حیات مبارکہ سیدنا شاہ درگاہی حضور محبوب الٰہی رامپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ*
آپ کا اسم شریف فیض بخش ہے۔ شاہ درگاہی، محبوب الٰہی، القاب مبارکہ ہیں۔
آپ کا نسب سیدنا حضور محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وسیلے سے امیر المومنین سیدنا حضور مولا علی مشکل کشا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے۔ اور سلسلۂ بیعت سیدنا فخر زمن حضور امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وسیلے سے حضور مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔
آپ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ میں اختلاف ہے مگر ۱۱۶۰ کے بارے میں اتفاق رائے ہے۔
آپ کے والد ماجد کا اسم شریف حضرت میاں شاہ لعل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے جن کی ولایت وکرامت کا شہرہ دور دور تک تھا اور یہ کرامت و بزرگی انہیں وراثت میں ملی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مرتبۂ شہادت عطا فرمایا۔
بچپن ہی سے آپ سے آثار بزرگی نمایاں تھے اور جوں جوں وقت گزرتا گیا اسمیں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
والد ماجد کی شہادت کے بعد آپ قصبہ بٹالہ لاہور تشریف لے آئے جہاں ایک سید صاحب رہا کرتے تھے، انہیں نے آپ کی پرورش فرمائی۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپ مرہٹوں کے ایک لشکر کے ساتھ ہندوستان تشریف لے آئے اور دریائے کنگ کے کنارے قصبہ ‘‘بلہت‘‘ میں سکونت اختیار فرمائی۔
یہیں آپ کی ملاقات ایک ولئ کامل سے ہوئی جو سلسلۂ عالیہ مداریہ سے تعلق رکھتے تھے، آپ ان کی صحبت میں رہنے لگے اور آپ نے ان کی خدمت فرماکر روحانی کمالات حاصل فرمائے۔ یہیں آپ نے علوم دینیہ بھی حاصل فرمائے۔
ایک دن شور ہوا کہ جنگل میں ایک ولئ کامل بغرض شکار تشریف لائے ہیں چنانچہ آپ ان کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ان پر نظر پڑتے ہی دل پکار اُٹھا کہ بیعت کے لئے جس دامن کی تلاش تھی وہ دامن اسی ذات گرامی کا ہے اور وہ ذات گرامی سیدنا قطب عالم سلطان الاولیاء حضرت حافظ شاہ سید جمال اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رامپور شریف کی تھی۔آپ مرید ہوئے اور پیر و مرشد نے آپ کے باطنی کمالات کو ملاحظہ فرماتے ہوئے اجازت و خلافت سے بھی نوازا۔
پیر کامل کی ایسی نظر شفقت آپ پر پڑی کہ آپ پر کیف و سرور کا غلبہ ہوگیا اور تقریباً پندرہ سال آپ کی یہی حالت رہی، جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ کا سرور ختم ہوجاتا اور پھر اسی حالت پر آجاتے۔
اسکے بعد آپنے مختلف مقامات کا دورہ فرمایا اور علم و آگہی کے چراغ روشن فرمائے اور آنولہ ضلع بریلی میں سکونت اختیار فرمائی۔ یہاں بھی دل نہ لگا تو آخر کار اپنے پیر و مرشد کی دھرتی مصطفےٰ آباد شریف (رامپور) کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔
آپ کے پیر و مرشد سلطان الاولیاء حضرت حافظ شاہ سید جمال اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سے اتنی شفقت فرماتے کہ اگر کوئی اپنی حاجت لیکر آپ کے پاس آتا تو آپ اس کو حضور شاہ درگاہی کے پاس بھیج دیتے کہ ان سے اپنی مشکل کشائی کراؤ۔
ایک بار آپ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ شکار کیلئے جنگل تشریف لیگئے، حضور حافظ شاہ جمال اللہ جیسے ہی شکار کو دیکھ کر نشانہ سادھتے آپ پیچھے سے اشارہ کرکے شکار کو بھگادیتے۔ حضور حافظ شاہ جمال اللہ نے جب یہ محسوس کیا تو جلال میں فرمایا درگاہی یہیں کھڑے رہو! اور یہ فرماکر آگے شکار کیلئے نکل گئے اور شکار فرماکر دولت خانے پر واپس تشریف لے آئے۔ کئی ہفتے گزر گئے اور حضور شاہ درگاہی محبوب الٰہی اپنے پیر ومرشد حضور حافظ شاہ جمال اللہ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوئے۔ حضور حافظ شاہ جمال اللہ نے سوچا کہ میں نے جنگل میں درگاہی کو ڈانٹ دیا تھا تو شاید ناراض ہوگئے ہیں تو آپ نے خادموں کو بھیج کر حضور شاہ درگاہی کو بلا بھیجا۔ تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو کئی ہفتے پہلے اپنے پیر و مرشد حضور حافظ شاہ جمال اللہ کے پاس گئے تھے تب سے واپس ہی نہیں آئے ہیں۔ جب یہ خبر حضور حافظ شاہ جمال اللہ کو ملی تو آپ نے خیال فرمایا کہ ہم نے درگاہی کو جنگل میں رُکنے کیلئے کہہ دیا تھا، ضرور درگاہی وہیں موجود ہوں گے۔
لہٰذا جنگل میں جاکر دیکھا تو دیکھتے ہیں کہ جس مقام پر حضور شاہ درگاہی کو کھڑے رہنے کا حکم فرمایا تھا آپ وہیں کھڑے ہیں اور آپ کا وصال شریف ہوچکا ہے۔ سبحان اللہ
اس موقع پر حضور حافظ شاہ جمال اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ درگاہی! اگر میں یہ جانتا کہ تم فنا فی المرشد کے اس مقام پر فائز ہو تو میں تم سے مرید ہوجاتا۔
۱۴؍ جمادی الثانی شریف ۱۲۲۶ھ کو آپ کا وصال شریف ہوا۔ رامپور شریف کے محلہ پختہ باغ میں آپ کا مزار مقدس مرجع خلائق ہے۔
Post a Comment