Biography DR. Muhammad Hamidullha Koun the | تعارف ڈاکٹر محمد حمید اللہ پیرس | Azeem Seerat Nigar|

 آج کی یہ ویڈیو پیش کرتے ہوئے مجھے دکھ بھی ہے اور خوشی بھی ۔


خوشی اس بات کی  ڈاکٹر حمید اللہ  نظامی بھی میرے مادر علمی کے فیض یافتہ ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم نے برصغیر کے سنی علما و محققین نے ان کو اپنا نہیں سمجھا۔ اگر اپنا سمجھا بھی تو ان کے ساتھ تعصب برتا جس کے سبب بد عقیدہ وہابی دیوبندیوں نے ان کو ہائی جیک کیا۔ گزشتہ دنوں فیس بک ایک ہمارے علمی دوست نے ان کے حوالے سے ایک پوسٹ کی تھی اسی سبب آج میں ڈاکٹر حمید اللہ علیہ الرحمہ کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں اس امید کہ ساتھ یہ ویڈیو آپ کو پسند آئے گی ۔ پسند آنے یا نہ آنے کی صورت میں کیا کرنا ہے وہ آپ جانتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ عالم اسلام کے نامور محقق، مفکر اور سیرت نگار تھے۔ آپ کی علمی، فکری، تحقیقی وتصنیفی زندگی تقریباً اسّی پچاسی سال کے طویل عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا تعلق خاندانِ نوائط سے تھا۔ نوائط کا نسبی تعلق عرب کے معزز قبیلہ بنو ہاشم کی ایک شاخ سے تھا۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ نوائط نے حجاج بن یوسف کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہجرت کی اور یہ خاندان جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں پر آ کر آباد ہو گیا تھا۔یہ خاندان اپنی دین داری، شرافت اور علمی رجحانات وخدمات کے لحاظ سے بہت معروف ومشہور ہے (۱)۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۱۶ محرم ۱۳۲۶ ہجری بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ بروز چہار شنبہ کو فیل خانہ جو کہ حیدر آباد (دکن) کا قدیم محلہ تھا، میں پیدا ہوئے۔ 

آپ کے والد گرامی کا  نام محمد خلیل اللہ تھا جو خود بھی ایک ادیب اور عالم شخصیت تھے۔جوکہ مدد گار معتمدمال گزاری حیدر آباد تھے ڈاکٹر حمید اللہ کے دادا محمد صبغت اللہ نے بھی بہت سی کتابیں مختلف زبانوں میں تصنیف کی ہے۔ انہوں نے 29 کتابیں عربی میں، 24 فارسی میں اور 14 اردو میں لکھیں۔ اسی وجہ سے اُن کے دادا کا نام بھی عظیم علما میں شامل ہے۔

 والدہ کا نام بی بی سلطان تھا۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ایک بھائی کابچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ بہنوں کے نام امۃ العزیز بیگم، امۃ الو ہاب بیگم، امۃ رقیہ بیگم ، امۃ الصمد بیگم، حبیبۃ الرحمن اور بھائیوں کے نام محمد صبغت اللہ ، محمد حبیب اللہ اور محمد غلام احمد ہیں۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تعلیم کا آغاز گھر سے دینی تعلیم سے ہوا۔ ان کی رسم بسم اللہ والد محترم نے پڑھائی۔ کچھ عرصے تک خود بیٹے کو درس دیتے رہے۔ پھر حیدر آباد کی مشہور درس گاہ دارالعلوم میں داخل کرایا جہاں وہ چھٹے درجے تک پڑھتے رہے۔چھٹی جماعت کے بعد انہیں جا معہ نظامیہ میں شریک کرایا ۔کئی سال وہ وہاں پڑھتے رہے۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر ڈاکٹر حمید اللہ انگریزی زبان کی اہمیت سے واقف تھے۔ انہوں نے انگریزی تعلیم اپنے والد صاحب کی اجازت کے بغیر حاصل کرنا شروع کی۔

ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۲۸ء میں ڈاکٹر صاحب نے جامعہ عثمانیہ سے فقہ میں بی اے کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی۔ ۱۹۳۰ء میں ایم اے کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا اور اسی سال ایل ایل بی بھی کر لیا۔ جامعہ عثمانیہ میں تحقیقات علمیہ کے لیے علیحدہ شعبہ ۱۹۳۰ء میں قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب اس شعبہ کے پہلے طالب علم تھے۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’’اسلامی و یورپی قانون بین الممالک کا تقابلی مطالعہ‘‘ تھا۔ ایم اے میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے پر ڈاکٹر صاحب کو جامعہ عثمانیہ سے دو سال کے لیے ۷۵ روپے ماہوار وظیفہ ملا تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جامعہ عثمانیہ سے درخواست کی کہ انہیں تحقیقی کام کے لیے مواد جمع کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اور وہاں ان کا وظیفہ بھی جاری رکھا جائے جو جامعہ عثمانیہ نے قبول کی ۔

حصول علم اور تحقیق کا شوق ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو یورپ لے گیا جہاں کی لائبریریوں اور درس گاہوں سے آپ نے خوب استفادہ کیا۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں جب وہ تحقیقی کام کے سلسلہ میں استنبول میں تھے توجرمنی کی بون یونیورسٹی کے پروفیسر کرنیکو نے ان کو بون آنے کی دعوت دی۔ جامعہ عثمانیہ نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ اپنا مقالہ بون یونیورسٹی کو پیش کر سکتے ہیں۔ بون یونیورسٹی میں قیام کے دوران مخطوطات سے استفادہ کیا۔ برلین میں بعض نادر ونایاب مخطوطات دریافت کیے۔ بون یونیورسٹی میں ۱۹۳۳ ء میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا تحقیقی مقالہ ’’اسلام کے بین الاقوامی قانون میں غیر جانب داری‘‘ کے موضوع پر پیش کیا۔ اس مقالہ پر آپ کو ڈی فل کی ڈگری عطا کی گئی۔ اس کے بعد آپ پیرس آئے۔ ۱۹۳۴ء میں آپ نے پیرس کی مشہور ومعروف سور بون یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے داخلہ لیا۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا ’’عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘‘۔ گیارہ مہینے کی قلیل مدت میں مقالہ مکمل کیا اور ۳۱ جنوری ۱۹۳۵ ؁ء کو انہیں ڈی لٹ کی سند نہایت اعزاز کے ساتھ عطا کی گئی۔ جرمنی اور فرانس کی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کا ارادہ ماسکو یونیورسٹی سے تیسری ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کا تھا، لیکن آپ کے وظیفہ کی مدت ختم ہو گئی۔ا علیٰ ڈگریز کے حصول کے بعد ڈاکٹر صاحب وطن تشریف لائے اور مادر علمی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں وہ دینیات اور اسلامی قانون کی تعلیم دیتے رہے ۔یہ سلسلہ ۱۹۴۸ تک جاری رہا۔

تقسیم ہند کے بعد ریاست حیدرآباد کا سقوط ہو گیا تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے پیرس کو اپنا مستقل رہائشی مقام بنانے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے فرانس کے ممتاز ادارے نیشنل سنٹر آف سائیٹفک ریسرچ National Centre of Scientific Research میں شمولیت اختیار کر لی۔کچھ عرصہ ترکی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۷ء میں ڈاکٹرذ کی ولیدی طوغان نے (جو استنبول یونیورسٹی میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر تھے)۔ ڈاکٹر صاحب کو مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کیا۔ ان کے لیکچروں میں طلبہ کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد اور دانشوروں کی خاصی تعداد شریک ہوا کرتی تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل اور سیرت وکردار کی شہرت سارے ملک میں پھیل گئی۔ پچیس برس تک وہ استانبول یونیورسٹی، ارض روم یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے جاتے رہے۔ وہ سال میں تین مہینے ترکی اور باقی ایام پیرس میں گزارتے تھے۔ یورپ کے قیام کے دوران ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔پیرس میں آپ نے مستقل قیام کیا۔ وہاں کتب خانوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ پیرس کو بہت پسند کرتے تھے۔ وہاں پر رہتے ہوئے انہوں نے تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ ایک بلند پایہ محقق ، عالم دین، ادیب اور داعی اللہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی تحقیق، تصنیف وتالیف اور اسلام کی خدمت میں صرف کر دی۔ انہوں نے بے شمار علمی خزانہ ورثے میں چھوڑا ہے جو دین اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ہے اور قابل فخر سرمایہ ہے۔انہوں نے قرآن و حدیث ،فقہ و قانون اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے متنوع و مختلف موضوعات پر تقریباً ایک ہزار مقالات اور ایک سو ستر وقیع کتب یادگار چھوڑی ہیں۔ محمد حمید اللہ کا علمی و فکری سرمایہ صرف ان کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب و مقالات تک ہی محدود نہیں رہا۔ ان کے مکاتیب بھی علوم و معارف کا ایک وقیع گنجینہ ہیں۔ ان مکاتیب سے نہ صرف مختلف اسلامی علوم و فنون کے حوالے سے قیمتی و مفید معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ ان سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ان کے اصول زندگانی ،ان کے عادات و معمولات اور ان کی گوناں گوں دلچسپیوں کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ 

مشہور کتابیں

ڈاکٹر صاحب کی مشہور کتابیں اور تصانیف کچھ اس طرح سے ہیں۔

”تعارف اسلام“ (Introduction of Islam) ڈاکٹر صاحب کی تصنیف کردہ کتب میں اور اسلام کے بارے میں شائع ہونے والی کتب میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کتاب کا دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ اور تفسیر

ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار قرآن کریم کا مکمل فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور تفسیر لکھی۔ اس ترجمہ اور تفسیر کے قریباً بیس ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کسی بھی یورپی زبان میں سب سے زیادہ چھپنے والے تراجم میں سے ہے، جو کئی ملین کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ اس فرانسیسی ترجمے اور تفسیر سے بہت فرانسیسی اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ اُن کی کوششوں اور تحقیق کی وجہ سے مسلمان ہونے والوں کی تعداد 30،000 بتائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ مبالغہ لگے مگر حقیقت میں ہزاروں لوگ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہوئے۔

خطبات بہاولپور

1980ء میں 8 مارچ سے 20 مارچ تک بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ڈاکٹرمحمد حمید اللہ نے 1ک82 دن تک مختلف موضوعات پر لیکچرز دیے۔ ان لیکچرز میں اسلام کے کچھ بنیادی پہلوؤں اور اس کی ابتدائی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فی البدیہہ دیے جانے والے یہ لیکچرز برسوں کی تحقیق اور دوسرے علم کا فی الواقع آسان زبان میں نچوڑ تھے۔ اردو میں سن کر لکھے جانے والے اور خطبات بہاولپور کے نام سے چھپنے والے یہ لیکچرز دوسری کئی چیزوں کے علاوہ اس بات پر مشتمل تھے کہ قرآن و حدیث کو کیسے جمع کیا گیا اور ان کی تدوین کی گئی۔ اس کتاب خطبات بہاولپور کا انگریزی میں ترجمہ اسلام کی آمد کے نام سے کیا گیا ہے۔ ان لیکچرز یا خطبات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

صحیفہ ہمام بن منبہ

احادیث کی سب سے اولین کتابو ں میں شامل جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے طور پر جانی جاتی ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (58 ہجری بمطابق 677 عیسوی) میں اپنے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا، اس عظیم دستاویز کو ڈاکتر محمد حمید اللہ نے اس کی تصنیف کے 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور شائع کرایا۔ اس دریافت سے بعض لوگوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہو گیا کہ احادیث کی تدوین و تالیف نبی کریم ﷺ کی وفات کے 200 سال بعد ہوئی۔

فہرست کتب

ڈاکٹر حمید اللہ کے اپنے بقول ان کے مقالوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ ان کی تصانیف، تالیفات، ترجموں، نظر ثانی شدہ کتابوں، کتابچوں اور رسائل کی تعداد 164 کے قریب بنتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔

 داعئ اسلام ان کی سب سے زیادہ عالمی شہرت یافتہ کتاب ہیں۔

سلطنتوں کے باہمی برتاؤ کا دستور العمل۔ 

قانون بین الممالیک کے اصول اور نظیریں جلد طبع اول 1936ء، حیدرآباد دکن۔ طبع ثانی 1945ء، حیدرآباد دکن

’’ عہد نبویؐ کا نظام تعلیم’’ ۔ طبع دہم 1976ء، حیدرآباد دکن (اب یہ مختصر کتاب ’’ عہد نبویؐ میں نظام حکمرانی’’  کا حصہ ہے)

’’ عہد نبویؐ میں نظام حکمرانی’’ ۔ 1981ء، کراچی

’’ امام ابو حنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی’’ ۔ 1983ء، کراچی

’’ عربی حبشی تعلقات اور نو دریافت شدہ مکتوبات نبویؐ بنام نجاشی’’ ۔ 1942ء، حیدرآباد

’’ قانون شہادت’’ ۔ 1944ء، حیدرآباد

’’ عہد نبویؐ کے میدان جنگ’’ ، لاہور[7]

’’ رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی’’ ۔ 1980ء، کراچی

’’ صحیفہ ہمام ابن منبہ’’ ، کراچی۔ ملک سنز، فیصل آباد 1983ء، اضافی دیباچہ غلام احمد حریری

’’ سیاسی وثیقہ جات’’  (ترجمہ الوثائق السیاسیۃ از ابو یحییٰ امام خان نوشہروی)، لاہور، 1960ء

’’ روزہ کیوں؟’’  (ترجمہ?Why Fast از محمد حبیب اللہ)، حیدرآباد 1966ء

’’ خطبات بہاولپور’’ ، اشاعت اول 1981ء، بہاولپور۔ مکمل نظر ثانی شدہ اشاعت، اسلام آباد

’’ سیرت ابن اسحاق’’  (ترجمہ از نور الٰہی ایڈوکیٹ)، نقوش رسولؐ نمبر

’’ سیرت طیبہ پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے عثمانیہ یونیورسٹی کے لیکچر’’  1987ء، حیدرآباد

’’ سیرت طیبہ کا پیغام عصر حاضر کے نام’’ ، 1992ء، لاہور

’’ اخبار الطوال’’ 

’’ کتاب المجر’ 

’’ مقالات گارساں دتاسی’’ 

’’ خطباتِ گاساں دتاسی’’ 

’’ نقشہ ہائے تاریخ اسلام’’ 

’’ مقالہ در ’’ نذر عرشی’’ ’’  (عنوان مقالہ شمس الائمہ سرخسی)

’’ مقالہ در ’’ نذر مختار’’ ’’  (عنوان مقالہ فرانسیسی زبان کی پیدائش میں عربی کا حصہ)

’’ اسلامی قانون کا ارتقا’’  (توسیعی لیکچر)

’’ رویت ہلال / نیا چاند’’ 

’’ عیدین اور ان کے منانے کے اسلامی و جاہلی طریقے’’ 

’’ مدرسۂ محمدی’’ 

’’ داعئ اسلام’’ 

آپ کے اردو مقالات کی تعداد 350 سے زائد ہے

آپ نے عربی میں 15 کتابیں تحریر کیں۔ جبکہ آپ کے عربی مقالات کی تعداد 35 ہے۔

آپ نے فارسی میں 6 مقالات تحریر کیے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی وفات کے بعد ان کے تحقیقاتی کاموں کو دوبارہ شائع کیا گیا۔ انڈیا اور پاکستان کے سکالروں نے اپنی کتابوں میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو شاندار خراج تحسین بھی پیش کیا۔ کچھ رسالوں نے ان پر خصوصی نمبر نکالے۔جن میں۔

معارف اسلامی، دعوہ، فکر و نظر،اورئینٹل کالج میگزین، شاداب نمایاں ہیں۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ زندگی اور علمی کاموں پر تین کتابیں بھی لکھی اور شائع کی گئی ہیں جن کے نام یوں ہیں۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ از راشد شیخ ،

آثارِ ڈاکٹر حمید اللہ از صفدر حسین ،

مجددِ علومِ سیرت از غتریف شہباز

سید قاسم محمود اور محمد عالم مختارِ حق صاحبان نے ان پر مضامین اور تحقیقی مضامین لکھے اور کتابی شکل میں شائع کیے۔

آخری عمر میں پیرس سے امریکی ریاست فلوریڈا میں جیکسن ویل میں اپنی بھتیجی کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں 17/دسمبر 2002ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ پورے عالم اسلام میں اس خبر کو انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ سنا گیا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post