حضرت مولانا سید عبد الصمد سہسوانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سیدعبدالصمد۔لقب:علاقہ سہسوان کی نسبت "سہوانی" کہلاتےہیں۔والدکااسمِ گرامی:سیدغالب حسین حسینی علیہ الرحمہ۔خاندانی نسبت وتعلق حضرت قطب المشائخ خواجہ ابو یوسف مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سےہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزجمعۃ المبارک14/شعبان المعظم 1269ھ،مطابق 20مئی/1853ءکواپنےآبائی مکان محلہ محی الدین پور،شہرسہسوان صوبہ یوپی انڈیامیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نےاپنے خالہ زاد بھائی حضرت مولانا حکیم سخاوت حسین انصاری سے تعلیم شروع کی، سات برس کی عمر میں حفظ قرآن سے فراغت پائی، گیارہ برس کی عمر میں صرف ونحو اور علوم شرعیہ کی تعلیم متوسطات تک پانے کے بعد حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر قدس سرہٗ کے حقلۂ درس میں شریک ہوئے،اور علوم و فنون کی تکمیل کی، حضرت سیف اللہ المسلول اور حضرت مولانا شاہ نور احمد قدس سرہما سے بھی استفادہ کیا، فراغت کے بعد تدریس کا آغاز بھی مدرسہ قادریہ میں کیا۔اسی طرح مکۃ المکرمہ میں شیخ سیدمبارک مکی علیہ الرحمہ کوبخاری ومسلم سنائی اوران سےتصوف واخلاق کی تعلیم حاصل کی۔
بیعت وخلافت: شیخ الاسلام خواجہ محمد علی خیر آبادی(خلیفہ حضرت خواجہ تونسوی واستاذعلامہ فضلِ حق خیرآبادی) کےجانشینِ صادق حضرت خواجہ محمد اسلم خیرآبادی سےبیعت ہوئے،اورخلافت سےنوازےگئے۔اسی طرح سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ میں حضرت سیدمبارک مکی نےخلافت عطاءفرمائی۔علیہم الرحمہ۔
سیرت وخصائص: جامع المنقول والمعقول،جامعِ شریعت وطریقت،حامیِ اہلسنت،دافعِ اہل بدعت،فقیہ،فاضل،ادیبِ کامل حضرت علامہ مولاناسیدعبدالصمدسہسوانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ نہایت متقی وپرہیزگارعالمِ دین تھے۔ساری زندگی نوراسلام سےلوگوں کےقلوب کومنورکرتےرہے۔آپ صاحبِ علم وفضل تھے۔حافظہ بہت قوی تھا۔صحیح بخاری شریف مع مکمل روات حفظ تھی،اسی طرح حصنِ حصین بھی زبانی یادتھی۔آپ کی روحانی قوت کااندازہ اس بات سےلگایاجاسکتاہےکہ رمضان المبارک میں صرف ڈھائی گھنٹے میں پوراقرآن مجیدختم فرماتےتھے۔(تذکرہ علمائے اہلسنت:ص130)
درس وتدریس،تصنیف وتالیف،وعظ ونصیحت محبوب مشغلہ تھا۔ساری زندگی درس وتدریس سےوابستہ رہے۔احقاقِ حق اورابطالِ باطل کافریضہ پوری طاقت وقوت کےساتھ کیا۔تقریباً 1285ھ کوایک مشہورغیرمقلدمولوی امیرحسن سہسوانی طبقۂ ارض کے ہر حصہ میں سرور کائناتﷺ کے مثیل کا فتنہ پیدا کیا، اور امکان کذب اور امکان کذب کی صحت وجواز میں "افاداتِ ترابیہ"لکھ کر شائع کی۔ آپ نےاس کے جواب ورد میں مدلل کتاب "افادات صمدیہ" لکھی، جو 1285ھ میں چھپ کر شائع ہوئی، اور 1286ھ میں عید کے دن "افادات صمدیہ" کے مندرجات پر آپ نے مولوی امیر حسن سے مباحثہ کیا اور ہزار ہا افراد کےمجمع میں مولوی امیر حسن کو ذلت آمیزشکست دی، اس وقت حضرت مولانا شاہ عبد الصمد کی عمر 17برس تھی۔
اسی طرح ایک بارگونڈہ کےعلاقےمیں تشریف لے گئے، یہیں پر میر فاروق علی پھپھوندوی سے ملاقات ہوئی، میر صاحب آپ کے تورع وتقویٰ سے متأثر ہوکر مرید ہوگئے اور انہیں کی درخواست پر اُن کے وطن پھپھوند تشریف لےگئے، میر فاروق صاحب محلہ سید واڑہ میں رہتے تھے، جس کی اکثر آبادی شاہان اودھ کےزیر اثر شیعہ ہوچکی تھی ۔آپ نےیہاں اپنی تقریروں میں رد شیعت کی طرف خاص توجہ فرماتے جس سے شیعیت کو نقصان پہنچنا شروع ہوا، اور لوگ ان کے فاسد عقائد سے آگاہ ہونے لگے۔مولوی عمارعلی شیعی کوسامنےآنےکی جرأت تونہ ہوئی البتہ اس نےایک کتاب "اثبات المتعہ"لکھی۔آپ نےاس کےجواب میں دلائلِ قاہرہ کےساتھ حرمتِ متعہ میں ایک ضخیم کتاب"ارغام الشیاطین فی تردیدمتعۃ الشیعین" تحریرفرمائی۔یہ کتاب اگرچہ بظاہر حرمتِ متعہ پرہے،مگرضمنی طورپراصول مسائل شیعہ کی تردیدمیں ایک شاہکارتصنیف ہے۔
اس علاقےمیں آپ کی برکت سےمسلکِ اہل سنت کوبڑافروغ حاصل ہوا۔مجلس"ندوۃ العلماء"کی اصلاح کےلئےعلمائے اہل سنت کی طرف سےمستقل صدرتھے۔لیکن جب اصلاح کی کوئی صورت نظرنہ آئی تواس کوخیرآبادکہ کرعوام اہل سنت کےسامنےان کی بطلان پرزبردست بیان فرمائے۔علوم وفنون ،فقہ،مناظرہ،اصول اورعلم الاخلاق میں مہارت کےساتھ اللہ جل شانہ نےسحربیانی کی لطافت سےنوازاتھا۔وعظ میں ایک خاص اثرتھا۔دورانِ وعظ کئی حضرات متأثرہوکرگناہوں سےتائب ہوجاتےتھے۔اندازبیان واستدلال حضرت مولاناتاج الفحول کی طرح تھا۔بعض مرتبہ اجنبی دھوکاکھاجاتےتھےکہ حضرت تاج الفحول بیان فرمارہےہیں۔آپ کاحلقۂ ارادت بہت وسیع تھا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزہفتہ 17/جمادی الثانی 1323ھ،مطابق 19/اگست1905ءکو11بجےشب واصل بحق ہوئے۔18کوتدفین ہوئی۔آپ کامزارپھپھوندمیں ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔ نزہۃ الخواطر۔
Post a Comment