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق  کا سلسلۂ نسب چند واسطوں سے امیر االمومنین حضرت عمرپر منتہیٰ ہوتا ہے۔ حضرت اقدس کے دادا شیخ داؤد قدس سرہٗ  ظالم ہلا کو خان کے حملہ کے دوران خاندان کے چند افراد کے ساتھ بچ کر بلخ پہنچے اور بلخ سے ہندوستان آئے۔ یہ سلطان علاؤ الدین خلجی کا زمانہ تھا۔سلطان علاؤ الدین خلجی نےافرادخانہ کی معاش کیلئے حکومت صوبہ اودھ میں تنخواہ مقرر کردی۔ چنانچہ آپ نے اودھ کے قریب قصبہ ردولی میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت شیخ داؤد بڑے عظیم القدر انسان تھے اور حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کے مرید تھے۔حضرت داؤدکی روحانی تربیت بھی حضرت چراغ دہلوی نے فرمائی۔ لیکن شیخ داؤد نے اپنےجمال ولایت کو ظاہری شان و شوکت میں پوشیدہ رکھتے تھے۔ آپکا مزار مبارک قصبہ ردولی کے جنوب کی طرف نہایت غریبانہ انداز میں واقع ہے اور اب تک عوام کوظاہر نہیں ہوا۔

حضرت شیخ داؤد  کے ایک فرزند تھے جنکا نام اسم گرامی عمر تھا۔ حضرت شیخ عمر بڑے بابرکت اور مشائخ سیرت  اور خوب صورت انسان تھے جو بڑے متقی و پرہیزگار تھے۔ آپکا مزار اپنے والد کے مزار کے قریب ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

حضرت شیخ عمر کے دو فرزند تھے۔ ایک شیخ تقی الدین جو بڑے عالم فاضل تھے اور ردولی سے ترک سکونت کر کے دہلی میں مقیم ہوگئے تھے۔ دوسرے قطب ولایت معدن صدق و ہدایت حضرت شیخ احمد عبدالحق ہیں جنکے کمالات کی شہرت مشرق سے مغرب تک پہنچ گئی۔

والدہ  کی محبت پر حق کو ترجیح

حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگنوہی اپنی کتاب انوار العیون میں فرماتےہیں کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ سات سال کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ رات میںاٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ ایک دن والدہ صاحب نے شفقت مادری کی وجہ سے فرمایا کہ بابا احمد تمہارے والد بھی اللہ کے ولی تھے۔ لیکن ابھی تک خدا تعالیٰ کے فرائض بھی تم پر لازم نہیں ہوئے اور تم بالغ ہونے سےپہلے نوافل میں اتنی محنت شروع کردی ہے۔ چونکہ آپ محبت الٰہی میں بے اختیار تھے اوریاد الٰہی آپ کی خوراک و روح و جسم کی غذا تھی۔ والدہ کی اس بات کوسن کرسخت کوفت ہوئی اور جواب دیا کہ یہ ماں نہیں ہے راہِ زن ہے جو خودتو یاد الٰہی و عبادت کر رہی ہے لیکن مجھے  نماز و عبادت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر کیا تھا غایت شوق واشتیاق میں مست ہوکر آپ گھر سے باہر نکلے اور سفر پر روانہ ہوگئے۔

دہلی میں غلط تعلیم پر آپکو وحشت

پھر آپ توکل وتجرید کی بدولت طویل سفر طے کر کے اپنے بھائی شیخ تقی الدین  کے پاس دہلی پہنچ گئے۔ شیخ تقی الدین ایک دانشور تھے۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کا خیال تھا کہ شاید بھائی علم معرفت کی تعلیم دلائینگے لیکن معاملہ اسکےخلاف نکلا۔ انہوں نے آپکے لیے ظاہری تعلیم کا انتظام کردیا۔ لیکن آپکو باطنی ورحانی تعلیم کا شوق دامنگیر تھا۔ اس وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان صحبت راس نہ آئی۔ ایک دن شیخ تقی الدین پریشان ہوکر آپکو علمائے دہلی کے پاس لے گئے اس خیال سے کہ آپکو راہِ راست پر لائیں۔ علماء نے اپنی سمجھ کے مطابق آپکو ظاہری علم کی تعلیم شروع کردی۔ جب استاد نے علم صرف کی تعلیم کےوقت آپ کو ضَرَبَ ضَرَبَا کی تعلیم دی تو آپ نے فرمایا کہ طلب حق کا ضرب ضرباکا کیا تعلق ہے۔   ضرب ضربا (یعنی مرنے اور مارے جانے) ۔

مجھےتو آپ ایسا علم بتائیں کہ جس سے خدا کی معرفت حاصل ہو کیونکہ مجھے اسکے سوا اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ اس سےعلماء حیران ہوئے اور آپ کی طلب صادق پر رقت کا اظہار کرتے ہوئے اور اسے بہانہ بناکر آپ کو رخصت کردیا۔نیز انہوں نے شیخ تقی الدین کو مشورہ دیا کہ چونکہ بچے کا معاملہ کچھ اور ہے اسے اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ہم اور آپ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتے۔

بنگال کا سفر اور حضرت شیخ نور قطب عالم  سے ملاقات

کچھ عرصے کے بعد حضرت شیخ احمد عبد الحق بنگال کی طرف تشریف لے گئے۔  پنڈ وہ میں شیخ نور قطب عالم مسند ارشاد پر جلوہ افروز تھے۔ جب آپ  پنڈ وہ پہنچے تو اپنے آپ کو چھپانے کے لیے کو توال کےمکان پر قیام فرمایا۔ ایک دن نہر کے کنارے خوش کھڑے تھے کہ دل میں حضرت شیخ نور قطب عالم  کےملنے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن چونکہ مشائخ کی خدمت میں خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں آپ نے نہر کے کنارے سے کچھ سبزہ توڑا اور حضرت شیخ نور قطب عالم کی خدمت میں پیش کیا اور فرمایا کہ‘‘مابا صفا است’’ حضرت شیخ نے بھی جواب دیا کہ ‘‘مابا عران است’’۔ اسکےبعد دونوں بزرگوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی اور ایک ساعت خاموش بیٹھے رہے۔ اس سے حضرت شیخ عبد الحق قدرے افسردہ خاطر ہوکر باہر چلے گئے۔ اور غایت سوزو درد اور عشق و محبت اور طلب حق میں بے قرار ہوکر اپنے آپ کو کہنے لگے کہ اے احمد تونے ساری عمر برباد کردی ہے۔ تونے سارے جہان میں سفر کیا ہے اور طلب حق میں جگہ جگہ کی خاک چھانی ہے لیکن پھر بھی مقصود نہیں پہنچے اورمحبان حق میں سےکوئی شخص ایسا نہیں ملا جو محبوب حقیقی کا پتہ بتائے۔ تونے بے جاوقت  صرف کیا ہے۔ اور نفس پروری کرتے رہے ہو۔ اب اپنے وطن واپس جاؤ اور اس بات سے فارغ ہوکر بیٹھ جاؤ۔ سبحان اللہ!  کس قدر بلند ہمتی ہے کہ باوجود یکہ اپنے شیخ حضرت شیخ جلال الدین پانی پت قدس سرہٗ سے دولت فیض بخش حاصل کر کے بادۂ توحید نوش کر چکےہیں اور سلوک  کے تمام منازل و مقامات طے  کر چکےہیں لیکن پھر بھی حوصلہ اس قدر بلند ہے اور طلب اس قدر تیز ہے کہ ہر لحظ ھل من مزید کےن عرے مار رہے ہیں اور کسی مقام پر اکتفا نہیں کرتے ۔

ردولی شریف میں ورود

آخر وہاں سے روانہ ہوکر آپ اپنے وطن ردولی شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ جب راستے مین شہر بہار  میں پہنچے تو وہاں دو مجذوبان صاحب ولایت سے ملاقات ہوئی۔ ایک کو سلطان علاؤ الدین کہتے تھے اور وہ برہنہ رہتے تھے اور دوسرے لنگوٹی باندھتے تھے۔ پہلے سلطان علاؤ الدین سے ملاقات ہوئی۔ انکے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ سامنے آتے ہی وہ حضرت اقدس سے بغلگیر ہوئے اور کہنے لگے ک ہ بابا احمد معلوم نہیں لوگ دیگ پکا کر کھانےکے وقت اُسے کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مجذوب نے بھی آپ سے بغلگیر ہوکر یہی بات کہی۔ یہ سنکر آپکو خیال آیا کہ مردان حق تو مجھے بشار دے رہے ہیں کہ مقصود مطلق کو پہنچ  جاؤگے۔ اس سے آپ کی آتش عشق میں اضافہ ہوا اور وہاں سے روانہ ہوکر شہر اودھ میں پہنچے اور دل میں کہنے لگے کہ اے احمد تجھے بزرگان وقت سے مطلوب مطلق کا نشان نہیں مِلا۔ شاید اہل قبور  کی طرف سے کوئی آگاہی مل جائے۔ چنانچہ آپ کئی سال شہر شہر اور دشت و بیا بان کی سیر کرتے رہے اور بیقراری کی حالت میں آہ و نالہ کرتے ہوئے یا ہادی کا مسلسل ورد کرتے رہے۔


آپکا زندہ درگور ہونا

کچھ عرصے کے بعد جب آپکو اہل قبور سے نسبت پیدا ہوگئی اور مراد حاصل ہوئی تو دل میں کہنے لگے کہ احمد اہل قبور کی صحبت کیلئے ہم جنس ہونا ضروری ہے اس لیے تو بھی مرجا اور مردوں کی طرح قبر میں دفن ہوجا۔ چنانچہ غایت شوق میں آپ نے اپنے ہاتھ سے قبر تیار کی اور اسکے اندر جاکر خادموں سے فرمایا کہ اسے بند کردو۔ چنانچہ آپ قبر میں دفن ہوکر تمام ضروریات سے فارغ ہوئے۔ حق کے ساتھ مشغول ہوگئے۔ آپ چھ ماہ تک قبر میں بند رہے اور عالم ِ باطن سے آپ  پر جس قدر واردت اور تجلیات  کا نزول ہوتا تھا آپ اسکی طرف التفات نہیں فرماتے تھے۔ آخر رفتہ آپ ایک سمندر کے کنارے پہنچے جو کیفیت اور کمیت سے پاک تھا۔ آواز آئی ۔اچھی طرح سمجھ لو کہ میری وہ شان ہے کہ میرے سوا کوئی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مژدۂ جانفزا تھا جو آپ نے بے حرف، بے صورت اور بےزبان سنا  اور ظاہری موت سے آپ کو مطلوب مطلق تک رسائی حاصل ہوگئی یہ وہ راز ہے جو قلم سے بیان نہیں ہوسکتا۔ فھم من فھم۔


چھ ماہ بعد قبر کا خود بخود کھُلنا

چھ ماہ کے بعد قبر خود بخود کھل گئی اور جس قدر جان کہ بچ چکی تھی خادموں نےلحاف میں لیکر باہر نکالا۔ اس سے سارے جہاں میں شور برپا ہوا اور چاروں طرف سے لوگ کھچ کھچ کر شرف نیاز مندی حاصل کرنے لگے۔ اسکے بعد آپ مسندِ رشد اورشاد پر متمکن ہوکر تربیت مریدین میں مشغول ہوگئے۔ بگڑے ہوؤں کو راہِ ہدایت دکھانے لگے۔ چنانچہ آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہو کربہت لوگ درجہ کمال کو پہنچے۔


شیخ بختیار 

آپ کے مریدن اور خادمان خاص میں سے ایک شیخ بختیار  تھے جو آپ کے محرم رازِ اور واقف احوال تھے اور سفر وحضر میں آپ سے جدا نہیں ہوتے تھے اور آپکے مقرب اور نعمت  پر وردہ تھے۔ شروع میں وہ ایک سود اگر کے غلام تھے۔ جو اہرات کی تجارت کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ سود اگر کے ساتھ تجارت کی غرج سے قصبۂ ردولی آئے۔ جب انکی نظر حضرت شیخ کے جمال پر پڑی تو معتقد ہوگئے اور صبح وشام حاضر خدمت ہوکر سامنے کھڑے رہتے تھے۔ چھ ماہ تک  یہی حالت رہی۔ لیکن حضرت شیخ نے انکی طرف ذرہ بھر التفات نہ فرمایا اور یہ بھی نہ پوچھا کہ کون ہو، اور کہاں سے آئے ہو اور کس کام کیلئے آئے ہو۔ ایک دن شیخ بختیار کے دل میں خیال  آیا کہ آپ ہیں تو درویش کامل اور واصل بحق  لیکن بے نیاز بہت ہیں۔ ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ شیخ بختیار کے دل کے خیال سے آگاہ ہوکر آپ نے فوراً فرمایا کہ تم کون ہو۔ یہ سنتے ہی شیخ بختیار ایکد ریائے بے کنار میں جاپڑے اور اپنے آپ سے بے خبر ہوگئے۔ آپکی نگاہ زمین وآسمان کو پار کر گئی اور مدہوشی کےعالم میں باہر چلے گئے۔ اور اپنے آپ کو بہار کے جنگل میں پایا۔

ایک دن حضرت شیخ احمد عبد الحق قدس سرہٗ نے فرمایا کہ بختیار میں چاہتا ہوں کہ خانقاہ کے صحن میں ایک کنواں تیار کیا جائے۔ یہ سنتے ہی شیخ بختیار نے پھاوڑہ اٹھایا اور کھودنا شروع کردیا۔ جب  پانی نکل آیا تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ بختیا ر باہر سے مٹی لاکر اس کنویں کو بھردو اور کنویں کی مٹی سے ایک چبوترہ  تیار کرلو۔ شیخ بختیار نے باہر سے مٹی لاکر اس کونیں کو پر کردیا اور کنویں  کی مٹی سے چبوترہ بنادیا  اور یہ بھی نہ پوچھا کہ حضور کنواں کس لیے کھدوایا تھا اور  کس لیے بند کرایا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

 آپ کے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا  نام عزیز رکھا گیا، پیدائش کے وقت ہی سے اس بچہ کی زبان سے حق حق کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، اس کے بعد اس بچہ کی بہت سی کرامت کا ظہور ہوا جس کی وجہ سے لوگوں میں اس کی بڑی شہرت ہوگئی، ایک مرتبہ آپ نے لوگوں کا یہ شور وغیرہ سنا تو فرمایا کہ ہمارے گھر کے متعلق لوگوں کا ایسی ایسی باتیں کرنا مجھے پسند نہیں اس کے  بعد گھر نے نکل کر قبرستان میں گئے اور ایک جگہ پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ عزیز کی قبر یہاں ہوگی چنانچہ اس کے دوتین روز بعدہی آپ کے لڑکے کی وفات ہوگئی۔

 آپ بسااوقات یہ فرمایا کرتے تھےکہ منصور لڑکا تھا ضبط نہ کرسکا اور اللہ کے اَسرار کو فاش کر بیٹھا، بعض لوگ اس وقت ایسے بھی موجود ہیں جو سمندر پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔

 آپ مسجد میں اول وقت جاتے اور اپنے ہاتھ سے مسجد میں جھاڑو دیتے، چالیس برس تک آپ نے جامع مسجد میں جھاڑودی مگر  مسجد کا راستہ پہچان نہ سکے مسجد جاتے وقت آپ کے ساتھ مریدوں کا ہجوم ہوتا تھا اور حق حق کہتے جاتے اور جدھر وہ چلتے آپ بھی ان کے ہمرا چلتے رہتے اس لیے کہ عِشق الٰہی کی مستی میں آپ کی آنکھیں ہر وقت بندرہتی تھیں، آپ اور آپ کے مرید ’’حق‘‘ کا ذکر کیا کرتے تھے، آپ کے سلسلہ سے منسلک تمام لوگ السلام علیکم کی بجائے حق حق کہا کرتے تھے، اسی طرح چھینکنے والے کے جواب میں بھی حق حق کہتے تھے اور خط و کتابت کرتے وقت خط کے اوپر تین بار لفظ حق لکھتے تھے اسی طرح دنیا کے تمام امور انجام دیتے وقت اور نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد بھی تین بار حق کہتے، شاید اس بات سے کسی کو یہ خلجان واقع ہو کہ یہ بات تو سُنت کے خلاف ہے تو اس کے بارے میں فرمایاکہ اب اس رسم کو سُنت کے خلاف  ہونے کی وجہ سے چھوڑ دو، البتہ خطوط کے سرنامہ پر لفظ حق لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

آپ کے فرزند حضرت شیخ عارف احمد عبدالحق اور آپ کے  پوتے حضرت شیخ محمد عارف احمد عبد الحق رحمہم الہ

آپ کے معاصرین میں حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، حضرت نور قطب عالم پنڈوی، حضرت شیخ صفی ردولوی، حضرت بندہ نواز گیسو دراز، حضرت شیخ فتح اللہ اودھی علیہم الرحمہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکرہیں.

، آپ سلطان ابراہیم مشرقی کے دور میں ۱۵ جمادی الثانی ۸۳۷ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ آپ کا مزار مقدس سرزمین ردولی شریف میں آج بھی منبع فیوض و برکات ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post