سمندر کے بادشاہ لہروں پر حکمرانی کرنے والے سلطان حضرت حاجی علی شاہ بخاری کا ذکر کر رہے ہیں۔
آج کی ویڈیو ہمارے عزیز سبسکرائبر آصف قریشی صاحب کی فرمائش پر پیش کی جا رہی ہے ، آپ سے درخواست ہے کہ ویڈیو پسند آنے کی صورت میں لائک اور شئیر کریں اور پسند نہ آنے کی صورت میں ڈس لائک کا بٹن پریس کریں اور ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں۔
ساحل سمندر پر واقع حضرت حاجی علی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کی درگاہ شہر ممبئی کی شہرت میں چار چاند لگاتی ہے۔ اور بیرونی ممالک میں بھارت کے تعارف کا سبب بھی بنتی ہے۔ یہ ۵۰۰ سال قدیم درگاہ ہے اور بحر عرب میں سمندر کے ساحل سے تھوڑا اندر واقع ہے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ ایک مدت دراز سے اس آستانے پر حاضری دیتے ہیں۔
حضرت حاجی علی علیہ الرحمہ کے حوالے سے اور ان کے حالات و کیفیات کے حوالے سے کتابیں بھی خاموش ہیں اور ان کے اوراق بھی ۔
حضرت حاجی علی سرزمین بخار ا کے باشندہ تھے اپنی والدہ کی اجازت اور اپنے بھائی کی رفاقت میں ہندوستان کا رخ کیا تاکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی کی جا سکے اور بے سہاروں کی مدد بھی ، آوارہ پیشانیوں کو ایک خدا کی جناب میں جھکایا جائے اور گمراہوں بے دینوں کو اللہ کی خشیت کا جذبۂ صادق دیا جائے، حاجی علی علیہ الرحمی کے بھائی تو واپس بخارا چلے گئے مگر حاجی علی بخاری علیہ الرحمہ نے یہیں رک کر دین کی خدمت کرنا گوارا کیا۔ اپنی ماں کے نام ایک خط بھی لکھ کر بھائی کے ہاتھوں بھیجا کہ میں بالکل اچھا ہوں مگر واپس نہیں آ رہا ہوں ۔ بلکہ یہیں رہ کر دین کی تبلیغ کرنا چاہتا ہوں۔ ماں مجھے معاف کر دینا، حضرت حاجی علی بخاری تادم آخر یہیں قیام فرما رہے۔ عبادت و ریاضت میں مشغول، حاجت مندوں کی حاجت روائی، گرتے ہوئے سہارا دیتے ، بے راہ راہوں کو راہ حق دکھاتے ہوئے، ہر وقت اپنے اعمال و اشغال میں مصروف رہتے ہوئے ، نہ کسی سے بحث، نہ زیادہ بات چیت ، اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے عشق مصطفیٰ ﷺ کے سایہ میں اپنی زندگی بسر کی۔
حاجی علی بخاری علیہ الرحمہ کی پاک دامنی، نیک سیرتی، عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی خدمت گاری کو آہستہ آہستہ شہرت ملتی گئی۔اور یوں آپ کا حلقۂ ارادت وسیع ہوتا گیا۔ آپ کے ماننے والے اور چاہنے والوں کی تعداد میںاضافہ ہوتا گیا۔جو آپ کی بارگاہ میں رہ دین سیکھتے ، اللہ کی معرفت حاصل کرتے۔
حضرت حاجی علی شاہ بخاری سلسلہ سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ سے مختلف کرامتوں کا ظہور ہوا اور عزیمتیں دیکھنے میں آئیں۔ وصال سے کچھ پہلے آپ نے اپنے مریدین کو یہ حکم دیا کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے کہیں دفن نہ کرنا۔ مریدین نے سوال کیا۔ حضور پھر کیا کریں گے؟۔ آپ نے فرمایاکہ مجھے غسل وکفن دے کر سمندر میں ڈال دینا جہاں میری نعش ٹھہر جائے اسی جگہ میری قبول ہوگی۔ وہیں دفن کر دینا، چنانچہ بعد وصال آپ کی وصیت و حکم کے مطابق ویسا ہی کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ سمندر کے بیچ میں آپ کا مزار بنایا گیا اور آج تک وہیں موجود ہے۔
بمبئی سمندر کے اندر واقع حاجی علی کا مزار ۱۴۳۱ میں بنایا گیا تھا ۔ اس کے میناروں کی انچائی پچاس ی فٹ ہے اب اس کی دوبارہ تعمیر میں پانچ کروڑ روپیہ خرچ ہونے کا امکان ہے۔
حضرت حاجی علی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کی یہ درگاہ شہر ممبئی کے سات عجائب میں شمار کی جاتی ہے، یہ درگاہ ممبئی شہر کی ایک بڑی پہچان ے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے۔ جس پر کافی دھند جمی ہوئی ہے ، اولیا و علما کے تذکرے اس تاریخ سے خالی ہیں۔
حاجی علی علیہ الرحمہ کی درگاہ میں زیارت کے لیے ہر روز تیس ہزار سے پچاس ہزار زائرین آتے ہیں، جمعرات اور جمعہ کو یہ تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے، عید بقر اور چند اور دنوں میں تو حد سے زیادہ لوگ حاضر ہوتے ہیں، ۱۶ ربیع الآخر کو عرس پاک منعقد ہوتا ہے جب کہ ہر ماہ کی ۱۷ ویں شب میں بعد نماز عشا محفل میلاد منقعد ہوتی ہے اور لنگر تقسیم کیا جاتا ہے ۔
اس درگاہ کی خصوصیت اور حضرت حاجی علی شاہ کی کرامت یہ ہے کہ ۱۹۴۹ میں جب ممبئی میں ایک طوفانی سیلاب آیا تھا اس میں درگاہ کو معمولی نقصان بھی نہیں پہنچا تھا اسی طرح ۲۶ جولائی ۲۰۰۵ کے سیلاب میں بھی یہ درگاہ بالکل محفوظ رہی تھی۔ ہر روز کی موجوں سے بھی مزار اور اس سے متصل عمارتوں اور راستوں کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔