Biography Makhdoom Ali Mahimi تعارف حضرت مخدوم فقیہ قطب کوکن مخدوم علی مہائمی

 

 حضرت مخدوم علی مہائمی  ۔۔۔مختصر تعارف 
غلام ربانی فداؔ



حضرت مخدوم علی مہائمی کا شمار ہندوستان کے صاحب علم وبصیرت عالم، مفسر قرآن اور عظیم فقیہوں میں ہوتا ہے ، ماہم کا علاقہ کوکن کے علاقہ میں آتا ہے اس لیے ان کو قطب کوکن بھی کہا جاتا ہے۔ فقیہ  مخدوم علی مہائمی کا علمی وروحانی مقام انتہائی بلند و عظیم ہے ، مخدوم مہائمی کی روحانی وعلمی اور دینی فضیلت کی وجہ سے انہیں قطب الاقطاب ، عالم معانی، مولانا قطب برہانی وغیرہا جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت مخدوم مہائمی کو جہاں علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارت تامہ حاصل تھی وہیں آپ کو فن کتابت یعنی خطاطی میں یدطولیٰ حاصل تھا، آپ کے علمی آثار و تبرکات میں قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ خط نسخ میں مخدوم مہائمی کے دست مبارک سے لکھا ہوا ہت جو درگاہ شریف میں محفوظ ہے، جس کی زیارت ہر سال ۲۹ رمضان کی شب میں کروائی جاتی ہے۔

حضرت فقیہ مخدوم علی مہائمی کے آبا و اجداد ۲۵۲ ؁ ھ بمطابق ۸۶۰؁ء میں  حجاج بن یوسف کے ظلم سے تنگ آ کر حجاز سے ماہم میں تشریف لائے ۔پہلے پہل یہ قبیلہ کلیان میں بھی مقیم رہا۔ مخدوم علی ماہمی ایک شریف و نجیب خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے اجداد عربی الاصل نائطی ہیں۔ قبیلہ نائط قبیلہ بنو ہاشم کی شاخ ہے۔

ولادت

 حضرت مخدوم ماہمی کی ولادت  دس محرم الحرام ۷۷۶ بمطابق ۱۳۷۲ کو ماہم میں ہوئی ۔

والدین:

آپ کے والد ماجد کا نام شیخ احمد بن ابراہیم بن اسماعیل تھا۔ جن کا لقب ’پرو‘ تھا۔جو اپنے وقت بہت بڑے عالم وفاضل اور متقی اور نیک شخص تھے۔ان کے علم و فضل کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ کوکن کے دولت مند تاجروں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی شادی ماہم میں مقیم ملک التجار ناخدا حسین انکولیا کی صاحبزادی بی بی فاطمہ سے ہوئی۔حضرت مخدوم ماہمی کی والدہ کریمہ انتہائی شریف  النفس ، پاک سیرت، عابدہ ، زاہدہ، صاحب تقویٰ و مقامات عالیہ کی مالک تھیں۔

بچپن

حضرت مخدوم ماہمی کے بچپن ہی سے ان کی پیشانی میں انوار و عرفان ولایت چمکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مخدوم ماہمی کی والدہ ماجدہ کی دعا کی برکت سے آپ نے ولایت پائی۔

تعلیم و تربیت

مخدوم مہائمی جب سن شعور کو پہنچے تو اپنے آبائی و ننھیالی علمی ومذہبی ماحول میسر آیا۔ ہر طرف قال اللہ و قال الر سول اللہ کی صدائیں گونجتی نظر آتی۔ یوں ان کے دل میں علم کے حصول کا شوق گہرا ہوتا گیا ۔مخدوم مہائمی کے والد گرامی نے جب اپنے بیٹے ذوق علم و اشتیاق علم کو دیکھا تو انہیں مذہب کے اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ فرمائی۔ ابھی آپ کی تعلیم مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ محض نو سال کی عمر میں والد گرامی کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔مخدوم مہائمی کے والد محترم کا وصال ۷۸۸ء میں کلیان  میں ہوا۔ 

جب آپ کے والد کا وصال ہوا تو حضرت خضر علیہ السلام  نے مخدوم ماہمی کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا،  ہر روز  فجر کی نماز کے بعد حضرت خضر علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے۔یوں آپ نے فقہ ، فلسفہ، تفسیر و حدیث و دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارت حاصل کی، تھوڑے ہی عرصہ میں مخدوم مہائمی کے علم وفضل چرچاہر سو گونجنے لگا

مہائم میں ایک مدرسہ تھا۔وہاں حضرت مخدوم فقیہ قطب کوکن مخدوم علی مہائمی طلبہ کو  علم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم باطنی سے بھی روشناس کراتے۔

آپ کے والد گرامی کے وصال کے بعد ان کی والدہ ان کو  لے کر ماہم آگئیں۔ان کی والدہ نے اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم وتربیت میں کوئی کس باقی نہیں رکھی۔

یوں تو بے شمار کرامات مخدوم ماہمی کے زبان زد عام ہیں مگر ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا چلوں

حضرت مخدوم مہائمی بچپن ہی سے نہایت باادب و فرماں بردارتھے۔ والدی کی خدمت آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ اتفاق سے ایک رات آپ کی والدہ نے عشا کی نماز کے بعد بستر پر لیٹی تھی ، پیاس لگی تو آپ نے مخدوم مہائمی سے پانی مانگا، آپ پانی لے کر گئے تو دیکھا کہ والدہ صاحبہ کی آنکھ لگ گئی ہے ، نیند سے اٹھانا ادب کے خلاف جان کر تمام رات پانی کا کٹورا لیے کھڑے رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی ۔جب والدہ کی آنکھ کھلی تو پوچھس ، بیٹا کب سے پانی لیے کھڑے ہو۔ مخدوم مہائمی نے عرض کیا۔ اما جان آپ نے سوتے ہوئے جس وقت پانی مانگا تھا اسی وقت سے آپ کے بیدار ہونے کے انتظار میں کھڑا ہوں۔، والدہ صاحبہ کو اپنے بیٹے کی فرماں برداری، سعادتمندی اتنی پسند آئی کہ دل باغ باغ ہو گیا، فوراً بستر سے اٹھیں ، وضو کیا، بارگاہ رب العزت میں اپنے بیٹے کے لیے دعائے خیر کی۔ ماں کی دعا کا اثر تھا کہ مخدوم مہائمی علوم ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال کو پہنچے اور بہت جلد مرتبۂ ولایت کو پہنچے۔

(رسالہ ضمیر الانسان)


تصانیف:

مخدوم مہائمی کی زندگی کا بڑا حصہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گزرا ،آپ نے مختلف رسائل قلمبند فرمائے۔ مختلف کتب و شروحات تحریر فرمائے، تفسیر قرآن فرمائی۔آپ کی کچھ کتابوں کے نام یوں ہیں۔

تفسہر رحمانی۔زروارف شرح عوارف، خصوص النعم، شرح فصوص الحکم۔ ترجمہ لمعات عراقی ، نور الازہر فی کشف القضا والقدر ، الضوء الازہر فی شرح النور الازہر،الرتبۃ الرفیعہ فی سلمجمع والتوفیق بین اسرار الحقیقۃ وانوار الشریعہ،امحاض النصیحۃ،مرآۃ الحقائق، اراء ۃ الدقائق شرح مرآۃ الحقایق، مشرع الخصوص فی شرح الفصوص، ترجمہ و شرح لمعات عراقی،، استجلاء البصرفی الرد علیٰ استقصاء النظر،الوجود فر شرح اسماء المعبود، فقہ مخدومی، فتاوی مخدومیہ، رسالہ عجیبہ،تبصیر الرحمٰن و تیسر المنان بعض ما یشیر الیٰ اعجاز القرآن، تنویر الجنان، شرح قصیدہ رائیہ ، اسرار الفقہ ، رسالۃ الوجود، اجلۃ التائید فی شرح ادلۃ التوحید، ، انعام الملک العلام باحکام حکم الاحکام، ادلۃ التوحید، وغیرہ رسائل وتصانیف سلوک  وعرفان میں مشہور ہیں۔

کل اکیس کتابیں ہیں جن میں سے صرف دس کتابیں دستیاب ہیں، بقیہ کتب کا اتا پتا نہیں۔ آپ کی تفسیر ،تبصیر الرحمٰن و تیسر المنان بعض ما یشیر الیٰ اعجاز القرآن عرف عام میں جسے تفسیر رحمانی اور تفسیر مہائمی کہا جاتا ہے۔پر ایک تحقیقی مقالہ جامع ازہر مصر میں لکھا جا چکا ہے۔

اور آپ کی یہ تفسیر جامع ازہر مصر میں پڑھائی جاتی ہے۔اور اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ برلین جرمنی کے میوزیم میں محفوظ یے۔

اقلیم ولایت کے تاجدار ، علوم الٰہیہ کے بحرذخار، اسرار شریعت و طریقت کے رمز شناس، فلسفۂ وجودی کے نکتہ طراز، آفتاب کوکن حضور مخدوم علی مخدوم مہائمی ۸ جمادی الآخر ۸۳۵ ھ بمطابق فروری ۱۴۳۱ ء کو  شب جمعہ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

اور جمعہ کی صبح پاؤ دن چڑھے مہائم کے اندر اپنے اقربا کے قبرستان میں والدہ ماجدہ کی قبر کے پہلو میں سپرد خاک کیے ،۔ آج بھی ان کا روضہ زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت علامہ محمد فاروق مہائمی مصباحی کی کتاب سوانح مخدوم علی مہائمی اور حضرت ےتوفیق احسن صاحب کی کتاب میں ممبئی عظمیٰ کی مختصر تاریخ میں آپ کے حوالے سے معلومات کے لیے لازمی مطالعہ کریں۔


Previous Post Next Post