Biography Sayyidah Nafisah bint Al-Hasan الـسـيـدة نـفـيـسـة بـنـت الـحـسـن |سیدہ نفیسہ مصریہ

 تذکرہ صالحات

حضرت سیدتنا نفیسہ رحمۃُ اللہِ علیہا

حضرت سیّدہ نفیسہ رحمۃُ اللہِ علیہا  سَیِّدُنا امام حسن مجتبیٰ  رضی اللہُ عنہ  کی پڑپوتی جبکہ امام حسن کے پوتے حضرت حسن انور بن زید کی بیٹی ہیں۔ آپ کی ولادتِ باسعادت مکۃُ المکّرمہ   ولادت بروز چہارشنبہ 11 ربیع الاول 145ھ مطابق 9 جون 762ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہا  نہایت نیک ، پرہیزگار ، حافظہ ، محدثہ ، عالمہ ، عابدہ ، زاہدہ اور ولیہ تھیں۔

دوسری صدی ہجری کی سرآمدروزگار عالمات وعارفات اور زاہدات وعابدات میں ہوئی ہیں۔ چشم وچراغِ خاندان اہل بیت تھیں۔

نکاح مبارک : آپ کا مبارک نکاح حضرتِ سَیِّدُنا اسحاق بن جعفر صادق  رضی اللہُ عنہما  سے ہوا ،  آپ کے خاوند اسحق بن جعفر الصادق بھی نہایت عبادت گزارو تقویٰ شعار تھے؛ اس لیے زندگی خوشگوارماحول میں بسر ہونے لگی ۔ان سے آپ کی ایک بیٹی اُمِّ کلثوم اور ایک بیٹا قاسم پیدا ہوئے۔ 

۔ ایک زمانہ آپ نے مکہ و مدینہ میں گزارا، جہاں تشنگانِ علوم ومعرفت کو آپ خوب خوب سیراب کیااور ’نفیسَۃ العلم والمعرفۃ‘ کے لقب سے مشہور ہوگئیں۔ پھر خاوند کے ساتھ مصرگئیں اور وہیں کی ہوکر رہ گئیں۔ آپ قائم اللیل اور صائم النہار ہونے کے ساتھ ہر وقت خشیت الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتی تھیں۔

26 رمضان 193ھ مطابق 12 جولائی 809ء میں سیدہ نفیسہ نے مصر کی طرف سفر اختیار کیا جبکہ اُن کی عمر اُس وقت 48 سال سے زائد ہوچکی تھی۔ مصر میں عوام نے آپ کا استقبال کیا۔ مصر میں سیدہ نفیسہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ایک تاجر جمال الدین بن عبد اللہ بن جَصّاص کے مکان میں قیام کیا۔ چند مہینوں کے بعد ام ہانی کے مکان پر منتقل ہوگئیں اور اُس کے بعد ابوالسرایا ایوب بن صابر کے مکان میں منتقل ہوئیں۔ عوامی ہجوم کے سبب آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ شاید یہ ہجوم صاحب خانہ کے لیے اذیت کا سبب بن رہا ہے، اِسی سبب سے مصر چھوڑنا چاہا مگر لوگوں نے حاکم مصر سے درخواست کی کہ وہ سیدہ نفیسہ کے لیے رہائش کا انتظام کر دے۔ حاکم مصر نے ایک مکان سیدہ نفیسہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اِس طرح آپ مصر میں ہمیشہ کے لیے مقیم ہوگئیں۔

عبادت و ریاضت : 

حضرت سیدہ نفیسہ  رحمۃُ اللہِ علیہا  کا معمول تھا کہ دن کو روزہ رکھتیں اور رات بھر نمازیں پڑھتیں ، نیز آپ نے 30حج کئے۔ آپ کی بھتیجی کا قول ہے : میں نے اپنی پھوپھی جان حضرت نفیسہ کی 40 سال خدمت کی ، اس عرصے میں کبھی ان کو رات میں سوتے ہوئے نہیں دیکھا ، ایک بار میں نے ان سے عرض کی : آپ آرام کیوں نہیں کرتیں؟ فرمایا : کیسے آرام کروں؟ جب کہ میرے سامنے دشوار منزلیں ہیں جو کامیاب لوگ ہی طے کرسکتے ہیں۔ سیدہ نفیسہ  رحمۃُ اللہِ علیہا  کی بھتیجی سے پوچھا گیاکہ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہا  کیا کھاتی تھیں؟ جواب دیا : وہ تین روز میں بس ایک لقمہ کھا لیا کرتی تھیں۔ 

کرامات :

 یوں تو حضرتِ سَیِّدتنا نفیسہ  رحمۃُ اللہِ علیہا  کی کئی کرامتیں کتابوں میں بیان کی گئی ہیں لیکن یہاں ان میں سے 2 کرامات ذکر کی جاتی ہیں :

(1)آپ  رحمۃُ اللہِ علیہا  کی بھتیجی کا بیان ہے کہ سیدہ نفیسہ  رحمۃُ اللہِ علیہا  جہاں نمازیں پڑھتی تھیں وہاں ایک ٹوکری تھی ، جب وہ کسی چیز کی خواہش کرتیں تو وہ چیز ٹوکری میں خود بخود مل جاتی ، میں ان کے پاس ایسی ایسی چیزیں دیکھتی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی تھیں ، میں نہیں جانتی کہ وہ کون لاتا تھا ، ایک بار میں نے ان سے حیرت کا اظہار کیا تو فرمانے لگیں : زینب! جو اللہ پاک پر بھروسا کرلیتا ہے ، دُنیا اس کی فرمانبردار ہوجاتی ہے۔

حاجت پوری ہوجائے گی : 

اگر کسی شخص کو کوئی سخت حاجت در پیش ہو تو اسے چاہئے کہ نذر مانے کہ اگر میرا کام بن گیا تو سیّدہ نفیسہ کے ایصالِ ثواب کے لئے نیاز کا اہتمام کروں گا ، اِنْ شآءَ اللہ اس شخص کا جیسا بھی مشکل مسئلہ ہوگا حل ہوجائے گا ، یہ بہت ہی مجرّب عمل ہے۔  اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ، اللہ پاک ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مشاہیر وقت نے آپ سے علمی وروحانی اِستفادہ کیا جن میں امام شافعی مشہور ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے مرتبہ شناس و قدردان تھے۔

امام شافعی سیدہ نفیسہ کے ہم عصر تھے۔ 200ھ مطابق 816ء میں امام شافعی مصر آئے اور سیدہ نفیسہ سے سماع حدیث کی تحصیل کرتے رہے۔ جس وقت وہ مسجد فسطاط میں تدریس کے لیے جاتے تھے تو اثنائے راہ میں سیدہ نفیسہ کے گھر میں توقف کرتے تھے اور ان کے اخذ حدیث کرتے تھے۔  اکثر سیدہ نفیسہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مختلف علمی مسائل پر گفتگو کرتے۔ ایک روایت کے مطاب امام شافعی نے سیدہ نفیسہ سے علم حدیث میں بھی استفاضہ کیا ہے۔ 204ھ مطابق 820ء میں جب امام شافعی علیل ہو گئے تو وفات سے قبل وصیت کی کہ میرا جنازہ سیدہ نفیسہ کے گھر کے سامنے سے گزارا جائے۔ چنانچہ جب اُن کا جنازہ سیدہ نفیسہ کے گھر کے سامنے پہنچا تو اُنہوں نے گھر کے اندر سے امام شافعی کی نمازِ جنازہ پڑھی۔

وصالِ پُر مَلال :

 آپ  رحمۃُ اللہِ علیہا  یکم رجب کو بیمار ہوگئیں اور رمضان شریف کے مہینے تک بیمار رہیں ، رمضان میں جب مرض بڑھا تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ آج روزہ توڑ دیں ، آپ نے فرمایا : 30 سال سے میں یہ دُعا کر رہی تھی کہ جب موت آئے اس وقت میرا روزہ ہو اور اب یہ خواہش پوری ہونےوالی ہے تو میں روزہ کیوں توڑوں؟ یہ فرما کر سیدہ نفیسہ قراٰنِ کریم کی تلاوت میں مشغول ہوگئیں اور اسی حالت میں آپ کا انتقال ہوگیا۔

سیدہ نفیسہ کی علالت کے وقت اُن کے شوہر مدینہ منورہ میں تھے، جب اُنہیں خبر ملی تو وہ عازم مصر ہوئے لیکن جب وہ مصر پہنچے تو سیدہ نفیسہ کا انتقال ہوچکا تھا اور لوگ اُن کی تدفین کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسحاق مؤتمن کا ارادہ تھا کہ وہ ان کا جنازہ مدینہ لے جائیں لیکن مصر کے لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں مصر میں ہی دفن کیا جائے۔ وہ لوگ حاکم مصر کے پاس گئے اور اس سے چاہا کہ وہ اسحاق کو سیدہ کی میت مدینہ لے جانے سے روکیں۔ لوگوں کا حاکم کو واسطہ بنانا بھی کام نہیں آیا۔ لوگوں نے بہت سا مال جمع کیا اور ان کے پاس لے گے تا کہ اس کی وجہ سے اپنا ارادہ بدل لیں لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ لیکن آخر کار انہوں نے ایک خواب دیکھا جس کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ گویا انہوں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لوگوں سے رقم قبول نہ کرو لیکن اپنی بیوی کو یہیں دفن کر دو۔ سیدہ نفیسہ اپنے گھر میں دفن ہوئیں اور اس وقت ان کا مقبرہ وہیں ہے۔ ان کے شوہر نے چاہا کہ ان جنازہ مدینہ لے جائیں لیکن مصر کے لوگوں نے ان سے چاہا کہ وہ انہیں تبرک اور توسل کے لیے وہیں مصر میں دفن کر دیں۔لہذا آپ کی تدفین قدیم قاہرہ میں کی گئی۔

 آپ کا وصال شریف 208ھ میں رمضانُ المبارک کے پُر نور مہینے میں مصر میں ہوا۔اور ’مشہدنفیسہ‘ پر عقیدتمندوں کا ہجوم لگا رہتاہے۔۔ آپ کے مزار پُر انوار کے پاس دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ 




Previous Post Next Post