درویش الوقت نبیرہ حضور سید الطائفہ جنید بغدادی حضرت شاہ نصر اللہ لکھنوی شطاری القادری لکھنوی جنیدی عرف نانا پیر رحمتہ اللہ علیہ آپ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کی اولاد میں پاک سے ہیں اور غوث الاولیاء شاہ محمد غوث گوالیاری کے خلیفہ ہیں۔
آپ کی قوت عمل وعلم ، فضل و کمال اور حال او احوال کا اندازہم نہیں لگا سکتے نانا پیر رحمہ اللہ علیہ 12 سال کی عمر میں شاہ محمد غوث گوالیاری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور اپنے مرشد کی خدمت میں رہ کرروحانی تربیت حاصل کی اور درجۂ کمال پر فائز ہوئےاور حضرت محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر بیعت کا شرف حاصل اور انہیں سے خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن نانا پیر علیہ الرحمہ بیٹھے ہوئے تھےکہ کچھ مسخروں کو ان سے مذاق کی سوجھی تو ان مسخروں نے ایک زندہ انسان کو کفن پہنا کے آپ کے سامنے لے آئے. نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی..
شیخ نصر اللہ نانا میاں نے فرمایا ’ مرشد گرامی پڑھا دیں گے ۔ وہ اندر ہیں ، باہر آنے دیں، کچھ انتظار کریں۔
لیکن ان لوگو ں نے جلدی بازی کی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بہت زیادہ زیادہ اسرار کیاتو نہ بادل نخواستہ آپ نے جس وقت تکبیر کہی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ نمازکے بعد جب مسخرو ں نے چادر ہٹائی۔ان کا مقصد تھا کہ نانا میاں کا مذاق بنایا جا سکے اور ان پر ہنسا جا سکے مگر جب انہوں نے چادر ہٹائی توحیرانی کی انتہا نہ رہی کہ وہ آدمی اب دنیا میں نہ رہا...جب ان مسخرو ں نے اپنی جگ ہنسائی چھپانے کے لیے شور و غوغا کیا ، ہنگامہ برپا کیا ۔
محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ اس وقت حجرے میں ان بدبختوں کےشور و ہنگامہ سنا تو حقیقت اندر سے جان لی۔
اکبر بادشاہ جب لکھنؤ پہنچا تو آپ کی زیارت کے لیے گیا.. لیکن آپ نے حجرے کا دروازہ بھی نہ کھولا اور ملنے کی بھی اجازت نہ دی.. .پھر اکبر بادشاہ جب وہاں سے کاکوری شریف گئے تو شاہ بھیکھا شاہ قادری کاکوروی علیہ الرحمہ کو پورا واقعہ سنایا . پھر شاہ بھیکھا رحمت اللہ علیہ بادشاہ کو شاہ نصر اللہ ناناپیر رحمت اللہ علیہ کی خدمت میں لائے.بادشاہ دیکھتا ہے کہ نانا پیرکے پیچھے دو شیر ہیں..اور حکم کے منتظر ہیں...جب بادشاہ زیارت کر کے لوٹا تو چاندی کی اشرفیاں بھر کر اور 500بیگھہ زمین کا فرمان شیخ کی خدمت میں بھیجا..آپ نے کچھ بھی قبول نہ کیا۔
خزینۃ الاصفیہ جلد 2 میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ اکبر آپکی بارگاہ اقدس میں اولاد کے لیے دعا کرنے کے لیے پہنچا توآپ نے ملنے سے منع فرمادیا دیا ۔ بادشاہ آپ کے دربار سے خالی نہیں لوٹنا چاہتا تھا اس نے آپ کے در پر دست طلب دراز کیے رہا تو شیخ نصر اللہ نے ایک چادر اٹھا کر اپنے بیٹے نور الدین پر ڈال دی تو نور الدین علیہ الرحمہ کا انتقال ہوا اور شیخ نصر اللہ علیہ الرحمہ نے باہر آکے بادشاہ اکبرسے فرمایاتجھے بیٹا ہوگا ، اس کا نام نورالدین رکھنا۔ ایسا ہی ہواس کے نعد بادشاہ اکبر کے یہاں ایک لڑکا پیدا جس کا نام نورالدین محمد جہانگیر عرف سلیم رکھا
محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ نےسید تاج الدین علی جلال علی بخاری علیہ الرحمہ سے فرمایا کے نصر اللہ کے لیے لکھنؤ میں رہنا مقرر ہو چکا ہے۔ آپ (سید تاج الدین علی جلال علی بخاری نے تمام ظاہری باطنی تعلیم وتربیت حضرت خواجہ محمد غوث گوالیاری کے صحبت میں رہ کر مکمل کی تھی۔
آپ (سید تاج الدین علی جلال علی بخاری) نے عرض کیا لکھنؤ میں حسد بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے..اس سے پہلے اس شہر سید بدیع الدین شاہ مدار آزردہ ہو چکے ہیں ۔شاہ نصر اللہ کس طرح اس شہر میں گزر بسر کریں گے...شیخ غوث گوالیاری علیہ الرحمہ نے فرمایا کی نصر اللہ کے حاسدین قیامت تک زیر زمین رہیں گے اور شیخ نصر اللہ اس شہر کے لوگوں خدا کی راہ دکھائیں گے ان سینوں کو ہدایت کے نور سے روشن کریں گے۔
سید تاج الدین کے ساتھ شیخ نصر اللہ اپنے پیر ومرشد کے حکم پر لکھنؤ تشریف لائے..
اور جس مقام پر شاہ پیر محمد کا مزار ہے (تیلے والی مسجد) وہیں رات گزری.
آج جس مقام پر آپ کا مزار ہے وہیں جنگل تھا..جس کے اندر آپ نے سکونت اختیاار کی اور عبادت الٰہی میں مشغول رہے... آپ کے کمالات و کرامت کا شہرہ چہار دانگ عالم میں ہونے لگا .. ایک ہفتہ کے بعد حضرت خضر علیہ السلام آپ سے مل کر تلقین فرمائی ۔باقی زندگی لکھنؤ میں بسر کی۔
آپ کے جلال کا یہ عالم تھاکہ جس نے بھی آپ کا جانشین (خلیفہ) بننے کے لیے آپ کا جبہ مبارک دیکھا تو اس سے نکلنے والی نورانی و عرفانی شعاعوں کے مستحق نہ ہو سکا اور فوت ہوگیا۔
اس کے بعدکچھ وقت تک آپ کے در کی سجادگی چلی..لیکن کسی نے جبہ مبارک پہننے کی کبھی ہمت نہیں کی۔
شہنشاہ اکبر کے دور میں 11 رجب (عرس) کو جان جان آفرین کی طرف روح پرواز کی...آپ کے روضہ پاک کے مجاور آپ کے بھائی شیخ سکندر کی اولاد سے ہیں۔جنکا مزار اندرونی مقبرے میں ہے۔
(از : بحر ذخار جلد دوم از سیدوجیہہ الدین اشرف)