Biography Mohibb e Raza Maboob e Millat abu Zafar Mahboob Ali khan Razvi Mumbai
تعارف محب رضا محبوب ملت ابو الظفر علامہ مفتی محبوب علی خان رضوی مفتی اعظم ممبئی و پٹیالہ
تذکرہ حضرت مولانا محبوب علی خاں رحمۃ اللہ علیہ
تحریر:ڈاکٹرغلام یحیی انجم مصباحی
ماخوذاز کتاب:شیربیشہءاہل سنت حضرت مولاناحشمت علی پیلی بھیتی،ایک تحقیقی مطالعہ(صفحہ139تا145،مطبوعہ محمدی بک ڈپو،مٹیامحل،دہلی)
پیشکش:میثم قادری
حضور شیربیشۂ اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کے برادر اصغر غازیٔ ملت حضرت مولانا مفتی ابوالظفرمحب الرضا محمد محبوب علی خاں صاحب قادری مفتیٔ اعظم بمبئی تھے۔ لکھنؤ میں ولادت ہوئی۔ حفظ قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم ’’دارالعلوم منظراسلام‘‘ بریلی شریف میں حاصل کی۔ ’’دارالعلوم حزب الاحناف‘‘ لاہور میں حضرت مولانا سیددیدار علی الوری قدس سرہ سے دورہء حدیث کی تکمیل کرکے سند فضیلت حاصل کی۔
(محموداحمد: تذکرہ علمائے اہلسنت، ص۲۳۲)
اللہ تعالیٰ نے حق بولنے و حق لکھنے کی بے پناہ صلاحیت آپ کو عطا کی تھی۔ تحریر سے آپ کو اس درجہ شغف تھا کہ تادم زیست پرورش لوح وقلم اورپھر اس کی نشرواشاعت میں سرگرم عمل رہے۔ آپ نے اکثر اصلاح عقائد فاسدہ کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ خوب لکھا ہے اور حق ادا کردیا ہے۔ تصنیفات کا موضوع خالص علمی رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے مصنف کی علمی دقیقہ رسی اورنکتہ شناسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی جملہ تصانیف کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اتنا لکھنے میں ضرور حق بجانب ہوں کہ وہ درجنوں اہم کتابوں کے مصنف تھے۔
تحصیل علم سے فراغت کے بعدایک عرصہ لکھنؤ میں دین حق کی اشاعت فرماتے رہے۔ آپ کی تحریروں میں وہ جاذبیت تھی جو پڑھتا بغیرمتاثر ہوئے نہیں رہتا۔ انھی خوبیوں کے تحت آپ کو پٹیالہ آنے کی دعوت دی گئی۔ آپ پٹیالہ تشریف لے گئے پھر وہاں آپ کی جو پذیرائی ہوئی اس کی تصدیق اس عبارت سے لگائی جاسکتی ہے۔
’’مسلمانوں کی اس ناگفتہ بہ حالت سے متاثرہوکر حضرت قبلہ مولانا مولوی مفتی محبوب علی خاں کو لکھنؤ سے پٹیالہ تشریف لانے کی دعوت دی گئی۔ آپ تشریف لائے اس وقت تک پٹیالہ میں تیس کے قریب وعظ ہوچکے ہیں۔ آپ کا وعظ بے حدپُرتاثیر ہوتا ہے۔ پٹیالہ میں اس وقت علم وعرفان کی ایسی بارش ہورہی ہے کہ ہر ایک اہلسنت وجماعت مسلمان مفتی صاحب قبلہ کا والہ وشیدا بنا ہوا ہے۔ جامع مسجد میں بے شمار نمازی آنے لگے ہیں اورحضرت مولانا صاحب قبلہ کو جامع مسجد میں تمام نمازیوں نے مفتی مقرر کرلیا ہے اور دستار پہنا دی گئی ہے۔ پٹیالہ شہر اورمضافات اور ریاست کے تمام مسلمان آپ کے تقرر سے بے حد خوش ہیں اورپٹیالہ میں اس وقت مسلمانوں میں خاص محبت اور اتفاق پیدا ہورہا ہے۔ ہم حضرت قبلہ مفتی صاحب کی درازیٔ عمر کے لئے دعا کرتے ہیں جس کی وجہ سے پٹیالہ کو یہ نیک دن دیکھنا نصیب ہوا۔ ‘‘ (الفقیہ امرتسر اگست ۱۹۳۷ء ص ۱۰)
حضرت مفتی صاحب نے علم دین کی جو شمع روشن کی ہے اس سے اپنے تو اپنے بیگانوں کے قلوب بھی منور ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ کتنوںکو آپ نے داخل اسلام کیا۔ ایسا جادوئی لب ولہجہ خدا نے آپ کوعطا کیا تھا کہ ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی دشمن رسول، عاشق رسول ضرور بن جاتا۔ پٹیالہ میں اشاعت اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری اختر علی لکھتے ہیں:
’’مسلمانوںمیں ایمانی روح اور مذہبی بیداری پیدا ہورہی ہے۔ چنانچہ مخالف کو بھی آپ کے وعظ میں آکر سرتسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ قدرت نے عجب مبارک طریقۂ استدلال آپ کو ودیعت فرمایا ہے۔ ۲۰ ؍جمادی الاولیٰ بروز جمعہ مبارکہ ۱۳۵۳ھ کو قبل نماز جمعہ جب کہ وہ وعظ فرما رہے تھے ایک شخص مسمیٰ مکنداولد بھاگ ساکن تیرنک ضلع حصار نے برضا ورغبت خود ہزاروں مسلمانوں کے روبرو حضرت علامہ کے دست حق پرست پر ہندو مذہب سے توبہ کی اوراسلام قبول کیا۔ اسلامی نام ’’محمدبخش‘‘ رکھا گیا۔ ‘‘
(الفقیہ امرتسر ۲۱؍اگست ۱۹۳۷ء ص ۱۰)
اسی طرح ایک اور وعظ میںایک عیسائی اسلام کی دولت سے مالامال ہوا۔ جس کا ثبوت درج ذیل کی عبارت میں ملتا ہے۔
’’حضرت مولانا محبوب ملت پٹیالہ میں تشریف لائے ہیں۔ حقانیت اسلام وصداقت بانی اسلام پر خوب خوب بدلائل عقلیہ وعظ فرما رہے ہیں۔ چنانچہ آج ۱۵؍شعبان روز پنجشنبہ ۱۳۵۶ھ کو بعد نماز ظہر جامع مسجد پٹیالہ میں بحضور خاص وعام ایک عیسائی مسمیٰ تواری آتمارام ساکن ریاست ’’نہندانبالہ‘‘ برضا و رغبت خود صداقت اسلام معلوم کرکے حضرت علامہ ابوالظفر مفتی صاحب پٹیالہ کے دست حق پرست پر عیسائیت کے عقیدہء تثلیث سے توبہ کرکے مشرف بہ اسلام ہوا۔ اسلامی نام عبدالرشید خاں رکھا گیا۔ ‘‘ (الفقیہ امرتسر ۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ص۱۸)
عروس البلادبمبئی عظمی میں سنیت کی اشاعت آپ ہی کی شبانہ روز جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ پٹیالہ میں ایک عرصہ خدمت دین انجام دینے کے بعد حضور شیربیشۂ اہل سنت کے حکم سے بمبئی جیسے عظیم شہر میں افتاء کی ذمہ داری آپ کے سپرد کرکے آپ کو ’’مفتی اعظم بمبئی‘‘ جیسے اہم لقب سے نوازا گیا۔ ابتدائی دور میں ماحول ناموافق ملنے کی وجہ سے تھوڑی پریشانی ضرورہوئی مگر بعد میں آپ نے اپنی نرم خوئی اور لب ولہجہ کی متانت، مخلصانہ رویے سے بمبئی والوں کو ایسا گرویدہ کرلیا کہ مذہب کا بڑا بڑا کام ان سے لینے میں ذرہ برابر تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ اسی دورمیں اشاعت دین کی خاطر کتب خانہ اہلسنت کا قیام عمل میں آیا جس کے زیراہتمام کئی درجن اہم اصلاحی اور علمی کتابیں طبع ہوکر ارباب ذوق تک پہنچیں۔
بمبئی میں یوں تو نہ جانے کس کس طرح پریشانیوں سے آپ دوچار رہے مگر مقدمہ بمبئی اور انقلاب اینڈ کمپنی کی سازشوں کا شدید جال آپ اور آپ کے مخلصین اہلسنت کا ایک عظیم امتحان تھا جو دنیائے سنیت کی روشن تاریخ ہے اورآج بھی منزلوں کے پیچ وخم میں ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ زندگی کے اس سخت ترین موڑ پر آپ کی محبت کا، خلوص نیت کا، عزم اورحوصلہ کا، جذبہ وفاداری کا، جانثاری اور استقامت فی الدین کا جس جس طرح بھی امتحان لیا گیا توآپ اسلام وسنیت کی نشرواشاعت کی خاطر اہل باطل کے ہزارہا باطل طوفانوں میں نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ برابر مسکراتے ہوئے نظرآئے۔ رفیقوں کے قدم ڈگمگاگئے اور احباب کے چہروں پر اداسی چھا گئی مگر کوئی زلزلہ آپ کے پائے ثبات کو متزلزل نہ کرسکا اورنہ آپ کے عزم محکم میں کسی قسم کی جنبش پیدا ہوئی۔ اللہ اوراس کے رسول جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی شاندار کامیابیوں سے ہمکنار کیا کہ بمبئی ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکی۔ آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء بمبئی اس عظیم الشان فتح ونصرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ (حشمت میگزین ۱۹۸۶ء)
شریعت کا انھیں بے حد پاس تھا۔ زہد وتقویٰ کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا۔ کسی کام کے کرنے سے پہلے شرعی نقطۂ نظر سے اس کا جائزہ ضرور لے لیتے۔ فرائض و واجبات پر عمل تو تھا ہی، مستحبات ومسنونات کی بھی ان کے یہاں بڑی قدراوراہمیت تھی۔ زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے بھی بہرہ مند تھے۔ بیعت وارادت کا بھی سلسلہ تھا۔ سلسلہ قادریہ میں بیعت کرتے تھے۔ سیکڑوں مریدین ان کے دامن ارادت سے وابستہ ہیں۔ آپ کے مریدین ’’محبوبی‘‘ لکھتے ہیں۔ آپ خود اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمدرضا خاں قادری کے دست حق پرست پر بیعت تھے۔ آپ کے مریدین میں خلوص و محبت کا جذبہ آپ ہی کی طرح ہے۔ قاری ممتاز محبوبی جو آپ کے خادم خاص ہونے کے ساتھ ایک زمانے میں میرے رفیق درس بھی تھے ان کے رکھ رکھاؤ اور آداب گفتگو سے غازی اہلسنت مفتی اعظم بمبئی کی عظمت اورکردار واطوار کا اندازہ ہوچلا تھا۔ مثل مشہور ہے درخت اپنے پھل اورپیر اپنے مرید سے پہچانا جاتا ہے۔ جب تک بقید حیات رہے اشاعت دین حق کو مقصود زندگی سمجھتے رہے۔ ۲۴ ؍جمادی الآخرہ ۱۳۸۵ھ مطابق ۲۰ ؍اکتوبر ۱۹۶۵ء کو سفر آخرت کیا۔ (منصور علی: خوابوں کی بارات،ص ۱۵ بمبئی ۱۹۸۲ء) ہزاروں سوگواروں کو روتا بلکتا چھوڑکر یکہ وتنہا سامان آخرت لے کر آخرت کی طرف چل پڑے۔ یادگار میں صاحبزادے اور صاحبزادیوں کے علاوہ ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی آپ کی تصانیف ہیں جو رہتی دنیا تک آپ کی علمی عظمت کا اعتراف اہل علم وفن سے کراتی رہیں گی۔
صاحبزادگان میں سنی جامع مسجد مدنپورہ ممبئی کے سابق امام وخطیب حضرت مولانا قاری محمد منصورعلی اوران کے برادر اصغر فاضل اشرفیہ مولانا محمد مقصود علی صاحبان ہیں۔ موخر الذکر اسلام وسنیت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہیں۔ اول الذکر نے خطابت کا خوب ملکہ پایا ہے۔ ہندوستان کے اطراف ونواحی میں ان کی خطیبانہ شوکت وحشمت کے چرچے تھے۔ وعظ و تبلیغ کی مصروفیت کے سبب غالباً تحریری صلاحیتوں کے اجاگرکرنے کا موقع نہیں ملتا پھر بھی رَدّومناظرہ کے موضوع پر ان کی دوکتابیں زیورطبع سے آراستہ ہوچکی تھیں۔ (۱)تبلیغ یا دھوکہ (۲)خوابوں کی بارات۔ اوّل الذکر حضرت مولانا قاری محمد منصورعلی خاں اکتوبر۲۰۱۵ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالٰی ان کی قبر پر رحمت وانوار کی بارش نازل فرمائے۔ (آمین)
مولانا مقصود علی بھی تحریری وتقریری دونوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ذہن ودماغ دونوں بھائیوں کا مناظرانہ ہے۔ جس کا اظہار نوک زبان اور رشحات قلم سے ہوتا رہتا ہے۔ اپنے والد ماجد کی حیات طیبہ سے متعلق ’’حالات محبوب ملت‘‘ کے عنوان سے ایک مبسوط سوانح ان کے زیر قلم ہے(خوابوں کی بارات ص ۱۶ بمبئی ۱۹۸۲ء) خدا کرے وہ کتاب جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر لائبریریوں کی زینت بنے۔
حضرت مولانا مفتی محبوب علی رحمۃ اللہ علیہ زبان وقلم دونوں کے دھنی تھے۔ آپ کی جتنی تحریریں راقم کی نظر سے گزری ہیں سب میں دلائل وبراہین کا ایک انبارہے جس سے آپ کی دقت نظر، وسعت مطالعہ اور علمی تحقیقی جستجو کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کی بیشتر تصانیف مختصر مگرجامع ہیں۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا جو سلیقہ آپ کو تھا وہ کم مصنّفین کے یہاں ملتا ہے۔
آپ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ اور خوب لکھا ہے۔ جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہےسیر حاصل بحث کی۔ کوئی گوشہ تشنہ نہ رہنے دیا۔ ایک محتاط روایت کے مطابق آپ کی تصانیف کی کل تعداد بہتر (۷۲)بتائی جاتی ہے۔ جس میں ضخیم مطبوعات کے علاوہ رسائل بھی شامل ہیں۔ اشتہارات اور کتابچے اس پر مستزاد ہیں۔
ردومناظرے کے موضوع پر آپ کی بیشتر تصانیف ہیں۔ باقی تصانیف مسائل شرعیہ سے بحث کرتی ہیں۔ چونکہ تادم زیست آپ سے ایک خلقت مسائل دریافت کرتی رہی اورآپ بحیثیت مستند مفتی کے یہ دینی امور انجا م دیتے رہے۔ اس لئے آپ کی تصانیف میں گہرائی وگیرائی کے ساتھ تحقیقی مواد بھی ہے۔ آپ کی جتنی تصانیف راقم السطور کے مطالعہ میں رہی ہیںیاکتابوں کے اسماء نظر سے گزرے ہیں اس کی روشنی میں آپ کی جملہ تصانیف کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(۱)سیرت وسوانح (۲)مسائل شرعیہ (۳)ردومناظرہ
الف) سیرت وسوانح
(۱)خصائص ابوحنیفہ (۲)تلامیذ ابوحنیفہ (۳)کرامات صحابہ کرام (۴)کرامات سادات و آل اطہار (۵)فضل واعزاز امیر معاویہ (۶)فضائل سیدنا فاروق اعظم (۷)مشاہدۂ مولانا حشمت علی۔
ب) مسائل شرعیہ
(۱)نور کی تفسیر (۲)تفسیر حدیث لولاک (۳)اربعین شدت (۴)فضائل شب برأت (۵)فضائل ماہ رمضان مع مسائل صیام (۶)فضائل مدینۃ الرسول (۷)اسلامی قانون تجارت (۸)اولیاء کرام کی نذرونیاز (۹)الاقوال باحکام تجویز الفاتحہ (۱۰)سبیل وطعام نذر ونیاز حسین (۱۱)دعائے ثانی کا ثبوت (۱۲)مراۃ حسن بے مثال (۱۳)ثبوت ہلال کے چند طرق (۱۴)تھانوی کے حمایتی پر شرعی فتویٰ (۱۵)تنویرالایقان (۱۶)الحج الکلام فی منع قرأۃ خلف الامام (۱۷)ترجمہ جامع مسانید امام اعظم (۱۸)بخشائش عزیزاں۔
ج) رَدّومناظرے
(۱)مطالع تہذیب دیوبند (۲)دلائل خلافت راشدہ (۳) الصوارم الحمدیہ علی کفرۃ المرزائیۃ الدیوبندیہ (۴)برق خداوندی رد بے دینی وہابی دیوبندی (۵)تاریخ اعیان وہابیہ (۶)تواریخ مجدد دین حزب وہابیہ (۷)دیوبندی ترجموں کا آپریشن (۸)مودودی صاحب کاالٹا مذہب (حصہ اول) (۹)مودودی صاحب کا الٹا مذہب (حصہ دوم) (۱۰)مودودی تحریک کی جلی خصوصیات (۱۱)قہر معبودی برجسارت مودودی (۱۲)قدرومنزلت تقلید(۱۳)وہابیہ کے آئینہ خط و خال (۱۴)کل وہابیۂ ہند سے ستر سوالات (۱۵)نجوم شہابیہ تزویر اصحاب وہابیہ (۱۶)تکفیری افسانے کے تجزئیے حصہ اول و دوم (۱۷)العذاب الباس علی راس الیاس (۱۸)تبلیغی جماعت کیا ہے اور کیا چاہتی ہے؟ (۱۹)ابن عبدالوہاب کی کہانی (۲۰)سیوف پیربگلوئے مانعین باب یادستگیر ۲۱۰)سل الحسام علی الظلام (۲۲)الرجم برائے اقوال ایڈیٹر النجم (۲۳)کھرّاکھرّی کا مباحثہ (۲۴)قبائح حفظ الایمان والمہند (۲۵)بوارق الٰہیہ (اس کے علاوہ آپ کے خطبات دو مبسوط جلدوں میں ہیں جن میں چوبیس چوبیس تقریریں ہیں۔
جس زمانے میں آپ ریاست پٹیالہ میں دینی ومذہبی عظیم عہدے پرفائز تھے ان ایام میں آپ نے سیکڑوں فتاوے قرآن واحادیث کی روشنی میں دیے،وہ فتاویٰ آج کئی مبسوط ضخیم جلدوں میں اشاعت پذیر ہوتے،مگر افسوس ان کا مجموعہ تقسیم ہند کے ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔
جس انہماک اورلگن کے ساتھ آپ نے لوح وقلم کی پرورش کی ہے اس کی نظیر اورکہیں مشکل سے ملتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تومبالغہ نہ ہوگا کہ حضرت شیر بیشۂ اہل سنت علیہ الرحمہ پورے ملک کا دورہ فرماکر تقریر و مناظرہ کے ذریعے خدمت دین واشاعت حق کا فریضہ انجام دے رہے تھے توان کے برادر اصغر حضرت محبوب ملت مولانا محبوب علی خاں علیہ الرحمہ سنی بڑی مسجد مدن پورہ بمبئی اپنے حجرے میں بیٹھ کر نہایت خاموشی لیکن حد درجہ مستعدی وباخبری کے ساتھ اپنے قلم کے ذریعے دین متین ومسلک اہلسنت کی اشاعت کی خدمت انجام دیتے ہوئے پوری ملت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے تھے اور ہر باطل کے لئے ان کا قلم تیر ونشتر بنا ہوا تھا جس کی کسک اور تڑپ آج بھی فرقہائے باطلہ محسوس کر رہے ہیں۔ (سوانح شیربیشہ سنت: ص۲۴)
اللہ تعالیٰ قوم مسلم کو ان کا کوئی بدل عطا کرے اوران کے صاحبزادہ کو ان کا صحیح اور سچا جانشین بناکر ان کی نیابت کا بھرپور حق ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین
Post a Comment