پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی رحمۃ اللّٰه علیہ
*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* محمد مسعود احمد۔
*کنیت:* ابوالمسرور۔
*القاب:* مسعودِ ملت، محقق و مجددِ اہلسنت، ماہرِ رضویات و ناشرِ مجددیات بہقیِ وقت وغیرہ۔
*سلسلۂ نسب اسطرح ہے:* پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی بن حضرت شاہ مفتی محمد مظہراللہ دہلوی بن شاہ محمد سعید بن شاہ مفتی محمد مسعود محدث دہلوی
(علیہم الرحمۃ)
والد ماجد کی جانب سے سلسلۂ نسب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، اور والدہ محترمہ کی جانب سے سلسلۂ نسب سرورِ عالم ﷺ تک منتہی ہوتا ہے۔
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1348ھ، مطابق 1930ء کو "دہلی" میں ہوئی۔ آپ کی سعادت مندی کی بشارت آپ کے نانا محترم شیرِ اسلام سید واحد علی شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ نے بایں الفاظ ارشاد فرمائی تھی:
"اگر دین کا چراغ روشن ہوگا تو میری صاحبزادی سے ہوگا"۔
*تحصیلِ علم:* آپ نے ایک علمی خاندان میں آنکھ کھولی تھی، جہاں ہرطرف قال اللہ، وقال رسول ﷺ کی صدائیں بلند ہوتیں تھیں۔ قرآنِ کریم اور عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔ 1940ء میں مدرسہ عالیہ جامع مسجد فتح پوری دہلی میں داخلہ لیا اور باقاعدہ علومِ عربیہ کی تحصیل شروع کی۔ 1945ء میں آپ نے اورینٹل کالج دہلی میں داخل ہوکر دو سال فارسی زبان و ادب کی تحصیل کی۔ 1948ء میں آپ نے مشرقی پنجاب یونیورسٹی سے فاضل فارسی، فاضل اردو، فاضل درسِ نظامی، کا امتحان پاس کیا۔ سندھ یونیورسٹی سے ایم اے ،اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔الحمدللہ آپ نےتمام امتحانات امتیازی پوزیشن سے حاصل کیے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی دن کو فی سبیل اللہ تدریس کرتے تھے، اور رات کو خود پڑھتے تھے۔
*بیعت و خلافت:* سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اپنے والدِ گرامی مفتیِ اعظم حضرت شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی سے بیعت و خلافت۔ مفتی محمد محمود شاہ الوری سے خلافت و اجازت، اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں پیر زین العابدین شاہ گیلانی سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔(علیہم الرحمۃ اولرضوان)
*سیرت و خصائص:* مسعودِ ملت، امینِ اہلِ سنت، مجددِ ملت، پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت، سراپا عظمت، پیکرِ علم و وجاہت، عاملِ سنت عاشقِ مصطفیٰ ﷺ، محبِ مجدد، و امام احمد رضا، فخر المحققین، ماہرِ رضویات، ناشرِ مجددیات حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت مسعودِ ملت علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے بہت سے موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے، لیکن آپ کی مجدِّدَین (حضرت مجددالفِ ثانی، اور مجدد امام احمد رضا خاں علیہما لرحمہ) پر جو خدمات ہیں ان کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائیگا۔ بالخصوص اعلی حضرت امام احمد رضا خان نوراللہ مرقدہ کی عظیم شخصیت، اور ان کے دینی، تجدیدی، اصلاحی، علمی، ادبی، سماجی، سیاسی، قومی و ملی، و تقدیسی، کارناموں کو اجاگر کر کے ہند و سندھ سے لے کر تمام عالمِ اسلام، اور یورپ آسٹریلیا و افریقہ و امریکہ،کے کلیات وجامعات اور لائبریریوں میں اس طرح پہنچا دیا کہ آج دنیا امام احمدرضا خان کی عبقری شخصیت اور ان کے عظیم علمی کارناموں سے روشناس ہو رہی ہے۔
ایک دفعہ ایک غی رمقلد مولوی نے کہا تھا! " کہ ہم امام احمد رضا بریلوی کو دفن کر چکے تھے۔ لیکن ایک پروفیسر نے انہیں قبر سے نکال کر پھر زندہ کر دیا ہے، اب ہمیں مزید پچاس سال کام کرنا پڑے گا"۔
*(تذکار مسعود ملت:219)*
شرفِ ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ان کی تحریر میں متانت اور شائستگی ہے۔ معقولیت اور تسلسل ہے، دریاء کی روانی اور سمندر کی گہرائی ہے۔ شبنم کی لطافت اور گلاب کی جاذبیت ہے۔ جو لکھتے ہیں باحوالہ اور دلائل کی روشنی میں لکھتے ہیں۔ عقیدے اور عقیدت کی بناء پر تاریخ وضع نہیں کرتے، بلکہ تاریخی حقائق کے رخ سے نقاب الٹ دیتے ہیں۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا اور خوشنودی اور دین متین کا پیغام قارئین تک پہنچانے کےلئے لکھتے ہیں"۔
حضرت پروفیسر صاحب کی شخصیت جتنی عظیم تھی، آپ کے اندر اس درجہ انکسار بھی تھا۔ اہل علم سے ٹوٹ کر ملتے، ان کی قدر کرتے، کسرِ نفسی آپ کی خو تھی۔ آپ کی گفتار عالمانہ تھی۔ کردار زاہدانہ تھا۔شفقت ومحبت جاودانہ تھی۔ آپ اخلاق و ایثار، مؤدت و مروت، دانائی و حکمت، سنجیدگی و ظرافت کا ایک حسین پیکر تھے۔ آپ سراپا اخلاق تھے۔ جو شخص ایک مرتبہ آپ سے ملاقات کرتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ آپ سے تمام مذاہب کے افراد کا واسطہ رہتا تھا۔ آپ ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق سلوک کرتے تھے۔ جب آپ کا تبادلہ "مٹھی " کے دور دراز اور ایسے علاقے میں ہوا جہاں اسِّی فیصد ہندو تھے۔ چنانچہ آپ نے اس تبادلے کو تبلیغِ اسلام کے لئے ایک انمول موقع جانا ،اور وہاں اپنے اعلیٰ کردار، اور اخلاقِ مصطفوی سے غیرمسلموں کے دل جیت لئے، بہت سوں کو قبولِ اسلام کی دولت نصیب ہوئی۔ہندو کہا کرتے تھے:
"مسلمان تو بس ایک ہی دیکھا ہے مولانا مسعود صاحب!"۔
الغرض ! آپ کی زندگی مجسمۂ سچائی، فرماں برداری، حق کی رہبری، خشیتِ ایزدی، حق کی روشنی، بےحدخوبیوں اور اعلیٰ صفات سے آپ کی ذات متصف تھی۔
*امتیازی اعزازات:* شعبہ تعلیم میں امتیازی خدمات کے اعتراف میں سابق صدرِ پاکستان فاروق احمد لغاری کی جانب سے 1992ء میں گولڈمیڈل اور اعزازِ فضیلت سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد اداروں کی جانب سے گولڈ میڈلز اور تمغات سے نوازا گیا۔ آپ کی زندگی ہی میں آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی نے 1997ء میں بہار یونیورسٹی بھارت سے مکمل کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
*تاریخِ وصال:* آپ 22/ربیع الثانی 1429ھ، مطابق 28/اپریل 2008ء بروز پیر بعد نماز مغرب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔آپ کامزارشریف "ماڈل کالونی قبرستان" کراچی میں ہے۔
*ماخذ و مراجع:* تذکار مسعودِ ملت۔ مجدد عصر۔ تعارف علماء اہلسنت۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی حیات علمی اور ادبی خدمات پی ایچ ڈی مقالہ۔
#fidanaama #Tazkirae_Auliya #Tazkirae_salihaat #Tazkir_tul_aulia #tazkar_e_aulia #fidanama #Tazkiratussalihat
Post a Comment