حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخ بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخ بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
امیر خانوادۂ ساداتِ بخاری،خوکردہ جمال محمدی،پروردہ کمال احمدی،بلبل مرغزارصمدیت،فائز بہ کمالات الفقر فخری،ولی صاحب ولایت علی الاطلاق بالاتفاق،مجسم نورانی و روحانی،پیشوائے جن و انسانی ، متصرف بہ تصرفات،صاحب کشف وکرامات،امام الاولیاء،حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر خیر کر رہے ہیں اس امید کے ساتھ آپ کو یہ ویڈیو پسند آئے گی۔
نام ونسب: اسمِ گرامی:مخدوم سیدجلال الدین۔
لقب:سرخ بخاری۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت سید مخدوم جلال الدین سرخ بخاری بن سید ابو المؤید علی بن سید جعفر حسینی بن سید محمود بن سید احمد بن سید عبد اللہ بن سید علی اصغر بن سید جعفر ثانی بن امام محمد نقی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ۔آپ کاتعلق سادات بخاراسےہے۔
سرخ بخاری کی وجہ تسمیہ: عرف عام میں آپ کو جلال الدین سرخ بخاری کے نام سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ بخارا کے رہنے والے تھے وہاں کی آب و ہوا کی وجہ سے آپ کے چہر کا رنگ سرخ مائل تھا۔ اس وجہ سے آپ کے پیر و مرشد حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا سہروردی ملتانی علیہ الرحمۃ پیار سے سرخ بخاری کے نام سے پکارتے تھے۔جو بعد میں آپ کے نام کا حصہ بن کے رہ گیا۔ تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت5/ذوالحج595ھ،مطابق ستمبر1199ء،کو"بخارا"(ازبکستان)میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کی تعلیم و تربیت بخارا میں ہی مکمل ہوئی۔اس وقت بخاراعلوم وفنون کامرکزتھا۔آپ کے اساتذہ کے بارے میں تاریخ و تذکرہ نگار خاموش ہیں مگر آپ کے ہم عصر حضرات کی زبانی یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ ایک بلندپایہ متبحر عالم و محدث و مفسراور فقہیہ العصر تھے۔ آپ کے زمانے میں آپ کے پائے کا کوئی عالم نہ تھا۔بڑے بڑے مشائخ و علماء دور دور سے آکر مسائل کی گھتیاں سلجھا کر واپس جاتے۔آپ کے علمی فیض و برکات کے سبب وسیع و عریض علاقہ علم کے روشنی سے بہرہ ور ہوا۔
بیعت وخلافت: آپ شیخ الاسلام حضرت غوث بہاؤالدین زکریاملتانی رحمۃ اللہ علیہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اور انہی سے خرقہ خلافت پاکر صاحب ارشاد ہوئے۔
سیرت وخصائص: آپ رحمۃ اللہ علیہ پاک وہند کےساداتِ بخاری کےجدامجدہیں۔آپ اپنےوقت کےولی کامل تھے۔جنوبی پنجاب اورسندھ کےاکثرقبائل آپ کےہاتھوں مشرف بااسلام ہوئے۔جن میں بالخصوص راجپوت،سیال،چدھڑ، لغاری،مزاری،ڈاہر،وارن،سومرو،ساما،اورکئی بلوچی قبائل شامل ہیں۔اسی طرح جب اوچ شریف تشریف لائے تو یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔آپ کی آمد کی بدولت اوچ اسلام کامرکزاورگہوارہ بن گیا۔جہاں آپ تشریف لےجاتے وہاں اسلامی تعلیمات عام کرنےکےلئے ایک دینی ادارہ ضرورقائم فرماتے جس سے فروغِ اسلام میں بڑی ترقی ہوتی تھی۔ہرطرف سے قال اللہ اور قال رسول اللہ کی صدائیں اوراسلام کی بہاریں نظرآتی تھیں۔پھرآپ نےاپنےخلفاءکی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نےبرصغیرپاک و ہندکےکونےکونےمیں پہنچ کر اس بت کدہ ٔہند کفر و شرک کی اس وادی میں اسلام کی شمع کو روشن کر کے اسلام کے نور کو پھیلایا۔
بخارا سے ہندوستان کے سفر کا آغاز:آپ نے جب بخارا سے ہندوستان کی جانب سفر کا آغاز کیا تو سب سے پہلے نجف اشرف پہنچے اور وہاں حضرت مولائے کائنات شیر خدا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم کےمزار پر انوار پہ حاضری دی اس کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ پر حاضری دے کر مدینہ منورہ پہنچے اورروضہ رسول کریم ﷺپر حاضری دی۔ مدینہ شریف آئے تو مدینہ منورہ کے سادات نے آپ کے سید ہونے سے انکار کیا اور صحیح نسب ہونے کی سند طلب کی۔ اس معاملہ پر بہت جھگڑا ہواباالآخر معاملہ یہ طےہوا کہ حضور اقدس ﷺ کے روضہ مقدسہ پر جاکر پوچھا جائے۔چنانچہ آپ سادات مدینہ منورہ کے ہمراہ درباررسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:السلام علیک یا وَلدی۔ سرکار علیہ السلام کے روضہ منورہ سے آواز آئی:"و علیکم السلام قرۃ عینی و سراج امتی انت منی و من اھل بیتی "یہ جواب سن کر تمام سادات آپ کی تعظیم بجالائے۔وہاں سے رخصت ہوکر آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے اور حج بیت اللہ ادا کیا وہاں سے کوچہ کوچہ پھرتے پھراتے سیروسیاحت اور زیارات مقابر اولیائے کرام کرتے ہوئے جھنگ پہنچےاور کچھ عرصہ وہاں مقیم رہے۔آپ تقریباً و برس تک جھنگ میں جلوہ افروزرہے اور آپ ہی نے جھنگ کو آباد کیا لا تعدادلوگوں کو اپنے علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی اولاد میں سے بہت سے بزرگ جھنگ میں آکر رشد وہدایت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے اور ان کے مقابر لا تعداد جھنگ میں موجود ہیں اور ان کے علم و عرفان سے مالا مال ہونے والے افراد لاکھوں افراد کو نہ صرف مسلمان کیا بلکہ ان کو ذاکر و شاغل اور صاحب کشف و کرامت بنایا۔جھنگ سے آپ بھکر تشریف لے آئے اور وہاں بھی اپ نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کر کے عشق محبت کے دیب جلائے اور لوگوں کے سینوں کو علم وعرفان کا بحر بےکنار بنایا۔
بخارا کی برف یا ملتان کے اولے: آپ چونکہ بخارا کے ٹھنڈے اور خوشگوار موسم کے رہنے والے تھے۔اس لیے آپ کو ملتان کی شدیدگرمی بہت زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ایک دن آپ ملتان کی سخت گرمی سے پریشان ہوکربخاراکےموسم کویادکررہےتھے۔کہ آپ کے پیر ومرشدحضرت شیخ بہاؤ الدین زکریاعلیہ الرحمۃ نےاپنےخادم کومسجدمیں بھیجاکہ جاکرمسجدکےصحن میں پڑی تمام صفیں اٹھا کرجھاڑودے کر آجاؤ۔خادم نے صفیں اٹھائیں اور مسجد کے صحن میں جھاڑو دےکر جب فارغ ہوا تو اچانک بادل نمودار ہوئےاورخوب موسلا دھاربارش ہوئی۔ اور اس کے ساتھ اولے بھی پڑے مگر قدرت خدا کی کہ اولے اور بارش مسجد کے صحن میں ہی ہوئی اور مسجد کے صحن کے علاوہ کہیں بھی ایک قطرہ پانی نہ گرا۔موسم بہت ہی خوشگوارہوگیا۔جب ظہرکےوقت حضرت شیخ بہاؤ الدین ملتانی علیہ الرحمۃ مسجد میں نماز کےلیے تشریف لائے تو آپ کی طرف دیکھااورمسکراکرکہا کہ ہاں سیدصاحب! ملتان کے اولےبہتر ہیں یا بخارا کی برف؟آپ نےعرض کی ایسے میں ملتان کے اولے ہزار درجے بہترہیں۔آپ تیس برس کے قریب اپنے مرشد کامل حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی علیہ الرحمۃ کے پاس ملتان میں قیام پذیر رہے جب حضرت شیخ الاسلام غوث بہاؤ الحق زکریا ملتانی علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا تو اس کے بعد آپ بہاولپور کے تاریخی قصبے اوچ شریف میں تشریف لے آئے اور اوچ شریف کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز قرار دےکرسلسلہ رشد وہدایت کاآغازکردیا۔اس مقصد کےلیے آپ نے عظیم الشان خانقاہ معلیٰ اور ایک بہترین دینی مدرسہ کا آغاز کرکے مضبوط بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔
کمالات: آپ مادرزاد ولی تھے،بچپن میں اپنے ہم عصر بچوں کے ساتھ کھیل رہےکہ اسی حالت میں شہر سے باہرتشریف لائے تو کیا دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک جگہ اکھٹے موجود ہیں اور ایک میت کی نماز جنازہ پڑھنے کی تیاری کررہے ہیں۔آپ آگے بڑھے اور کسی سے پوچھا کہ یہ جو چار پائی پر پڑا ہے اسے کیا ہوا؟ کسی نے بتایا کہ فلاں آدمی مرگیا اور یہ تمام لوگ اس کا جنازہ پڑھنےکےلیےکھڑےہیں۔آپ نےپوچھا کہ نماز کےبعد کیاکریں گے؟وہ بولے زمین میں دفن کریں گے۔ یہ سن کر آپ کا جسم کانپ گیا۔اور آپ نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، اورمردےکےسرہانے کھڑے ہو کر فرمایا قم باذن اللہ وہ مردہ فوراً زندہ ہوگیا۔ اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر چل پڑا۔اور اس کے بعد مزید چالیس برس تک زندہ رہا۔جب اس واقعہ کا علم آپ کے والد گرامی کو ہوا تو انہوں نے اس کرامت کے اظہار پرآپ کوملامت کی اور فرمایا کہ آئندہ اس قسم کی حرکت کا مرتکب نہ ہونا اس لیے کہ اس سے شریعت مطہرہ میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔
تاریخ ِ وصال :آپ کاوصال 19/جمادی الاولیٰ ،690ھ،مطابق مئی/1291ء کوہوا۔مزار پر انوار اوچ شریف تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں مرجع خلائق عام ہے۔ ماخذومراجع: تذکرہ صوفیائے پنجاب ۔انسائیکلوپیڈیا اولیائےکرام،ج،5۔