حضرت شیخ المشائخ الحاج شاہ محمد تیغ علی قادری مجددی آبادانی مظفر پوری
مشائخ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت صوفی شاہ آبادانی سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ (م18/ربیع الثانی 1220 ھ) کی شخصیت بھی کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اواخر بارہویں صدی ہجری سے اوائل تیرہویں صدی ہجری تک آپ کا فیضان شمالی ہند میں عام تھا۔ حضرت سیدنا شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجددالف ثانی کے بعد آپ ساتویں پشت میں تھے۔ آپ ہی کے نام نامی سے منسوب ہوکر آپ کا سلسلہ سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ کہلاتا ہے۔ حضرت صوفی شاہ آبادانی کو اپنے مرشد حضرت صوفی شاہ محمد ذکریا سے شیخ سرہندی کے تمام سلاسل کی اجازت حاصل تھی۔ آپ کے احوال ومناقب میں بزبانِ فارسی رسالہ نور القلوب (قلمی) بہت خوب ہے۔
سلسلہ قادریہ مجددیہ آبادانیہ کا فیضان جس ذات بابرکات سے سب سے زیادہ ہوا وہ حضرت صوفی شاہ آبادانی کی چھٹی پشت میں حضرت شیخ المشائخ الحاج شاہ محمد تیغ علی قادری مجددی آبادانی مظفر پوری کی ذات والا صفات ہے۔ سلسلہ آبادانیہ کے کئی شیوخ سے حضرت تیغ علی کو فیض پہنچا تھا اور اجازت سلسلہ حاصل تھی۔ غرض کہ اس دور میں اس سلسلہ کے شیخ المشائخ اور سر دفتر حضرت موصوف ہی تھے۔
سلسلہ نسب:
صوفی شاہ آبادانی عن صوفی میر محمد زکریا عن صوفی میر محمد سندھی عن صوفی شاہ محمد قریشی عباسی لاہوری عن صوفی شاہ محمد خاں لودھی عن بابا پیر محمد خاں لودھی عن خواجہ آدم الشریف الحسنی بنوری عن حضرت مجدد الف ثانی۔
حضرتیغ علی عن مولانا سمیع احمد مونگیری عن حافظ فرید الدین آروی عن حاجی شاہ دیدار علی خان غازی پوری عن شاہ عبدالعلیم لوہاری عن حافظ احسان علی پاک پٹنی عن صوفی شاہ آبادانی۔
حضرت شاہ محمد تیغ علی قصبہ گوریارہ ضلع مظفر پور میں 1300 ھ میں پیدا ہوئے۔ کم سنی ہی سے آپ کے شب وروز لہوولعب سے پاک اور غیر معمولی گذرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ عہد طفلی میں پیش آنے والے کئی غیر معمولی واقعات کی راویہ ہیں۔ غرض کہ عہد شعور کی آمد سے قبل ہی آپ کی ولایت کے چرچے ہونے لگے تھے۔
اپنے آبائی وطن گوریارہ سے متصل ہرپور مچیا میں آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا سبحان علی سے حاصل فرمائی جو عربی فارسی میں کافی مہارت رکھتے تھے،بعد از آں چچا جان کے بلاوے پر کلکتہ تشریف لائے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا،فارسی کی متداول کتابیں ختم کرنے کے بعد آپ نے عربی درجات میں داخلہ لیا،ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آپ کے سر سے والد کاسایہ اٹھ گیا،اس لیے تعلیمی سلسلہ موقوف کرنا پڑا، چچا اکبر علی نے اپنے آبائی پیشہ کا شتکاری کے کام کی نگرانی کے لیے آپ کو وطن بھیج دیا جہاں آپ کاشتکاری اور کھیتی باڑی کی دیکھ بھال کرتے رہے، کتب بینی اور مطالعہ کا شوق بہت زیادہ تھا اور یہ سلسلہ اخیر عمر تک جاری رہا، معلومات کی اتنی وسعت تھی کہ ہرموضوع پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے اور سننے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
بیعت وخلافت
حضرت ایام کم سنی ہی سے اذکارو وظائف کے بہت پابندتھے بلا ناغہ اور ادووظائف پڑھا کرتے اور ذکر سے محظوظ ہوتے تھے لیکن شدت کے ساتھ شیخ طریقت کی تلاش تھی تاکہ ان کے دامن سے وابستہ ہوکر روحانی پیاس بجھا سکیں،جب آپ ملازمت کے سلسلے میں کلکتہ میں قیام پزید ہوئے
اسی دوران مردان خدا کے دیدار اور ان کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کا شوق اُبھرا۔ چنانچہ حضرت مولانا شاہ سمیع احمد مونگیری قادری آبادانی کا چرچا سن کر کمال شوق کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے۔ حضرت مولانا سمیع احمد، حضرت حافظ شاہ فرید الدین آروی قادری آبادانی کے مرید ومجاز تھے۔ آپ کا وطن خان پور ضلع مونگیر تھا ۔ اس زمانہ میں آپ کا قیام بڑی پاڑہ کلکتہ میں تھا۔
حضرت شاہ محمد تیغ علی کو حضرت مولانا سمیع احمد مونگیری کے دیدار و حصول نیاز سے قلبی اطمینان حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ انہیں کے دست حق پرست پر سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ میں بیعت ہوگئے۔
روزانہ اپنی قیام گاہ سے چلتے اور چار میل کی دوری طےکر کے اپنے پیر دستگیر کی خدمت میں باریاب ہوتے اوربھرپور استفادہ فرماتے ۔اور ریاضات و مجاہدات میں کافی محنت اور لگن کے ساتھ مصروف رہتے، لیکن تکمیل سے قبل ہی حضرت مولانا سمیع احمد کو اپنے وطن مونگیر کو لوٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت مولا علی لال گنجوی کے سپرد آپ کو فرمایا۔ حضرت تیغ علی حضرت مولا علی لال گنجوی کی نگہداشت میں 14 سال تک مصروف ریاضات وعبادات رہے یہاں تک کہ 20/ جمادی الآخر 1341 ھ کو خان پور ضلع مونگیر میں حضرت مولانا سمیع احمد مونگیری کے آستانہ پر حضرت مولاعلی لال گنجوی نے آپ کو سندِ خلافت واجازت سے نوازا۔
تکمیل طریقت کے بعد 1349 ھ ہی میں آپ نے سفر سیاحت کے لئے کمر باندھا اور سب سے پہلے آرہ میں اپنے دادا پیر حضرت حافظ شاہ فریدالدین کے مزار پر حاضر ہوئے ۔اور وہیں حضرت حافظ شاہ محمد صاحب (سجادہ نشین حضرت فریدالدین) نے بھی سلسلۂ قادریہ مجددیہ آبادانیہ فریدیہ کی اجازت آپ کو عطا فرمائی۔ وہاں سے روانہ ہوکر آپ پھلواری شریف میں واقع خانقاہ مجیبیہ پہنچے اور حضرت شاہ مجیب اللہ قادری کے آستانۂ پُر انوار پر شرف حاضری حاصل کیا اور دور روز خانقاہ میں قیام پذیر رہے۔ اسی دوران 28/ رجب المرجب 1349 ھ کو زیب سجادہ حضرت مولانا شاہ محی الدین قادری مجیبی پھلواروی نے آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا اور سلسلۂ قادریہ وارثیہ وعمادیہ جنیدیہ وسلسلۂ چشتیہ نظامیہ اورصابریہ قلندریہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ وہاں سے رخصت ہوکرا پنے وطن گوریارہ پہنچے اور یہیں حضرت شاہ فرید الدین آروی کے خلیفہ ومجاز حضرت حکیم شاہ جلال الدین جڑہوی کی خدمت کا موقع ملا۔ حصول نیاز کے بعد حاصل کردہ خلافت نامے ان کی خدمت میں پیش کردیئے۔ حضرت حکیم صاحب نے بھی اپنے شیخ سے حاصل کردہ آبادانیہ سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔ حضرت شاہ محمد تیغ علی قدس سرہ کی خانقاہ میں مریدوں کو حضرت حکیم شاہ جلال الدین جڑہوی کے واسطے والا ہی شجرہ زیادہ تر دیا جاتا ہے اور یہی واسطہ زیادہ رائج ہے۔
گوریارہ سے حضرت تیغ علی نے قصبہ سرکانہی میں ہجرت فرمائی ۔ یہیں آپ کی مرضی کے مطابق ایک خانقاہ کی تعمیر عمل میں آئی جو خانقاہ آبادانیہ کے نام سے مشہورو معروف ہے۔ خانقاہ کی تعمیر کے بعد حضرت کی دور بین نگاہوں نے ایک اشد ضرورت کی طرف توجہ فرمائی،یعنی 1326 ھ میں خودا پنے ہاتھوں سے یہاں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ مدرسہ وخانقاہ کے ساتھ ساتھ آپ کا وجود مسعود غرض کہ ایک ایسا خزانہ سرکارنہی شریف کے غیر معروف قصبے میں جمع ہوگیا کہ اس کی شہرت خوشبو و فاصلوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی دور دور تک پھیل گئی اور طالبان شریعت و طریقت کے ساتھ ساتھ صوفی باصفا کو دیکھنے کے لئے ترس رہی آنکھیں بھی سرکانہی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایک عالم سیراب ہوا۔
چودہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ محمد تیغ علی قادری کی ذات والا صفات متقدمین صوفیا کی یاد تازہ کراتی ہے۔ لاگ لپٹ ’ریاو تصنع‘ جاہ وحشم اور طمطراق سے کوسوں دور سادگی، عاجزی، انکساری اور فروتنی کا دھنی یہ فقیر اپنی مثال آپ تھا۔ ہر ہر قدم پر سنت نبویﷺ کی پیروی کا التزام فرماتے۔ آپ کا اخلاق دوسروں کو فوراً گرویدہ بنا لیتا۔ عفو و درگذر کا مادہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ کبھی کسی کو زیادہ دیر معتوب نہ فرماتے۔ اگر کسی سے ناراض ہوجاتے تو صرف اتنا فرماتے، بابو تونے یہ کیا کیا؟ یہ کہنے کے بعد اس کو آزردہ نہ ہونے دیتے۔ روزانہ دس بجے دن کو غسل سے فارغ ہوکر بالالتزام قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اور اسرارومعانی سے حاضرین کو ان کے حسب استعداد نوازتے۔ دعا فرماتے تو اکثر وبیشتر یہ شعر زبان مبارک پر ہوتا:
راستی موجب رضائے خداست
کس نہ دیدم کہ گم شد ازرہ راست
نعت پاک ذوق وشوق کے ساتھ سنتے اور وجد فرماتے۔ مولانا رومؔ، چراغ دہلوی، خسروؔ،امداد ہدفؔ اور فاضل بریلوی کے اشعار آپ کے پسندیدہ تھے۔
مریدوں کی تعلیم و طریقت:حضرت کا حلقہ ارادت اتنا وسیع تھا کہ وابستگان سلسلہ کا صحیح اندازہ مشکل ہے۔ آپ کا حلقہ ارادت صرف ہندوستان ہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان اور عرب میں بھی آپ کے مریدوں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے ۷۶۳۱ /ھ میں حج وزیارت حرمین شریفین کے سلسلے میں آ پ کا حجاز مقدس جانا ہوا اس موقع پر مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں کتنے ہی اشخاص نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور آپ کے فیوض روحانی سے استفادہ کیا۔ مسلمانوں کا ہر طبقہ آپ کے دامن فیض سے وابستہ تھا، ہندو پاک میں عوام کے علاوہ علما،قرا، حفاظ اور حکومت کے بڑے بڑے عہدے دار آپ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے،ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ بہار، بنگال اور یوپی میں بے شمار لوگ داخل سلسلہ ہوے اور سینکڑوں اشخاص نے آپ کے زیر تربیت منازل سلوک طے کیے اور باطن کی تکمیل کی۔
دور دراز کے طالبین کی تربیت روحانی اور اصلاح باطن کا کام اپنے خلفا کے ذریعہ خطوط اور مکاتیب سے انجام دیتے اور نزدیک والے جو آپ کی خدمت میں بآسانی پہنچ سکتے تھے، ان کی دیکھ بھال روزانہ حلقہ میں طلب فرمایا کرتے،غرض کہ ارشاد وہدایت کی پوری مدت میں آپ خدمت دین اور تعلیم طریقت میں مصروف رہے، آپ کی دینی خدمات کو بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ صدی کے مسلمانوں کے لیے آپ کی ذات بڑی رحمت اور نعمت تھی، اگر یہ کہا جاے کہ اس دور پرآشوب میں آپ نے دین وملت اور تصوف و طریقت کی لاج رکھ لی تو بجا اور درست ہے اب ایسے لوگ کہاں نظر آتے
1327 ھ میں آپ نے حرمین شرفین کے حج کا بھی شرف حاصل کیا۔ اس مبارک سفر میں کافی لوگ آپ سے فیضیاب ہوئے۔ آپ کا حلقۂ مریدین و معتقدین کافی وسیع تھا۔
بہاروبنگال میں بطور خصوص آپ کے مریدین کثیر تعداد میں ہیں۔ ان میں خلفا، علما وفضلا کی تعداد کثیر ہے۔ اس عظیم اور مثالی کردار والی شخصیت نے تقریباً 78 سال کی عمر میں 29/ ربیع الاول 1378 ھ کو جب کہ ماہ ربیع الآخر کا چاند نظر آیا اس دار فانی سے کوچ فرمایا۔ خانقاہ آبادانیہ سرکانہی شریف ضلع مظفر پور سے متصل مقبرہ میں اپنی والدہ ماجدہ اور اہلیہ صاحبہ کے ساتھ آپ کا بارونق مزار مرجع خلائق ہے۔
آپ کی ایک بیاض ابواب القرآن کے نام سے ملتی ہے جس میں مختلف قرآنی آیات دستِ خاص کی نوشتہ یا حسب حکم نوشتہ ہیں۔ ادعیہ و نسخہ جات کے اس مجموعے کی زیارت اس خاکسار نے کی ہے۔ آپ کے ارشادات عالیہ اختصار میں جامعیت کی بہار رکھتے ہیں۔ چند ارشادات بطور نمونہ نقل کرتا ہوں:
کمال شریعت کا نام طریقت ہے۔ سب سے پہلے جو گناہ وجود میں آیا وہ حسد ہے۔ صبر وشکر سالک کے لئے دولتِ لازوال ہے۔ عبادت اپنی شناخت کا آئینہ ہے، جب تک کہ آئینہ عبادت کے صیقل سے صاف نہ کرلیا معرفت نفس محال ہے۔
آپ کے بعد سجادہ پر آپ کے ہمشیر زادہ اور خلیفہ حضرت شاہ محمد ابراہیم قادری تیغی (م 11/جمادی الآخر 1392 ھ) جلوہ افروز ہوئے۔ ان کے بعد یہ خانوادہ آپ کے دونوں صاحبزادگان مولانا شاہ علی احمد جید القادری اور شاہ محمد علی قادری سے آباد و روشن ہے۔
حضرت شاہ تیغ علی پر ایک تفصیلی کتاب مع احوال پیران بنام’ انوار صوفیہ ‘شائع ہو چکی ہے۔ حضرت سےمختلف مواقع پر جن کرامات کا ظہور ہوا ان کا تفصیلی ذکر ‘مظاہر قطب الانام’ کے نام سے طبع ہو چکا ہے۔
Post a Comment