حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی Vajihuddin Alvi | आज भी जिंदा है इस दर पर करामात | શાહ વજીહુદ્દીન કરામત આહમદબાદ

 حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی علیہ الرحمۃ  والرضوان کا مختصر تعارف 



زبدۃ المحققین حضرت سید شاہ وجیہ الدین گجراتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات بے شمار صوری و معنوی فضائل کا مجموعہ تھی۔ آپ کا نسب مبارک حضرت امام سیدنا محمد تقی الجواد رضی اللہ تعالی عنہ پر منتہی ہوتا ہے۔ آپ کے جد امجد حضرت سید بہاء الدین مکی قدس اللہ سرہ ہند میں تشریف لائے۔ اس سے قبل آپ کے مورث اعلی ملک یمن مقام حضرموت میں مسکن کزیں تھے۔ لیکن جب مکہ معظمہ قیام ہوا تو مکی مشہور ہوئے۔ ایک روز سید بہاء الدین خانہ کعبہ میں مراقب تھے۔ اسی عالم میں جناب سرور کائنات رسالت پناہ حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا - ائے فرزند ملک ہند میں جاؤ۔ 

[ تذکرۃ  الوجیہ، ص 25 ]

2 - نام و نسب 

آپ کا اسم گرامی احمد اور لقب وجیہ الدین ہے اور اسی لقب سے آپ خلق خدا کے درمیان مشہور ہوئے بلکہ علما و مشائخ بھی آپ کو اسی لقب سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ 

آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے 

سید وجیہ الدین احمد بن قاضی سید نصر اللہ بن قاضی سید عماد الدین بن قاضی سید عطاء الدین بن قاضی سید معین الدین بن سید بہاء الدین بن سید کبیر الدین بن قاضی سید ظہیر الدین بن قاضی سید شمس الدین بن قاضی سید بدر الدین بن قاضی سید علم الدین بن قاضی سید بہاء الدین بن سید جمال الدین بن سید احمد بن سید احمد منتخب بن سید علی مرتضی بن سید محمد عریض بن سید احمد مبرقع بن سید موسی بن سیدنا امام محمد جواد تقی بن سیدنا امام علی رضا بن سیدنا امام موسی کاظم بن سیدنا امام جعفر صادق بن سیدنا امام محمد باقر بن سیدنا امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہید کربلا بن سیدنا امیر المؤمنین مولی المسلمین حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ ورضی اللہ عنہم اجمعین 

اس طرح آپ کا نسب نامہ حضرت سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوتا ہوا پچیس واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم تک جا ملتا ہے 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 14 تا 15 ]

3 - تعلیم و تربیت 

آپ نے ایک علمی گہوارے میں آنکھیں کھولیں اور اپنے گرد و پیش خوشنما علمی ماحول دیکھا، لہذا بچپن ہی سے آپ کی طبیعت علم کی طرف مائل تھی۔ چنانچہ آپ نے کم سنی ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا بعدہ علوم دینیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اساتذہ وقت سے پورے شوق اور لگن کے ساتھ تحصیل علم میں مصروف ہو گئے۔ علوم عربیہ کی بیشتر کتابیں اپنے چچا حضرت مولانا سید قاضی شمس الدین قدس سرہ سے پڑھیں اور کچھ کتابیں اپنے ماموں شاہ بڑا بن ابو القاسم سے بھی پڑھیں، اس طرح آپ اپنے چچا اور ماموں دونوں کے علمی وارث اور امین بن گئے۔ اور کتب احادیث کا درس شیخ محدث ابو البرکات بنبانی عباسی قدس سرہ سے قراءتا اور سماعتا لیا۔ علاوہ ازیں ملک المحدثین علامہ محمد بن محمد مالکی مصری ( متوفی 929ھ ) شاگرد رشید حضرت علامہ حافظ شمس الدین سخاوی ( متوفی 902ھ ) سے علوم حدیث میں سند تکمیل حاصل کی اور علوم عقلیہ کی تعلیم فاضل اجل حضرت علامہ مولانا عماد الدین طارمی ( متوفی 941ھ ) شاگرد رشید حضرت علامہ مولانا جلال الدین محمد بن اسعد صدیقی ( متوفی 918ھ ) معروف بہ محقق دوانی سے حاصل کی۔ اس وقت حضرت علامہ عماد الدین کی درسگاہ کا ہر طرف شہرہ تھا، اور دور دور سے طالبان علم آ کر آپ کی بارگاہ سے علمی تشنگی بجھاتے تھے، حضرت شاہ وجیہ الدین نے بھی آپ کے علمی سر چشمہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور معروف خطیب و مفسر قرآن حضرت علامہ مولانا ابو الفضل گاذرونی سے بھی علوم و فنون خصوصا تفسیر کا درس لیا۔ اور آپ کا طریقہ تھا کہ دوران درس علامہ گاذرونی جو نکات بیان کرتے تھے، آپ اسے لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے اور تفسیر بیضاوی پر علامہ کے حواشی آپ ہی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 30 تا 31 ]

4 - درس و تدریس 

عرصہ دراز تک علوم و فنون کی تحصیل کے بعد، آپ نے درس و تدریس کی انجمن آراستہ کی اور ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کا نام علویہ" رکھا۔ اس وقت صوبہ گجرات پر سلطان بہادر شاہ کی حکمرانی ( 932 تا 943ھ ) تھی۔ آپ انتہائی جانفشانی سے طالبان علم نبوت کو درس دینے لگے اور آپ کے علم و فضل اور خداداد قابلیت و استعداد کا جوہر خود بخود نمایاں ہونے لگا اور مدرسہ دن بہ دن ترقی کرنے لگا۔ 

مدرسہ کا نظم و نسق نہایت عمدہ تھا۔ تعلیم کے ساتھ آپ طلبہ کی اخلاقی، دینی اور روحانی تربیت فرماتے۔ دن میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، منطق، فلسفہ، ہیئت، غرضیکہ جملہ علوم نقلیہ وعقلیہ کی تعلیم ہوتی اور رات میں جب آپ اذکار و اوراد سے فارغ ہوتے تو طلبہ کی نگرانی فرماتے، ان کے احوال اور ضروریات معلوم کرتے اور روحانی حقائق و دقائق کو دلنشیں اسلوب میں بیان کرتے۔ اس طرح سے تلامذہ علمی کمالات کے ساتھ حسن عمل اور حسن اخلاق سے بھی آراستہ ہوتے اور جس طرح آپ کے علمی فیضان سے مالامال ہوتے اسی طرح روحانی انوار سے بھی مستفیض یوتے۔ 

ان تمام خوبیوں کے باعث ہر طرف آپ کی درسگاہ کا شہرہ ہو گیا اور دور دراز سے بے شمار تشنگان علوم اور طالبان علم نبوت آ کر آپ کی درسگاہ فیض سے خوب فیضیاب اور سیراب ہوئے اور علم و فضل کے آفتاب و مہتاب بن کر نکلے، جن میں بہت سے اسی مدرسہ میں درس دینے پر مامور ہو گئے جن میں آپ کے فاضل فرزند گرامی بھی شامل تھے اور بیشتر تلامذہ آپ کے علمی فیضان کو عام کرنے کے لیے اکناف عالم میں پہنچے۔ اور ہند سے لے کر عرب تک کی سرزمین کو علوم و معارف کے انوار سے روشن کر دیا۔ اور 80 تلامذہ نے اپنے اپنے مقامات پر ادارے قائم کر کے زندگی، درس و تدریس کے لیے وقف کر دی۔ اس طرح آپ کے مدرسہ کی شاخیں، آپ کے تلامذہ کے ذریعہ جگہ جگہ قائم ہو گئیں اور مختصر سے وقت میں آپ کی درسگاہ اعلی نے اپنے دور کی عظیم یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرلیا۔ اس کی سند تمام علمائے عصر کے نزدیک بہت معتبر اور مستند سمجھی جانے لگی۔ حکومت کی طرف سے مدرسہ کی تعمیر جدید کروائی گئی، طلبہ کے رہائش و آسائش کا معقول انتظام کیا گیا، ان کے وظائف روزانہ مقرر کیے گئے اور ایک طبیب بھی علاج و معالجہ کے لیے رکھا گیا۔ 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 41 تا 42 ]

5 - تبحر علمی اور نبوی عطا و نوازش 

حضرت شاہ وجیہ الدین علوی کے بھتیجے سید شاہ ہاشم علوی کے ملفوظات "مقصود المراد" میں ہے کہ  بائیس سال کی عمر میں ایک سو بیس علوم و فنون حاصل ہو چکے تھے۔ 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 37 ] 

عبد القادر بدایونی رقم طراز ہیں : 

ہمیشہ دینی علوم کی درس و تدریس میں ۔مشغول رہتے تھے۔ تمام عقلی و نقلی علوم پر ان کو قدرت اور عبور حاصل تھا۔ چنانچہ صرف ہوائی سے لے کر قانون و شفا، شرح مفتاح اور عضدی جیسے کتابوں میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہوگی جس پر انہوں نے شرح یا حاشیہ نہ لکھا ہو۔ ایک مخلوق ان کے علمی افادہ سے فیض اٹھاتی تھی 

[ منتخب التواریخ ( اردو )، ص 584 ]  

شیخ عبد القادر عیدروس حضرمی لکھتے ہیں : 

وہ صاحب علم و زہد میں سے تھے۔ انہیں لوگوں میں بڑی مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل تھی۔ طلبہ نے آپ سے بہت سے فنون میں نفع اٹھایا اور اس کی بڑی شہرت ہے۔ 

[ النور السافر عن أخبار القرن العاشر، ص 582 ]  

خواجہ نظام الدین احمد بخشی رقم طراز ہیں : 

ہر وقت درس دیا کرتے تھے۔ علوم نقلی و عقلی سے خوب آگاہ تھے۔ عمدہ تصنیفات آپ کی ہیں اور اکثر علمی کتابوں پر آپ نے شروح و حواشی لکھے ہیں۔ 

[ طبقات اکبری، جلد 2، ص 483 ]

علامہ عبد الباقی نہاوندی جنہوں نے آپ سے استفادہ بھی کیا ہے، رقم طراز ہیں : 

ہندوستان کے اکثر متبحر علما میاں صاحب موصوف سے شاگردی کا تعلق رکھتے ییں۔ اس زمانے کے فضلا میں کوئی بھی جامعیت میں ان کی ہمسری نہیں کر سکتا

[ مآثر رحیمی، حصہ سوم، ص 17 تا 18 ] 

ملا صادق لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین قدس سرہ اپنے زمانے کے علمائے کبار میں ہیں۔ صاحب تقوی اور بڑے محتاط۔ شریعت کے راستے پر مضبوطی سے قائم رہنے والے تھے۔ ہمیشہ درس و افادہ میں مشغول رہتے۔ 

[ طبقات شاہ جہانی ( اردو )، ج 1، ص 312 ]  

حضرت علامہ عماد الدین طارمی ڈھائی سو علوم و فنون جانتے تھے اور آپ کی حیات تک حضرت شاہ وجیہ الدین نے آپ سے 125 علوم حاصل کیے تھے اور بقیہ علوم کے رہ جانے کا انہیں کافی قلق اور غم تھا۔ ایک روز خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ائے فرزند! غم مت کر، جتنے علوم تمہارے استاذ کو معلوم تھے، ان سے تیس زائد علوم ہم تمہیں عنایت کرتے ہیں۔ اور ایک کاغز بھی عطا کیا جس پر ان سارے علوم کے نام درج تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میری آنکھ کھلی تو وہ کاغز میرے ہاتھ میں تھا۔ اس کے بعد ان علوم میں سے جس علم کی طرف میں متوجہ ہوتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ برسوں سے اس علم کا درس دیا ہوں۔ اور اس کاغز کو آپ بہت حفاظت سے رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان تمام علوم پر آپ کو عبور حاصل ہو گیا تو وہ کاغز گم ہو گیا۔ 

[ روضۃ  الاولیاء بیجاپور، ص 109 ]

6 - ذوق مطالعہ 

آپ کو مطالعہ کتب سے بے حد درجہ شغف تھا اور بیشتر اپنے فاضل اوقات کو کتب بینی میں گزارتے تھے اور اسی مطالعہ کی برکت سے آپ کا سینہ علوم و معارف کا مخزن بن گیا۔ 

آپ کے ذوق مطالعہ سے شیخ عبد القادر ایک انتہائی حیرت انگیز اور چشم دید مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی کے نکاح کی تقریب تھی اور آپ کو نوشہ بنا کر باراتیوں کے مجمع کثیر کے ہمراہ آپ کی زوجہ کے دولت خانہ پر لے جایا گیا۔ اور ہندوستان میں قدیم زمانے سے یہ رائج ہے کہ دولہا اور دلہن کو ایک عالیشان اور آراستہ تخت پر بٹھایا جاتا ہے پھر خویش و اقارب، باپ دادا سے چلی آئی کچھ رسوم ادا کرتے ہیں۔ ٹھیک اس وقت آپ کہیں چلے جاتے ہیں اور لوگ ان رسوم کی ادائگی کے لیے آپ کو تلاش کرتے ہیں، مگر تلاش بسیار کے باوجود آپ کہیں نہیں ملے، بالآخر وہ سب آپ کے والد گرامی کے پاس آئے اور پوچھا کہ نوشہ کہاں ہے؟ کافی دیر سے جستجو جاری ہے مگر کہیں اتا پتا نہیں ہے۔ حضرت سید نصر اللہ نے فرمایا کہ میرا فرزند علم کا اتنا شائق ہے کہ شمار اور بیان سے باہر ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ مدرسہ کے علاوہ وہ کہیں نہیں جا سکتا، تم ان کے مدرسہ میں جاؤ، ان شاء اللہ انہیں وہیں پاؤ گے  کچھ لوگ آپ کے مدرسہ میں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ انتہائی انہماک کے ساتھ کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔ 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 39 ]

[ گلزار ابرار ( اردو )، ص 408 تا 409 ]

7 - بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے درس کی عظمت

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اخیر عمر میں آپ کا ارادہ ہوا کہ درس و تدریس کا سلسلہ موقوف کر دیں اور مدرسہ کی ادارت اور نظامت سنبھالیں۔ مگر سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبی اشارہ فرمایا کہ ہم اکثر تمہارے درس سننے کی خاطر تشریف لاتے ہیں لہذا اس کو ترک نہ کرو۔ اس مژدہ جانفزا کو سن کر آپ نے اخیر عمر تک درس جاری رکھا اور مدرسہ کا نام "درس محمدی" رکھا۔ اس طرح کامل چونسٹھ سال تک آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 

[ روضۃ  الاولیاء بیجاپور، ص 110، قدیم نسخہ ]

درس کی پابندی 

آپ کے درس کی یہ خصوصیت بھی قابل ذکر ہے کہ جب آپ نے درس دینا شروع کیا، آخر عمر تک صرف چار مواقع ایسے پیش آئے کہ کچھ روز تک درس موقوف رہا۔ جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملے گی۔ 

[ تذکرۃ  الوجیہ، ص 42 ]

8 - زہد و تقوی 

آپ اپنے والد کی عظمت و جلالت شان کے باوجود ان کے یہاں کا کھانا نہیں کھاتے تھے اور خود ہی کسب معاش کر کے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ عرصہ تک کسی کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ جب آپ کے والد  گرامی کو یہ معلوم ہوا تو آپ سے اس کا سبب دریافت کیا۔ آپ نے جوابا عرض کیا کہ چونکہ آپ منصب قضا پر متمکن ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ملازم خرید و فروخت میں احتیاط نہ رکھتے ہوں۔ آپ کے والد نے فرمایا کہ اس منصب رفیع پر قائم ہونے کے باوجود میں رزق حلال کے معاملہ میں مکمل احتیاط رکھتا ہوں اور شبہات سے بھی دور رہتا ہوں اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے تم جیسا پرہیزگار اور تقوی شعار فرزند عطا کیا مثل مشہور ہے : "الولد سرلأبیہ" یعنی لڑکا اپنے باپ کا سربستہ راز ہوتا ہے۔ لہذا تمہارا زہد و تقوی میرے تقوی و پرہیزگاری کی بین دلیل اور واضح علامت ہے۔ 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 104، بحوالہ رسالۃ  الوجیہ ( قلمی )، ص 10 ]

9 - ذھانت 

جب شہنشاہ جلال الدین اکبر احمدآباد آیا اور بھدر کے شاہی محل میں آپ سے ملاقات کی، تو چونکہ اکبر آپ کے تبحر علمی کا شہرہ پہلے سن چکا تھا لہذا باتوں باتوں میں اس نے سوال کیا کہ بتائیے کہ چاروں مذاہب میں سب سے عمدہ اور بہترین کون سا مذہب ہے؟ آپ نے برجستہ جواب دیا کہ اس محل شاہی کے چار دروازے ہیں اور بادشاہ محل کے بیچو بیچ میں تخت شاہی پر جلوہ افروز ہیں۔ لہذا جو شخص بھی شرف باریابی حاصل کرنے کے لیے چاروں میں سے جس دروازے سے داخل ہوگا، اسے شرف حضوری حاصل ہوگا اور دیدار سلطانی سے مشرف ہوگا۔ اتنا کہہ کر آپ خاموش ہو گئے۔ بادشاہ آپ کا مطلب سمجھ گیا کہ مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب خدا سے ملا دیتا ہے اور آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی سے بہت متاثر ہوا اور جب تک آپ بقید حیات رہے، انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ پیش آیا۔ 

[ تذکرۃ  الوجیہ، ص 76 ]

10 - بیعت و ارادت 

حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی علیہ الرحمہ کم سنی ہی میں حضرت شیخ قاضن چشتی نہروالی قدس سرہ ( متوفی 920ھ ) کے روحانی دامن سے وابستہ ہو گئے اور آپ سے بیعت و ارادت کا شرف حاصل کیا۔ اس وقت عمر مبارک 9 سال تھی یا اس سے بھی کم سن تھے۔ اور والد گرامی حضرت سید شاہ نصر اللہ قدس سرہ سے مغربیہ اور چشتیہ سلاسل کی اجازت و خلافت پائی۔ اور حضرت بدر الدین شاہ بڑا بن ابو القاسم صدیقی اور شیخ نجم الدین صدیقی نہروالی سے سلسلہ سہروردیہ کے اشغال و اذکار حاصل کیے۔ اسی طرح حضرت محدث ابو البرکات بنبانی عباسی قدس سرہ اور حضرت علامہ شیخ عماد الدین طارمی قدس سرہ سے بھی حقیقت اور معرفت کی تعلیم حاصل کی۔ اور آخر میں حضرت غوث العالم سید محمد غوث بن سید خطیر الدین گوالیاری قدس سرہ ( وصال 970ھ ) سے شطاری سلسلہ میں خلافت و اجازت حاصل کی اور انہیں کی خدمت میں رہ کر سلوک کی تکمیل کی اور اپنی نسبت بھی انہیں سے استوار فرمائی اور طریقت میں اسی سلسلہ کے اصول و آداب کی پیروی کی۔ 

چنانچہ رسالہ وجیہ الدین میں ہے : 

"ان کان شیخنا حنفي المذھب، شطاري المشرب وکان ماھرا في جمیع المذاھب وشاربا في کل المشارب" 

ترجمہ - ہمارے شیخ ( حضرت وجیہ الدین ) مذبا حنفی اور مشربا شطاری تھے اور تمام مذاہب میں ماہر اور ہر مشرب کے فیض یافتہ تھے ( رسالۃ  الوجیہ، قلمی، ص 15 اور 6 )۔ 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 70 تا 71 ]

11 - باطنی تصرف 

احمدآباد میں ایک بزرگ تھے۔ جن کی باطنی قوت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ بہت سے علما و صوفیہ ان کے گرویدہ ہو گئے تھے، ایک دن وہ حضرت شاہ وجیہ الدین علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں آئے اور بے ادبی کے ساتھ نام لے کر آپ کو پکارا۔ آپ نے نگاہ جلال سے انہیں دیکھا تو اسی وقت ان کی ولایت سلب ہو گئی۔ اب ان کی حالت بالکل دگرگوں ہو گئی اور انہیں آپ کے مقام و مرتبہ کا علم ہوا اور اپنی جسارت پر بہت نادم ہوئے۔ بالآخر آپ کے خلیفہ شیخ بایزید کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا سارا واقعہ کہہ سنایا اور عرض کیا کہ آپ حضرت شاہ وجیہ الدین کی بارگاہ میں جا کر میری سفارش کر دیں اور میری خطا معاف کروا دیں۔ شیخ بایزید انہیں اپنے ساتھ لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ان کی خطا کو معاف فرما دیں۔ حضرت شاہ وجیہ الدین کو ان کے حال زار پر ترس آ گیا اور فرمایا کہ تین مرتبہ "سبحان ربي الاعلی" کہو۔ اس کے پڑھتے ہی دوبارہ انہیں ولایت مل گئی اور ان کی سابقہ حالت عود کرائی۔ 

ایک شخص جو آپ کی بارگاہ کے پروردہ و تربیت یافتہ تھے، ان پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ کہنے لگے کہ میں نے یہ نعمت اپنے بزرگوں سے پائی ہے۔ لوگوں نے آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا کہ اب وہ بزرگوں سے لے لیں۔ دو تین روز ہی گزرے تھے کہ وہ آپ کی خدمت میں آ کر قدموں میں گر پڑے اور عجز و زاری کرنے لگے کہ میرا حال مجھ سے سلب کر لیا گیا ہے پھر آپ کی دعا سے وہ بدستور اپنے مقام پر قائز ہو گئے کسی نے ان سے پوچھا کہ کتنے مقامات طے کیے؟ انہوں نے کہا کہ تمام منزلیں طے کر چکا تھا، آپ نے فرمایا کہ ابھی تو تم اسمائے الہی تک بھی نہیں پہنچے۔ یہ تو ان اسما کی ایک تجلی تھی جس کو تم مراتب کا طے کرنا سمجھ بیٹھے ہو۔ 

[ تذکرۃ  الوجیہ، ص 89 ]

12 - تصنیف و تالیف 

حضرت شاہ وجیہ الدین نے درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں اور گراں بہا خدمات انجام دی ہیں۔ اور آپ کے رہوار قلم نے تصانیف کا انمول ذخیرہ چھوڑا ہے۔ چوں کہ اس دور میں شرح و حواشی لکھنے کا زیادہ رواج تھا، اس لیے آپ کی بیشتر تصانیف شروح و حواشی ہی کی شکل میں ہیں۔ اور بعض کتابیں کسی ایک عنوان پر یا کسی قرآنی آیت کی تشریح و توضیح میں مستقل تصنیف فرمائی ہیں۔

سطور ذیل میں آپ کے کچھ رسائل اور شروح و حواشی کے اسما لکھے جاتے ہیں۔ 

( الف ) رسائل : 

( 1 ) رسالہ "جنات عدن"

( 2 ) رسالہ "تحقیق والذين آمنوا واتبعتہم ذريتہم: 

( 3 ) رسالہ "تحقیق فأما من ثقلت موازينہ" 

( 4 ) رسالہ الایمان 

( 5 ) رسالہ "الترتیب في الصلوۃ " 

( 6 ) رسالہ "الکلام"

( 7 ) رسالہ "القلب" 

( 8 ) رسالہ "تحقیق ابلیس" 

( 9 ) رسالہ " الانسکریۃ  في جواب الطفقریۃ " 

( 10 ) رسالہ "اوارد وجیہ" 

( 11 ) رسالہ "في اجوبۃ  اعتراضات الفقیہ الحیرتي علی الفاضل الہندي" 

( 12 ) رسالہ طریقہ بیعت 

( 13 ) رسالہ وقف اعراد

( 14 ) رسالہ مختصر التعریف بالمولد الشریف للامام الجزري 

( 15 ) رسالہ حقیقت محمدیہ 

( 16 ) مکتوبات 

( ب ) شروح و حواشی :

( 1 ) حاشیۃ  البیضاوي 

( 2 ) حاشیہ تفسیر رحامني 

( 3 ) شرح نزھۃ  النظر 

( 4 ) حاشیہ ھدایہ 

( 5 ) حاشیہ شرح وقایہ 

( 6 ) حاشیہ تلویح 

( 7 ) حاشیہ علی شرح العضد علی مختصر ابن الحاجب 

( 8 ) حاشیہ علی شرح التفتازاني علی الشرح العضدي

( 9 ) حاشیہ اصول البزدوي

( 10 ) حاشیہ شرح مواقف للجرجاني

( 11 ) حاشیہ شرح مقاصد للتفتازاني ( الف ) باب الہیات ( ب ) سمعیات 

( 12 ) حاشیہ علی شرح التجرید للقوشجي 

( 13 ) حاشیہ علی شرح التجرید للاصفہاني 

( 14 ) حاشیہ علی الحاشیۃ  القدیمۃ  الجلالیۃ  علی شرح التجرید 

( 15 ) حاشیہ علی شرح العقائد 

( 16 ) حاشیہ علی حاشیۃ  الخیالي

( 17 ) حاشیہ علی شرح المطالع  

( 18 ) حاشیہ علی حاشیۃ  السید علی شرح المطالع 

( 19 ) حاشیہ علی الزبدہ شرح الشمسیہ لعلاء الدین النہروالي 

( 20 ) حاشیہ علی شرح الشمسیہ للقطب الرازي 

( 21 ) حاشیہ شرح حکمۃ  العین 

( 22 ) حاشیہ شرح چغمیني 

( 23 ) شرح رسالہ قوشجی ( فارسی )

( 24 ) حاشیہ علی شرح التذکرہ للنیسابوري 

( 25 ) حاشیہ شرح جامي 

( 26 ) شرح الوافي 

( 27 ) حاشیہ علی المنہل الصافي للدمامیني 

( 28 ) شرح ابیات المنہل والوجیز 

( 29 ) شرح ارشاد النحو 

( 30 ) حاشیہ ضریري 

( 31 ) شرح ابیات تسہیل لابن مالک 

( 32 ) حاشیہ شرح تہذیب 

( 33 ) شرح تلخیص المفتاح 

( 34 ) حاشیہ علی المطول للتفتازاني 

( 35 ) حاشیہ علی مختصر التلخیص للتفتازاني و حاشیہ علی شرح الجرجاني 

( 36 ) شرح البسیط في الفرائض 

( 37 ) حاشیہ علی الشفاء للقاضي عیاض المالکي 

( 38 ) شرح کلید مخازن ( فارسی ) للشیخ محمد غوث الگوالیری 

( 39 ) شرح جام جہاں نما ( فارسی )

 ( 40 ) شرح تحفہ شاھیہ 

( 41 ) شرح لوائح جامی 

( 42 ) وافیہ شرح کافیہ

( 43 ) حاشیہ عضدي  

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 47 تا 50 ]

13 - تلامذہ 

آپ کے درسگاہ بافیض سے بے شمار علما و فضلا نے فیض پایا جو اپنے عہد اور علاقہ کے ممتاز اور باکمال ارباب علم و دانش شمار کیے گئے۔ ان میں سے کئی حضرات نے مسند افتا کو زینت بخشی، بعض نے عہدہ قضا کو رونق بخشی اور بعض نے درس و تدریس کی خاموش خدمت پسند کی اور بہتوں نے خانقاہ میں بیٹھ کر ارشاد و ہدایت کے فرائض انجام دیے۔ جن میں ملک العلماء افضل المشائخ علامہ کبیر حضرت سید شاہ صبغۃ  اللہ بھروچی مدنی ( متوفی 1015ھ ) ایسے بلند بایہ بزرگ تھے کہ جب آپ عرب گئے تو علمائے حرمین نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر آپ کے علوم و معارف سے خوب مستفید ہوئے۔ اور حضرت علامہ قاضی جلال الدین ملتانی ( متوفی 999ھ )، حضرت علامہ حسن علی فراغی ( متوفی 1037ھ ) اور حضرت مولانا عبد الرحمن گجراتی اپنے علم و فضل کی بدولت اکبری اور جہانگیری عہد کے ممتاز علما میں شمار کیے گئے۔ 

چند مشاہیر تلامذہ کے اسما ذکر کیے جاتے ہیں جو بجائے خود علم و فضل کے ماہ و نجوم اور شریعت و طریقت کے مجمع البحرین ہیں : 

1۔ حضرت مولانا عثمان بن ابو عثمان بنگالی سنبھلی قدس سرہ ( متوفی 980ھ ) 

2۔ حضرت مولانا قاضی عبد العزیز بن عبد الکریم بن راجی محمد عینی اُجّینی گجراتی قدس سرہ ( متوفی 982ھ ) 

3۔ حضرت مولانا قاضی ضیاء الدین بن سلیمان بن سلونی عثمانی نیوتنی اودی قدس سرہ ( متوفی 989ھ ) 

4۔ حضرت مولانا شیخ صالح شطاری قدس سرہ ( متوفی 999ھ ) 

5۔ حضرت مولانا قاضی جلال الدین ملتانی قدس سرہ ( متوفی 999ھ ) 

6۔ حضرت مولانا سید جلال الدین ابو محمد بن حسن بن عبد الغفور حسینی بخاری مشہور بہ ماہ عالم قدس سرہ ( متوفی 1003ھ ) 

7۔ حضرت مولانا سید ضیاء اللہ بن سید محمد غوث گوالیاری قدس سرہ ( متوفی 1005ھ ) 

8۔ حضرت مولانا حکیم عثمان بن عیسی بن ابراہیم صدیقی بوبکانی برہانپوری قدس سرہ ( شہادت 1008ھ ) 

9۔ حضرت مولانا عبد اللہ بن بہلول بن چاند بن جنید بن محمد بن برہان الدین بن عز الدین بن محمود بن نجم الدین احمد بن شمس الدین عثمانی ہروی سندیلوی قدس سرہ ( وصال 1010ھ ) 

10۔ حضرت مولانا شیخ مفتی کمال محمد عباسی احمدآبادی قدس سرہ ( وصال 1013ھ ) 

11۔ اشرف العلماء والمشائخ حضرت علامہ سید صبغۃ  اللہ بن روح اللہ بن جمال اللہ حسینی کاظمی بھروچی مدنی قدس سرہ ( وصال 1015ھ، بمقام مدینہ طیبہ ) 

12۔ حضرت مولانا سید شاہ عبد اللہ بن حضرت سید شاہ وجیہ الدین علوی حسینی احمدآبادی قدس سرہ ( وصال 1017ھ ) 

13۔ حضرت مولانا سید عبد اللہ بن سید محمد غوث گوالیاری قدس سرہ ( وصال 1021ھ ) 

14۔ حضرت علامہ عبد القادر بن ابو احمد بن ہامون بغدادی سندی اُجّینی قدس سرہ ( وصال 1021ھ ) 

15۔ حضرت مولانا عبد الغنی جونپوری قدس سرہ ( وصال 1025ھ ) 

16۔ حضرت مولانا شیخ فرید بن شیخ محمد شریف بن عزیز اللہ صدیقی قدس سرہ ( وصال 1026ھ) 

17۔ حضرت علامہ شیخ محمد بن فضل بن صدر الدین صدیقی جونپوری برہانپوری قدس سرہ ( وصال 1029ھ )

18۔ حضرت مولانا علامہ عبد العزیز بن ولی محمد خالدی احمدآبادی قدس سرہ ( وصال 1030ھ ) 

19۔ حضرت مولانا حسن علی فراغی احمدآبادی قدس سرہ ( وصال 1037ھ ) 

20۔ حضرت مولانا شیخ سید شاہ ہاشم بن برہان الدین علوی، حضرت سید شاہ وجیہ الدین علوی کے بھتیجے قدمت اسرارہم ( وصال 1056ھ ) 

21۔ حضرت مولانا سید ابو تراب شطاری بن سید نجم الدین بن سید شمس الدین بن سید اسد الدین بن سید زین العابدین حسینی شیرازی لاہوری معروف بہ شاہ گدا قدس سرہ ( وصال 1071ھ ) 

22۔ حضرت مولانا سید یسین بن ابو یسین شطاری سامانوی قدس سرہ 

23۔ حضرت مولانا یوسف بنگالی برہانپوری قدس سرہ 

24۔ حضرت مولانا مرزا جان شیرازی قدس سرہ 

25۔ حضرت مولانا خوشحال بن قاسم بن مسکین تاشکندی احمدآبادی قدس سرہ

26۔ حضرت مولانا عبد الرحمن گجراتی، حضرت شیخ محدث گجرات علامہ محمد بن طاہر پٹنی کے رشتہ دار۔ قدس سرہ 

27۔ حضرت مولانا فقیہ قاضی عبد اللہ گجراتی بیجاپوری قدس سرہ 

28۔ حضرت مولانا شیخ محمد بن حسن بن موسی مانڑوی مصنف گلزار ابرار۔  قدس سرہ  ( وصال 1023ھ کے بعد ) 

29۔ حضرت مولانا شیخ عبد الہادی قدس سرہ 

30۔ حضرت مولانا شاہ عبد الملک معروف بہ حسن اللہ بادشاہ قدس سرہ 

31۔ حضرر مولانا سید شاہ عبد الغفور شطاری قدس سرہ 

32۔ حضرت مولانا شاہ عیسی مدنی شطاری ( وصال 15 رمضان ) 

33۔ حضرت مولانا سید یسین جوناگڑھی قدس سرہ وغیرہم 

ان کے علاوہ بھی سیکڑوں حضرات بر سہا برس تک آپ کی بارگاہ بافیض سے خوش چینی کرتے رہے۔ یہاں صرف اختصارا مذکورہ بالا اسمائے گرامی کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔  

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 66 تا 70 ]

14 - ملفوظات 

جامع ملفوظات کہتے ہیں کہ شیخ یعنی سید شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی فرماتے : 

ایک طالب کو صرف کھانا اور کپڑا چاہئے اس کے علاوہ کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ لطیف و لذیذ غزا کھانی چاہئے تاکہ قوت حاصل ہو۔ اس پر حضرت نے فرمایا : جو کچھ کھانا لذیذ ہوتا ہے زیادہ کھایا جاتا ہے۔ اور شکم سیری عبادت میں کاہلی پیدا کرتی ہے۔ ( جامع ملفوظات کہتے ہیں ) زیادہ کھانے سے وہ زیادتی مراد ہے جس کی وجہ سے آدمی کو نقصان پہنچے۔ 

[ ملفوظات شاہ وجیہ الدین قدس سرہ، ص 40، مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف ] 

طالب کے لئے اتنا کافی ہے جو اسے زندہ رکھ سکے اور کپڑا اتنا کافی ہے کہ جسم چھپ جائے۔ دوسری کسی چیز کا پابند نہ ہو اور جس طریقہ سے غیب سے حاصل ہو پہنے۔ 

[ ایضا، ص 40 ] 

جامع ملفوظات کہتے ہیں : 

میں نے عرض کی کہ بارہا میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ جسم کا یہ پنجرا ٹوٹ جائے ( یعنی مجھے موت آ جائے ) فرمایا : کیوں ٹوٹ جائے، اچھا خاصا پنجرا ہے ( یعنی تمہارے دل میں یہ آرزو کیوں پیدا ہوتی ہے؟ ) میں نے عرض کی کہ مجھ پر خاتمہ کا خوف غالب ہے۔ فرمایا نماز کے بعد یہ آیت پڑھا کرو 

رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَيْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃ ً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ  

اے رب ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر بیشک تو ہے بڑا دینے والا۔ 

[ ایضا، ص 41 ] 

نفس کے وسوسوں سے سکوت۔ حضرت قدس سرہ نے فرمایا نفس کا کام وسوسے پیدا کرنا ہے اور تہمارا کام پاس انفاس ہے۔ تم اپنے کام میں لگے رہو نفس اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ 

[ ایضا، ص 43 ] 

فرماتے تھے ؛ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض شاہ مرداں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو پہنچا۔ آپ سے سلطان العارفین بایزید کو پہنچا۔ اور ان سے حضرت شیخ محمد غوث قدس سرہ کو پہنچا۔ اور ان سے مجھ کو پہنچا۔ 

[ ایضا 44 ] 

لوگوں نے آپ سے تصور برزخ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ آدمی پہلے اپنے دل میں تصور کرے اس کے بعد اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرے۔ 

[ ایضا 47 ] 

رخصت کرتے وقت بندہ سے فرمایا : اگر مجھے یاد کرنا تو پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کرنا پھر آپ کی غلامی میں مجھے یاد کرنا۔۔۔ 

[ ایضا 46 ] 

ہم کافر کو مرید نہیں کرتے البتہ اس کو تلقین کرتے ہیں تاکہ وہ دنیوی زندگی میں ایک ذوق و حالت کا حامل ہو جائے۔ اور اس حالت کے سبب ہو سکتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے۔ 

[ ایضا 46 ] 

فرمایا : ہر خانوادہ کی نعمت کا ذوق علاحدہ پاؤگے۔ یہ بات میرے مرشد نے چار یا پانچ خانوادوں کی نعمت عطا کرنے کے بعد مجھ سے فرمائی۔ 

[ ایضا 65 ] 

میں نے ( جامع ملفوظات ) نے عرض کی تصور برزخ کی کئی اقسام ہیں۔ کون سی قسم النسب ہے؟ فرمایا : اول دل میں اس کے بعد آنکھ سے۔ 

[ ایضا 66 ] 

فرماتے تھے : جب فتح ہوگی ہر ایک خانوادے کی نعمت ظاہر ہوگی۔ اور ہر ایک کی لذت الگ ملے گی۔ سلسلوں کی نعمت عطا کرنے کے بعد مجھ سے فرمایا : سلطان العارفین بایزید بسطامی اور فلاں کے فیض سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض باطن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں زیادہ پہنچا ہے۔ 

[ ایضا، ص 68 ] 

اگر میرے ساتھ بے ادبی کرے گا کتنی بار کرے گا؟ اگر ایک بار کی دوبارہ اس سے ملاقات ہی نہ کروں گا۔ 

[ ایضا 68 ] 

فرماتے تھے : جو لوگ اپنے یہاں رہتے ہیں ( ان میں ) اگر کوئی گالی دے تو خاموش رہنا چاہئے۔  

[ ایضا 68 ]

15 - وفات حسرت آیات 

آپ 30 محرم الحرام 998ھ بروز اتوار صبح صادق کے وقت اس دار فانی سے راہی ملک بقا ہوئے۔ مزار مبارک مسقط الرأس احمدآباد میں مشہور و معروف اور زیارت گاہ خلائق ہے اور "لہم جنت الفردوس نزلا" سے آپ کی تاریخ وصال ( 998ھ ) برآمد ہوتی ہے۔ اس قطعہ تاریخ کی خوبی یہ ہے کہ اگر لہم کی میم کو حذف کر دیا جائے یعنی لہ جنت الفردوس نزلا تو اسی قطعہ سے آپ کے والد گرامی کی سن وصال ( 958ھ ) برآمد ہوتا ہے۔ 

جس سال آپ کا وصال ہونے والا تھا، اس سال آپ کی مسجد میں حوض کے پانی کا رنگ بدل گیا۔ لوگوں نے پانی نکالنا چاہا مگر حوض کے نعل دان میں ایک لکڑی پھنس گئی تھی جو کسی طرح نہ نکل سکی۔ اتفاقا حضرت شاہ وجیہ الدین حوض پر آئے اور دست مبارک میں پانی لے کر غور سے دیکھا پھر اسے حوض میں انڈیل دیا، اسی طرح تین مرتبہ آپ نے کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کی نگاہ کی برکت سے پانی کو آب حیات کی طرح کر دیا۔ کند ذہن اور جن کی زبان میں لکنت ہوتی ہے، ایسے لوگوں کے لیے یہ پانی بہت اکسیر ہے اور دوسری حاجتوں کے لئے بھی لوگ اس پانی کو لے جاتے ہیں اور اپنی خوش عقیدگی سے اس کے فوائد سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور اب تک یہ فیض جاری و ساری ہے۔ 

[ تذکرۃ  الوجیہ، ص 95 ] 

[ حضرت شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی شخصیت اور کارنامے، ص 110 تا 111 ]

16 - فضل و کمال کا اعتراف 

مولانا عبد القادر بدایونی لکھتے ہیں : 

میاں وجیہ الدین احمد آبادی علوی نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اپنے نسب کو انہوں نے مسافر ہونے کی وجہ سے شہرت نہ دی۔ اپنے زمانے کے بڑے عابد و متقی عالم تھے۔ شریعت کے راستے پر ہمیشہ گامزن رہنے والے اور قناعت کے گوشے میں رہنا ان کا شعار تھا۔ ہمیشہ دینی علوم کی درس و تدریس میں ۔مشغول رہتے تھے۔ تمام عقلی و نقلی علوم پر ان کو قدرت اور عبور حاصل تھا۔ چنانچہ صرف ہوائی سے لے کر قانون و شفا، شرح مفتاح اور عضدی جیسے کتابوں میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہوگی جس پر انہوں نے شرح یا حاشیہ نہ لکھا ہو۔ ایک مخلوق ان کے علمی افادہ سے فیض اٹھاتی تھی۔ اللہ نے ان کی دعا میں بڑا اثر دیا تھا اور شفا رکھی تھی۔ چنانچہ روزانہ بے شمار مریض ان کے پاس دعا کرانے کے لیے آتے تھے۔ ان کی دعا کا بھی بڑی جلدی اثر ہوتا تھا۔ وہ کبھی اپنے طور پر دنیا دار اصحاب کے گھر بھی نہیں گئے۔ بجز ایک دو بار کے اور وہ بھی نہایت کراہیت کے ساتھ۔ اپنے گھر اور مسجد سے ان کا قدم بجز نماز جمعہ کے باہر نہیں نکلتا تھا۔  سب کا مرکز و مرجع تھے۔ وضع اور لباس میں بھی وہ عام لوگوں سے کوئی امتیاز نہیں رکھتے تھے۔ موٹے جھوٹے کپڑوں ہی پر قانع رہتے تھے۔ جو کچھ نذرانہ آتا وہ دوسوں پر خرچ کر دیتے تھے۔  

[ منتخب التواریخ ( اردو ) ص 584 تا 585، ]

خواجہ نظام الدین احمد بخشی لکھتے ہیں : 

میاں وجیہ الدین گجراتی پچاس سال جادہ ارشاد و ہدایت پر متمکن رہے۔ فقر و فاقہ اور توکل میں زندگی بسر کی۔ ہر وقت درس دیا کرتے تھے۔ علوم نقلی و عقلی سے خوب آگاہ تھے۔ عمدہ تصنیفات آپ کی ہیں اور اکثر علمی کتابوں پر آپ نے شروح و حواشی لکھے ہیں۔ 

[ طبقات اکبری، جلد 2، ص 483 ]

علامہ عبد الباقی نہاوندی جنہوں نے آپ سے استفادہ بھی کیا ہے، لکھتے ہیں : 

میاں وجیہ الدین ایک دانش مند فاضل اور ہوشیار عالم ہیں۔ وہ علامہ عماد طارمی کے شاگرد ہیں جو علامہ زماں اور یگانہ زمانہ مولانا جلال الدین دوانی کے شاگردوں میں تھے۔ موصوف اپنی بے انتہا شہرت کی بنا پر کسی تعارف و توصیف کے محتاج نہیں ہیں۔ ہندوستان کے اکثر متبحر علما میاں صاحب موصوف سے شاگردی کا تعلق رکھتے ییں۔ اس زمانے کے فضلا میں کوئی بھی جامعیت میں ان کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ مجاہدہ نفس اور دنیاوی لذتوں سے کنارہ کشی میں کمال درجہ کوشش کی ہے۔ تزکیہ نفس میں اعلی مقام رکھتے تھے۔ میاں صاحب کے عمدہ احوال کی حد درجہ شہرت ان کے تفصیلی حالات کے بیان کرنے سے مجھے روکتی ہیں، اس لیے اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں 

[ مآثر رحیمی، حصہ سوم، ص 17 تا 18 ]

شیخ عبد القادر عیدروس حضرمی لکھتے ہیں : 

وہ صاحب علم و زہد میں سے تھے۔ انہیں لوگوں میں بڑی مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل تھی۔ طلبہ نے آپ سے بہت سے فنون میں نفع اٹھایا اور اس کی بڑی شہرت ہے۔ 

[ النور السافر عن أخبار القرن العاشر، ص 582 ]  

امام ابن العماد حنبلی بحوالہ النور السافر لکھتے ہیں : 

آپ کا انتقال احمدآباد میں ہوا۔ آپ صاحب علم و زہد میں سے تھے۔ انہیں لوگوں میں بڑی مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل تھی۔ طلبہ نے آپ سے بہت سے فنون میں نفع اٹھایا اور اس کی بڑی شہرت ہے۔ 

[ شذرات الذہب في أخبار من ذہب، جلد 10، ص 646 تا 647 ]

آپ کے شاگرد محمد غوثی منڈوی شطاری لکھتے ہیں : 

آپ دونوں جہاں کے قطب، دونوں عالم کے حقائق کے مرکز، حصولی اور حضوری علم کے مالک، اکتسابی اور وہبی فنون کے خداوند۔ گاغزی منقوش اشیاء کے رموز داں اور اسرار لوح محفوظ کے رازدار تھے۔ 

[ گلزار ابرار فارسی قلمی، ص 267 ]

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں : 

آپ بڑے معمر اور کامل ولی اللہ تھے، جامع کمالات و برکات ریاضت بہت کیا کرتے تھے۔ تصنیف و تالیف اور طالب علموں کی تربیت و ہدایت آپ کے محبوب مشغلے تھے، آپ نے اکثر کتب کے حواشی اور شروح بھی لکھی ہیں، شہر کے عام لوگوں جیسا لباس پہنتے تھے، علم و سلوک میں آپ کو شیخ محمد غوث سے عقیدت اور نسبت حاصل تھی لیکن بیعت کسی اور بزرگ سے تھے۔ 997 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی اور اپنے خانقاہ ہی کے صحن میں دفن کیے گئے۔ میں جب دیار حبیب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زیارت کے لیے حجاز جا رہا تھا تو راستے میں گجرات پڑتا تھا، چنانچہ میں نے وہاں شیخ وجیہ الدین کی زیارت کا شرف حاصل کیا، آپ سلسلہ قادریہ کے اکثر طور پر اذکار کیا کرتے تھے۔ 

[ اخبار الاخیار فارسی، ص 325 ]

اعلی حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں : 

مولانا وجیہ الدین علوی احمدآبادی علیہ الرحمۃ  الرؤف الہادی کہ سال وفات امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی میں متولد ہوئے۔ حضرت شیخ غوث گوالیاری علیہ رحمۃ  الملک الباری کے مرید سعید اور حضرت شیخ محقق کے استاذ مجید اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے شیخ سلسلہ اور صاحب مقامات رفیعہ و تصانیف کثیرہ بدیعہ ہیں، بیضاوی و ہدایہ و تلویح و شرح وقایہ و مطول و مختصر و شروح عقائد مواقف وغیرہ پر حواشی مفیدہ رکھتے ہیں اور کبرائے منکرین نے بھی اپنے رسائل میں ان سے استناد کیا۔ 

[ فتاوی رضویہ، جلد 7، ص 572 تا 573 ]

اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ  اللہ تعالی علیہ بھی حضرت سید شاہ احمد وجیہ الدین علوی الحسینی گجراتی احمد آبادی علیہ الرحمۃ  الرؤف الہادی کو اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں۔ آپ نے ناد علی کرم اللہ تعالی وجہہ کی سند بیان کی اور اس کے اخیر میں لکھا 

 یہ سب اکابر ناد علی ( کرم اللہ تعالی وجہہ ) کی سندیں لیتے اور اپنے تلامذہ و مستفدین کو اجازتیں دیتے۔۔۔۔

[ فتاوی رضویہ، جلد 29، ص 564 ]

علامہ غلام علی آزاد بلگرامی فرماتے ہیں :

قابل فخر کارناموں کے مالک، دنیا و آخرت میں ذی رتبہ، ظاہری علوم و باطنی علوم سے آگاہ اور دونوں جہاں کے زندگیوں کے خزانہ دار۔۔۔ 

طلبہ ان کے افادات عالیہ سے مستفید ہوئے اور مشرق و مغرب کو اپنے انوار و برکات سے معمور کر دیا۔ 

[ سبحۃ  المرجان في آثار ہندستان، ص 101 تا 102 ]

مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی سید شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں انہیں الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کی ہے۔ 

[ ابجد العلوم، جلد 3، ص 223 تا 224 ]

مولانا سید عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں : 

بڑے صاحب صدق و اخلاص اور قانع تھے۔ تھوڈی سی شئے پر صبر کرتے۔ شرافت طینت میں تھی۔ لباس میں کسی فرد بشر سے امتیاز مد نظر نہ تھا۔ جو کچھ حاصل ہوتا طلبہ پر صرف کر دیتے۔ موٹے جھوٹے کپڑے پہنتے مگر تدریس و رغبت الی اللہ اور اسباب دنیوی سے تجرد میں کمی نہ آتی اور نہ امراء کے دروازوں پر جاتے الا مجبورا یعنی کسی کی سفارش کے لیے۔ اپنے دولت کدے اور مسجد میں عبادت اور طلبہ کو افادہ کے سوا کوئی مشغلہ نہ تھا۔ تصانیف میں ید طولی حاصل تھا۔ ترتیب عبارات و تقسیم ابواب و فصول میں نہایت شستگی ہوتی تھی۔ 

[ نزہۃ  الخواطر وبہجۃ  المسامع والنواظر، الجزء الرابع، ص 442 تا 443 ]

مولانا سید عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں : 

علامہ وجیہ الدین بن نصر اللہ علوی گجراتی ان برگزیدہ علماء میں ہیں جن کے احسان سے اہل ہند کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتے، یہ علامہ عماد الدین محمد طارمی کے شاگرد تھے، تقریبا 20 برس کے سن سے انہوں نے تدریس شروع کی اور 67 سال تک احمدآباد میں معقول و منقول کے پڑھانے میں اپنی اوقات بسر کی اور شرح جامی سے لے کر تفسیر بیضاوی تک 23 کتابوں کے حواشی و شروح لکھے۔ انہیں کی زندگی میں احمدآباد سے لاہور تک ان کے شاگرد پھیل کر علمی خدمتوں میں مصروف ہو گئے تھے، اور استاذ الاساتذہ کا منصب جلیل اپنی زندگی میں ان کو حاصل ہو گیا تھا۔

[ یاد ایام، ص 99 تا 100 ]

سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں : 

ملک العلماء علامہ وجیہ الدین بن نصر اللہ گجراتی جنہوں نے نصف صدی علوم دینیہ و عقلیہ کا درس دیا اور جن کے تلامذہ نے ایک صدی سے زائد درس و تدریس کا ہنگامہ گرم رکھا، اسی صدی کے نصف آخر کی زینت تھےاور اسی صدی کی انتہا پر 998 ہجری میں سفر آخرت اختیار کیا۔ 

[ تاریخ دعوت و عزیمت، حصہ چہارم، ص 41 ]

شیخ عمر رضا کحالۃ  لکھتے ہیں : 

وجیہ الدین العلوی گجراتی مفسر، متکلم، محدث، اصولی، فرضی تھے۔ آپ کی ولادت ماہ محرم میں ہوئی اور ماہ صفر میں گجرات میں انتقال فرمایا۔ آپ کی ( جملہ ) تصانیف یہ ہیں : حاشیۃ  علی تفسیر البیضاوي، شرح النخبۃ  في اصول الحدیث، شرح المواقف، البسیط في الفرائض، وشرح العقائد للتفتازاني۔ 

[ معجم المؤلفين، جلد 4، ص 71 ]

مشہور مؤرخ معتمد خاں لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین محمد غوث کے خلفاء میں ہیں لیکن ایسے خلیفہ کہ مرشد بھی ان کی خلافت پر ناز کرے سوائے ان کے کوئی نہیں ملے گا۔ شیخ وجیہ الدین کی ارادت حضرت محمد غوث کی عظمت کی بڑی واضح اور قطعی دلیل ہے۔ شیخ وجیہ الدین ظاہری اور معنوی دونوں خوبیوں سے آراستہ تھے۔ 

[ اقبال نامہ جہانگیری، جلد سوم، مخطوطہ ورق 54 ] 

ملا صادق لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین قدس سرہ اپنے زمانے کے علمائے کبار میں ہیں۔ صاحب تقوی اور بڑے محتاط۔ شریعت کے راستے پر مضبوطی سے قائم رہنے والے تھے۔ ہمیشہ درس و افادہ میں مشغول رہتے۔ 

[ طبقات شاہ جہانی ( اردو )، ج 1، ص 312 ]  

شیخ وجیہ الدین بن محمد یوسف لکھتے ہیں : 

صوفیہ کے مشرب کا انہیں پورا ذوق ملا تھا۔ ملت کے بہت بڑے عالم اور دین و ملت کے مقدس بزرگوں میں تھے سخاوت میں بلند پایہ اور خلائق میں نہایت ہر دلعزیز شخصیت رکھتے تھے۔ طلبہ کی تربیت کا خاص ملکہ قدرت نے انہیں عطا کیا تھا۔ 

[ بحر زخار مخطوطہ، موج احوال، 594 ] 

غلام معین الدین فرماتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین علوی علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے اور شیخ محمد غوث کے خلیفہ تھے۔ مرید تو کسی اور کے تھے۔ نہایت سن رسیدہ بزرگ تھے۔ رات میں ریاضت و مجاہدہ کرتے اور دن میں طالب علموں کو پڑھانے میں مشغول رہتے۔ 

[ معارج الولایت مخطوطہ ] 

سید امام الدین نقوی گلشن آباد اپنی مشہور زمانہ تصنیف تذکرۃ  الانساب میں سیدنا امام محمد تقی الجواد رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد کے بیان میں سب سے پہلے آپ ہی کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : 

آپ علماء ربانی اور گجرات کے اولیاء کبار سے ہیں۔ غوث العالم حضرت محمد غوث گوالیاری کے خلفائے کاملین سے ہیں۔ استاذ البشر اور علی الثانی آپ کا خطاب تھا۔ پورا ملک گجرات و دکن آپ کے فیوضات ظاہری و باطنی سے لبریز ہے۔ 

آپ کے خاندان میں بکثرت علماء و فضلاء گزرے ہیں۔ چنانچہ بہت سے بزرگوں کا حال تاریخ الاولیاء جلد دوم سوم میں مرقوم ہوا ہے۔ سلخ محرم 998 ہجری آپ نے رحلت فرمائی اور احمدآباد گجرات میں آسودہ ہیں۔ 

[ تذکرۃ  الانساب، ص 224 تا 225 ]

مراۃ  احمدی میں ہے : 

شاہ وجیہ الدین علوی عریضی۔ آپ کا نام وجیہ الدین احمد بن شیخ نصر اللہ علوی، جامع کمالات، معقول و منقول ظاہر اور باطن تھے۔ آپ کے فرزندوں نے اپنے سلسلہ نسب کو محمد عریض بن امام محمد جواد تک پہنچایا ہے۔ حضرت شاہ وجیہ الدین کی جائے ولادت چانپانیر ہے۔ محرم 910 ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی۔ لفظ "شیخ" سے اس کی تاریخ نکلتی ہے۔ 5 برس کی عمر سے 35 سال تک تحصیل علوم میں مشغول رہے اور اس وقت سے زندگی کے آخری لمحہ تک احمدآباد میں درس اور ہدایت خلق میں مشغول رہے۔ متعدد رسالے، حواشی، شروح آپ کی تصنیفات اس وقت لوگوں میں زیر درس ہیں۔ ہزاروں آدمیوں نے آپ سے تحصیل علوم کیے۔ علوم باطنی سے بھی کامل طور پر آگاہ تھے اور شب و روز ہدایت و فیض پہنچانے میں مشغول رہتے۔۔ 

[ تاریخ اولیاء گجرات ترجمہ مراۃ  احمدی، ص 82 تا 83 ]

مولوی عبد الحق صاحب لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین احمد العلوی قدس سرہ بہت بڑے عالم اور صاحب باطن ہوئے ہیں۔ صاحب تصانیف ہیں سن 910ھ میں احمدآباد جانپانیر میں پیدا ہوئے اور سن 998ھ میں انتقال فرمایا۔ آخر عمر میں، احمدآباد میں، درس و تدریس اور تعلیم و تلقین میں مصروف رہے۔ اگر چہ وہ اور ان کے خاندان کے دوسرے بزرگ شاہ قادن ( قاضن ) کے مرید تھے لیکن فیض روحانی اور معرفت الہی شیخ محمد غوث سے حاصل ہوئی۔ آپ کے مریدوں نے آپ کے ملفوظات کتاب کی صورت میں جمع کیے ہیں جس کا نام بحر الحقائق ہے۔ اس میں جگہ جگہ ان کے ہندی اقوال درج ہیں۔ شیخ کے مرید ان سے سوال کرتے ہیں اور وہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ سوال تو فارسی میں لکھے ہیں لیکن جواب خود شیخ ہی کے الفاظ میں ہندی میں تحریر کیے ہیں۔ 

[ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص 25 تا 26 ]

حکیم سید شمس اللہ قادری لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین علوی گجرات کے علمائے کبار اور مشائخین عظام سے ہیں۔ 911ھ میں چنپانیر میں پیدا ہوئے اور ملا عماد الدین طارمی کے شاگرد اور شیخ محمد غوث گوالیاری کے خلیفہ تھے۔ 19 صفر 998ھ کو آپ نے انتقال فرمایا ہے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، منطق، فلسفہ، بیان و معانی وغیرہ میں جس قدر مشہور اور متداول کتابیں ہیں ان سب پر آپ نے حواشی لکھے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی اور بھی بہت تصنیفات ہیں۔ منجملہ ان کے اکثر کتابوں کے نام مولانا آزاد بلگرامی نے سبحۃ  المرجان میں لکھے ہیں۔ 

[ اردوئے قدیم، ص 24 ]

محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں : 

وجیہ الدین بن نصر اللہ بن عماد الدین علوی گجراتی ماہ محرم 911 ہجری ( جون 1505ء ) کو سرزمین گجرات کے ایک گاؤں جانپانیر میں پیدا ہوئے اور اساتذہ عصر سے حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ پھر علامہ عماد الدین محمد بن محمود طارمی کے حلقہ درس میں داخل ہوئے۔ ان سے اصول و کلام، معانی و بیان اور منطق و فلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں تک کہ تمام علوم مروجہ میں درجہ کمال کو پہنچے۔ علوم آلیہ و عالیہ میں مہارت پیدا کی اور اپنے دور کے عالم کبیر، مفسر و فقیہ اور شیخ و امام گردانے گئے۔ درس و تدریس کے منصب عالیا پر فائز ہوئے اور مسند افتا کو زینت بخشی۔ اس کے علاوہ علوم طریقت میں بہرہ وافر حاصل کیا اور شیخ قاضی خاں نہروالی جو شیخ قاضن کے نام سے معروف تھے اور صاحب جواہر الخمسہ شیخ محمد غوث گوالیاری سے مستفیض ہوئے۔۔۔۔ شیخ موصوف مسند افتا پر فائز تھے مگر فتوی دینے اور اس پر دستخط کرنے کے بارے میں بے حد محتاط تھے۔ وہ گجرات ( کاٹھیاواڑ ) میں سکونت پذیر تھے اور والی گجرات سلطان محمود ان کا انتہائی احترام کرتا تھا۔ تحقیق مسائل اور افتا کے باب میں وہ ان ہی سے رجوع کرتا تھا۔۔۔۔۔ شیخ وجیہ الدین بہت بڑے مصنف، شارح اور محشی بھی تھے۔  انہوں نے مختلف علوم و فنون پر مشتمل کم و بیش ستائیس درسی اور غیر درسی کتابوں پر شروح اور حواشی تحریر کیے جو اہل علم میں مقبول ہوئے اور لوگوں نے ان سے استفادہ کیا۔ 

[ فقہائے ہند، جلد 3، ص 711 تا 712 ]

مولوی رحمان علی لکھتے ہیں : 

شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی ماہ محرم 911ھ/ 1505ء میں جانپانیر ( چمپانیر ) مضاف گجرات میں پیدا ہوئے۔ ظاہری علوم ملا عماد طارمی کی خدمت میں حاصل کیے اور شیخ فاضل کے مرید ہوئے۔ ظاہری و باطنی علوم میں کمال حاصل کیا، خدا تعالی نے اسم شافی کا ان کو مظہر بنایا تھا۔ ہر جمعہ کو ان کے آستانے پر مریضوں کی ایک بہت بڑی جماعت پہنچتی تھی اور ان سے دعا کی درخواست کرتی تھی۔ اور اس کا اثر جلد ہوتا تھا۔ غرض مخلوق خدا کو ہمیشہ ان کی ذات مقدس سے فیض پہنچتا۔ زمانہ کے کمال اکابر و اخیار ان کے مکام پر پہنچتے تھے اس کے باوجود ہمیشہ تدریس و تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔ 

[ تذکرہ علمائے ہند، ص 456 ]

مولانا محمد یوسف لکھتے ہیں : 

علامہ وجیہ الدین بن نصر اللہ بن عماد الدین علوی۔ اپنے زمانے کے مشہور اکابر علماء میں سے تھے۔ علوم دینی میں بے پناہ تبحر رکھتے تھے۔ ان کی کثرت تصانیف اور تدریس میں ان کا کوئی معاصر ان کی برابری نہیں کر سکتا بلکہ بعد کے لوگوں میں ایسے مرجع الخواص مشائخ کم ہی رہے ہیں کہ آپ کے تلامذہ کی تعداد ایک گجراتی تاریخ کے مطابق 84 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ 22 محرم الحرام 910 ہجری کو چانپانیر گجرات میں پیدا ہوئے۔ شیخ وجیہ الدین کے دادا سید بہاء الدین مکی عرب سے ہندوستان سلطان محمود ثانی کے عہد حکومت میں تشریف لائے تھے اور چانپانیر کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ یہیں نکاح کیا اور یہیں انتقال ہوا علامہ کی پیدائش بھی یہیں کی ہے۔ 

[ مشائخ احمد آباد، ص 271 ]


Previous Post Next Post