Biography Mufti Azam Pakistan Mufti Zafar Ali Nomani تعارف مفتی ظفر الدین نعمانی دارالعلوم امجدیہ

حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



مولانا مفتی ظفر علی بن مولانا محمد ادریس  کو سید پور ضلع بلیا ( بھارت ) میں تولد ہوئے ۔ سید نا امام اعظم ابو حنیفہ سے محبت و نسبت کے سبب ’’ نعمانی ‘‘ اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے جو کہ نام کا حصہ بن گیا۔ ااپ کا خاندان متوسط درجہ کا علمی گھرانہ تھا اور مشغلہ تجارت رکھتے تھے ۔

تعلیم و تربیت :

 آپ نے پرائمری تعلیم سید پور میں حاصل کی ۔ اس کے بعد خلیفہ اعلی حضرت مولانا رحیم بخش رضوی کے مدرسہ فیض الغرباء شاہ پور صوبہ بہار میںداخلہ کیا ، قابل ترین اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میںشرح جامی تک کتابیں پڑھ لیں ، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اہل سنت و جماعت کی نامور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور ضلع اعظم گڑھ کا رخ کیا، وہیں داخلہ لے کر نصابی کتب کی تکمیل کے بعد ۱۳۵۱ھ ؍ ۱۹۴۲ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس درسگاہ میں دیگر علماء کے علاوہ حافظ ملت علامہ حافظ عبدالعزیز محدث مبارکپوری سے خصوصی طور پر استفادہ کیا۔

بیعت و خلافت :

آپ ، خلیفہ اعلی حضرت ، صدر الشریعۃ، علامہ مفتی امجدعلی ا عظمی ؒ ( صاحب بہار شریعت )  سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے ۔

دارالعلوم امجد یہ کا قیام :

حضرت صدر الشریعۃ (متوفی ۱۹۴۹ء ) کے حکم پر ۱۹۴۸ء کو کراچی تشریف لے آئے ۔ یہاں امامت و خطابت درس و تدریس اور اشاعت دین کے اہم کام میں مصروف و مشغول ہوگئے ۔ اس کے ساتھ اسی سال گاڑی کھاتہ فیروز اسٹریٹ آرام باغ میں ایک مکان خرید کر مرشد کی یاد میں مدرسہ قائم کر کے ’’دارالعلوم امجد یہ ‘‘ کا ایک بورڈ لگا دیا، چنانچہ ابتدا میں ااپ خود ہی مہتمم ، مدرس ، منتظم اور نگران سب کچھ تھے ۔

ایک عرصہ تک یہ مدرسہ اسی مکان میں مذہبی خدمات انجام دیتا رہا مگر یہ جگہ نا کافی ہونے کی وجہ سے مفتی صاحب نے حاجی ہارون میمن صاحب سے عالمگیر روڈ جگہ حاصل کر کے دارالعلوم امجد یہ وہاں منتقل کر دیا، بعد میں مزید جگہ لی گئی ، جستہ جستہ تعمیر ہوتی رہی۔ آج دارالعلوم کی پر شکوہ عمارت خوبصورت شکل میں مسجد امجدی کے متصل کراچی کے دل میں موجود ہے ۔ جہاں سے سینکڑوں علماء خطباء حفاظ اور قراٗ حضرات فارغ ہو کر ملک اور بیرون ملک میں تبلیغ و اشاعت دین کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

آپ نے دارالعلوم امجد یہ کے علاوہ پنجاب کے شہر سانگلہ ہل (ضلع شیخو پورہ ) میں ایک بہت بڑی قطعہ اراضی لے کر ’’ مدرسہ اسلامیہ برکات القرآن‘‘ کی داغ بیل ڈال دی ، آج جس کی عمارت کئی کمروں اور کانفرنس ہال پر مشتمل ہے ۔ جہاں درس و تدریس کی شمع روشن ہے۔ مدرسہ کے تمام اخراجات مفتی صاحب اور آپ کے بھائی محترم مظہر علی نعمانی اپنی جیب سے برداشت کرتے رہے ۔ مدرسہ حافظ قاری فضل الرحمن نقشبندی کی نگرانی میںسر گرم عمل ہے ۔

مفتی ظفر علی نے لگایا ہے باغ جو

کافی انہیں بہ پیش حق اس کا ثواب ہے

مدرس کے علاوہ ااپ اعلی منتطم بھی تھے آپ نے دارالعلوم امجد یہ کو چار چاند لگانے کیلئے ۱۹۶۱ء میںہارون آباد ( ضلع بہاولنگر ) سے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کو مدعو کیا اور دارالعلوم میں شیخ الحدیث مقرر کیا ۔ مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی اور حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدیقی ااپ ہی کی کوششو ں سے کراچی تشریف لائے ۔

ااپ کا ابتدائی عرصہ قیام پاکستان کے دور میں کراچی میںمسجد کے تعمیرات و حصول میں انتہائی اہم کردار رہا بیشتر مساجد اور مدرسوں کے سر پرست اور ٹرسٹی رہے۔ دارالعلوم امجد یہ کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں ہندو پاک کے نامو ر علماء و مشائخ کو مدعو کیا جاتا تھا ابتدا میں ہر سال ’’ مجلس مشاعرہ ‘‘ کا بھی اہتمام ہوتا تھا اور اس میںپیش کردہ نعتیہ اشعار کے مجموعے بھی شائع ہوتے رہے ۔

پاکستان میں ’’عرس اعلی حضرت ‘‘ کیابتدا ء کراچی میںمفتی صاحب نے فرمائی ۔

درس و تدریس :

فارغ التحصیل ہوتے ہی مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے ۔ تقریبا ڈیڑ سال اساتذہ کرام کی نگرانی میںتدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد پیر و مرشد حضرت صدر الشریعۃ کے حکم پر کاٹھیاواڑ چلے گئے جہاں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت میں صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے لگے ۔ تقریبا ساڑ ھے چار سال کامیابی سے خدمات انجام دینے کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔

کراچی میں ساری زندگی ’’ دارالعلوم امجد یہ ’’ میںبحیثیت مہتمم خدمات عظیمہ سر انجام دیتے رہے ۔

شادی واولاد :

مفتی ظفر علی نعمانی کا نکاح حضرت کے بڑے صاحبزادے مولانا حکیم شمس الہدیٰ اعظمی کی صاحبزادی سے ۱۹۵۱ء ؍ ۱۳۷۰ھ کو کراچی میں انعقاد پذیر ہوا ۔ قاضی نکاح خواں کے فرائض برادر نسبتی علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے انجام دیئے ۔ اس محفل میںکراچی کے علماء کرام مشائخ عظام اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔

اللہ تعالیٰ نے آ پ کو پانچ صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں عطا فرمائی جن میں سے تین صاحبزادے وفات پاچکے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ دو صاحبزادے (۱) ریحان نعمانی(۲) ذیشان نعمانی بقید حیات ہیں اور بر سر روز گار ہیں ۔ حافظ سرور المصطفیٰ ابن مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی ( خطیب نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کراچی ) ناظم اعلیٰ مکتبہ رضویہ کراچی ااپ کے داماد ہیں ۔

ذریعہ معاش :

تمام دینی مصروفیات کے باوجود آپ کا رپٹ ایکسپو رٹر کا کاروبار اپنے بھائی کے ساتھ کرتے تھے ۔

دینی وسیاسی سر گرمیاں :

تحریک پاکستان میںاپنے اساتذہ کے ساتھ خدمات انجام دیں بعد میں استحکام پاکستان کیلئے سر گرم رہے۔

فیصل ااباد میں دارالعلوم رضویہ مظہر اسلام اور سنی رضوی جامع مسجد کی تعمیر و ترقی میں مفتی صاحب اور کراچی کے برکاتی رضوی میمن سیٹھ صاحبان نے بھر پور تعاون کیا۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد عظیم الشان سنی کانفرنس میں دامے قدمے سخنے تعاون فرمایا ۔

تحریک ختم نبوت کے دوران آپ نے علماء اہل سنت کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔

کراچی میں ’’ تنظیم ائمہ مساجد اہل سنت ‘‘ قائم فرمائی اس کے بعد تنظیم سازی کا عمل جاری رکھا۔

جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے دوبار انتخابا ت میں حصہ لیا ۔ ایک بار قومی اسمبلی کے حلقہ سانگلہ ہل پنجاب سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ۳۰ ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔

۱۹۷۲ء میں ایک بار سینٹ کا انتخاب لڑا جس میں کامیابی ہوئی اور سینٹیر منتخب ہوئے ۔

سینٹ کے ریکارڈ میںان کی تقار یر انتہائی جامع اور مدلل ہوا کرتی تھیں ، انتہائی خدا ترس انسان تھے دین کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گہری نظر تھی ۔

اسلامی نظر یاتی کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی رہے ۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے ۔

جماعت اہل سنت پاکستان ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، تحریک نفاذفقہ حنفیہ ، تحریک نظام مصطفی، نظام مصطفی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔

نشر واشاعت :

آپ نے ابتدائی دنوں میں لٹر یچر کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی جس کے سبب آپ نے کراچی سے مکتبہ رضویہ سے اعلی حضرت امام احمدرضا خان بریلوی کے مشہور زمانہ نعتیہ کلام پر مشتمل کتاب ’’حدائق بخشش ‘‘ کو پاکستان میںپہلی بار شائع کیا۔

فاضل بریلوی کے شہر آفاق ترجمہ قرآن کنز الا یمان پاکستان میں سب سے پہلے مفتی صاحب کو طبع کرانے سعادت حاصل ہوئی ۔

ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری کی تصنیف ’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ (جلد اول )بھی سب سے پہلے آپ نے ۱۹۶۰ء کو شائع کرائی ۔

صحافت :

 مفتی صاھب نے ابتدائی دور میں ایک ماہنامہ ’’الا سلام ‘‘ آرام باغ سے جاری کیا تھا جس میں ملک کے جید علماء اور قلمکار دانشوروں کے پر مغز تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ ملک بھر سے آنے والے استفار کے جوابات بھی الاسلام میں شائع ہوتے تھے۔ استفار کے جوابات وقت کے مایہ ناز عالم دین، مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی کے رشحات قلم کے مرہون منت تھے ۔

تلامذہ :

آپ کے تلامذہ مین سے بعض کے نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں :

٭     مولانا مفتی ابوالخیر محمد حسین قادری مرحوم بانی جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر سندھ

٭     مفتی ابوالحماداحمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ

وصال :

 مولانا مفتی ظفر علی نعمانی نے ۲۰ ، رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ بمطابق ۱۶، نومبر ۲۰۰۳ء بروز اتوار صبح ۵ بجے ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اتوار ہی کے روز بعد نماز ظہر دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد عالمگیر روڈ کراچی میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی ۔ نماز جنازہ دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل رضوی میمن نے پڑھائی ۔ کماہ رمضان المبارک کے باوجود ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ دارالعلوم امجد یہ میں علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مفتی وقار الدین قادری کی مزارات کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے ۔بروز منگل دارالعلوم امجد یہ میں فاتحہ سوئم کی تقریب منعقد ہوئی ۔ شہر بھر کے علماء مشائخ ، مشاہیر ، دانشور ، اور دینی سیاسی تنظیم کے ذمہ داران نے شرکت کی۔اور اس تقریب میںصاحبزادہ ریحان نعمانی کو ان کا جانشین اور دارالعلوم امجد یہ کا مہتمم مقرر کیا گیا۔

[ماخوذ: مفتی ظفر نعمانی کا انٹرویو بشمولہ رفیق علم سالنامہ دارالعلوم امجد یہ جون ۱۹۹۷ء ، روز نامہ ریاست کراچی پیر ۱۷، نومبر ۲۰۰۳ ء ، رضا ئے مصطفیٰ گوجر انوالہ شوال ۱۴۲۴ھ]


(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

Post a Comment

Previous Post Next Post