فخر السادت جامع الکمالات عارف باللہ واصل الی اللہ تاج السالکین راس العارفین قطب دکن حضرت سیدشاہ ہاشم حسینی علوی شطاری قادری المعروف ہاشم پیر دستگیر بیجاپور
غلام ربانی فدا
فخر السادت جامع الکمالات عارف باللہ واصل الی اللہ تاج السالکین راس العارفین قطب دکن حضرت سیدشاہ ہاشم حسینی علوی شطاری قادری المعروف ہاشم پیر دستگیر بیجاپور کا ذکر خیر کر رہے ہیں۔حضرت ہاشم دین کے محافظ اسلام کے مبلغ، غریبوں کے مسیحا تھے۔ ہاشم پیر کی حیات وکرامات کا ذکر دس منٹ کی ویڈیو میں مشکل ہے۔ہم آپ سے درخواست کرتے ہیںمزید معلومات کے لیے دسکرپشن دی گئی لنک سے حضرت ہاشم پیر کی سوانح و سیرت پر مبنی کتب سیرت ہاشمی ، روضۃ الاولیا یاہمارے مضمون کی لنک کو کلک کر کے ضرور مطالعہ کریں۔
ولادت:
ہاشم پیر ولادت قصبہ برہان پور علاقہ گجرات میں ۹۸۴ ھ کوہوئی۔ روحانی و مذہبی تعلق کے ساتھ ساتھ آپ جسمانی جہت سے بھی پیارے نبی ﷺ سے تعلق حاصل ہے۔
سلسلۂ نسب:
ہاشم پیر کے والد گرامی سید السادات مصدر کرامات سید شاہ برہان الدین حسینی علوی الاحمدآبادی اپنے وقت کے جید عالم دین باکمال صوفی بزرگ تھے۔ آپ کے لنگر خانے میں روزانہ تیس من صبح اور تیس من شام میں گوشت بنتا تھا ۔اس لنگر خانے سےہزاروں امیر وغریب ، فقرا ومساکین پیٹ بھر کھانا کھاتے تھے۔
حضرت ہاشم کا پیر کا سلسلۂ نسب حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام سے اس طرح ملتا ہے۔
سید شاہ ہاشم حسینی بن سید برہان الدین حسینی بن سید نصر اللہ حسینی بن سید علاؤالدین حسینی بن سیدعطا محمد حسینی بن سید معین الدین حسینی بن سید بہاؤالدین حسینی بن سید عمادالدین حسینی بن سید ظہورالدین حسینی بن سید شمس الدین حسینی بن سید بدرالدین حسینی بن سید علیم الدین حسینی بن سید بہاؤ الدین حسینی بن جمال الدین حسینی بن احمد حسینی بن سید مجتبیٰ حسینی بن سید منتخب الدین حسینی بن سیدمرتضیٰ حسینی بن سید عریض حسینی بن سید احمدبن سید امام موسیٰ حسینی بن سید امام نقی حسینی بن سیدامام علی موسیٰ رضا حسینی بن سید امام جعفر صادق حسینی بن امام محمد باقر حسینی بن امام زین العابدین حسینی ابن امام حسینی رضی اللہ عنہم
(سیرت ہاشمی صفحہ۱۲)
والدہ کا وصال اور واقعۂ رضاعت:
ہاشم پیر کی ولادت باسعادت کے تین گھنٹے بعد ہاشم پیرکی والدہ کا وصال ہو گیا ۔ بہت ساری عورتوں نے دودھ پلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس مادر زاد ولی کامل نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا تو اہل خاندان کو فکر دامنگیر ہوگئی۔
بالآخر ایک نابالغہ نے باوضو دودھ پلایا تو آپ نے نوش فرما لیا۔ دودھ پینے کی عمر میں اسی عورت سے دودھ پیتے رہے۔ جب کبھی وہ عورت بھول کر بے وضو دودھ پلاتی تو آپ منہ پھیر لیتے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت سیدنا ہاشم پیر دستگیر نے ہوش سنبھالا تو سب سے پہلے آپ کے والد حضرت برہان الدین حسینی نے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم دی ۔ اس کے بعد فقہ وتفسیر و حدیث اور کتب متداولہ دیگر علوم و فنون کی تعلیم اپنے وقت کے جید علما و فضلا سے حاصل کی۔
آپ کی پرورش صوفیانہ ماحول میں ہوئی ۔ جہاں کسر نفسی، تواضع و انکساری، توکل علی اللہ اور اسرار و رموز خفی وجلی کی خصوصی تعلیم دی گئی ۔
آپ کی شادی:
ہاشم پیر کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ ہزارہا لوگوں نے شادی میں شرکت کی۔
والد کی وفات:
جب آپ کے والد کا وقت وصال آیا تو آپ نے صاحبزادے ہاشم پیر کو اپنے قریب بلایا اور وصیت فرمائی کہ :
جو کچھ مجھ فقیر کو اپنے بزرگوں سے اسرار و رموز عطا ہوئے میں نے سب تمہیں بتا دیےالبتہ کچھ راز اب بھی باقی ہیں۔ اس کا انکشاف تمہیں میرے بھائی سید وجیہ الدین شاہ گجراتی کے صاحبزادے سید شاہ عبد اللہ حسینی سے ہوگا۔ ان کےپاس پہنچنے میں دیر نہ کرو۔
یہ وصیت فرماکر آپ ملک راہی عدم ہوئے۔
حضرت ہاشم اپنے والدگرامی کے انتقال کے بعد ان کی ساری دولت و سرمایہ غربا و فقرا میں تقسیم فرما دیا۔ اللہ نے کثیر نعمتوںاور دولتوں سے انہیں نوازا تھاان کی دولت و ثروت کا عالم یہ تھا کہ حضرت برہان الدین کے وصال کے بعد خانِ خاناں حضرت ہاشم پیر سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ کے والد صاحب نے بہت سے لوگوں کو قرض حسنہ دے رکھا تھا جو تقریباً ۳ لاکھ روپیہ سے زائد ہوگا۔ آپ قرض وصول کر لیں ۔ حضرت ہاشم پیر نے فرمایا کہ میں نے جب اپنے پاس موجودساری دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ہے تو کس طرح میں ان سے قرض وصول کروں؟۔ میرا ماننا ہے کہ اپنے پاس مال ومنال جمع کرنا فقیر کی شان نہیں۔
ہاشم پیر احمدآباد میں
حسب وصیت آپ برہان پور سے احمدآباد تشریف لائے اور حضرت سید شاہ عبد اللہ حسینی کی بارگاہ میں ایک مدت تک کشف و مجاہدہ میں لگے رہے۔ اور حضرت سید شاہ عبد اللہ حسینی نے آپ کی روحانی تربیت فرمایا۔
بعد حصولِ ولایت آپنےاحمدآباد سے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی بنا پر بیجاپور کی جانب رخت سفر باندھا اس وقت دکن کا دارالخلافہ بیجاپور تھا اس وقت خاندانِ عادل شاہی کا ہر دل عزیز فرماں روا ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو تھا۔
اس زمانہ میں ڈاکوؤں کا بہت دبدبہ تھا ڈاکورات میں چوریاں کرتے اور دن میںعلما وصلحا کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کودھوکہ دیا کرتے تھے۔ اس اثنا میں جب حضرت ہاشم پیر اور ان کے رفقا کی جماعت بیجاپور کے مضافات میں پہنچی تو سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر کے تفیش کے لیے قید کر دیا ۔ اسی رات جب ابراہیم علی عادلشاہ سو گیا تو اس کی قسمت جاگ اٹھی خواب میں نبی رحمت ﷺ کا دیدار نصیب ہوا اور سرکارنے حکم فرمایا۔ تمہاری قید میں ہمارا فرزند سیدمحمد ہاشم حسینی ہے اس کو فوری رہا کرو۔ وہ خواب سے بیدار ہوتےہی حکم دیا کہ ہاشم حسینی کو باعزت رہا کیا جائے۔ جب اس کے حکم کی اطلاع ہاشم پیر کو ملی تو ہاشم پیر نے اپنے رفقا سے فرمایا تم میں سےکوئی اپنا ہاشم بتا کر رہائی اختیار کرلو۔ حسب حکم ایک درویش رہا ہوا۔ دوسری رات پھر ابراہیم عادلشاہ کووہی خواب آیا اس نے پھر حکم دیا اس بار بھی وہی ہوا ۔ تیسری رات جب سویا تو خواب میں نبی رحمت ﷺنے فرمایا میرا ہاشم اکیلا قید سے رہا نہ ہوگا جب تک کہ اس کے بے گناہ رفقا رہا نہیں ہوجاتے۔
بالآخر عادل شاہ نےحضرت ہاشم پیر اور ان کے رفقا کو رہا کر کے بڑی عزت و تکریم کے ساتھ شہر میں لانے کا حکم صادر فرمایا مرتے دم تک آپ کے عقیدت مندوں شامل رہا ۔ابراہیم عادلشاہ ثانی کے انتقال کے بعد سلطان محمد عادل تخت پر بیٹھا تو آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر آپ سے فیوض و برکات حاصل کیے۔
سفر حج بیت اللہ
حضرت ہاشم بیجاپور میںبندگان خداکی اصلاح و تربیت کے بعد حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ آپ نے حضور نبی کریم ﷺ کے حکم پر دو سال تک مکہ معظمہ میں قیام فرماکر سوئے طیبہ روانہ ہوئے ۔ بارگاہ رسالت مآب سے حضرت ہاشم پیرکو ایک شمشیر اور ایک کتاب حزب البحر شریف حرم کی توسط سےعطاہوئی۔
اسی سفر میں حضرت ہاشم پیرکوظاہری آنکھوں سے عالم بیداری میںنبی کریم ﷺ کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا۔
ایک روز حضرت ہاشم پیر کعبۃ اللہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعراب نے چند کھجور اور کچھ شہد پیش کی ، اس کو میں نے کھا لیا جو بے حد لذیذ و ذائقے دار تھے۔
کشف وکرامات
مست ہاتھی کا راستہ دینا۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت ہاشم پیر بیل گاڑی پر سوار ہو کر تشریف لے جا رہے تھے۔ جب آپ کی سواری آثار شریف کے قریب ایک تنگ گلی سے گزرہی تھی اسی وقت بادشاہ وقت کی مست ہاتھی مستی کے عالم میں اپنے پاؤں کی زنجیر توڑ کر دوڑتے ہوئے آثار شریف اسی گلی میں آ پہنچی جہاں حضرت ہاشم پیر کی سواری گزر رہی تھی۔ وہ ہاتھی جب آپ کی سواری کے قریب آئی تو بیل گاڑی ہانکنے والا سخت پریشان ہو گیا ۔ خوف و ہراس کے ملے جلےجذبات کے ساتھ حضرت ہاشم پیر کا چہرہ دیکھنے لگا۔ حضرت ہاشم پیر اسی وقت لا تخف ولا تحزن اللہ معنا پڑھا۔
آپ کی زبان سے یہ کلمات سن کر بیل بان کو ہمت آئی اور اس نے بیل گاڑی آگے بڑھائی جیسے جیسے بیل گاڑی آگے بڑھتی ویسے ویسے ہاتھی راستہ دینے لگا۔ اور ہاتھی ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔یوں حضرت ہاشم پیر کی سواری گزر گئی۔
سکہ
حضرت ہاشم نہایت خدا ترس، نیک و صالح ، تقویٰ شعار، عاشق رسول ، غریبوں اور فقیروں سے محبت کرنے والی شخصیت تھی۔ آپ کا روز کا معمول تھا جو کچھ آپ کے پاس ہوتا وہ رات میں سونے سے پہلے بندگان خدا میں تقسیم فرما دیتے ۔ ایک رات میں آپ سو گئے صبح جب جاگے تو بستر میں ایک سکہ پڑا ہوا ملا ۔ آپ نے خادم کو بلا کر دریافت فرمایا کہ یہ سکہ کیسے باقی رہ گیا اور آپ نے حکم دیا کہ اس سکے کو گرم کر کے میرے بدن پر لگا دو تاکہ مجھ سے کبھی دوبارہ ایسی غفلت نہ ہونی پائے۔ خادم نے شدید گرم کر کے آپ کے بدن پر لگا دیا ۔ اور اس سکہ کا نشان آپ کے جسم پر آ گیا ۔اللہ نے ہاشم پیر کی اس ادا اس طرح باقی رکھا کہ کہا جاتا ہے حضرت ہاشم پیر کے خاندان میں پیدا ہونے والے ہر شہزادے اور شہزادی کے بدن پر آج بھی یہ ہاشمی نشان آپ کی اولاد ہونے کی علامت کے طور پر مہر تصدیق ثبت کر تے ہوئے آپ کی زندہ کرامت ظا ہر کر تاہے۔
دس سالہ زندگی
حضرت ہاشم پیر شہر بیجاپور کے محلہ بادشاہ پور کی جامع مسجد میں رونق افروز تھے ۔ بادشاہ کا خادم ہاشم پیر کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے درخواست کیا کہ سلطان محمد عادل شاہ سخت بیمار ہیں ان کے لیےدعا کی التجا کی۔ ہاشم پیر نے ایک رومال پر دعا پڑھ کر دم کئے اور حکم دیا کہ جہاں درد ہو اس مقام پر باندھ دو۔ حضرت کے حکم پر عمل کیا گیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ بادشاہِ وقت خود حضرت ہاشم پیر کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس وقت ہاشم پیر وظائف میں مشغول تھے وظائف سے فراغت کے بعد سلطان محمد عادل نے بارگاہ ہاشم پیر میں عرض کیا میرے باپ دادا اس دنیا میں اپنے بعد ہزاروں یادگاریں دنیا میں چھوڑ چلے گئے جن کی عدیم النظیری اور لاثانی محلات ہمہ وقت ان کی شان و عظمت کی شہادت دے رہے ہیں بس میرے دل میں بھی یہ تمنا ہے کہ میں بھی ایک ایسی عمارت بناؤں جو اپنی نظیر آپ ہواس لیے ایک عمارت بولی گنبد( گول گنبد )بنا رہاہوں جو نصف تعمیر ہوچکی ہے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی بیماری سے یہ خیال پیدا ہو رہا ہےکہ میں اپنی زندگی میں یہ کام مکمل نہ کر سکوں گا۔ ہر حکیم ہر معالج و طبیب سے علاج کروایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ بڑی حسرت و یاس کے ساتھ آپ کی بارگاہ میں حاضرہوں
حضرت ہاشم پیر نے اپنی آنکھیں بند کی لوح محفوظ کا ملاحظہ فرمایا۔ کسی نے صحیح کہا ہے
الٹے ہی چال چلتے ہیں دیوانگانِ عشق
آنکھیں بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
آنکھیں کھول کر ہاشم پیر نے فرمایا ۔سلطان تیری عمر کے اب صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ محمد عادل شاہ سخت پریشان ہو گیا اور حضرت ہاشم پیر سے منت سماجت کرنے لگا۔
حضرت ہاشم پیر نے فرمایا میری زندگی کے ابھی دس سال باقی ہیں ۔ میں اپنی زندگی تجھے دے دیتا ہوں اور تیری زندگی کے تین دن میں لے لیتا ہوں۔ ہاشم پیر کے زبان سے یہ جملہ نکلنا ہی تھا کہ آپ سخت بیمار ہو گئے اور سلطان محمد عادل صحتیاب ہو گیا۔سلطان یہ دیکھ گھبرا گیا اور اس نے حکیموں سے ہاشم پیر علاج کروانا چاہا تو آپ نے منع فرمادیا۔
اسی بیماری میں مبتلا ہو کر رمضان شریف کے ساتویں روز 1056 ھجری کو یہ آفتاب رشد و ہدایت ایک جہان کومنور کرنے کے بعد اللہ کی جانب چلا گیا۔اپنے پیچھے ہزاروں مریدین و اہل خانہ کو سوگوار چھوڑ گیا۔
اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔