شیخ الاسلام حضرت عبداللہ انصاری ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:عبداللہ ۔کنیت: ابواسماعیل۔لقب: شیخ الاسلام،شیخ السالکین،پیرِہرات۔ سلسلہ نسب اسطرح ہے:خواجہ عبداللہ انصاری بن ابومنصوربلخی بن جعفربن ابومعاذ بن محمدبن احمدبن جعفربن ابومنصورتابعی بن ابو ایوب انصاری۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعۃ المبارک 2/شعبان المعظم 396ھ،مطابق مئی 1006ء کو"ہرات"(افغانستان) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اور فقہ وغیرہ یحیٰ بن عمار الشیبانی سے حاصل کیے،اس کے بعد علم کے لئے طوس ،بسطام،اور بغداد کا سفر کیا،بغداد میں شیخ ابو محمد خلال البغدادی سے استفادہ کیا۔علم التصوف شیخ ابوسعید ابوالخیر سے حاصل کیا۔آپ کا حافظہ بہت تیز تھا ،جو چیز ایک مرتبہ نظر سے گزرجاتی پھر کبھی نہ بھولتی۔آپ فرماتے ہیں: مجھے کھانا کھانے کی فرصت نہیں ملتی تھی،بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ عشاء کی نماز کے احادیث لکھنے بیٹھتا اور صبح ہوجاتی تھی،کبھی میری والدہ روٹی کے لقمے توڑکر میرے منہ میں ڈالتی اورمیں لکھتارہتا۔آپ کوتیس ہزار احادیث یاد تھیں۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے۔شیخ ابوعاصم جوکہ آپ کے رشتے دارتھے،ان سے بیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص: شیخ الاسلام،شیخ السالکین امام العلماء والمحدثین ،حامی سنت ماحی بدعت ،ناصر ملت حضرت شیخ عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام علوم کے جامع تھے۔حدیث ،تفسیر ،فقہ،لغت،وغیرہ کے ماہرِ کامل تھے۔اس وقت کے تمام مشائخ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔مقبولِ عام وخاص اور محسودِ زمانہ تھے۔
مولانا عبد االرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب کہیں مطلقاً "شیخ الاسلام" لکھا ہواہو،تو اس سےمراد آپ کی ذات ہوتی ہے"۔
حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں: میں بچپن میں شیخ ابوعاصم کے ہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جایا کرتاتھا۔ان کی زوجہ محترمہ ضعیفہ اور وقت کی ولیہ تھیں۔کہنے لگیں : میرے شیخ حضرت خضر علیہ السلام نے اس بچے کو دیکھا اور مجھ سے پوچھنے لگے یہ کون ہیں؟(حالانکہ وہ خود جانتے تھے یہ کون ہیں) میں نے کہا !یہ عبد اللہ انصاری ہیں،اور میرے شوہرسے پڑھنے آتے ہیں۔حضرت خضر فرمانے لگے:"ایک دن یہ بچہ وقت کا امام ہوگا،اور مشرق سے مغرب تک اس کاشہرہ ہوگا"۔
آپ ہی فرماتے ہیں: جومحنت میں نےحدیثِ مصطفیٰﷺ کے لئے کی ہے،شاید کسی نے کی ہو۔ایک مرتبہ مضافاتِ نیشاپور میں تھاکہ زبردست بارش ہونے لگی۔ کئی میل تک رکوع کی حالت میں چلتا رہا،تاکہ میری کتب گیلی نہ ہوجائیں۔ میں نے علم اللہ جل شانہ کی رضا اور سنتِ مصطفیٰﷺ کی خدمت کے لئے حاصل کیا۔ہر مسئلے پر کئی احادیث بیان کرسکتا ہوں۔آپ فرماتے ہیں: میں نے تین ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔الحمدللہ!ان میں سے کوئی ایک بھی" بدمذہب "نہیں تھا۔ سب کے سب" اہل سنت وجماعت" سے تعلق رکھتے تھے۔(نفحات الانس:305)۔(اس میں ان لوگوں کے لئے سبق ہے،جواس چیز کا خیال نہیں رکھتے،حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ "ان ھذالعلم دین فانظرو ا عمن تأخذونہ"یعنی یہ علمِ دین ہے۔غورکرو!کہ تم دین کس سے لے رہےہو۔ہم دودھ،اوردوائی تو معتبر آدمی سے حاصل کرتے ہیں،لیکن علمِ دین کے لئے کوئی شرائط نہیں ہیں،آج گمراہی اور بدعقیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے ،کہ جس نے اسلام اور قرآن کے نام پر بلایا اس کے پیچھے چل پڑے،یہ نہ دیکھا کہ بلانے والے کا عقیدہ کیا ہے؟)
آپ نے ساری زندگی دینِ مصطفیٰ ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔دوردراز علاقوں سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر قلوب واذہان کو منور کرتے تھے۔بدعتوں کو ختم کرکے سنتوں کو عام کیا۔آپ خلافِ شریعت کاموں پر شاہانِ وقت کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔نذرانے بہت کم لیتے تھے،اگر کوئی اصرار کرتا تو لے کر اسی وقت فقراء میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔انتہائی سادہ غذا ولباس استعمال کرتے،نمودونمائش سے دور تک واسطہ نہیں تھا۔
وصال: آپ کا وصال 9/ربیع الثانی 481ھ،مطابق جولائی/1088ء کو ہوا۔آپ کا مزار "ہرات "(افغانستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: نفحات الانس۔خزینۃ الاصفیاء۔
Post a Comment