Biography Qazi Hafiz Abdul Razaq Bhatralvi حضرت علامہ قاضی حافظ عبد الرزاق چشتی بھترالوی حطاروی

 علامہ عبد الرزاق بھترالوی؛ حیات و خدمات

 علامہ واقعی نابغہ تھے شہرت کا لپکا انہیں نہ تھا سادگی انکسار اور خلوص کا مرقع تھے. 22 جلدوں میں نجوم القرآن تفسیر قرآن لکھی صرف الحمد شریف پر ایک جلد ہے.سو سے اوپر کتابوں کے مصنف عربی کی درس نظامی میں مروج کتب پر حواشی لکھے اس کے علاوہ 25 سال تک مدرسہ رضویہ ڈی بلاک سٹیلائیٹ ٹاون راولپنڈی میں پڑھایا. پھر اپنا مدرسہ مہریہ جماعتیہ شکریال راولپنڈی میں جاری کیا. سینکڑوں طلبا وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. عربی میں کہا جاتا ہے عالم کی موت عالم کی موت ہے.ایسے نابغہ روزگار لوگ اب اس معاشرے میں کہاں ملیں گے۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ وہ اپنا اجر اس دنیائے دنی سے نہیں اللہ کریم سے مانگتے ہیں.وہ خاموش طبع کام سے کام رکھنے والے تھے اور بڑا کام کرگئے.

حضرت علامہ قاضی حافظ عبد الرزاق چشتی بھترالوی حطاروی علیہ الرحمۃ کی ولادت ایک دینی اور علمی گھرانے میں ہوئی، نسل در نسل اس خاندانِ عظمت نشان میں علما و صلحا کی ایک قطار چلی آتی تھی، آپ کے والد قاضی عبد العزیز، دادا قاضی فیض احمد پردادا قاضی غلام نبی، دادا کے بھائی قاضی غلام رسول اور ان کے علاوہ بھی خاندان کے متعدد افراد عالم دین اور متقی پرہیزگار لوگ تھے۔

آپ کے دادا کے بھائی قاضی غلام رسول صاحب علوم دینیہ خصوصا علم صرف کی تدریس میں شہرت رکھتے تھے، اُن کے ایک شاگرد مولوی منور الدین صاحب نے"صرف بھترال" کے نام سے آپ کی تقریروں کو کتابی صورت میں جمع کیا تھا، یہ کتاب آج بھی مدارس دینیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔

قاضی غلام رسول صاحب کے فرزند قاضی عبد الواحد اور آپ کے ماموں قاضی برہان الدین بھی اجلہ علما میں سے تھے، مؤخر الذکر تدریس میں بڑی مہارت رکھتے تھے، آپ سید الاولیا حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ کے استاذ ہیں، حضرت پیر صاحب قدس سرہ نے خود اپنی تصنیف تحقیق الحق کے آغاز میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔

*نسبتِ طریقت*

طریقت میں آپ کو حضرت سید غلام محی الدین گیلانی گولڑوی عرف بابو جی علیہ الرحمۃ، حضرت پیر مہر علی شاہ گیلانی قدس سرہ اور سیال شریف و تونسہ شریف کے مشائخ سے نسبت حاصل تھی۔

*اساتذہ کرام*

حافظ غلام مصطفی صاحب سے آپ نے سورۃ البقرۃ یاد کی، حافظ احمد رضا صاحب سے سورۃ آل عمران حفظ کی اور بقیہ قرآن عظیم بغیر کسی استاذ کے خود ہی یاد فرما لیا۔

درس نظامی کی ابتدائی کتابیں دار العلوم جہلم میں مولانا غلام یوسف گجراتی، مولانا عبد الواحد، مولانا محمد عرفان نوری اور استاذ العلماء مولانا غلام محمود ہزاروی علیہم الرحمۃ سے پڑھیں پھر گولڑہ شریف میں رئیس المحققین والمدققین مولانا محب النبی اور استاذ الفضلا مولانا گل اکرام رحمۃ اللہ علیہما کے پاس زیر تعلیم رہے، پھر اسرار العلوم (راولپنڈی) میں مولانا عبد القدوس اور استاذ الاساتذہ قاضی اسرار الحق صاحب کے پاس پڑھتے رہے اور پھر جامعہ نعیمیہ لاہور میں مفتی محمد حسین نعیمی، مولانا محمد امین، استاذ المحققین و المدققین مولانا محمد اشرف سیالوی، رئیس المتقین مولانا عزیز احمد قادری اور حضرت شرف ملت مولانا عبد الحکیم شرف قادری علیہم الرحمۃ سے اکتساب علم فرمایا اور جامعہ نعیمیہ لاہور سے سند فراغت حاصل کی۔

بعد ازاں جامعہ قادریہ فیصل آباد میں تدریس کے دوران حضرت بحر العلوم مفتی سید محمد افضل حسین مونگیروی علیہ الرحمۃ سے علم توقیت حاصل کیا۔

حضرت قاضی صاحب اپنے اساتذہ کرام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "سبھی بہت شفیق اور محسن تھے اور بڑی محنت سے تدریس فرماتے تھے مگر ابو الحسنات مولانا محمد اشرف سیالوی صاحب کا مجھ پر بڑا احسان ہے اور انہی کے احسان سے آج میں ایک مدرس ہوں۔"

مزید فرماتے ہیں کہ "علامہ سیالوی صاحب سے دو سال جامعہ نعیمیہ میں پڑھنے کے بعد ایک سال سلانوالی میں بھی درس لیا؛ منطق کی کتابیں ابتدا سے انتہا تک یعنی صغری سے لے کر سلّم، حمداللہ، ملا حسن اور قاضی مبارک تک، کتب ادب از ابتدا تا انتہا، مختصر المعانی، بیضاوی شریف، شرح عقائد اور خیالی وغیرہ متعدد کتب حضرت سے پڑھنے کا شرف ملا ہے اور بہت سی کتابیں حضرت استاذ محترم سے دوسری بار پڑھی ہیں۔"

*تدریسی خدمات*

حضرت قاضی صاحب ایک بہترین عالم اور مدرس تھے، آپ کی تصانیف خصوصا درسی کتب پر گرانقدر حواشی منقولات و معقولات میں آپ کی غیر معمولی دسترس کا واضح ثبوت ہیں۔

استاذ العلماء حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب آپ کے بارے لکھتے ہیں کہ "حضرت مولانا فطری اور طبعی طور پر تدریسی شعبے سے متعلق ہیں، علمی خانوادے کا چشم و چراغ ہونے کے ناطے معقولات و منقولات میں یدِ طولی رکھتے ہیں زندگی کا بیشتر حصہ اسی نہج پر راہ نوردی کرتے گزارا ہے آپ کے تلامذہ میں سے کئی محقق علما اپنے علم و تحقیق کا لوہا منوا چکے ہیں۔ (پیش لفظ نجوم الفرقان، ص 13)

آپ نے تقریبا 50 سال تک تشنگان علم کو سیراب کیا ہے فراغت کے بعد ایک سال قاضی اسرار الحق صاحب کے مدرسے اسرار العلوم میں مدرس رہے، پھر چھ سال تک حضرت استاذ العلماء سید ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ اور شارح بخاری حضرت علامہ محمود احمد رضوی علیہ الرحمۃ کے زیر سایہ جامعہ حزب الاحناف لاہور میں تدریس فرماتے رہے، پھر دو سال تک حضرت بحر العلوم مفتی سید محمد افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ کے پاس جامعہ قادریہ میں تدریس فرمائی، بعد ازاں تقریبا 25 سال سے زائد عرصہ تک حضرت سید حسین الدین شاہ صاحب کے جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے اور آخر میں کئی سال تک جامعہ جماعتیہ مہر العلوم کے مہتمم کی حیثیت سے علم دین کی روشنی عام کرتے رہے۔

*تصنیفی خدمات*

آپ کی تحریری و تصنیفی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے، مختلف موضوعات پر 50 سے زائد کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہدایہ کی چار جلدوں سمیت متعدد درسی کتب پر عربی زبان میں گرانقدر حواشی تحریر فرمائے ہیں اگر صرف ان حواشی کا جائزہ لیا جائے تو 5000 سے زائد صفحات پر مشتمل ہوں گے۔

آپ کی چند معروف اردو کتب کے نام ذیل ہیں:

تفسیر نجوم الفرقان (22 جلدیں)

تذکرۃ الانبیاء

شمع ہدایت

نماز حبیب کبریا

امام اعظم اور فقہ حنفی

تسکین الجنان فی محاسن کنز الایمان

جواہر تحقیق افضلیت سیدنا ابو بکر صدیق

نجوم التحقیق

تکریم والدین مصطفی

اسلام میں عورت کا مقام

سبز عمامے کی برکتوں سے کذاب جل اٹھے

موت کا منظر مع احوال حشر و نشر

اور آپ کے بھانجے قاضی سعید الرحمن صاحب کے مطابق وصال سے چند روز قبل اردو زبان میں ابن ماجہ شریف کی شرح بھی مکمل فرمائی ہے۔

جن درسی کتب پر اردو یا عربی حواشی تحریر فرمائے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:

ہدایہ (4 جلدیں)

کنز الدقائق

قدوری

نور الایضاح

تلخیص المفتاح

سراجی

مراح الارواح

میزان الصرف

*فتوی نویسی*

حضرت قاضی صاحب 25 سال سے زائد عرصہ تک جامعہ رضویہ ضیاء العلوم سے وابستہ رہے اس دوران دار الافتا کی ذمہ داری بھی سنبھالتے رہے ہیں حاشیہ قدوری المظہر النوری کے ابتدائیہ میں ناشر نے اس کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے: کان مسئولا عن الاجابۃ للاستفتاءات الموصولۃ من انحاء الدولۃ وھو یجیب بالفتاوی المحلی بالادلۃ العقلیۃ والنقلیۃ المستدلۃ بالمصادر الاسلامیۃ القرآن والحدیث وغیرہما من مصادر الشریعۃ الاسلامیۃ

(حاشیہ قدوری، کلمۃ الناشر)

تفسیر نجوم الفرقان کے پیش لفظ میں حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب نے بھی آپ کی فتوی نویسی کا ذکر کیا یے۔

(ہماری معلومات کے مطابق حضرت کے فتاوی کا کوئی مجموعہ ابھی تک طبع نہیں ہوا۔)

*طلبہ کرام کو حضرت قاضی صاحب کی نصیحت*

حاشیہ سراجی کے آخر میں خیالات محشی کے عنوان سے ایک مضمون میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: طلبہ کرام علوم کو علوم کو سمجھ کر حاصل کریں خواہ علوم شرعیہ ہوں یا علوم جدیدہ، صرف امتحان پاس کرنا کوئی کمال نہیں اور فارغ ہونے کے بعد بھی وسیع تر مطالعہ جاری رکھنا ہی ترقی علم کا سبب ہے، اساتذہ کرام کا ادب و احترام شعار بنائیں اسی میں کامیابی ہے۔ میں اگر بہتر مدرس شمار ہوتا ہوں تو صرف اساتذہ کرام کی دعاؤں کے واسطے سے ورنہ من دانم کہ من آنم

(حاشیہ سراجی، ص 84، ضیاء العلوم پبلی کیشنز)


اہل سنت کی عظیم علمی شخصیت، استاذ العلماء، مفسر قراٰن، شیخ الحدیث والتفسیر، مصنف ومحقق کتبِ کثیرہ حضرت علامہ مولانا عبد الرزاق بھترالوی صاحب 10 جون 2020ء کو اسلام آباد میں رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن

مفتی عبد الرزاق بھترالوی رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ اسلام آباد میں سید عنایت الحق شاہ سلطانپوری صاحب کی امامت میں ادا کردی گئی جس میں علما و مفتیانِ کرام، جامعۃ المدینہ کے اساتذہ وطلبہ، مجلس رابطہ بالعلماء اوردعوت اسلامی کے دیگر ذمہ داران سمیت کثیر تعداد میں عاشقان رسول نے شرکت کی۔

ان کی تدفین ان کے آبائی قبرستان بھترال ضلع راولپنڈی میں کی گئی۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔



Post a Comment

Previous Post Next Post