مصنف کتب کثیرہ سلطان القلم یادگارِ اسلاف حضرت مولانا مفتی غلامِ حسن قادری صدر مفتی مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف، لاہور کا ذکر خیر کر رہے ہیں اس امید کہ ساتھ آپ کو یہ ویڈیو پسند آئے گی اور آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے یوٹیوب چینل فدا نامہ کو سبسکرائب اور فیس بک پیج فدا نامہ کو ضرور فالو کیجئے۔
مفتی غلامِ حسن قادری کی ولادت ۳؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو - محمد حسین بھٹی مرحوم کے گھر گاؤں چک کھرل، ضلع حافظ آباد، پنجاب میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم کا آغاز والد محمد حسین بھٹی اور والدہ نذیراں بی بی کے زیر سایہ ہوا اور ناظرہ ختم قرآن کیا۔
مولانا غلامِ رسول فقیر سلطانی کے مدرسہ جامعہ حنفیہ رضویہ، غلہ منڈی، شیخوپورہ میں حافظ بشیر احمد، قاری امانت علی، قاری محمد بنیامین، قاری سعید الرحمن، حافظ فتح محمد،حافظ محمد اکرم سے دیڑھ سال کے مختصر عرصے میں حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔
۱۹۷۸ء میں دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلہ لیا اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مہر دین جماعتی مولانا عبد الغفور صاحب (لنڈا بازار والے) علامہ مفتی محمد عبد القیوم خاں ہزاروی مولانا حافظ محمد یعقوب نقش بندی حضرت مولانا مفتی احمد دین توگیروی سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کی سات سال یہیں پڑھ کر درسِ نظامی کی تکمیل کی۔اور ۱۹۸۶ میں دستار فضیلت و سند فراغت سے نوازے گئے۔
ساتھ ہی جامعہ رسولیہ شیرازیہ، بلال گنج، لاہور میں علامہ قاری محمد طیب سے ایک سال میں رِوایت حفص کا کورس مکمل کیا۔ ۱۴۰۷ھ میں سند حاصل کی۔
مفتی گل احمد خان عتیقی، مفتی علی احمد سندھیلوی، مفتی عبد القیوم خان ہزاروی سے جامعہ جماعتیہ حیات القرآن، لاہور میں اور شیخ القرآن مفتی علی سندھیلوی سے جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور میں تفسیر قرآن کریم کا دور فرمایا۔
جامع مسجد مولانا روحی، اندرون بھاٹی دروازہ، لاہور، جامع مسجد فاطمۃ الزہرا، ریونیوسوسائٹی، جوہر ٹاؤن، لاہور، جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن، لاہور، منہاج گرلز کالج، ٹاؤن شپ، لاہور، سلمان پبلک سکول، بھاٹی دروازہ، لاہور میں درس وتدریس، امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔
مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف، لاہور میں ۱۹۹۵ سے اب تک صدر مفتی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ملک و بیرون ممالک سے آنے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات دے کر اصلاح امت و خدمت خلق کی بساط بھر کوشش کر رہے ہیں۔
آپ نے قطب الوقت حضرت حافظ سلطان غلام باہو، جمعہ شریف، بھکر کے دست اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور سیّد احسن اشرف اشرفی الجیلانی، کچھوچھہ (سلسلہ اشرفیہ) اور ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری (سلاسل اربعہ صوفیہ) سے شرف خلافت حاصل فرمایا۔
آپ کی تفصیلی خدمات جاننے لیے آپ www.auliyaehindpak.com پر لازمی طور وزٹ کیجئے۔ ان کی تمام خدمات کا احاطہ اس ویڈیو میں ممکن نہیں۔
آپ کے دو صاحبزادے ہیں جن کے نام یوں ہیں ۔ایک حافظ رضاء الحسن، مدیر و مؤسس دارالاسلام، لاہور اور دوسرے محمد نعمان حسن،فاضل فیضانِ مدینہ، جوہر ٹاؤن، لاہور
یادگارِ اسلاف حضرت مولانا مفتی غلامِ حسن قادری کو اللہ رب العزت نے خطابت کا لازوال کا ملکہ عطاءفرمایا تھا جب بھی کسی موضوع پر بات کرتے تو لوگوں کو اپنی شیریں بیانی ،دلائل کی قوت اور لاجواب استدلال سے قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ۔ خطابت کے ساتھ ساتھ آپ ایک عمدہ صاحب قلم بھی ہیں
یادگارِ اسلاف حضرت مولانا مفتی غلامِ حسن قادری کا شمار پاکستان کے معروف اور مقبول ترین قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ عوامی حلقوں میں آپ کی کتابوں کی شہرت اس امر پہ شاہد ہے۔ آپ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کم و بیش ۱۵؍ سال قبل کیا تھا، اور اس عرصہ میں آپ کی تعدادِ کتب ۱۰۰؍ تک پہنچ چکی ہے۔ ۲۰۰۴ء میں آپ کی پہلی کتاب ’’شانِ مصطفی بہ زبان مصطفی‘‘ شائع ہوئی، اور اللہ ربّ العزت نے اس کو وہ قبولِ عام بخشا کہ برصغیر میں چھپنے والے مذہبی لٹریچر میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد ’’شرح کلامِ رضا فی نعت المصطفیٰ‘‘ یعنی شرح حدائق بخشش کو بھی غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی، اور حدائق بخشش کی شروح میں اسے منفرد و ممتاز مقام حاصل ہوا۔ ان دونوں عظیم کتابوں کی شہرت کے چرچے پاکستان و ہندوستان سے نکل کر دنیا کے دور دراز خطوں تک پہنچے، اور اردو داں طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ پھر اس کے بعد تقاریر و خطبات کی کتب نے خطابت کی دنیا میں ایک نئی روایت قائم کی۔ ’’خطباتِ حسن‘‘ (۱۲؍ جلد)، ’’مواعظ حسن‘‘ (۶ جلد)، ’’تقریری نکات‘‘ اور مزید ۳ کتب پاکستان اور دیگر ممالک میں اہل سنت کے خطبا و مقررین کے لیے بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ حدیث میں صحاحِ ستہ، موطا امام مالک، مشکوٰۃ شریف (۸ جلد) کی تلخیصات اور ان میں خصوصاً عقائد اہل سنت کا بیان اور اہم حوالہ جاتی احادیث کو اردو زبان میں اس طرز پر آپ نے پہلی بار مرتب کیا، یہ کام بھی دراصل واعظین ومقررین تک مستند مواد کی رسائی اور حدیث سے ان کا تعلق مربوط کرنے کے لیے کیا گیا۔ پھر واقعات و حکایات کی ہر تہذیب میں ایک اہمیت ہے، چناںچہ ۲۴ ضخیم مجلدات میں پوری ایک سیریل موجود ہے، جن میں واقعات کا ایک جہان آباد ہے، اور قاری کو اس موضوع کی دوسری کتب سے کافی حد تک بے نیاز کردیتا ہے۔ صوفیہ کے کلام کی شروحات بالخصوص ’’شرح کلیاتِ اقبال‘‘ نے خطہ پاکستان کے روایتی صوفی حلقوں اور اقبالیات سے دل چسپی رکھنے والوں کی ضرورت کو پورا کیا، اور ان میں آپ کی شروح کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اسی طرح تصوف کی ۶؍ امہات کتب کو جدید ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے صوفی ادب میں ایک خاطر خواہ اضافہ ہے۔ ان میں سے بیش تر کتب پاکستان بھر میں غیر معمولی عوامی پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ متعدد کتب انڈیا سے چھپ کر یہاں بھی اپنا اچھا تعارف رکھتی ہیں۔
مفتی صاحب کی کتب میں نبوت ورسالت کے موضوعات کو زیادہ تر روایتی انداز میں اور بہت کچھ منفرد اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ تحریر میں اعتقادی وفقہی ذوق غالب نظر آتا ہے، معروضی طرزِ اظہار اپنایا گیا ہے۔ عمومی طور پر روایات کی تحقیق وتنقیح، نظریاتی وفکری موشگافیاں اور ادق علمی مباحث کے بہ جاے بصیرت افروز نکات، واقعاتی وتاثراتی پیرایۂ بیان اور عوام الناس کے قابل فہم مضامین جا بہ جا ملتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی کتابوں میں عام ذہن کو ہی مخاطب کیا ہے، اور اسی سطح کے ذہن کو بات سمجھانے کی کوشش کی ہے، اور اس ساری قلمی کاوش کا مقصد وحید عامۃ الناس کے مقتضیات و اغراض کو پورا کرنا ہے۔ خطابت بھی چوںکہ ایک عوامی محاذ ہے، لہٰذا خطیبانہ خواص و اوصاف آپ کی تحریروں میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، اور یہ آپ کا خاص میدان بھی ہے۔
اب تک مفتی صاحب کی ۱۰۰؍ کتب مکمل ہوچکی ہیں، جن میں سے بعض زیر طبع ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک متوسط سائز کے ۷۰ ہزار کے قریب صفحات آپ کے قلم سے تحریر کیے جاچکے ہیں۔ بلاشبہہ یہ ایک غیر معمولی کاوش ہے۔ دینی ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ اردو زبان کی خدمت ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت کا سایہ دراز فرمائے ۔آمین
آپ کو یہ ویڈیو کیسی لگی کمنٹ باکس میں بتائیں اور ہماری ویڈیو کو لائک اور شئر کریں فدانامہ فیس بک پیچ کو فالو اور یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔
ملتے ہیں اگلے ویڈیو میں السلام علیکم